اقتدار کی تبدیلی کے عوامل

ہر دور میں زماں و مکان کی قیود سے نکل کر جو گروہ،حکومتیں یا اہل اقتدار منظر عام پر آئے ہیں ان سب کی وجہ ایک ہے۔وہ یہ کہ مجموعی طور پر مخصوص زمانہ میں ان سے بہتر کوئی اور متبادل موجود نہیں تھا جو صلاحیتوں کے لحاظ سے حکومت و اقتدار کا دعویٰ کر سکے۔صلاحیت کی ضد ’’عدمِ صلاحیت‘‘ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’عدم صلاحیت‘‘ سے کیامراد ہے؟ ’’عدم صلاحیت‘‘یا صلاحیتوں کی موجودگی کا تقابل کو پانچ نکات میں سمجھاجاسکتاہے۔i)واضح مقصد اور نصب العین۔ ii) مقصد و نصب العین سے والہانہ لگائو۔iii) مقصد و نصب العین کے حصول میں ثابت قدمی کا اظہار۔iv) انفرادی و اجتماعی شخصیت کا ارتقاء۔v) بحیثیت گروہ ’’بنیان مرصوص‘‘کی کیفیت کا حصول۔یہ پانچ نکات ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایسا فرد یا گروہ جو بیک وقت چلتا پھرتا نظریہ بن جائے وہی ہر زمانے اور مقام پر کامیابی کا حقدار ٹھہر سکتا ہے۔کوئی گروہ کامیابی سے ہمکنار ہو اوراُس کے افراد اس غلط فہمی کا شکار ہو جائیں کہ کامیابی جو میسر آئی ہے وہ صرف ان کی ذاتی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اب وہ کسی اخلاقی وقانونی حدود کے پابند نہیں تو یہ نکتہ ٔ زوال ہے۔ایک بار پھر اسے ان مشقت بھری راہوں سے گزرنا ہوگاجن پر گزر کر وہ پہلے کامیاب ہوئے تھے۔ہر با اقتدار فرد اور گروہ کے سامنے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ حکومت یا اقتدار جو ان کو ملا ہے وہ محض کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مالک المک اور رب العالمین وقتاً فوقتاً یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس وقت کون افراد اور گروہ دنیا کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ اقتدار ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اپنے ہم عصر حریفوں میں صلاحیتوںمیں نمایاں ہوتے ہیں۔ خدا کے قانون نے انسانوں کے من مانے مفروضے کو توڑ دیا جو انہوں نے بغیر کسی دلیل کے بنارکھا تھا۔یعنی ’’اہل اقتدار خواہ ملک کو بنائیں یا بگاڑیں، اقتدار ان ہی کو ملے گا۔‘‘

دیکھنا یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان موجودہ حالات میں ہماری اور آپ کی صورتحال کیا ہے؟کیاہمارے سامنے زندگی کا کوئی واضح مقصد و نصب العین ہے؟ اور یہ بھی کہ مقصد و نصب العین کے لیے ہم کیا کچھ کر رہے ہیں؟مسلمان ہند پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اکثریت نہ صرف اخلاقی پستیوں کا شکار ہے اور قول و عمل کے تضاد میں بری طرح الجھی ہوئی ہے۔وہ نہ اپنے دین کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اُن دیگر اقوام کے دین کا جن کے ساتھ وہ اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔کبھی کبھی انہیں یہ احساس ہو اٹھتا ہے کہ اہل اقتدار ان کے موافق نہیں،تو وہ توقع کرتے ہیں کہ اقتدار دراصل ان ہی کو ملنا چاہیے چاہے عمل کے میدان میں وہ کوتاہ ہوں۔خواہشات کے بل پر زندگی گزارنے کی روش عبرتناک زندگی سے دوچار کرتی ہے۔ہر بڑے حادثہ چند دنوں کے ماتم کے بعد پھر یہ امت اپنی سابقہ روش پر گامزن ہو جاتی ہے۔احتساب سے غافل دوسروں پر الزام لگا تے ہوئے ’’ترقی کی راہ پر‘‘آگے بڑھنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اِس پس منظر میں یہ بات ایک بار پھر ذہنوں میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ زمین کا مالک حقیقی اللہ رب العزت ہے سوال یہ ہے کہ وہ اس زمین کا انتظام اور انصرام کس کو ،کب اور کیوں بخشتا ہے؟مالک ہونے کی حیثیت سے اس کا منشایہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے۔اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔اس کے دیے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتاکہ اس کی دنیا بگاڑی جائے،اجاڑی جائے،اس کو بد نظمی سے ، خراب کر ڈالا جائے۔انسانوں میں سے کچھ لوگ دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، جن کے اندر بنانے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انہیں کو مالکِ حقیقی یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک ان کا بنائو ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور قصوروں کے باوجود انتظام انہیں کے سپرد رہتا ہے۔مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انہیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدوار کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور انسان کی عقل بھی گواہی دے گی، کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

جب تن آسانی اور عیش پرستی میں اتنا کھوجایا جائے کہ بنائو کی صلاحتیں گھٹیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے جائیں۔جب اونچ نیچ،نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں خود سوسائٹی کو پھاڑ کر رکھ دیں۔جب ذمہ داریاں بھول کر ذاتی فائدوں اور وہ بھی زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھی جانے لگے۔جب خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں سے ترقی اور اصلاح کا کام لینے کے بجائے قوتوں،صلاحیتوں اور ذرائع کو ضائع کیا جائے۔تو اللہ کے عذاب کا انتظار ہی کیا جانا چاہیے۔اللہ کا عذاب یہ بھی ہے کہ وہ کسی ظالم قوم کومسلط کردے۔تاریخ شاہد ہے کہ یہی کچھ تاتاریوںکے حملے کے وقت ہوا پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ وہی تاتاری جو ایک زمانے میں مخصوص قوم کو ہرممکن طریقہ سے ختم کرنے کے درپے تھے،وہی تاتاری نہ صرف اِس ملت کا حصہ بن گئے بلکہ اس کا علَم بلند کرنے والے بھی بنے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’کہو کہ خدایا۔ملک کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اورتو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔‘‘ (آل عمران:۲۶)

یہ بات قابل اطمینان ہے کہ آج ملت اسلامیہ ہند مکمل طور پر بداخلاقی،بدکرداری اوربد اعمالی میں مبتلا نہیں ہے۔اس ملت میں حددرجہ خرابیوں کے باوجودایک بڑا طبقہ آج بھی ایسا ضرور موجود ہے جو عام بداخلاقیوں سے پاک ہے۔ ملت کا یہی سرمایہ ٔ حیات ہے جسے اصلاح کی ابتدا کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے،ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے اور انہیں با مقصد زندگی سے روشناس کرایاجائے۔ ان تمام مراحل سے گزرنے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی زندگیاں اور شب و روز کے اعمال اِس مقامِ بلند کے شایانِ شان ہوں۔ لازم ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگیوں کا احتساب کریں ساتھ ہی اپنے اہل و عیال کو اُس راہِ حق پر گامزن کریں جس کی توقع وہ دوسروں سے رکھتے ہیں۔اگر ایسا کیا گیا تو پھر وہ منزل دور نہیں جب نہ صرف وہ دنیا میں ذلت و رسوائی سے بچ جائیں گے بلکہ وہ چیز بھی انہیں حاصل ہو جائے گی جس کی وہ تمنّا رکھتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau