مولانا وکیل احمد اصلاحیؒ یکم جنوری ۰۳۹۱کو اپنے آبائی وطن ’’پرسپور‘‘ ضلع سدھارتھ نگر یوپی میں پیدا ہوئے اور ۳۱/دسمبر۲۰۱۰ کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ مولانا وکیل احمد جماعت اسلامی کے ان ارکان میں تھے جن کو بانی و امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے ہاتھوں رکن بننے کاشرف حاصل ہوا۔ مولانا نے پوسٹ کارڈ کے ذریعے رکنیت منظور کرنے کی اطلاع دی تھی۔
ہر اسلامی اجتماعیت اور تحریک کے اولین وابستگان کے اندر جو اوصاف اورخوبیاں موجود ہوتی ہیں مولانا کے یہاں وہ بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ انھوںنے کسی شخصیت سے متاثر ہوکر نہیں، بل کہ پیغام اور مشن سے متاثر ہوکر تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ تحریکی کارواں میں دوسرے افراد کو شامل کرنے کے سلسلے میں اس حدیث پر کلی طورپر عمل پیراتھے جس میں کہاگیاہے : ’’جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو۔‘‘ مرحوم کی دعوتی تڑپ اور اضطراب کاحال یہ تھا کہ ہر چھوٹے بڑے پروگرام اور اجتماع میں آخری عمر تک پابندی کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔ انھوںنے دور دراز کا سفر سائیکل کے ذریعے بارہا طے کیا۔ اسی طرح قرب وجوار کی بستیوں میں درس وتذکیر اور لٹریچر کی ترسیل ان کا خاص مشغلہ تھا۔
مولانا مرحوم بہ حیثیت تحریکی فرد اپنے حصے کاکام بحسن و خوبی انجام دیتے تھے اورحسب موقع جماعتی وتنظیمی کم زوریوں کا بھی ذکر کرتے اور متعلق ذمے دار کو خطوط لکھ کر متوجہ کرتے تھے۔ ان کا یہ مشغلہ بھی نہیںتھا کہ کم زوریوں کو بیان کریں اورانھی کونہ کرنے کا بہانہ بنائیں۔ وہ ہمیشہ اپنے عمل سے یہ پیغام دیتے تھے کہ ہر فرد کو اپنے دائرے میںرہ کر اپنے حصّے کا کام کرتے رہنا چاہیے۔ ہر کارکن کی اولین توجہ اس کی اپنی ذاتپر ہونی چاہیے اور کسی بھی قسم کی کم زوری کاتذکرہ صرف متعلق فرد یا ذمے دار سے کرنا چاہیے۔
مولانا وکیل احمدمرحوم کی زندگی سراپا تحریک تھی وہ تحریک کے بے لوث، سچے اور وفادار خادم تھے۔ وہ تحریک کے تعارف کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ۱۹۹۶کی بات ہے ، جماعت اسلامی حلقہ یوپی ہفتہ تعارف قرآن منارہی تھی۔ میں نے انھیں ڈومریا گنج میں ایک بڑی دفتی پر تعارف قرآن کا پوسٹر چسپاں کرکے سائیکل کے اگلے حصے کی جانب لٹکاکر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا۔ پوچھنے پر مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’جب باطل تحریکوں اور جماعتوں کے افراد اپنے مشن، مقصد اورنظریے سے متعلق پوسٹر و اسٹیکر موٹر سائیکل اور جیپ وغیرہ پرلگاکر چلتے ہیں تو میں حق کاعلم بردار تحریک کا پوسٹر تعارف کی غرض سے سائیکل پر کیوں نہ لگائوں۔ اس چشم دید واقعے سے میں بے حد متاثر ہوا۔ اس سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ شعوری طورپر جس نصب العین کو ہم نے اپنایا ہے اس کے تعارف کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور مواقع سے فائدہ اٹھاناچاہیے۔
مولانا سماج کے ہر طبقے سے روابط رکھتے تھے۔ مثلاً وکلا، ڈاکٹر، علمائ، طلبا، تعلیم یافتہ، غیرتعلیم یافتہ، مسلم، غیرمسلم۔ ایک سرکاری اسپتال کے انچارج ڈاکٹرتو مولانا کو ’’زندہ ولی‘‘ کہتے تھے۔ ان کے کام سے بے حد متاثر تھے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی مولانا کی خیریت ضرورمعلوم کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مولاناچوکونیاں کے امیر مقامی تھے،پابندی کے ساتھ بھارت بھاری مندر کے مہنت کولٹریچر پیش کرتے تھے اور دعوتی پروگرام کے موقعے پر دعوت نامے بھجواتے تھے۔
٭مولانا مرحوم مطالعے کے بے حد شوقین تھے۔ پابندی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے، تفسیر پڑھتے اور رسائل و جرائد کامطالعہ فرماتے تھے۔ فرماتے تھے: ’’مطالعے سے ذہن و فکر میں گیرائی پیدا ہوتی ہے، عزم اور ارادے کو قوت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ درازیٔ عمر اور عوارض جسمانی کے باوجود انھیںگھنٹوں مطالعے کرتے ہوئے انہیں دیکھاگیا۔
٭ مولانا وکیل احمد مرحوم تحریک کے لیے جہاں اپنی صلاحیتوں اور اوقات کا استعمال کرتے تھے، وہیں انفاق فی سبیل اللہ کا پہلو بھی بہت بڑا ابھرا ہوا تھا۔ معاشی مشکلات کے باوجود پابندی کے ساتھ اعانت جمع کرتے تھے ۔ عموماً کہتے تھے: ’’تحریکی کاز کو آگے بڑھانے میں سرمائے کا مقام وہی ہے جو جسم انسانی میں ریڑھ کی ہڈی کاہے۔‘‘ چنانچہ وہ اجتماعی انفاق کے علاوہ انفرادی طورپر غربا و مساکین اور ضرورت مندوں پرہرماہ حسب استطاعت رقم خرچ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ مولانا کی لغزشوں کو معاف فرمائے، انھیں جنت نصیب فرمائے اور ہمیں انھی کی طرح تحریک کاسچا، پکا اور وفادار خادم بنائے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2011