ہندستان جیسے ملک میں تحریک اسلامی کا سب سے پہلااور اہم کام مسلمان اذہان کی تشکیلِ جدید ہے۔امت کا سب سے اہم مسئلہ صحیح اسلامی فکر کا فقدان ہے۔لہذ ا ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اس میدان میں کہاں تک کامیاب ہو پائے ہیں۔ظاہر بات ہے اس کے جواب میں ارکانِ تحریک کی تعداد گنا دینا کافی نہیں ہے۔بل کہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ عام مسلمانوں میں ان کاریشوکیا ہے یاسماج میں وہ کتنے بااثر ہیںاور خود ان کی فکری ،علمی اورعملی صورتِ حال کیا ہے۔
یہ بات مسرت بخشہے کہ تحریک کی صورت ِحال عام لوگوں سے بہت مختلف ہے۔عامۃالمسلمین کے اذہان میں تبدیلی تو ضرور ہوئی ہے ،لیکن ۰۷ سال کے سفر کے بعد اس قسم کی تبدیلی بالکل بھی خاص نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ہم صرف دیہاڑی کے مزدور نہیں، بل کہ دیہاڑی کے ذمہ دار مزدور ہیں۔ہمیںیہ بھی سوچنا چاہیے کہ عمارت کی تعمیر ہم کہاں تک مساعد ہو پا رہے ہیں۔کہیں ہم اینٹوں اور پھاوڑوں سے کھیل کر مزدوری کے امیدوار تو نہیں ہیں۔ اگرہم محنتیں کریں اور کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو کیا فائدہ۔
تبلیغی جماعت کی بنیاد جناب مولانا الیاس صاحب قدس سرہ نے میواتیوں کی اصلاح کے لیے ڈالی تھی۔آج تقریبا ۸۰ سال کے بعد یہ ہندستان ہی نہیں ،برصغیر کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔الاخوان المسلمون نے تقریبا اتنے ہی عرصے میں انقلاب کی زمین ہموار کر لی۔ان کے پیچھے چند عناصر تھے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اخوان کے مقابلے میں ہمارے اوپر پابندیاں بھی کم تھیں۔ہم نے صرف دو بارایمرجنسی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ہم ایک غیر مسلم مملکت میں رہتے ہیں ہمارے پاس مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نہیں ہے۔اور ہمارے پاس بفضلہ تعالیٰ آزادیاں بھی زیادہ ہیں۔
تبلیغی جماعت کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ علماے اسلام کی تائیدرہی ہے۔جب کہ اول روزسے ہی علما کی ایک بڑی تعداد نے ہماری مخالفت کی ہے۔خود ہم نے بھی علما سے بے نیاز ہوکر چلنے کی کوشش کی ہے۔یہ دعویٰ کہ اب مسلمانوں کی قیادت علمائ نہیں غیر علمائ کریں گے، ایک زعم محض سے زیادہ کچھ نہیں۔سماج کی مذہبی قیادت ﴿سیکولرزم کے دور رس نتائج کی بنیاد پر﴾آج بھی علمائ کے ہی ہاتھوں میں ہے۔علماے اسلام سے بے نیاز ہوکر اسلام کے لیے کام کرنے کا ہمارا تجربہ ستر سالہ ہے۔ان کے مخالف ہونے کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔جماعت کی تصویر مسخ کرنے کا جو کارنامہ انھوں نے دیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
جامعۃ الفلاح کا قیام صحیح فکر کے علمائ تیار کرنے کے لیے کیا گیا تھااور دور اولیٰ میں کسی قدر کامیاب بھی رہا،مگر بعد میں وہاں کچھ داخلی مسائل نے جنم لے لیا جس کی وجہ سے وہاں علمائ کی وہ کھیپ تیار نہ ہو سکی جو مطلوب تھی۔اب وہاں سے جو علمائ شدت پسند اور معتدل گروہ سے دامن بچاکر فارغ ہوتے ہیں وہ اپنے اندر اسلام کے لیے کام کرنے کا داعیہ نہیں رکھتے۔شدت پسند طلبہ عام طور جماعت کی مخالفت کا کام انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہندستان جیسے ملک میں تحریک اسلامی کے لیے ایک،دویا چار مدارس کافی بھی نہیں ہیں۔ہندستان میں علمائ کی اہمیت کے پیش نظر فلاح جیسے کئی چھوٹے بڑے مدارس کی ضرورت تھی۔
ہمارے یہاں ائمہ و خطباے مساجد حفاظ ہوا کرتے ہیں۔ اور مساجد ذہن سازی کا ایک اہم مرکز ہیں۔ مولاناالیاس صاحب رحمہ اللہ کی تحریک نے مساجد کو مرکز بنایا ۔اس کے عوامی جماعت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔حفاظ کی اس اہمیت کے پیشِ نظر ہمیں حفاظ کو اپنے کام کے لیے استعمال کرنے کا نظم کرنا چاہیے تھا۔جگہ جگہ علاقائی معاہدِحفظِ قرآن کا قیام کرنا چاہیے تھااور جب ان مدارس سے نکل کر حفاظ کرام اس مقصد کے تحت مساجد میں امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیتے تو شاید آج سماں اور ہوتا ۔
ہندستان کے دینی مدارس کی صورت حا ل سے ہم واقف ہیں۔بالخصوص طلبہ مدارس ِ اسلامیہ کے کردار و افکار کی بیچارگی ہمارے سامنے ہے۔ ساتھ ہی سماج میں ان کے رول سے ﴿مذہبی نقطہئ نظرسے﴾بھی ہم ناآشنا نہیں ہیں۔گرچہ پچھلے چند سالوں سے ان کے سماجی امامت کے زور میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔عامۃالمسلمین پر سے ان کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔اس کی وجہ ان کا کردار ہے۔سماج میں ان کی اس اہمیت کو ہم نے اب تک نظرانداز کیا ہے۔ اگرہمیں علمائ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی تو شاید اب تک ہماری فکر عوام میں مقبول ہوچکی ہوتی اورفکری تشکیل جدید کا کام بہت آسان ہوجاتا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ موجودہ علمائے ہند اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اس عظیم ذمے داری کو اداکرسکیںاور نہ ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ ان علمائ کے اذہان میں کوئی انقلاب برپاکرسکیں۔ لہٰذا راستا یہی تھا کہ صحیح فکر کے علما تیار کر کے سماج میں پھیلا دیے جاتے،اور سماج کی امامت ان قابل لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی جاتی۔ لیکن ہم نے اس میدان کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق تھا۔علماے دین کونظرانداز کرکے دین کی خدمت کا اچھاخاصا تجربہ ہم کو ہوچکا ہے۔اس پرمزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔
غیردینی اسکولس یا عصری مدارس کے میدان میں بھی ہمارے اقدامات کماحقہ نہیں رہے۔ہم نے جن مدارس کا قیام کیا اس سے خاطرخواہ فائدہ حاصل نہ کرسکے۔ان اسکولس کی حقیقی صورت حال سے مقامی لوگ اور ذمے داران واقف ہیں۔امت کا بڑا طبقہدوسرے عصری اسکولوں سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔سماج کی ﴿غیر دینی یا دنیوی﴾باگ ڈوران کے ہی ہاتھوں میں ہواکرتی ہے۔یہ محاذ بھی نہایت اہم تھا۔لیکن یہ بھی ہماری بے توجہی کی نذرہوگیا۔ہمیں ایک خاص تعلیمی نظام کی ضرورت تھی۔ ایک تعلیمی نظام کاقیام ہمارے پروگرام میں شامل تھا،لیکن اب تک ہم ایک منفرد تعلیمی ادارے کاقیام عمل میں نہ لاسکے۔یہ بھی ہماری سست رفتاری کی غمازی کرتا ہے۔یہ کام عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے کرنے کا کام تھا۔اس طرف کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔ Macaulay جب ہندستان آیا تواس نے کہا تھا کہ ۰۴ سال کے اندر اندر ہندستان کی حالت ایسی ہوجائے گی یہ ہندستانی لوگ ہندوستانی دکھیں گے مگر ان کے عقول واذہان مغربی ہوںگے۔تعلیمی نظام کی اس اہمیت کو اس نے سترہویں صدی کے اوائل میں پہچان لیا تھا۔تعلیمی نظام کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس نے ایک تعلیمی نظام ترتیب دیا جو اپنے مقاصد میں کامیاب بھی رہا۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کو اس طرف توجہ کا موقع نہیں حاصل ہوپایا۔ ان کے سامنے اسلامی فکرکی بازیافت جیسا اہم مسئلہ تھا۔البتہ ان کے ارشادات واشارات موجود ہیں۔
موجودہ دور میں اعلام ﴿میڈیا﴾ کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔آج کا یہ globalized world آئی ٹی﴿انفارمیشن ٹکنالوجی﴾ اورٹی ٹی﴿ٹرانسپورٹ ٹکنالوجی﴾کی ترقیوںکاہی مرہونِ منت ہے۔اعلام کی اہمیت اور اس کے ہمہ گیر اثرات سے کون انکار کرسکتا ہے۔اس فیلڈ میں ہم نے کیا کیا؟ ۰۷ سال کے بعد بھی ہمارے پاس کوئی کل ہند اخبارِ یومیہ نہیں ہے۔ہمارے پاس کوئی news periodical نہیں ہے۔دعوت اور زندگی نوکی سرکولیشن کیا ہے اوران کا معیار عام اذہان کے کتنا مطابق ہے یہ ہم کو معلوم ہے۔ہم نے اس اہم میدان پر بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔اس فیلڈ میں اقدامات کی اپنی محدودیتیں ہیں،لیکن پھر بھی راستے بند نہیں ہیں۔ ہمارا ٹیلی ویژن پروجیکٹ ابھی تک تیاری کے مرحلے میں ہے۔ انٹرنیٹ کے میدان میں بھی ہماری سست رفتاری غالب رہتی ہے۔اس بارے میں سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ہمیں مزید سائٹس مختلف ناموں سے لائونچ کرنے ضرورت ہے۔
ہمیں اس سترسالہ تاریخ سے اسباق اخذ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہمارا مقصد اقامت دین ہے ۔ اس راہ میں ہم کتنا سفر طے کرپائے ہیںاور یہ بھی دیکھنے کی چیز ہے کہ ہم نے کن محاذوں پر اپنی قوت لگائی ہے۔ وہ کون سے اقدامات رہے جن سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ان ساری چیزوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہی آگے کی strategy طے کرنی چاہیے۔حالات بتاتے ہیں کہ strategy اور لائحۂ عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ہمیں اس بارے میں گہرائی سے غوروفکر کرنا پڑے گا۔آخر کب تک پرانے ڈھرے پر روایتی انداز سے کام کیا جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے۰۷سال گزشتہ ۰۷ سالوں کی طرح گزرجائیں اور نتائج ڈھاک کے تین پات کی طرح ہوں۔ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دیگر تنظیمیں اور تحریکیں کیسے کامیابی کی منازل طے کررہی ہیں اور دوسری تنظیمیں کیوں ناکام ہورہی ہیں۔چاہے وہ یہودیوں کا اسرائیلی ایجنڈا ہو یا کوئی کارپوریشن سیکٹر ۔ حالات جس تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں اس کو پورا کرنا پڑے گا۔
تعلیم اور اعلام میں ہم بحیثیت تحریک کتنے پیچھے ہیں۔ پھر بھی ہم خدمت خلق کا بوجھ اٹھانے چلے آتے ہیں۔ حالانکہ اس کے لیے بے شمار NGOs اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ہمارا پہلا کام مسلمانوں کی ذہنی تشکیل اور دوسرا غیرمسلمین تک اسلام کی دعوت پہنچانا ہے۔ ان چیزوں کو پیش نظررکھ کر ہی ہمیں کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ سید مودودی ؒ کا یہ قول ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ہم موجودہ نظام میں کوئی جزوی تبدیلی نہیں چاہتے۔ بل کہ ہم اس نظام باطل کو نظامِ حق سے بدلنا چاہتے ہیں۔اور انسانیت کے سارے درد کا مداوا بھی یہی ہے۔خدمت خلق کا اس سے بڑا بھی کوئی کام ہوسکتا ہے کیا؟
یہlongterm planning اور microplanning کا دور ہے۔ہم نے اپنی آنکھوں سے مسلم دنیا کے قلب میں اسرائیل کا قیام ہوتے دیکھا ہے۔ایسی کئی مثالیں صفحۂ دہرپر دیکھی جاسکتی ہیں۔اسرائلی غاصبین نے یہ ہدف متعین کیا تھا کہ ۰۵۹۱ تک اسرائیل کا قیام عمل میں لانا ہے اور انہوں نے کر بھی لیا ۔ ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ اگلے بیس تیس برسوں میں کیا کام انجام دینے ہیں۔ہند کے کس علاقے میں ہم کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں ،اور یہ تبدیلی کیسے برپا کی جاسکتی ہے۔جب تک ہم اس قسم کی task planning نہیں کریں گے کامیابی مشکل ہے۔جہاں حالات میں تبدیلی کے امکانات ہوں وہاں tri-optional planning کرنی چاہیے۔اس کی خوبصورت مثال سیرتِ سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے۔جنگ موتہ کے موقع سے وفد کو روانہ کرتے وقت آپﷺ نے ہدایت دی تھی کہ زیدبن حارثؓ تمھارے امیر ہونگے، اگر ان کو شہادت نصیب ہوجائے توجعفر بن ابی طالبؓ اور اگروہ بھی کام آجائیں توعبد اللہ بن رواحہ کو سپہ سالار سمجھنا۔یہ پلاننگ ایک فوجی جنرل کی تھی۔ سید مودودیؒ نے ۲۴۹۱ میں اجتماعِ دربھنگہ میں کہاتھا:
’’خوب سوچ لیجیے کہ جس میدانِ جنگ میں آپ اتر رہے ہیں اس میں دشمنوں کے مورچے کدھر کدھر اور کس ترتیب سے پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں کس طرز پر مورچہ بندی کرنی ہے؟آپ کے کمزور پہلو کون کون سے ہیں؟ اس کے لیے ایک ہوشیار جنرل کی دوربینی اور وسیع النظری اور اس کے ساتھ ایک نظامِ اطاعت میں جکڑی ہوئی جمیعت کی جدوجہد مفید مطلب ہے۔‘‘
ہمیں مراحل کا تعین کرنا چاہیے ، ہم ابھی کس مرحلے میں ہیں ،اس کے بعد کون سا مرحلہ آئے گا، اس مرحلے تک کیسے پہنچا جائے گا،بعد کے مراحل کی کون سی تیاریاںابھی سے کرنی ہیں۔مذکورہ بالا اجتماع میں علامہ ابو الاعلی مودودی (رح)نے اس سلسلے میں بھی گفتگو فرمائی تھی۔﴿ملاحظہ ہو روداد اول﴾
ہندستان میں ہمارے کرنے کا سب سے پہلا کام مسلمانوں کو بیدار کرنا ہے، ان کو ان کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنا ہے۔ اور غیر مسلمین کو اسلام کی دعوت دینی ہے ۔ اس کے بعد ہی نظام کی تبدیلی ممکن ہے۔لہٰذا ہمیں یکسوئی کے ساتھ انھی کاز کی تکمیل کے لیے کوشاں رہناچاہیے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ مئی 2011