نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک سے باز آنے کی تلقین کی۔ مگر قوم کے لوگ نہ مانے چنانچہ سورۂ نوح میں فرمایاگیا:
وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۰ۥۙ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا۲۳ۚ (نوح :۲۳)
’’انہوں نے کہاہرگز نہ چھوڑنا اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ودّ اور سُواع کو اور نہ یعوث اور یعوق اور نسر کو۔ ‘‘
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا اختر شاہ جہاں پوری بریلوی لکھتے ہیں:
’’عطا خراسانی یا عطاء بن ابی رباح نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جو بُت حضرت نوع علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے وہی بعد میں اہل عرب نے اپنے معبود بنالیے۔ ودّ بنی کلب کا بُت تھا جو دومۃ الجندل کے مقام پر رکھاہواتھا۔ سُواع بت بنی ہزیل کاتھا۔ یغوث یہ بنی واد کاتھا۔ پھر بنی عغطیف کاجو سبا کےپاس جوف میں تھا۔ یَعوق یہ ہمدان کا تھا اور نُسریہ ذی الکلام کی شاخ آل حمیر کابت تھا۔ یہ حضرت نوح کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام ہیں۔ جب وہ وفات پاگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اللہ والے بیٹھاکرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بناکر رکھ دو اور ان بتوں کے نام بھی ان نیکوں کے نام پر رکھ دو۔ لوگوں نے ازراہ عقیدت ایسا کردیا لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی گھٹ گیا تو ان کی پوجا ہونےلگ گئی۔ ‘‘ (تفسیر سورہ نوح: ناشر اعتقاد پبلی کیشنزدہلی)
اس روایت سے کئی امور پر روشنی پڑتی ہے:
۱۔ صالح افراد سے عقیدت میں غلو نے انھیں ان کی پرستش تک پہنچادیا۔
۲۔ صالحین کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر انھیں معبود اور الٰہ کے مقام تک پہنچانا شیطانی اور مشرکانہ عمل ہے۔
۳۔ صالحین کی عبادت ان کی وفات کے بعد شروع ہوئی اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات ملاحظہ ہوں:
- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودی ونصاریٰ پر لعنت کرے انھوںنے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز)
- حضرت عطاء بن یسار روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔ اس قوم پر اللہ کا سخت غضب ہو جس نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ (مشکوٰۃ باب المساجد روایت امام مالک)
- حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں کو پختہ نہ کرو، اُن پر کوئی عمارت نہ بنائو اور نہ اُن پر بیٹھو۔ ‘‘
(مشکوٰۃ باب المساجد مواضع الصلوٰۃ جلد اول)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ ارشادات سے بالکل واضح ہوجاتاہے کہ قبروں پر عمارت و گنبد وغیرہ بنانا اس پر کتبہ یا عرضی کی شکل میں کچھ لکھنا اور مجاور بن کر بیٹھنا یہ سارے کام بدترین اعمال میں شمار ہوتے ہیں۔ آپؐ نے پوری صراحت کے ساتھ ان تمام رخنوں کو بند کردیاجہاں سے شرک کے داخلے کی گنجائش ہوسکتی تھی۔
’’حضرت ابوالبہا نہ اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علیؓ نے فرمایاکہ میں تمھیں اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجاتھا کہ کسی مورت/تصویر کو نہ چھوڑوں مگر یہ کہ اُس کو مٹادوں اور نہ کسی بلند قبر کو دیکھوں مگر اسے زمین کے برابر کردوں۔ ‘‘ (مشکوٰۃ: باب دفن المیت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے صحابہ کرامؓ سے بیعت لی تھی اس کا تذکرہ قرآن میں آیاہے اسے بیعت رضوان کہاجاتاہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ دیکھا کر کہ لوگ اس درخت کے پاس کثرت سے آنے لگے ہیں اور خطرہ پیدا ہوگیاہے کہ عقیدت کا غلو مسلمانوں کو راہِ راست سے ہٹادے اور آنے والی نسلیں اسے قابل تعظیم درخت بنالیں چنانچہ آپؓ نے وہ درخت ہی کٹوادیا جو فتنہ کا سبب بن سکتاتھا۔
اس بات سے کون انکار کرسکتاہےکہ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بعد آپؐ کی ہستی ہی قابل تعریف ہے۔ اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو وہ آپ کی ذات گرامی ہوتی۔ مگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے اس کی نفی کردی اور پوری صراحت اور وضاحت سے یہ بات ارشاد فرمائی کہ:
’’یوں نہ کہو کہ ’’جو اللہ چاہے اور جو محمدؐچاہے‘‘بلکہ یوں کہو ’’جو تنہا اللہ چاہے۔ ‘‘ (ابن مردویہ)
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور جو آپ چاہیں آپؐ نے فرمایا!’’کیا تو مجھے اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے۔ یوں کہو، جو اللہ تعالیٰ تنہا چاہے۔ ‘‘ (ابن مردویہ بحوالہ تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ، آیت ۲۲ کے تحت) اللہ کو چھوڑ کر جِن دوسروں کو خواہ وہ خواجہ اجمیری ہوں یا شیخ جیلانی لوگ اپنی ضرورت وحاجت کے لیے پکارتے ہیں انہوں نے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہ پیدا کی ہے اور نہ بنائی ہے اس لیے حکم رسولؐ یہ ہے کہ تمہیں حقیر سے حقیر چیز کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی اللہ سے مانگو۔ ارشاد ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لیسألْ احدکم ربہ حاجتہٗ حتی یسألہ الملح وحتی یسالہٗ ششع نعلہٖ اذا القطع۔ (ترمذی: ابواب الدعوات)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہرشخص اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے اپنے رب سے سوال کرے یہاں تک کہ نمک بھی اللہ سے مانگے اور جب جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگے۔ ‘‘
ایک اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے خواہ وہ کتنا ہی بڑا بزرگ اور ولی کیوں نہ ہو اگر مانگا جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّہٗ لَّمْ یسأل اللہَ یَغْضَبْ عَلَیْہ۔ (ترمذی ابواب الدعوات)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اس شخص پر جو اس سے نہیں مانگتا۔
مولانا شیخ احمد صاحب کا بیان اس سلسلے میں قابل توجہ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جو قبریں سجدہ گاہ کا مرتبہ حاصل کر چکی ہوں ناممکن ہے کہ لوگ ان پر دور دراز سے سفر کرکے سفر کا سازوسامان ساتھ لے کر نہایت اہتمام کے ساتھ حاضری نہ دیں۔ چنانچہ اسفار زیارت کا رواج عہد جاہلیت میں بھی تھااور آج بھی اس کا مشاہدہ ہر جگہ کیا جاسکتاہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ممنوع قرار دیتے ہوئے صاف صاف فرمایاکہ:
لاتَشَدُّ الرِّجَالَ اِلَّا اِلیٰ ثَلٰثَۃَ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدَالْحَرَامِ والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ھٰذا۔ (مشکوٰۃ)
زیارت کے واسطے سفر صرف تین مسجدوں کے لیے جائز ہے کعبہ شریف، مسجد اقصیٰ اور تیسری مسجد نبوی۔
اس حدیث سے اسفار زیارت کی نوعیت خود بخود متعین ہوجاتی ہے۔
جو لوگ ان تمام تنبیہات کے باوجود زیارت قبر کے نام سے ’عبادت قبر‘ کرتے ہیں وہ دیدہ دانستہ خداکی لعنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اگر چہ اس معاملے میں عورت ومرد یکساں ہیں، لیکن زائرین کے مقابلے میں زائرات کے لیے اعتقادی واخلاقی فتنوں میں مبتلاہونے کازیادہ اندیشہ ہے۔ اس لیے خصوصیت سے ان پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا یا لعن اللہ زائرات القبور۔ احمد، ترمذی اور ابن ماجہ میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن اللہ زوارات القبور۔ (بدعت کیاہے، ص۱۶۴، ناشر مکتبہ تجلی دیوبند، اشاعت فروری ۱۹۷۰ء)
جناب شیخ احمد آگے مزید لکھتے ہیں:
’’ آپ کو معلوم ہے کہ اس پورے بکھیڑے میں دولت ، قوت اور محنت کا صرف کہاں تک جاپہنچتاہے اور گانے بجانے اور ناچ رنگ کی رنگینیاں اس میں کس طرح جلوہ دکھاتی ہیں۔ ظاہر ہے اتنے بڑے ہنگامے کا جس کی ہر جگہ ہر وقت بہار دیکھی جاسکتی ہے کوئی ایسا مختصر اور جامع نام ہونا چاہئےجس کے پس پردہ احکام شریعت کی دل کھول کر توہین وتذلیل کی جاسکے۔ آپ جانتے ہیں یہ نام کیا ہے۔ جاترا نہیں بلکہ ’’عرس‘‘ کیوں جاترا لوگ اس وقت کرتے تھے جب تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ اب اس کی جگہ عرس کرتے ہیں۔ یہ لفظ اپنی معنویت کے اعتبار سے فی الواقع لائق داد ہے ’’عرس‘ عربی میں شادی بیاہ کو کہتے ہیں اور شادی بیاہ لازماً ایک خوشی کاکام ہے۔ لہٰذا خوشی اور جشن کے مواقع پر جو کچھ انسان کرتاہے اور کرسکتا ہے وہ سب قبروں کے عرس میں از خود حلال ہوگیا۔ رہ گیا یہ شبہ کہ بزرگوں کے یوم وفات کو شادی کا دن کس معنی میں قرار دیاگیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ میت اگر صالح ہوتی ہے تو فرشتے سوال وجواب کے بعد اس سے کہتے ہیں نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعُرُوْسِ (سو جاؤ جس طرح دلہن سوتی ہے) بس انہوں نے کہا کہ دیکھو یہی ہے عرس، چونکہ اولیاء اللہ اس دن عروس کی طرح سوجاتے ہیں اس لیے اس دن یا اس سے آگے پیچھے جو کچھ ان کی قبروں پر ہوتا ہے وہ سب عرس ہے۔
اس تحقیق انیق پر بہت سی باتیں پوچھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر اس سے کلام بہت طویل ہوجائے گا اس لیے ہم صرف دوہی باتیں عرض کرتے ہیں:
ایک یہ کہ صالحین کو دلہن کی سی پیاری اور گہری نیند محض اس لیے نصیب ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو عمل صالح سے دلہن کی طرح آراستہ کیا تھا۔ آخر ان کی خوشی میں آپ کے شریک ہونے کا کیا موقع ہے؟ آپ بھی جائیے اور ویسی ہی زندگی اختیار کرنے کی کوشش کیجئے۔ قبروں پر ہنگامے بپا کرنے اور میلے لگانے سے تو صالحیت نہیں پیداہوسکتی۔
دوسری بات یہ کہ اگر صالحین اپنے یوم وفات میں گہری نیند سوگئے ہیں تو ان سے اپنی حاجات طلب کرنے اور انہیں اپنا معبود بنانے کا کیا موقع باقی رہا۔ کیا معبود بھی سوجایا کرتے ہیں؟ اگر معبود بھی سوجائیں اور دلہن کی سی نیند سوجائیں تو وہ اپنے عابدوں اور نیاز مندوں کاکیا کام بناسکیں گے؟ اور اگر ان کی نیند بیداری کے مترادف ہے تو پھر سونے کا کیا مطلب ہے؟
کسی مسلمان کی زبان پر اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کے لیے معبود ’’خدا اور الٰہ‘‘ کے الفاظ نہیں آسکتے۔ اس لیے ان صالحین امت کے ساتھ وہ سارے معاملات رکھنے کے باوجود جو صرف اللہ ہی کے ساتھ رکھے جاسکتے ہیں، انہیں زبان سے معبود اور الٰہ نہیں کہاجاتا، معبود بھی ہو، اور معبود نہ کہلائے۔ الٰہ بھی ہو اور الٰہ نہ کہلائے یہ ایسا مشکل مسئلہ ہے جسے کوئی بے علم اور ناداں شخص حل نہیں کرسکتا۔ چنانچہ آپ خود تجربہ کرسکتے ہیں۔ آپ کسی سے کہہ دیجئے کہ تو اولیاء کو اپنا معبود سمجھتا ہے یا تونے انہیں خدا بنارکھاہے۔ آپ دیکھیں گے ایک جاہل کندہ ناتراش، دیہاتی ان پڑھ آدمی بھی اس کاانکار کردے گا اور آپ کا منہ نوچنے اور پتھر مارنے دوڑے گا۔ اس لیے حسب دستور مولویوں نے اس مشکل کو بھی حل کردیا اور وہ اس طرح کہ اولیاء وصالحین کو خدا اور معبود یا الٰہ جیسے الفاظ سے پکارنا کیا ضروری ہے۔ ان کے ساتھ معاملہ تو وہی رکھو جو خدا کے ساتھ ہونا چاہئے مگر انہیں غوث، قطب، دستگیر ، گنج بخش، بندہ نواز، مشکل کشا وغیرہ سے اوپر نہ لے جاؤ ان الفاظ کی تاویل بھی آسان ہے اور اس سے تمہاری مسلمانی پر بھی حرف نہیں آتا۔ ورنہ ذرا تجاوز کرجاؤ تو ہر شخص تمہیں مشرک ٹھہرائے گا اور خواہ مخواہ کی پریشانی مول لینی پڑے گی۔ ‘‘(بدعت کیا ہے، ص۱۹۵تا ۱۹۷)
ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت نوح کی قوم نے اولیاء پرستی کاآغاز کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور نبوت میں اس کا مکمل خاتمہ کرکے اس کے داخل ہونے کے تمام راستوں پر اپنی واضح ہدایات کے پہرے بٹھادیئے ، کچھ رہے سہے رخنے خلفاء راشدین نےاپنے دور میں ختم کردیئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد غیر اسلامی تصوف کا آغازہوا۔ تصوف کو تزکیہ نفس کاایک بڑا ذریعہ بتایاجاتاہے، حالانکہ قرآن و سنت میں تزکیہ کا مکمل سامان موجود ہے۔ اسی لیے دین اسلام کو کامل کہاجاتا ہے۔ اس کے بعد پھر کسی دوسری اصطلاح کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن انسان کی جدت پسندی نے اس میں بھی نئے نئے پہلو تراشے، شریعت کے ساتھ طریقت، حقیقت اور معرفت کی اصطلاحات بھی وضع کی گئیں اور اطاعت الٰہی کے بجائے عشق الٰہی ، پر زور دیاجانے لگا۔ یہیں سے اس کا فلسفہ الگ ہوگیا۔ تصوف کے مزاج میں غلو شامل ہے۔ پھر بعض عقیدت مندوں نے ایک اصول یہ بھی بنا لیا کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ بزرگوں سے غلطی نہیںہوتی اور جو غلطی کرے وہ بزرگ نہیں۔ بزرگوں کو کسی غلطی پر ٹوکنا روا نہیں۔ یہ فلسفہ تزکیہ نفس کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوا اور بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں اس سے پیداہوئیں اس کے مزاج میں غلو سرایت کیے ہوئے ہے صرف وہی اس سے محفوظ ہیں جو اس سے بے گانہ ہیں ورنہ تصوف کے حامل بڑے سے بڑے عالم بھی غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ اس کی ایک مثال ان القاب وآداب کو دیکھنے سے مل جاتی ہے جو کسی بزرگ کو مخاطب کرتے ہوئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حضرت تھانویؒ کی کتاب شریعت وطریقت، جب چھپ کر شائع ہو ئی تو اس کی تعریف میں حضرت تھانوی کو نہیں بلکہ ان کے خلیفہ مولانا محمد حسن صاحب کو ایک صاحب اس طرح مخاطب کرتے ہیں: ’’عالی جناب قدوۃالسالکین،عارف باللہ جامع الشریعت والطریقت برہانِ حقیقت ومعرفت مخدوم العلماء والفضلاء شیخ المشائخ سیدنا ومرشدنا مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور خلفہ ارشد حضرت مجدد ملت حکیم الامۃ مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانویؒ رحمۃ اللہ علیہ، کی کتاب شریعت وطریقت کے چند صفحات دیکھے دل بہت خوش ہوا—- یہ کتاب ہر مولوی وسجادہ نشین تک پہنچ جائے انشاء اللہ تعالیٰ مفید ہوگی۔ (شریعت وطریقت ،ص۳)
اس طرح کے القاب کسی نے شاید کسی صحابی رسولؐ، خلیفہ راشد یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی استعمال نہ کیے ہوں گے۔ اولیاء پرستی کا رجحان اسی غلوکی کرامات ہے جس کے طلسم میں پھنس کر آدمی شرک کو شرک ہی نہیں سمجھتا۔ اس لیے نفس تصوف کاانکار عقیدۂ توحید کو محفوظ رکھنے کا صحیح طریقہ ہے۔ اس کا انکار نہ کفر ہے نہ شرک وبدعت۔ اس معاملے میں مولانا اسحٰق سندیلوی سابق استاذ ندوۃ العلماء لکھنؤ کا بیان قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ انصاف کاتقاضا یہ ہے کہ ہم اس بات کااعتراف کریں کہ انکارتصوف سے ہرگز وہ نقصان نہیں پہنچا جو غلط قسم کے تصوف اور اس کی خلاف حقیقت تعبیر وتفسیر سے پہنچا ہے۔ انکار تصوف کا نقصان صرف یہ ہے کہ منکرین اس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں لیکن اس کی غلط تعبیر تو انسان کو بسااوقات زندقہ اور الحاد تک پہنچادیتی ہے۔ (تصوف اور اہل تصوف: مولانا عروج قادری، مرتب ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ص۲۳۰)
ہمارے لیے قرآن وسنت کافی ہیں۔ صحیح طور سے خلوص قلب کے ساتھ اُن پر عمل ہو تو اس کی برکتیں تصور سے کہیں زیادہ ہیں اور دنیاوآخرت کی عافیت بھی اسی میں ہے۔ شرک صرف یہی نہیں کہ مسلمان،مرحوم اولیاء کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر ان کی قبروں کی زیارت کے لیے جائیں۔ بلکہ شرک یہ بھی ہے کہ اللہ کے قانون وشریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کو صحیح مان کر اس کی اطاعت کریں۔ اس کی وفاداری کا حلف بھی لیں اور دم بھر یں۔ اسلام کے نزدیک قانون ساز بھی اللہ ہے اور مسلمان قانون بنانے والا نہیں بلکہ اس کی اتباع کرنے والاہے۔ اس سلسلے میں دیکھئے مولانا قاری طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کیا فرماتے ہیں:
’’پس وہی قانون معتبر اور سارے انسانوں کے حق میں مفید ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہو اور وہ بھی جو آخری قانون ہو جو جامعیت کبری کی روح اپنے اندر لیے ہوئے ہو۔ امیر بھی خود اس کا پابند ہوگا اور رعایا بھی اسی درجہ میں قانون کے تحت ہوگی۔ غرض قانون کی نظر میں راعی اور رعایا یکساں رہیں گے اس سے امیر کی مطلق العنانی بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ پورے ملک اور ساری رعایا کی بھی کہ حکومت کسی ایک شخص یا کئی اشخاص کی ذاتی منشاپر چلے۔ پس اگر ساری دنیا بحق قانون امیر کے سامنے جوابدہ ہے تو امیر خدا کے قانون کے سامنے جوابدہ ہے جس سے واضح ہے کہ اسلام میں امیر امیر مطلق نہیں بلکہ پابند ہے جو آسمانی شریعت کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے جسے کسی حالت میں بھی ذاتی آزادی اور ذاتی منشا کی مطلق العنانی حاصل نہیں ہے۔ وجہ یہ ہےکہ حکومت فی الحقیقت قانون سازی اور حکم کا نام ہے، اجراء قانون یا عمل درآمد حکومت کانہیں بلکہ عمال حکومت کاکام ہےجو درحقیقت حکومت نہیں بلکہ اطاعت حکومت ہے اس لیے جو قانون ساز ہوگا وہی حقیقتاً حکمراں بھی ہوگا۔ خواہ فرد ہو یا قوم اور ہم ابھی ثابت کرچکے ہیں کہ قانون سازی نہ انسان کا حق ہے اور نہ وہ اس پر حقیقتاً قدرت رکھتا ہے بلکہ یہ صرف خدا کا حق ہے اس لیے حکم اور حکومت بھی صرف خداوندی حق ہوگا جس میں کسی مخلوق کی ادنیٰ سی بھی شرکت نہیں ہوسکتی ان الْحُکم الا للہ چنانچہ قرآن کریم نے اقتدار اعلیٰ اور قانون اعلیٰ کا ذکر کرتے ہوئے خدا کو اس کی ذاتی یکتائی کے ساتھ ساتھ ملک وسلطنت کے بارے میں بھی یکتا اور لاشریک ٹھہرایاہے۔ ‘‘
’’قانون سازی غیر اللہ کا حق نہیں ‘‘کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:
’’پس امیر پابند حکم ہے مطلق العنان نہیں وہ صرف قانون الٰہی کا منّاد اور نفاذ کنندہ ہے قانون ساز نہیں۔ اس سے قدرتی طور پر قانون ساز اسمبلیوں ، قانون سازی کی سلیکٹ کمیٹیوں اور انسانی اقتدار کی علمبردار جماعتوں کی بھی جڑکٹ جاتی ہے کہ سارے انسان مل کر بھی محیط علم نہیں رکھتے کہ عالمگیر منافع کا قانون محض اپنے دل ودماغ سے تیار کرسکیں۔ بلکہ اس میں جگہ جگہ اتنے ہی خلا ہوں گے۔ جتنے خود انسانوں کے علم وعقل میں ہیں پس وہ سلطنت کبھی بھی اسلامی سلطنت نہیں کہی جاسکتی جس میں قانون سازی انسان کا حق تسلیم کی گئی ہو اور حکمرانی کا منصب انسانوں کو دیاجارہاہو کہ یہ خدا کی صفت ملکیت میں بھی شرکت ہے اور اس کی صفت علم میں بھی اشتراک ہے جو روح عبدیت کے منافی ہے جس کے لیے انسان دنیا میں بھیجا گیا ہے اس کے ساتھ ہی انسانی حکومت انسان پر ہر فتنہ وفساد کی جڑ بنیاد ہے کیونکہ کوئی انسان بھی دوسرے انسان کی حکومت و فوقیت کو انسانی حیثیت سے تسلیم نہیں کرسکتا کہ انسان انسان سب برابر ہیں اور اطاعت جبراً تسلیم کرائی جائے گی تو یہیں سے انکار وبغاوت کا فتنہ سر اُبھارے گا۔ جس سے فسادات عداوتیں ، لعن طعن وغیرہ کی حرکات رونما ہوں گی اور ایسی ریاست وحکومت منبع فساد ثابت ہوگی۔ ‘‘ (فطری حکومت حصہ دوم، ص۵۸تا ۶۰، ناشر: دارالکتاب، دیوبند سن اشاعت ۱۹۸۹ء)
دوسرا سبب، جدید نظریات پر ایمان
مسلمانوں کا ایک بڑاطبقہ جس کا بیان اوپر گزرا اولیاپرستی کے شرک میں مبتلا ہوکر ملت سے تقریباً کٹ گیا۔ دوسرا طبقہ جس کی تعداد کم نہیں ہے انسانی ذہن کے اختراعی فلسفوں اور نظریات پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ بھی کفر وشرک کی جدید شکلیں ہیں۔ کمیونزم کا اقتدار وسلطنت تو ختم ہوگئی لیکن کمیونسٹ آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اس وقت دونظریات بہت مقبول ہیں ایک سیکولر ڈیموکریسی یعنی لادینی یا غیر مذہبی جمہوریت اور دوسرا نیشنلزم یا وطنی قومیت علامہ اقبال نے کہا تھا:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
مسلمان ان دونوں بتوں کے پجاری بن کر ان کو فروغ دینے میں اپنا مال، قوت اور صلاحیت ضائع کررہے ہیں۔ جوقوت وصلاحیت دین اسلام کے فروغ میں لگنی چاہئے وہ ان غیر اسلامی نظریات کی نشرواشاعت میں صرف ہورہی ہے۔ اس طرح وہ اسلام اور ملت دونوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ مسلمانوں کو ان کے خالق ومالک نے حکم دیاتھا۔
وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۳۱ۙ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۳۲ (الروم:۳۱ ، ۳۲)
’’اور نہ ہوجاؤ ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنااپنا دین الگ الگ بنالیااور گروہوں میں بٹ گئے ہیں،ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اس میں وہ مگن ہے۔ ‘‘
گویا الگ الگ مختلف نظریات کی بنیاد پر بٹ جانا یہ مشرکوں کی صفات ہیں اور اتحاد امت کو پار پاراکرنے والی ہیں۔ دیکھئے کتنی سختی سے یہ ہدایت دی جارہی ہے:
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۱۰۵ۙ (آل عمران:۱۰۵)
’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزاپائیں گے۔ ‘‘
جناب مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ فرماتے ہیں:
’’ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں قوموں میں بکثرت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ایک طرف تو دن رات سیکولرزم کا گیت گاتے رہتے ہیں اور دوسری طرف وہ دین ومذہب کے ساتھ اپنی انتہائی گرویدگی اور شیفتگی کا دم بھی بھرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس قسم کے لوگ چاہے اپنے جذبات وخواہشات کے لحاظ سے کتنے ہی نیک اور مخلص کیوں نہ ہوں لیکن درحقیقت وہ دومتضاد خواہشات کو جمع کرلینے کی حماقت میں مبتلا ہیں اور ایسے لوگ فی الواقع نہ تو سیکولرزم ہی کو جانتے ہیں اور نہ ہی وہ صحیح معنوں میں دین ومذہب کی حقیقت سے آگاہ ہیں———-
دین محض پوجا پاٹ یا چند خاص قسم کی مذہبی رسوم اداکرنے کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ اس ضابطۂ حیات کا نام ہے جسے خالق کائنات نے پوری انسانی زندگی کے لیے رہنما بنا کر بھیجا ہے اور کوئی شخص حقیقی معنی میں اس وقت تک دیندار نہیں کہاجاسکتا، جب تک کہ وہ اس پورے ضابطہ حیات کو اپنی پوری زندگی میں رہنماتسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
(باقی آئندہ)
مشمولہ: شمارہ جون 2015