پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم ورواج، سیاست، معیشت، غرض ہر شعبہ زندگی کے لیے وہ اصول و اعتقاد مان لیے جائیں اور عملا رائج ہوجائیں جو خداوند عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے، قانون اسی کو جرم قرار دے، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم وتربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے، منبر ومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبر و محراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم ورواج اس پر قائم کردے اور کاروبار معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں۔
(تفہیم القرآن، جلد چہارم صفحہ ۳۷۱)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021