دنیاکے تمام مذاہب میں عبادت کا تصور پایا جاتا ہے اور عبادت کر نے کے لیے مخصوص جگہ مسجد، مندر، گرجا گھر، گرودوراوغیرہ کی تعمیر کی جاتی ہے ۔ ان عبادت گاہوں میں اس کے ماننے والے خوش دلی سے عبادت کرتے ہیں ،ہمارا ملک ہندوستان ایک کثیر ا لمذاہب ملک ہے بہت سے مذاہب کے ماننے والے یہاں زمانہ قدیم سے آباد ہیں، عموماً اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے آزاد رہے ہیں۔ اس آزادی کو برقرا ر رکھنا حکو متوں اورعدالتوں کا کام ہے ۔ اگر کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو اس کو انصاف دلانے کی ذمہ داری عدلیہ کی ہے۔ انصاف انسان کا بنیادی حق ہے۔ افسوس ہے کہ اس کام کے بجائے بعض نادان حکمراں اپنی مرضی اور اپنا نظریہ مسلط کر تے ہیں اور حقوق سلب کرتے ہیں۔یہ نتہا ئی فکر کی بات ہے اللہ خیر فر مائے۔ کئی فیصلے ایسے بھی آئے کہ مسلما نوں کی تہذیب و ثقافت،پر آنچ آئی۔ ’’مسجد ‘‘کا اسلام میں بنیادی مقام تسلیم نہ کرنا نادانی ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ ’’ مسجد‘‘ میں نماز کی ادائیگی اسلام کا لاز می جز نہیں ہے۔ ایک اور فیصلہ بھی نظر ثانی کا محتاج ہے۔ کہا گیا کہ بیوی اپنے شوہر کی جا ئداد نہیں ہے۔ اس لیے شادی شدہ مرد یا عورت (اپنی مرضی سے) اگر زوج کے علاوہ کسی سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو اسے جرم نہیں مانا جائے گا یہ عجیب بات ہے۔اندیشہ ہے کہ اس سے بد کاری عام ہوگی اور ہندوستانی تہذیب کا تیا پانچا ہو جائے گا،شرم وحیا ختم ہو جائے گی۔
اسلام میں مسجد کی حیثیت:
مسجد اللہ کا گھر ہے اور وہ مقدس جگہ ہے جہاں خدا ئے وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جاتی ہے، زمین کا جو سب سے مبارک حصہ ہے وہ مسجد کا حصہ ہے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایاکہ شہروں میں اللہ کے نز دیک سب سے پسندیدہ جگہ وہاں کی مسجدیں ہیں اور شہروں میں سب سے نا پسندیدہ جگہ وہاں کے بازار ہیں(رواہ مسلم) ’’زمین کی بہترین جگہوں میں مسجدیں اور بری جگہوں میں بازار ہیں۔‘‘ ان احا دیث مبار کہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین میں سب سے مقدس جگہ مسجد ہےــ،۔ اللہ رب ا لعزت نے عبادت کے لیے کعبہ کو بنا یا۔اِنَّ اَوّلَ بَیْتٍ وُّ ضِعَ لِلنَّا سِ لَلّذِیْ بِبَکّۃَمُبٰرَ کًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(القر آن،سورہ اٰل عمران3 ، آیت96) ’’بے شک سب میں پہلا گھر جو لو گوں کی عبا دت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے بر کت والا اور سارے جہاں کا راہنما‘‘۔مسجدیں نمازوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں۔ مسجدیںاسلامی شعار ہیں،مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے کا حق حاصل ہے۔ یہ ان کا شر عی حق بھی ہے اور آئینی بھی اس پر قر آن و احادیث سے دلائل دیے جاسکتے ہیں، مسجدوں سے اصلاح معاشرہ کا پیغام دیا جاتا ہے جب مسلمان دن میں پانچ بار آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کے مسا ئل سے واقفیت ہو تی ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، جمعہ وعیدین کے مو قع پر بہت بڑی تعداد میں لو گوں سے ملا قات ہو تی ہے ربط بڑ ھتا ہے ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہوتی ہے بندوں کے حقوق ادا کر نے کا احساس پیداہو تا ہے ان سارے معاملات میں مسجدوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے یہاں دینی ودنیوی تر بیت ہو تی ہے، مسجدوں سے ہمارا تعلق جڑا ہونے سے اللہ تعالیٰ سے قر بت حاصل ہوتی ہے اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی(رحمت کے) سا یہ میں جگہ ملے گی۔ لہٰذا مسلما نوں کو چا ہیے کہ اپنا تعلق مسجدوں سے جوڑیں اور اس بات کی کوشش کریں کہ مسجدیں آباد ہوں۔
مساجد سے دوری بگاڑ کا باعث:
مسلما نوں کو اللہ کے گھر مسجد سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے۔ مساجد عبادت گا ہ اورتر بیت گاہ ہیں، مذہب اسلام میں مسجد کے مقام اور اس کی اہمیت کو قر آن واحادیث میں بتا یا گیا ہے۔ مساجد کو نمازوں، ذکر و تلاوت ،تعلیم و تر بیت،دعوت و تبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔دنیا میں سب سے پہلی عبادت گاہ ، مسجد حرام ہے ۔ اس کی طرف ہم رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مدینہ شریف پہنچنے سے پہلے قبا بستی میں’’مسجد قبا ء ‘‘ کی تعمیر فر مائی،تاریخ اسلا م کی یہ پہلی مسجد مدینہ منورہ سے تین کلو میٹر دور بستی قباء میں واقع ہے آپ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اس بستی میں پہنچے اور 14دن یہاں قیام فر مایا اور اسی در میان ’’مسجدقباء‘‘ کی بنیاد رکھی۔ پھر مدینہ شریف پہنچنے کے بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی ’’مسجد نبوی ‘‘ اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے جبکہ ’’مسجداقصیٰ‘‘ اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے اور اول ’’مسجد الحرام خانہ کعبہ‘‘ ہے۔
مسجد اللہ کے ذکر کے لیے ہے اس میں رکاوٹ ڈالنے والا ظالم ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ ممَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَاللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَا بِھَا اُولٰٓئِکَ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَ سَعٰ فِیْ خَرَا بِھَا اُ لٰٓئِکَ مَا کَانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْ خُلُوْہَآ اِلَّاخَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَاخِزْیٌوَّلَھُم فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌعَظَیْمٌ۔ (القرآن،سورہ البقرہ 2،آیت114)
’’ اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش کرے! انھیں ایسا کر نا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں( بھی) ذلت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے‘‘۔
مسجد میں اللہ کا ذکر نے سے روکنے والے کو ظالم کہا گیا ۔ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ذلیل و رسوا فر مائے گا اور آخرت میں سخت عذاب دے گا، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسجدوں کو آباد کریں مسجد کی آبادی صرف ظاہری زیب وزینت رنگ وروغن سے نہیں ہوتی بلکہ اسمیں ذکر اللہ کر نا، نمازیں پڑھنا، شریعت کے احکام کو قائم رکھنا، انھیں شرک وظاہری میل وکچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے۔مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلتیں احادیث طیبہ میں ہیں،خود بھی مطالعہ فر مائیں رسو ل اللہ ﷺ نے فر مایا: تم میں سے جب کوئی وضو کرتا ہے،اور اچھی طرح وضو کر تا ہے، پھر ’’مسجد‘‘ آتا ہے اور اس کے گھر کے نکلنے کا سبب صرف نماز ہوتی ہے، تو اس کے ہر قدم کے بد لے اللہ تعالیٰ اس کا ایک در جہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹا تا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے۔(سنن ابن ماجہ،حدیث،281 راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ،باب وضو طہارت کا ثواب)اللہ ہم سب کو توفیق دے آمین ثم آمین۔ ؎
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا،تلقین غزالی نہ رہی
’’مسجدیں‘‘ مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
مشمولہ: شمارہ اپریل 2019