تربیت کا مفہوم
لغت میں تربیت کے معنی ہیں: پالنا، پرورش کرنا، پروان چڑھانا، کسی کو تدریجاََنکھار کر حد کمال تک پہنچانا۔
امام راغب اصفہانی نے اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیاہے:التربیۃ ھو إنشاء الشیء حالاََ فحالاََ الی حدا لتمام۔ کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف صلاحیتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو ونما دینا کہ وہ حد کمال کو پہنچ جائے۔
اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
۱۔انسان کی خفیہ اور پوشیدہ صلاحیتوں کو ظاہر کرنا۔
۲۔ انسان کو پستی سے نکال کر بلندی اور تکمیل کی راہ پر لانااور اس کے انسانی اوصاف کی دیکھ بھال کر نا ۔
۳۔ ان سرگرمیوں کوانجام دینا جن سے انسانی کردار میں مثبت تبدیلی آئے اوراس کے رویوں اور رجحانات کی صحیح نشو ونما ہو۔
تربیت کا مقصود
تربیت کا مقصود صالح انسان بنانا ہے۔ کسی ایک ملک کا اچھا شہری ،کسی خاص قوم کا اچھا فرد بنانا نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہتر انسان بنانا ہے، جو وطن ، علاقہ، رنگ ،نسل کی عصبیتوں سے پاک ہوکر باکردار مکمل انسان بنے، خالق کائنات کا سچا غلام اور انسانیت کا حقیقی خاد م ہو۔
اس تربیت سے صرف جسمانی یاروحانی تربیت مطلو ب نہیں ہے اور نہ محض فکر و فلسفہ اور نظریہ کی تربیت مقصود ہے بلکہ اس سے ہمہ جہت تربیت مطلوب ہے، اس سے مراد ذہنی و فکری جسمانی و روحانی نظریاتی اور عملی تربیت ہے۔ ایک ایسا کامل انسان بنانا ہے جو اپنے رب کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کا خیر خواہ ہو۔
تربیت کی ضرورت
انسان کے اندر مختلف اور متضاد صفات پروان چڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مثبت اور منفی دونوں طرح کے اوصاف اس کے اندر پیداہوسکتے ہیں۔ خیر و شر، تعمیر و تخریب، نرمی و سختی، محبت و نفرت ، دوستی و عداوت، صلح و جنگ جیسے اوصاف اس کے اندر پیداہوسکتے ہیں۔انسان کی اگر تربیت نہ کی جائے،اسے اچھے کاموں کی ترغیب اور برے کاموں سے نفرت نہ دلائی جائے تو سماج میں امن و سکون ختم ہوجائے گا کیوں کہ انسان اس اعتبار سے کم زور پیدا کیاگیاہے۔ وہ عموماََ خواہشاتِ نفس کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے۔دوسری کم زوری جو انسان کے اندر ابھری ہوئی ہے وہ ذمہ داریوں سے فرار ہے۔ وہ اپنے نفس کے لیے حقوق لینا چاہتاہے، لیکن فرائض سے کتراتاہے۔ اگر انسان کی تربیت نہ کی جائے تو پھر وہ بے لگام جانور کی طرح خواہشاتِ نفس کے پیچھے بھاگتارہے گا۔ ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرتارہے گا۔ جواب دہی کا احساس اس کے اندر نہیں ہوگا۔ اس کی شخصیت میںیک رخاپن ہوگا، وہ کسی نہ کسی انتہا پر ہوگا۔ اس کی شخصیت اعتدال و توازن سے محروم رہے گی۔ نتیجتاً سماج اور معاشرہ ظلم و فساد سے بھر جائے گا۔اس لیے انسان کو عدل و قسط کی راہ پر قائم رکھنے اور سماج کے اندر عدل و انصاف اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تربیت و تزکیہ کا اہتمام کیاجائے۔
جس طرح کسی باغ میں پودے لگائے جاتے ہیں تو ان پودوں کے آس پاس کی گھاس پھونس یا غیر مقصود پودوں کو صاف کرتے رہتے ہیں تاکہ جو پودا لگایاگیاہے اس کو پوری طاقت ملے اور صحیح طریقے سے پروان چڑھے۔ انسان کو اس دنیا میں تعمیرِجہاں کے لیے پیداکیاگیاہے۔ عدل و انصاف کے قیام کے لیے بھیجاگیاہے۔ایک متوازن اور معتدل زندگی گزارنے کے لیے برپاکیاگیاہے۔ اس کی شخصیت میں نفسانی خواہشات اور خود غرضی کے گھاس پھونس اور خاردار پودے جنم لیتے رہتے ہیں۔ زندگی کے صحیح دھارے سے اس کو موڑے رہتے ہیں ۔ اس لیے اس کی بھی صفائی کی ضرورت ہے تاکہ انسان کی نشو ونما تعمیری رخ پر ہوسکے۔قرآن مجید میں اس عمل کو تزکیہ کے لفظ سے تعبیر کیاگیاہے۔اور اسے انبیاء کی بعثت کا مقصد بتایاگیاہے۔
اللہ نے اپنا نبی اور رسول بھیجا۔ انہیں یہ ذمہ داری دی کہ انسانی نفوس کا تزکیہ کرکے انسان کو عدل و قسط کی راہ پر لاکھڑاکریں۔لیقوم الناس بالقسط۔
والدین کی ذمہ داری
امتوں اورملتوں کی تربیت و تزکیہ کی ذمہ داری جہاں انبیاء و رسل کے سپرد کی گئی وہیں اہل خاندان اور خاص طور پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر ڈالی گئی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا۔اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے۔( التحریم) سید قطب شہید ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:مومن اپنے اہل اور گھر والوں کی اصلاح و تربیت کے لیے اسی طرح جواب دہ ہے جس طرح وہ خود اپنے نفس کی اصلاح اور دل کی پاکیزگی کے لیے کوشش کرنے کا جواب دہ ہے۔اولاد کی تربیت کی ذمہ داری والدین پرڈالی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے بارے میں حساب لے گا ۔
علامہ ابن القیم ؒ لکھتے ہیں:اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن باپ سے بیٹے کی تعلیم و تربیت اور اس کی حقوق کی ادائیگی کے بارے میں پہلے سوال کرے گا بیٹے سے باپ کے حقوق کی ادائیگی کا سوال بعد میں کرے گا۔مربی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہر مومن کو ہمہ آن اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ ’’ہر شخص ذمہ دار اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیاجائے گا‘‘ ۔ (بخار ی )
ماںکا تربیتی کردار
ایک بچے کی پرورش کا آغاز ماں کے پیٹ میں قرار پانے والے نطفے سے پہلے ہی شروع ہوجاتاہے۔ نکاح کے وقت حسن کردار اخلاقی قدروں اور دین کو معیار بنانے کی تعلیم دراصل صالح اولاد کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ حدیث میں اس بات کی تربیت اور تعلیم دی گئی ہے کہ باکردار عورت سے شادی کی جائے۔ عورت کی شادی میں چار امور کا خیال کیاجاتاہے مال، خوبصورتی، حسب و نسب اور دین داری ۔ تم دین داری کو ترجیح دو۔(بخاری)
اخلاق و کردار اور دین پسندی کو عورت کے انتخاب کا معیار بنانا آنے والے بچے کی زندگی پرغیر معمولی اثرات مرتب کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باکردار اور صالح عورت کو دنیا کی سب سے بڑی متاع بتایا ہے۔ الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔ ’’دنیا متاع ہے اور دنیا کی سب سے بہترین متاع صالح عورت ہے‘‘۔(مسلم)
جدید تحقیقات نے یہ بات ثابت کردیاہے کہ ماں کی تربیت اس کی ذہانت اور جذبات و خواہشات کا اثر بچے کی تربیت پر پڑتاہے۔ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ بچہ جب رحم مادر میں پل رہا ہوتاہے اسی وقت سے اس کی تربیت کا آغاز ہوجاتاہے چنانچہ دوران حمل جہاں ماں کی غذا کے اثرات بچے کے جسمانی نشو و نماپر پڑتے ہیں وہیں اس کے احساسات اور خیالات و انفعالات کے اثرات بچے کی زندگی اور اس کی نفسیات پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے دورانِ حمل عورت کو خوش طبعی کی زندگی گزارنے اور الجھنوں سے دور رہنے کا مشورہ دیاجاتاہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔ اللہ نے یہ شرف ماںکو عطا کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انسانی تعلقات اور رشتوں میں ماں کا مقام سب سے بلنداور عظیم ہے۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:من احق بحسن صحابتی؟ قال امک قال ثم من؟ قال امک قال ثم من؟ قال امک ۔ قال ثم من ؟ قال ابوک۔
’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس شخص نے سوال کیا اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون ہے؟ آپ نے جواب دیا: تمہارا باپ۔‘‘(متفق علیہ)
ماں کی گود وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں بچے کی پرورش ہوتی ہے ایک صالح اور نیک ماں ہی صالح اور نیک اولاد کی تربیت کرسکتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی اولاد دوں گا۔ عربی کا شاعر احمد شوقی کا شعر ہے:
الأم مدرسۃ اذا أعددتَھا اعددتَ شعبا طیب الأعراقِ
’’ماں ایک مدرسہ ہے اگر آپ اسے تیار کرتے ہیں اس کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو گویا ایک اچھی نسل تیار کرتے ہیں۔‘‘
گود کی تربیت کا اثر
ابتدائی عمر کی تربیت زیادہ موثر اور دیر پاہوتی ہے۔ اس کے اثرات زندگی بھر محسوس کیے جاتے ہیں۔ابتدائی زندگی کے نقوش ،خواہ خوشی اور غم کے ہوں یا غم اور ملال کے، بہت ہی گہرے ہوتے ہیں۔یہ ضرب المثل مشہور ہے التعلیم فی الصِغَرِ کالنقشِ علی الحجر‘‘۔ بچپن کی تعلیم کے اثرات اسی طرح دیر پا ہوتے ہیں جیسے کہ پتھر پر نقش ۔
اسی لیے بچپن کی زندگی تعلیم و تربیت کے لیے زیادہ ہم آہنگ اور مناسب ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے کا دل صاف ستھرا ہوتاہے۔ اس کا ذہن سادہ تختی کے مثل ہوتاہے۔ ماں باپ اس پر جو چاہیں ،لکھ دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرامایا: کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او یمجسانہ او ینصرانہ۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے پس اس کے والدین اسے یہودی مجوسی یا نصرانی بنادیتے ہیں۔(مسلم) امام غزالی کے حوالے سے احمد سلبی نے ’التربیۃ والتعلیم فی الفکر الاسلامی‘ یہ عبارت نقل کی ہے:’’بچے کا ضمیر بالکل صاف ہوتاہے۔ اس کی روح بے داغ ہوتی ہے۔ اس کا دل آئینے کے مثل ہوتاہے۔ جو چیزبھی اس کے سامنے آتی ہے اس کا عکس قبول کرنے کے لیے وہ تیار رہتاہے۔ اس کی تعلیم و تربیت اچھی طرح کی جائے تو اچھا انسان بن سکتاہے اور غلط طریقے سے اس کی تربیت کی جائے یا تربیت سے غفلت برتی جائے تو براانسان بن سکتاہے۔عربی کا شاعر الحطیئۃ کہتاہے:
قد ینفع الأدب الاولاد فی صِغَرِ ولیس ینفعھم من بعدہ أدب
إن الغصون اذا عدلتھا اعتدلت ولایلین لو لینتہ الخشب
(بچپن میں بچوں کی تربیت زیادہ آسان اور مفید ہے۔ اس عمر کے گزرجانے کے بعد تربیت زیادہ کار گر نہیں ہوتی ہےنرم ٹہنی کو جدھر چاہو موڑ دو مڑجائے گی موٹی لکڑی کو موڑنا چاہو تو نہیں مڑے گی۔)
اس عمر میں تعلیم و تربیت سے غفلت کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں،بلکہ بعض مرتبہ پوری عمر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ شیخ سعدی ؒ نے بہت ہی حکیمانہ انداز سے اس کی طرف تمثیل دے کر اشارہ کیاہے:
خشت اول چوں نہد معمار کج تاثیر یامی اود دیوار کج
(پہلی اینٹ اگر ٹیڑھی رکھی گئی تو دیوار جتنی بلند چاہیں کرلیں وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔)
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ بچے کی چھ سال کی عمر تک اس کا ۹۰ فیصد ذہن تشکیل پاجاتا ہے ۔ مشہور واقعہ ہے کہ نپولین بونا پارٹ کے پاس ایک عورت اپنے بچے کو لے گئی اور کہا کہ اس کی تربیت کریں یاا س کی تربیت کے گر بتائیں۔ نپولین نے عورت سے بچے کی عمر دریافت کی۔ عورت نے بتایا کہ اس کی عمر پانچ سال ۔ نپولین نے کہا: اس کو جو بننا تھا وہ بن گیا۔ اب میں اس کی کیا تربیت کروں۔
ممتا کے سائے میں بچپن
بچے کے ابتدائی چھ سال تعلیم و تربیت کے اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کا بیشتر وقت ماں کے پاس گزرتاہے۔ اس کے جذبات و احساسات اور ذہن و فکر کے بیش تر حصے کی تکمیل اس عمر میں ہوجاتی ہے۔اس مرحلے میں بچہ اپنا اکثر وقت گھر میں گزارتاہے۔ گھر کے اندر ہی اس کی ساری سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔ وہ ہر ضرورت کے لیے ماں کے پاس دوڑ کرآتاہے۔کھانے کی حاجت ہو تو ماں کو پکارتاہے۔ پیشاب پاخانہ کے لیے بھی ماں کو صدا لگاتاہے، کوئی تکلیف یا گزند پہنچے تو ماں کو یاد کرتاہے۔ ماں کے ارد گرد ہی اس کی زندگی گزرتی ہے۔ اگر ماں اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائے تووہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتاہے اور اس کااظہار رو کر کرتاہے ۔بچہ جب پہلے دن اسکول جاتاہے اور ماں اسے اسکول میں چھوڑ کر آجاتی ہے تووہ روتا اور چلاتاہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتاہے کہ اسے گھر بھیجنا پڑتاہے یا کچھ دیر بچے کی ماں کو اسکول میں روک کر رکھنا پڑتاہے۔ دھیرے دھیرے جب اس کے تعلقات دوسرے بچوں سے بڑھتے ہیں تو اس کا خوف کم ہوجاتاہے۔ اسی عمر میں ماں سے بچہ سب سے زیادہ سیکھتاہے۔ ماں جس قدر ذہین، زیرک اور سمجھدار اور تربیت یافتہ ہوگی ،بچے کی تربیت کے لیے فکر مند ہوگی ، اس قدربچے سے اپنے قرب و تعلق کو تربیت کا ذریعہ اور و سیلہ بناکر زیادہ موثر طریقے سے تربیت کرسکے گی۔
ماں سے جذباتی لگاؤ
یہ بات کہی جاتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اپنی ماں کو اس کے بوسے پہچان لیتا ہے۔بچے کے سامنے سب سے پہلی تصویر اس کی ماں کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلی شخصیت جس سے اس کا واسطہ پڑتاہے وہ ماں ہے۔ماں کو بھی بچے کی پیدائش کے فوراََ بعد اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو جلد اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ وہ ساری تکلیف بھول کر بچے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ اسے دیکھ کر شفقت و محبت سے مسکراتی ہے۔ پیار اور چاہت کے ساتھ اپنے سینے سے چمٹالیتی ہے۔ بچے کے لیے ماں کا سینہ اور اس کی گود مضبوط قلعہ ہوتاہے۔جہاں اسے ہر پریشانی اور الجھن سے عافیت و سکون ملتاہے۔ بچے کی ابتدائی عمر میں ۲۴ گھنٹے ماں ہی اس کی ہر ضرورت پوری کرتی ہے۔ اس کی غذا کی فراہمی، گندگی کی صفائی، خوشی کا سامان، اس کے کھیلنے کا موقع، سب ماں ہی فراہم کرتی ہے۔ بچے کے ساتھ کھیلتی ہے۔ اسے گدگداتی اور ہنساتی ہے۔ اسے غور و فکر کا آپشن بھی فراہم کرتی ہے۔ زیرک ماں بچے کی الفت و محبت اور اس کی جذباتی وابستگی کو برابر باقی رکھتی ہے اور اسے تربیت کے امور و معاملات میں استعمال کرتی ہے۔
اسکول کے ابتدائی ایام میں ماں اپنے سے بچے کی جذباتی وابستگی کے ذریعہ حکمت سے بچے کے اندر خود اعتمادی اور اپنی ذات کے بارے میں رائے قائم کرنے اور دوسروں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح بچہ دوسروں سے رشتہ قائم کرنے میں پُر اعتماد ہوتاہے۔
بچہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کی نقل کرتاہے
بچے ابتدائی عمر میں اپنے والدین سے بیش تر چیزیں سیکھتے ہیں۔ وہ عام طور پر نقالی کرتے ہیں۔خاص طور پر اپنی ماں کی جس سے اس عمر میں اس کا خاص تعلق اور انس ہوتاہے، یہاں تک کہ ماں جس طرح کی زبان استعمال کرتی ہے بچے اسی طرح کی زبان اور وہی اسلوبِ تخاطب اختیار کرتے ہیں۔ اخلاق کے معاملے میں بچے اپنی ماں کا عکس ہوتے ہیں۔ ماں کے اخلاق و معاملات کا بچے بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں اس کا اعادہ کرتے ہیں، اسی طرح ماں اخلاقی محاسن یا عیوب دونوں کوبچے کے ذہن میں ڈالنے والی ہوتی ہے۔ بعض مائیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کا بچہ بدزبان ہوگیاہے، بے ہودہ اور گندی باتیں کرتاہے ،معلوم نہیں یہ سب اس نے کہاں سے سیکھ لیاہے!حالاں کہ یہ غلط حرکتیں اور گندے الفاظ غیر محسوس طور پر خود ہی سکھانے والی ہوتی ہے۔جب وہ پڑوسن کی برائی کرتی ہے تو وہ دوسروں کی برائی کرنا سیکھ لیتاہے۔جب ماں پاس پڑوس کے لوگوں سے جھوٹ بولتی ہے تو وہ جھوٹ بولنا سیکھ لیتاہے۔ جب وہ شوہر سے جھگڑتی ہے اور گندے الفاظ استعمال کرتی ہے تو بچے ان گندے الفاظ اور جھگڑے کے اسلوب کو اپنے ذہن میں محفو ظ کرلیتاہے اور اپنے ساتھیوں پر موقع ملتے ہی استعمال کرتاہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2017