’مولاناسیدجلال الدین عمری کاخیال ہے کہ مولانا مودودیؒ کی تحریروںمیں شروع میں عقلی رنگ غالب رہا۔ اس کابہتر نمونہ ’رسالہ دینیات‘اور’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی‘جیسی کتب ہیں۔ ان میںمولاناعمری کے خیال میں اصلاً مولانا موودیؒ عقلی دلائل فراہم کرتے ہیں اور ضمناً اس کااستدلال قرآن و حدیث سے ہوتاہے۔ بعد میںمولانا صدرالدین و مولانا عروج قادری جیسے مصنفین کی تحریروںمیں ترتیب الٹ گئی ہے۔‘ ﴿زندگی نو،جون۲۰۱۱ء ﴾
مندرجہ بالاتحریر کااقتباس زندگی میں شائع شدہ ایک مضمون ’درس گاہ ثانوی کاتخیل- ایک اجمالی جائزہ‘ سے لیاگیاہے، جس کے لکھنے والے ڈاکٹر سیدعبدالباری شبنم سبحانی صدر ادارہ ادب اسلامی ہند ہیں۔ خود موصوف بھی درس گاہ ثانوی کے طالب علم رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس تحریر کے رقم کرنے اورتقابل کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔
یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مولانا مودودیؒ اول تا آخر داعی رہے ہیں۔ ان کی تمام تحریریں اقامتِ دین کی دعوت کے اطراف گھومتی ہیں۔ دعوت کاتقاضا جس بات کامتقاضی ہوتاہے، بات اِسی انداز میںکی جاتی ہے۔ جس دور میں مولاناؒ نے اپنا کام شروع کیاتھاوہ الحاد و دہریت کے غلغلے کا دور تھا۔ اشتراکی انقلاب کی ہرطرف دھوم تھی۔ مذہب کو دل سے نکال دیاگیاتھا اور لینن کا یہ قول زبان زد عام تھا ’مذہب افیون‘ ہے۔ اس کے سحر سے اچھے اچھے دانشور اور علمی شخصیتیں متاثر تھیں۔اس زمانے میں مذہب کا نام لینے والا سوسائٹی میں نکوبن جاتاتھا۔ جب مذہب ہی ناقابل اعتنا ہوتوقرآن و حدیث کی کیا اہمیت تھی۔ پڑھے لکھے مسلمان ہی نہیں ، بل کہ عام طبقے کی بڑی تعداد اس تحریک الحاد سے متاثرہورہی تھی۔ ان کالٹریچر ان کے اسٹڈی سرکل یہ زہر ہر وقت سوسائٹی میں گھوم رہے تھے۔ایسے دور میں اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ جیسی شخصیت کو اسلام کے داعی کی حیثیت سے کام کرنے کی توفیق بخشی۔ داعی کی اصل فکر یہ ہوتی ہے کہ مخاطب کے ذہن کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی دعوت کو قبول کرنے کی دعوت دے۔ جہاں خدا کاوجود ہی معرض بحث میں ہو، نبی عام انسانوں میں سے ہے مگراس کی صلاحیتیں اوروں سے بہت بلند وبالا ہوتی ہیں اور دوسرا انسان بھی اس کو کوشش کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔ جب خدا ہی نہیں تو اس کے کلام کو اس حیثیت سے تسلیم کرنے کا کیا سوال کہ وہ ابدی و غیرمتبدل ہے۔ آخرت کی کوئی حقیقت نہیں وہ ایک واہمہ ہے۔ اس دور کے سرخیل نیازفتحپوری جو اپنے پرچے ’نگار‘ کے ذریعے سے الحاد و دہریت کاخوب پرچار کررہے تھے۔ اُس وقت مولانا مودودیؒ نے ترجمان القرآن کا اجرائ کیا اور اپنے شمارۂ اول کے اشارات میں اس بات کا اظہارکیاکہ اس کامدیر خدا، رسالت اور آخرت پر یقین رکھتاہے اور ایمان بالغیب پر اس کا کامل یقین ہے۔ اس پر مدیر ’نگار‘نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھاکہ آج کا زمانہ بالتجربہ وشہود کاہے اور کون صاحب ہیں جو ایمان باالغیب پر اپنی فکرکی بنیاد رکھتے ہیں۔ اس پر انھوںنے کچھ سوالات پیش کیے۔ انھوںنے لکھا ’میں ان کو دعوت دیتاہوںکہ وہ سب سے پہلے وحی والہام کی حقیقت پرگفتگوکریں کہ اس کے سمجھنے پرکلام اللہ کی حقیقت کاسمجھنا منحصر ہے اور مسئلہ معاد کو لیںکہ اسی کے حل ہونے پر انحصار مذہب و لامذہبیت ہے۔ اس سے پہلے ان کایہ تبصرہ تھا ’پہلے اگر خدا کی وحدانیت سے بحث کی جاتی تھی تو اب سرے سے خدا کاوجود ہی محل نظربتایاجاتاہے۔ اگرپہلے رسول کی ہدایت اس کے معجزوںسے ثابت کی جاسکتی تھی تو اب ’علوم مقناطیسیہ‘ انھی معجزوںکی دلیل پرہزاروںرسول و نبی پیداکرنے کے لیے آمادہ ہیں، پہلے ایک واعظ آسمان کی طرف دیکھ کر عرش و کرسی والے خدا کو پکارتاتھا، لیکن آج جب کہ آسمان ہی کوئی چیز نہ رہا،اس کاایساکرناکسی طرح مفیدیقین نہیں ہوسکتا۔ نیاز فتح پوری کے اِس نقطۂ نظر پر مولانانے نہایت بصیرت افروز تبصرہ اور ایک جگہ لکھتے ہیں:
’خود تجربہ ومشاہدہ اس پر گواہ ہے کہ یہ زمانہ بھی اسی طرح ایمان باالغیب کاہے جس طرح گزشتہ زمانہ تھااور ایمان باالغیب جس چیزکانام ہے، اس سے انسان کو نہ کبھی چھٹکارا ملاہے نہ مل سکتاہے۔ ہر شخص اپنی زندگی کے ۹۹۹ فی ہزار بل کہ اس سے زیادہ معاملات میں ایمان باالغیب لاتاہے اور لانے پر مجبور ہے۔ اگروہ یہ عہد کرلے کہ صرف اپنے تجربہ ومشاہدے پر ہی ایمان لائے گا تو اس کومعلومات کا وہ تمام ذخیرہ اپنے دماغ سے خارج کردینا پڑے گا جسے دہریوںپر اعتماد کرکے اس نے مقام علم و یقین میںجگہ دی ہے۔اکتساب علم کے ان تمام ذرائع کامقاطعہ کردینا پڑے گا جو خود اس کے اپنے تجربہ و مشاہدے سے ماسوائ ہیں اور یہ ایسی حالت ہوگی جس میں وہ زندہ ہی نہ رہ سکے گاکہ اثبات نہ اس زمانے میں ممکن ہے اور نہ اس سے بھی زیادہ کسی اور زمانے میں ہونے کی توقع ہے۔ لامحالہ ہرزمانے اور ہر حالت میں انسان مجبور ہے کہ اپنے ذاتی تجربہ ومشاہدے کے بغیر بہت سی باتیںمحض دوسروں کے اعتمادپر مان لے۔ جیسے یہ کہ سنکھیا کھانے سے آدمی مرجاتاہے درآں حالے کہ ہرشخص نے نہ خود سنکھیا کھاکر اس کاتجربہ کیا نہ کسی کو کھاکرمرتے ہوئے دیکھا۔‘
اس مضمون نے نیازصاحب کو لاجواب کردیااور انھوںنے نہ صرف مناظرہ کرنا بند کردیا، بل کہ اپنے پرچہ ’نگار‘ کاتبادلہ ترجمان القرآن سے بند کردیا۔ یہ واقعہ ۱۹۲۳ء کاہے۔ اس پر مولانا نے نوٹ لکھاکہ’مگرعلمی طریقے پر باقاعدہ اور اصولی بحث کاجب موقع آتاہے تو ان کا پائے چوبیں بے تمکین ثابت ہوتاہے۔‘ تجدد کاپایہ چوبیں کے عنوان سے یہ مضمون مولانا کی کتاب ’تنقیحات‘ میں شامل ہے۔ وہ دیکھاجاسکتا ہے۔
اس طویل خامہ فرسائی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ڈاکٹرسیدعبدالباری صاحب جان لیں کہ اس وقت کیا ماحول تھا اور بات کس طرح کی جانی چاہیے تھی۔ کتاب تنقیحات میں اور بھی مضامین ہیں جو مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ اس میں مولانا محترم نے نہایت پرزور انداز میں قرآن و حدیث سے دلیل فراہم کی ہے اور امت کو عمل اور اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان کایہ اندازآخروقت تک قائم رہا۔ کسی مرحلے کے لٹریچر کو دیکھ لیجیے انھوںنے عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ قرآن وحدیث کو پرزور انداز میں پیش کیا ہے، جس شخص نے عام آدمی کو قرآن وحدیث سے وابستہ کیاہو اور قرآن کے درس کے حلقوں کاعوامی سطح پر اہتمام کیاہو،اس کے تعلق سے یہ اظہارکہ وہ کبھی قرآن و حدیث کو ضمناً پیش کرتے ہیں نہایت غلط ہے۔ صاحب مضمون نے اپنی بات کی دلیل میں رسالہ دینیات کاحوالہ دیاہے۔ وہ ۱۹۳۷ء کی تصنیف ہے، جودور الحاد ہے۔اس سلسلے میں ۱۹۶۰ء کے دیباچہ میں مولانا رقمطرازہیں:
’میں نے اس میں قرآن مجید کی تعلیمات کاخلاصہ پیش کیاہے اور قرآن مجید ہی کے طرز استدلال کی پیروی کی ہے۔‘
اس کے بعدڈاکٹر صاحب کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے اور مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا عروج قادری جیسے روایتی علماء سے اُن کاتقابل نہ کرناچاہیے۔
مولانامودودی کی دعوتی سرگرمی کاایک اور دوسرا پہلو بھی ہے جوانھیں اپنے دور کے علماء سے ممتاز کرتاہے۔ وہ قرآن وحدیث کے احکام کا موجودہ دورکے حالات پر انطباق کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں مولانامحترم کی کئی کتابیں ہیں، جن میں قابل ذکر ’الجہاد فی الاسلام‘ ، ’سود‘، ’مرتد کی سزا‘، ’پردہ‘ اور ’مسلمان اورموجودہ سیاسی کشمکش، مسئلہ قومیت‘ ﴿جواب تحریک اسلامی ہند اور مسلمان کے نام سے پاکستان سے شائع ہوئی ہے﴾ اور رسائل و مسائل ہیں۔ اس میں مولانانے عقلی دلائل کے ساتھ قرآن و حدیث کو بھی پیش فرمایا۔ بعض مسائل میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کیاجارہاتھا۔ خصوصیت سے جہاد اور متحدہ قومیت کے سلسلے میںاور اس کی تاویلیں کی جارہی تھیں۔ اس سلسلے میں مولانا نے پرزورانداز میں جہاد کی حقیقت اور متحدہ قومیت کی غیرمعقولیت کو واضح کیااور ہمارانوجوان طبقہ جو انگریزی تعلیم یافتہ تھااور غیرضروری طورپر مرعوب تھا اس کی حقانیت کو معلوم کرکے مطمئن ہوا اور دوسرے کو قائل کرنے کے موقف میں آیا۔جو صاحب ہماری اس بات کی تصدیق کرناچاہتے ہوںوہ مولاناؒ کی کتاب کامطالعہ کریں جس کاہم نے حوالہ دیاہے۔ مضمون کی طوالت کی وجہ سے ہم اس کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ کتابیںمسلسل چھپ رہی ہیں۔ آسانی سے دستیاب ہیں۔ مضمون کو ختم کرنے سے پہلے قارئین کو ہم یہ یاد دلاتے چلیں کہ مولانا مودودیؒ نے منطقی، مدلل اور جدید اسلوب اپنی تحریروںمیںاختیار کیا ہے جس کامطالعہ دل و دماغ کو اپیل کرتاہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011