محترمی و مکرمی ایڈیٹر صاحب, السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
گذشتہ شمارے (فروری 2023)میں اداروں کے حوالے سے قلمی مذاکرہ ایک دل چسپ اور عمدہ کوشش ہے۔ اس طرح کا مذاکرہ اس عنوان کے مزید پہلوؤ ں پر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً :
جماعتی اداروں کا مینجمنٹ، چیلنج اور حل
ادارے اقامت دین کے لیے معاون یا رکاوٹ
اداروں کو اقامت دین کی اکائیاں کیسے بنائیں
ان ذیلی عناوین کے علاوہ دیگر موضوعات، جو تحریک اسلامی کے لیے معاون ثابت ہو سکتے ہیں، پر بھی مذاکرے کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً:
جماعتی نظم میں بنیان مرصوص اور اس صفت کو مستحکم بنانے کی تدابیر
جماعتی زندگی میں امارت اور مشاورت
جماعتی نظم اور دیگر ملی اور سماجی اداروں سے باہمی ربط و تعلق ، وغیرہ۔
امید ہے کہ مذکورہ مذاکرے میں امیر جماعت کے صدارتی کلمات اس تعلق سے افراد وجماعت کے درمیان عدم ہم آہنگی کو دور کرنے میں مفید ثابت ہوں گے۔ بعض پہلوؤں پر امیر جماعت سے مزید رہ نمائی کی ضرورت ہے، مثلاً ، رفقائے جماعت کے درمیان آج بھی اس موضوع پراطمینان نہیں پایا جاتا ہے کہ ادارے کس طرح اقامت دین کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور کیوں کر اداروں کا قیام اقامتِ دین کی جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہے۔
موجودہ دور کی ترقی یافتہ ریاستوں اور ان کی حکومتوں پر نظر ڈالیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حکومت کا رول ایک ریگولیٹری باڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے علاوہ آج کی ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں میں متنوع معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا کام یا تو پرائیوٹ ادارے انجام دیتے ہیں یا پھر غیر سرکاری ادارے ، جنھیں نان پرافٹ آرگنائزیشن (این جی اوز )بھی کہا جاتا ہے، سول سوسائٹی کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔
آج کی ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں اور مدینہ کی اسلامی ریاست میں چند امور مشترک محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً اس زمانے میں سماج کا ایک اہم ادارہ مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ مدینہ کی انتظامیہ کے تحت مارکیٹ آزاد تھی تاہم اس کو مدینہ کی اسلامی انتظامیہ ریگولیٹ کرتی تھی۔ آج ہمارے ملک میں قائم ریگولیٹڈ مارکیٹیں، جنھیں اے پی ایم سی یارڈ بھی کہا جاتا ہے، بڑی حد تک مدینہ مارکیٹ سے مماثلت رکھتی ہیں۔ یہاں اس بات کو واضح کرنا مقصود ہے کہ اقامت دین کا ماڈل نہ تو اشتراکی نظریے کی حامل حکومتوں جیسا ہوگا، جس میں سارے اداروں کو حکومت اپنی تحویل میں لے لیتی ہے، نہ مطلق العنانی ( ڈکٹیٹر شپ) والا انداز ہوگا اور نہ ہی بادشاہی انداز، بلکہ اس ماڈیول میں بھی سول سوسائٹی اور پرائیوٹ اداروں کو باشند گان ملک کی خیر خواہی کے لیے کام کرنے کا پورا اختیار حاصل رہے گا۔ چناں چہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کی جانب سے قائم ادارے گویا اقامت دین کی اکائیاں ثابت ہوں گے۔
مذاکرے کے دوران بعض شرکانے کچھ زیادہ زور تعلیمی اداروں پر دیا ہے اور تعلیمی اداروں کو اپنا محور بنایا ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اداروں سے مرادصرف تعلیمی ادارے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مصروف محتلف النو ع ادارے ہماری گفتگو کا محور و مرکز ہوں، خواہ وہ بلا سودی مالی ادارے ہوں یا کاروبار کو فروغ دینے والے ادارے، یا پھر صحت اور تعلیم کے میدان میں سرگرم عمل ادارے ۔ تمام ادارے اقامت دین کی سرگرمی کا اہم حصہ ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی تنظیم ہیومن ریسورسز (انسانی وسائل) تیار کرتی ہے جو اقامت دین کے لیے بہترین اور کارگر کل پرزے ثابت ہوتے ہیں، اس لیے کہ ان کے پیش نظر مادی مفاد نہیں ہوتا ، بلکہ رضائے الہٰی مقصود ہے ۔ اگر کوئی فرد رضائےالہٰی کو اپنا مقصود بنا لیتا ہے تو اس کے اندر جو اخلاص اور حرکت عمل پیدا ہو تی ہے، وہ کسی بھی ادارے کو کام یاب بنانے کے لیے بنیادی اوصاف فراہم کرتی ہے۔ ایسے تربیت یافتہ افراد، چاہے جماعت کے فیصلوں کے تحت ادارے چلائیں یا ان کے گروپ مل کر کسی ادارے کو قائم کریں ، یہ دونوں اقامت دین کے اظہار یے ہو سکتے ہیں۔ ان اداروں میں عدل و انصاف، انسانی فلاح و بہبود، رضائے الہٰی،ان اداروں میں افراد کے درمیان باہمی تعلقات اونچے درجے پر ہوتے ہیں اور ہمیشہ ان اداروں کو حسن کے اعلی درجے پر لے جانے کی مسلسل تگ و دو جاری رہتی ہے۔ اسی تگ و دو میں اداروں کے افراد کی مندرجہ ذیل تین ضروریات کو بدرجہ اولی پیدا کرنے کی مسلسل ٹریننگ ہوتی ہے:
متعلقہ میدان کا علم (knowledge)
علم کے مطابق افراد میں ہنر مندی پیدا کرنا (skill)
علم اور ہنر حاصل کرنے کے بعد اگر افراد میں رویہ (attitude) مناسب نہ ہو تو پھر افراد کا معاشرے کے ساتھ رابطہ ویسا نہیں ہوتا جیسا کہ ایک اسلامی ادارہ یا اقامت دین کے مقاصد کا حامل ادارہ چاہتا ہے۔ ہمارے اداروں میں ان تین صلاحیتوں کے اعتبار سے کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ اور کمیوں کو دور کرنے کے لیے ٹریننگ کا کوئی خاص انتظام ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے، حالاں کہ تحریک کےپاس اتنےوسائل موجود ہیں کہ وہ ان تینوں میدانوں میں ٹریننگ کا باضابطہ اور معقول انتظام کر سکتی ہے۔
بہر حال اس موضوع کے تحت اور بھی گفتگو ہونی چاہیے ۔ ماہرین اس میں حصہ لیں اور رفقا کے درمیان اداروں کے مختلف حوالوں سے فکر ی یکسانیت نہ سہی،ہم آہنگی ضرور پیدا ہونی چاہیے۔
— سید تنویر احمد, ڈائرکٹر، مرکزی تعلیمی بورڈ
مشمولہ: شمارہ مارچ 2023