دنیا کے بڑے مذاہب میں عورتوں کے حقوق

اخلاق حسن معاشرت کا دوسرا نام ہے ، سماج میں اخلاق کی جو اہمیت ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا سماج میں اچھائی اور خیر کا وجود ہو اور برائی دور ہو یہ اخلاق کا تقاضا ہے ۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اسکا تعلق چیزوں سے اور لوگوں سے قائم ہوتا ہے۔ اسی تعلق سے حقوق عائد ہوتے ہیں۔  اخلاق کا مقصود حقوق کی ادائیگی کی تربیت  ہے۔

اخلاق کا تعلق مذہب ، سماج اور فلسفہ  سے ہے ، فلسفہ میں افکار و نظریات پر بحث ہوتی ہے  ، فلسفہ آدمی کو اخلاقی نقطۂ  نظر تو دے سکتاہے  ، مگر اس کے باطن کی تربیت نہیں کر سکتا ، یہاں پر مذہب  اخلاقی نظام کی کرن لے کر آتا ہے، وہ آدمی کے ظاہر و باطن کی تطہیر کرتا ہے اور معاشرہ میں پاکیزگی کے مظاہر جلوہ گر ہوتے ہیں ۔مذہب اور اخلاقیات کو کوئی انسان نمائیش کے طور پر اختیار کرتا ہے تو وہ ان سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

اخلاقیات کو جب مذہب کی سند مل جاتی ہے تو انسان میں عمل کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ، اخلاق کا مظہر یہ ہے کہ عملی زندگی صالح ہو۔معاشرے میں جو برائیاں ہیں ان کا سبب یہ ہے کہ اخلاق اور مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے  انسان مادی آسائشوں کو سب کچھ سمجھنے لگاہے ۔مذہب زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتا ہے جن میں سماجی نظام شامل ہے۔ انسانی  فرائض کاادا کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔ حقوق کی پاس داری لازم ہے چاہے عورتوں کے ہوں یا  مردوں کے ، مذہب میں سب کے حقوق متعین ہیں۔ عورت کو قدیم زمانے میں بھی اور اس ترقی یافتہ دور میں بھی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی کیا حالت رہی ہے اس پر سر سری نظر ڈال لی جائے۔

  مختلف طبقات اور معاشروں میں عورت کی حیثیت

ڈاکٹر خالد علوی کے  بقول

’’ یہ بات مسلم ہے کہ عورت معاشرے میں ایک ایسا نا گزیر عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ سماجی اور تمدنی اصلاح و بقاء کا انحصار تقریبا اسی نوع کی حیثیت  پرہے ۔ عورت کی حیثیت ، اسکا کردار و عمل اور اسکی حیات بخش صلاحیتیں معاشرے کے عروج و زوال کا سامان ہیں ‘‘۔  (۱)

عورت و مرد نوع انسانی کے دو جزء ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو مستلزم ہیں انسانی معاشرے کو اگر گاڑی سے تشبیہ دی جائے تو مرد اور عورت اس گاڑی کے دو پہئے ہیں ۔ افسوس ہے کہ اکثر عورت  ظلم کا شکار رہی ہے اور اپنے حقوق سے محروم رہی ہے ۔

یونان

قدیم یونانی معاشرت میں عورت کی حیثیت اچھی نہ تھی وہ حقوق سے محروم تھی۔ ان کے اساطیری ادب میں  عورت کو انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا ۔ عورت کی خرید و فروخت ہوتی تھی یعنی  اشیاء ضرورت کی مانند بکتی تھی۔ عورت کا کسی چیز پر  اختیار نہ تھا۔ اپنے  معاملات میں تصرف کی مجاز نہ تھی بلکہ دوسروں کی دست نگرتھی۔ یونانی سوسائٹی میں عورت کی کوئی وقعت اور کوئی مقام نہ تھا ۔ یونانی اپنے دور عروج میںبھی  اخلاقی خرابیوں کا شکار تھے ۔مرد اخلاقی حدود سے آزاد تھے ۔ تاریخ اخلاق یورپ میں عورت کی حیثیت کے بارے میں ہے۔

’’ بحیثیت مجموعی با عصمت یونانی بیوی کا مرتبہ انتہائی پست تھا۔ اس کی زندگی غلامی میں بسر ہوتی تھی لڑکپن میں اپنے والدین کی ،جوانی میں اپنے شوہر کی ، بیوگی میں اپنے فرزندان کی وراثت میں ہوتی تھی۔ اس کے مقابلے میں  مرد کا حق ہمیشہ راجح سمجھا جاتاتھا۔ طلاق کا حق اسے قانونا ضرو ر حاصل تھا تا ہم عملا وہ اس سے  فائدہ نہیں اٹھا سکتی تھی کیوں کہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس و حیا کے منافی تھا‘‘۔(۲)

 روما

قدیم رومیوں کے یہاں بھی عورت کی کم و بیش یہی حالت تھی جو یونانیوں کے یہاں تھی۔ عورت کو قیدی کی حیثیت سے رکھا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ رحم کا معاملہ نہیں کیا جاتا تھا ،  مودت و محبت کا برتائو نہیں ہوتا تھا۔ نظام معاشرت میںمرداپنے خاندان پر مکمل اختیار رکھتا تھا یہاں تک کہ بعض اوقات اسے اپنی بیوی کو قتل کرنے کا بھی اختیار ہوتا تھا ۔ عورت خاندانی نظام میں قید تھی۔ وہ گوشت نہیں کھا سکتی تھی، گوشت صرف مردوں کی غذا تھی چنانچہ مذکورہ کتاب میںہے: ’’عورت کا مرتبہ رومی قانون نے عرصہ دراز تک نہایت پست رکھا۔ افسر خاندان جو باپ ہوتا تھا یا شوہر اسے اپنے بیوی بچوں پر پورا اختیار تھا وہ جب چاہے عورت کو گھر سے نکال سکتا تھا ‘‘(۳) غلاموں کی طرح عورت کا مقصد بھی خدمت اور نوکری و چاکری تھی ۔مرد اس سے اس لئے شادی کرتا تھا کہ اس سے فائدہ اٹھا سکے ۔ غرض کہ عورتیں ہر طرح کے حقوق سے محروم تھیں ۔

ایران

یونان وروم کی طرح ایران بھی ایک قدیم تہذیبی مرکز رہا مولانا  ابو لحسن ندوی کے بقول ۔

’’ متمدن دنیا کی تولیت و انتظام میںایران روم کا شریک تھا لیکن بد قسمتی سے وہ دشمن انسانیت   سرگرمیوں کا پرانا مرکز تھا۔ وہاں کی اخلاقی بنیادیں زمانہ دراز سے متزلزل چلی آرہی تھیں۔ جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات دنیا کے متمدن و معتدل علاقوں کے باشند ےہمیشہ نا جائز اور غیر قانونی سمجھتے رہے ہیں اور فطری طور پر اس سے نفرت کرتے ہیں ایرانیوں کو ان کی حرمت و کراہت تسلیم نہیں تھی ۔

یزدگرد دوم جس نے پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں حکومت کی اس نے اپنی لڑکی کو زوجیت میں رکھا پھر قتل کردیا ۔ بہرام جو چھٹی صدی عیسوی میں حکمراں تھا اس نے اپنی بہن سے ازدواجی تعلق رکھا ‘‘  (۴)

ایران میں مختلف خیالات کے حکمراں ہوئے۔ کسی نے عورت کو تباہی و بربادی کا سبب مانا  ، کسی نے مساوات و اشتراکیت کی بنیاد پر عورتوں کو سب کے لئے حلال قرار دے دیا اور مثل آگ ، پانی اور چارہ کے مشترک اور عام کردیا ۔الغرض ایران میں عورتوں کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا حتیٰ کہ نوشیرواں عادل کے زمانے میں بھی   بے رحمی کا سلوک کیا جاتا تھا ۔

 یہودیت اور عورت

یہودیت کا شمار دنیا کے بڑے مذاہب میں ہوتا ہے یہودی بزعم خود اللہ کی منتخب قوم ہیں  ۔ اس مذہب کی بعض روایات کے نزدیک عورت بد طینت اور مکار ہے کیوں کہ اس نے آدم ؑ کوبہلا پھسلا کر ممنوعہ پھل کھانے پر آمادہ کیا ۔ عہد نامہ قدیم میں ہے کہ ’’ جب اللہ نے آدم سے پوچھا کہ کیا تو نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس کی بابت میں نے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا تو آدم نے جواب دیا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھا لیا ‘‘ ۔(۱۰) تو اس حرکت پر اللہ نے اس کو ( حوا) کو مخاطب فرمایا کہ ’’ میں تیرے حمل کو بہت بڑھائونگا تو درد کے سا تھ بچہ جنے گی ا ور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا  ‘‘ ۔ (۱۱)

گویا حوا نے ہی آدم کو گمراہ کیا اس لئے اسے اس جرم کی سزا یہ ملی کہ وہ حمل اور ولادت کےعمل میں  تکلیف کا سامنا کرے گی اور ہمیشہ مرد کی محکومیت میں رہے گی ۔ چنانچہ یہودیت میں عورت کو کسی غلام و محکوم سے بڑھ کر نہیں مانا گیا ہے۔ عورت مکمل طور پر مرد کی دست نگر ہے۔ وہ مرد کی مرضی کے بنا کوئی کام نہیں کر سکتی ، مرد جب چاہے اس کو گھر سے نکال دے ۔ مہر کے علاوہ عورت کسی چیز کی حقدار نہیں، وراثت میں بھی عورت کا نمبر پوتوں کے بعد آتا ہے ، مرد وارث کی صورت میں وہ محروم رہے گی ۔ ( ۱۲ )

یہودی قانون و شریعت میں عورت کو ناپاک تصور کیا گیا ہے اور اس دنیا کی آفات و مصائب کا سبب عورت کو مانا گیا ہے ۔

عیسائیت اور عورت

عیسائیت میں بھی عورت کے ساتھ بے جا سلوک کیا گیا۔  عیسائیت کی روش عورت کے ساتھ   ناپسندیدہ تھی۔ عیسائیت نے اس کی تحقیر و تذلیل کی اور اسے انسانیت کا مجرم قرار دیا ہے۔ ان کے نزد یک عورت برائی اور مصیبت کی جڑ ہے عیسائی نقطہء نظر کا اندازہ طرطولین کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے ۔

’’  عورتو تم میں سے ہر ایک حوا ہے خدا کا فتویٰ جو تمہاری جنس پر تھا وہ اب بھی تم میں موجود ہے تو پھر جرم بھی تم میں موجود ہوگا تو تم شیطان کا دروازہ ہو۔ تم ہی نے آسانی سے خدا کی تصویر یعنی مرد کو ضائع کیا  ‘‘ ۔ (۱۳)

سینٹ پال کا قول ہے   ’’ عورت کو چپ چاپ کمال تابعداری سیکھنا چاہئے اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے اور مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ چاپ رہے کیوں کہ پہلے آدم بنایا گیا اس کے بعد حوا ، اور آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھاکر گناہ میں گئی  ‘‘ ۔ ( ۱۴ ) کرائم سوسٹم کی رائے عورت کے بارے میں  یہ ہے کہ ’’ عورت ایک نا گزیر برائی ، ایک پیدائشی وسوسہ ، ایک مرغوب آفت ، ایک خانگی خطرہ ،ایک آراستہ برائی ہے ‘‘ ۔ (۱۵ ) مسیحی اخلاقیات میں تجرد اور صنفی تعلقات سے کنارہ کشی ہی اصل کمال تھا  ۔جتنے قوانین بنے ان میں عورت کی حیثیت کو پست رکھنے کی کوشش کی گئی  ، وراثت و ملکیت میں اس کے حق محدود رہے وہ خود اپنی کمائی پر مختار نہیں تھی ہر چیز کا مالک مرد تھا ، طلاق و خلع کی اجازت نہیں تھی۔ مذہب اور قانون کی وجہ سے نکاح کا تعلق نا قابل انقطاع تھا ، مسیحی دنیا میں عورت کی زندگی ایک بے بس مخلوق اور مرد کے ہاتھ محض کھلونے کے سوا کچھ نہ تھی ۔

اسلام اور عورت

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل پورے عالم میں عورت کا وجود  باعث عار تھا ۔اگر کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی تو یہ بات باپ کے لئے باعث عیب اورباعث عار خیال کی جاتی تھی۔ جاہل لوگ سسرالی رشتہ کوکمتر سمجھتے تھے ، سنگدل باپ بیٹی کی پیدائش پر چیں بجبیں ہو جاتا تھا۔ لوگ اسی ذلت و شرم کا داغ اتارنے کے لئے بیٹی کو زندہ در گور کر دیتے تھے ۔ اسلام نے عورتوں کو وہ نظام زندگی عطا کیا جس نے طبقۂ نسواں کو مردوں کے ساتھ حقوق دئے  اسلام نے  عورتوں اور مردوں کو  سہولیات سے نوازا ہے ۔

قرآن کریم کہتا ہے کہ عورت اور مرد کو اللہ نے ایک ہی جان سے پیدا کیا ۔ ارشاد باری ہے ’’ اللہ نے تم سب کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا ‘‘ ۔( النساء:۱)یہ آیت ان لوگوں کے خیال کی تردید کرتی ہے جو عورت کو انسان تصور نہیں کرتے ۔ قرآن میں ارشاد ہے ’’ اور جو کوئی نیک کام کریگا مرد ہو یا عورت اور صاحب ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذر ا  بھی ظلم نہیں ہوگا ‘‘ ۔ ( النساء : ۱۲۴) قرآن نے مردوں کے ساتھ عورتوں کے حقوق بیان کئے عورتوں کو فراموش نہیں کیا بلکہ انہیں معاشرے کا ایک اہم حصہ سمجھتے ہوئے حقوق کا مستحق قرار دیا ۔ ارشاد ہے ’’ اور عورتوں کے لئے اسی طرح حقوق مردوں پر ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں ‘‘۔ ( البقرہ )

اسلام نے  ہر طرح کے حقوق میں عورتوں کو شریک کیا انہیں محروم نہیں رکھا مثلاً  حق وراثت ، حق نکاح ، حق خلع ، حق تعلیم وغیرہ ۔اسلام نے ان  بدعات و رسومات کا  خاتمہ کیا  جو قبل از اسلام عورتوں سے متعلق رائج تھیں جیسے ایام حیض میں عورت  کسی کے پاس بیٹھ نہیں سکتی ، گھر سے باہر نہیں جا سکتی وغیرہ ۔  اسلام نے عورت کو بلند مقام عطا کیا  جب ماں کی شکل میں ہوتی ہے تو جنت کی کنجی بن جاتی ہے۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق و فرائض کی حفاظت اس طرح فرمائی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔

حواشی

(۱) علوی، ڈاکٹر خالد علوی ، اسلام کا معاشرتی نظام ،  الفیصل ناشران و تاجران اردو بازار ، لاہور ، ص  ۴۶۱۔

(۲) لیکی، لیکی رومی ، تاریخ اخلاق یورپ ، ترجمہ از عبد الماجد بی ، اے، مسلم یونیورسٹی پریس علی گڑھ ( ۱۹۲۸) ج ۲ ص ۱۹۰۔

(۳) ایضا ، ص ۱۹۳ ۔

(۴) حدوٹی، مولانا محمود الرشید حدوٹی ، اسلام اور عورت ، تحقیق و تصنیف ، لاہور (۲۰۰۱) ص ۱۱ ۔

(۵) بان ، گستائولی بان ، تمدن ہند ترجمہ از سید علی بلگرامی ، مطبوعہ شمشی آگرہ ( ۱۹۱۳) ص ۲۳۶۔

(۶) منو ، منو سمرتی ، ادھیائے ۹ ، منتر ۱۷ ۔

(۷) ایضا ، ادھیائے ۵ ، منتر ۱۴۷ ۔

(۸)ایضا ، ادھیائے ۹ ، منتر ۱۰۴ ، ۱۰۵ ۔

(۹) تمدن ہند ، ص ۲۳۸  ۔

(۱۰)  کتاب پیدائش ، ب ۳ ، آیت ۱۱ ۔

(۱۱) ایضا ، آیت ۱۶ ۔

(۱۲ ) انسائیکلو پیڈیا آف برناٹیکا ، مقالہ یہودیت ۔

(۱۳) اسلام کا معاشرتی نظام ، ص ۴۶۶ ۔

(۱۴)  ایضا ، ص ۴۶۶ ۔

(۱۵)  کرائم سوسٹم ، کرنتوں کے نام پہلا خط ،ب ۱۱  ، آیت ۳ تا ۱۰ ۔

(۱۶) انسائیکلو پیڈیا آف ریلی جن ، بدھ مت۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau