۶/اپریل ۲۰۱۱ کو ہم سب کے مونس و مشفق محترم محمد شفیع مونسؒ اِس جہانِ فانی کو خیرباد کہہ کر کبھی نہ ختم ہونے والی دنیا کی طرف رخصت ہوگئے۔ اِس خبر نے ایک خاندان یا جماعت نہیں بل کہ انسانوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر و متاسف کیا۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں نے اِسے اپنے نشریوںاور اشاعتوں میںجگہ دی۔ ہر مکتبِ فکر اور ہر سطح کے مذہبی، سیاسی اور سماجی قائدین نے اِس خبرکو بڑے دکھ کے ساتھ پڑھا، سُنا اور اس پر اپنے دِلی رنج و غم کا اِظہار کیا۔ تعزیتی جلسوں اور نشستوں کا سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے اور مختلف اخبارات و جرائد کے ذریعے مسلسل ان کی رپورٹیں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ اِس سے جہاں محترم محمد شفیع مونسؒ کی مقبولیت اور ہردل عزیزی کااندازہ ہوا، وہیں اس بات کا بھی پتاچلاکہ تحزب، تعصب، گروہ بندی اور مسلک و جماعت پسندی کے اِس دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو شخصیتوںکوجماعتوں ،مسلکوں اورعلاقوںکے آئینے میں دیکھنے اور پہچاننے کی بہ جاے ان کی خدمات اور کارناموں کو سامنے رکھ کر ان کی تعیین قدر کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ رویہ ملت اسلامیہ کے لیے نہایت مسعود و خوش آیندہے۔
محترم شفیع مونس ۴۴۹۱ میںجماعت اسلامی سے وابستہ ہوے۔ وہ اس کے مختلف اہم اور ذمہ دارانہ مناصب پرفائز رہے۔ اُنھوںنے غازی آباد کے امیرِ مقامی کی حیثیت سے بھی جماعت کی خدمت انجام دی اور دہلی ،پنجاب، آندھرا پردیش اور اترپردیش کے حلقوں کی امارت بھی اُنھیں تفویض رہی، کل ہند سطح پر وہ قیم جماعت و معاونِ قیم جماعت بھی رہے۔متعدد بار نائب امیر جماعت بھی انھیں مقرر کیاگیا اور تادمِ آخرجماعت کی مجلس نمایندگان و مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے۔ غرض کہ ان کی پوی زندگی جماعت اسلامی سے وابستہ رہی اور یہی وابستگی ان کی شناخت تھی۔ وہ جہاں اور جس حلقے میں بھی جانے جاتے رہے، جماعت اسلامی سے تعلق و وابستگی کے حوالے سے جانے جاتے رہے۔ لیکن اپنی اِس حیثیت کو انھوں نے ہمیشہ خدمت دین کا ذریعہ خیال کیا۔ کبھی اور کسی مرحلے میں اُنھوں نے ان عہدوں اور مناصب کو وجہ کمال و تفاخر نہیں سمجھا اور نہ کبھی انھوں نے جماعت کے کام سے نہ جڑنے والوں کو کم تر یا حقیر خیال کیا۔
حضرتِ مونسؒ کی پوری زندگی سادگی و خاکساری سے عبارت تھی۔ میں سمجھتاہوں جیسے جیسے ان کی خدمات اور تحریکی جدوجہد کے پیش نظر انھیںبلند جماعتی مناصب ملتے رہے،ان کی عبادت و ریاضت، زہد و اتقا اور انابت و رجوع الی اللہ میں بھی اضافہ ہوتارہا۔ علما و صلحا کا ادب و احترام اور حسب موقع ان سے استفادہ ان کا مزاج تھا۔ انھوںنے ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم سمجھا اور اسی حیثیت سے وہ ہمیشہ اور ہر مجلس میں خود کو پیش کرتے تھے۔ ایک حلقے کے بہت بڑے عالم دین و مبلّغ نے ایک مجلس میں بتایاکہ‘‘ ایک بار میں ضلع مظفرنگر کے ایک مقام پر تقریر کے لیے گیاہواتھا، وہاں پتاچلاکہ جلسے کے منتظمین نے اپنے ذاتی و علاقائی تعلق کی وجہ سے جماعت اسلامی کے ریاستی ذمے دار مولانا محمد شفیع مونس کو بھی مدعو کیاہے۔ مجھے اِس خبر سے بے حد تکدر ہوا۔ میں نے وہاں موجود ایک دو افراد کے سامنے بھی اپنی ناگواری کا اظہار کیا۔ اُن میں سے ایک صاحب نے کہاکہ ’’مولانا! یہ بات تو درست ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے سربراہوں میں ہیں، لیکن جماعت اسلامی والوں کی جو تصویر آپ کے ذہن میں ہے، مولانا شفیع مونس اس سے مختلف ہیں۔ جب آپ ان سے ملیں گے تو خوش ہوں گے۔ وہ نہایت وسیع النظر، متواضع، خلیق، ملنسار، صاحب تقوی اور عابد وزاہد شخص ہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد جب وہ تشریف لائے، اور میں نے جلسے میں ان کی مختصر سی تقریر سنی،جلسے کے بعد مختلف موضوعات پر ان کی سنجیدہ گفتگو سنی، انھی کے ساتھ رات گزاری اورفجر سے بہت پہلے دبے پاؤں اُنھیں تہجد کے لیے مسجد جاتے دیکھا تو نہ صرف یہ کہ ان صاحب کی بات کی تصدیق ہوئی، میں ان کا معتقد و معترف ہوگیا۔ جب بھی میرا لکھنؤیا دلّی جانا ہوتاہے اور پتا چلتاہے کہ وہاں وہ موجود ہیں تو چل کر ان سے ملاقات کی کوشش کرتاہوں۔‘‘
ہمارے حلقے کے نام ور و دانش ور وناقد پروفیسر عبدالمغنی نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’جناب محمد شفیع مونس اپنے تخلص ﴿مونس ﴾ کی مجسم علامت ہیں۔ ان کے تمام مشاغل کا مرکزی نقطہ وہ اُنس ہے، جو انھیں اپنے رفیقوں،عزیزوں اور عام انسانوں سے ہے۔‘‘
میں نے ایک خرد کی حیثیت سے محترم شفیع مونس کو بہت نزدیک سے دیکھاہے اور پرکھا بھی ہے۔ میں مرحوم عبدالمغنی کے منقولِ بالا خیال کا موید بھی ہوں اور معترف بھی۔ ان کی شخصیت و سیرت کا یہی وہ خاص جوہر ہے، جو انھیں ہر مذہب و ملت، ہر عمر و عہد اور ہر سطح کے لوگوں میں ممتاز و ممیز کرتاہے۔ ہر مسلک اور نظریے کے لوگوں سے ان کے بڑے گہرے اور مخلصانہ مراسم رہے ہیں، ان کی وسیع المشربی نے ان کے احساسات و خیالات میں ایسی خوبی پیدا کردی تھی، جس کی وجہ سے وہ ہر محفل اور ہرماحول میں نمایاں اور قدآور نظر آتے تھے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اپنے اِن اوصاف کے لیے تادیر یاد کیے جاتے رہیں گے۔
محترم محمد شفیع مونس ایک مخلص و بے ریا انسان تھے۔ ان کی فکر میں گہرائی اور سوچ میں صلابت تھی۔ وہ اپنی رائے کی سنجیدگی و متانت اور عزم، حوصلے اور ارادے کی پختگی و بلندی کے لیے ہر طبقے میں مقبول ومشہور تھے۔ پسپائی یا معذرت خواہی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی۔
محترم شفیع مونس کو ملت کا مفاد بے حد عزیز تھا۔ اس سلسلے میں وہ کسی بھی ذاتی ، انفرادی یا جماعتی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ مثبت و تعمیری سوچ ان کے مزاج کاحصہ بن چکی تھی۔ وہ ہمیشہ اچھی باتیں سنتے اور سناتے تھے اور اسی قسم کی باتوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ بدگمانی سے انھوں نے ہمیشہ خود بھی پرہیز کیا اور اپنے رفقائ کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کی۔
اپنے تحریکی رفقا اور ساتھ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی صحیح اور مثبت تصویر پیش کرنا مونس صاحب کا مزاج تھا۔کبر اور انانیت سے وہ بہت دورتھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے دسمبر ۱۹۸۲ میں مظفرنگر کے رفقا کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف پیدا ہوگیاتھا ۔وہ اس سلسلے میں دلّی سے مغرب کے وقت وہاں پہنچ گئے۔ مغرب سے عشاءتک چند رفقا سے غیررسمی گفتگو رہی۔ عشا بعد باقاعدہ مسئلہ پیش ہوا اور اس پر گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے دیکھاکہ مونس صاحب ساری رات دیوار سے ٹیک لگائے بغیر، پیروںپرلحاف ڈال کر بیٹھے رہے اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس موقعے پر یہ بات میرے لیے شدید حیرت کی تھی کہ جن رفیق نے ان کے سلسلے میں سخت رویہ اختیار کیاتھا اور اس سے پہلے بھی وہ کچھ غیرمناسب سا رویہ اختیار کرچکے تھے، پوری رات وہ اس رفیق کا دفاع کرتے رہے اور دلائل و دانش مندی کے ساتھ اُسے بے قصور اور ادارے کے لیے مفید ثابت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ فجر کی نمازکا وقت ہوگیا۔ یہ ان کی شخصیت کی ایک ایسی تصویر تھی، جو میرے ذہن سے کبھی اوجھل نہ ہوسکے گی۔ ان کی شخصیت کے اِسی پہلو کا اثر تھاکہ ایک سے زائد بار مجھے ان کے بعض اقدام سے کسی قدر نقصان بھی پہنچا، لیکن میں نے محض یہ سوچ کر اس واقعے کو ذہن سے نکال دیاکہ انھوں نے جو کچھ کیاہوگا، اپنی دانست میں اجتماعی مفاد کے پیش نظر کیاہوگا۔ جن رفقا نے مجھے اِس طرف متوجہ کیا اور مسئلے کو اٹھانے کی بات کی میں نے انھیں یہی جواب دیاکہ میں مونس صاحب کو بہت اچھی طرح جانتاہوں اور ان کے مزاج سے بھی واقف ہوں، انھوں نے جو کچھ بھی کہایاکیاہے، اس سے گرچہ مجھے وقتی طورپر تکلیف پہنچی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اقدام انھوں نے مناسب اور احسن سمجھ کر کیا ہے۔ میں اسی میں خوش ہوں۔
محترم مونس عام بڑے لوگوں کی طرح کان کے کچے نہیں تھے۔ وہ سنتے سب کی تھے لیکن کرتے یا کہتے وہی تھے، جو تحقیق کے بعد صحیح و درست سمجھتے تھے۔
ایک بار دورانِ گفتگو میںفرمایا: ’’تابش میاں! میں ویسے تو کوئی کمال نہیں رکھتا، لیکن میں نے ایک بات کا خیال ہمیشہ رکھاہے، وہ یہ کہ میں نے کبھی جماعت یا افرادِ جماعت کے سلسلے میں اپنے اہل و عیال سے کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس سے جماعت یا افراد جماعت کی تصویر خراب ہوتی ہو۔ میں نے جماعتی فیصلوں کے سلسلے میں ہمیشہ احتیاط کی ہے۔ متعلقہ مجلسوں سے باہر کبھی ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ ’’جہاں تک میں نے انھیں دیکھااور سمجھاہے، وہ اپنی عملی زندگی میں اپنے اس رویے پر ہمیشہ عامل رہے۔ان کے صاحب زادے بھائی جلیل اصغر صاحب بتاتے ہیں کہ شوریٰ یا نمایندگان میں طے ہونے والی وہ باتیں بھی ہمارے پوچھنے پر نہیں بتاتے تھے، جن کی اِطلاع اگلے دن اخبارات میں آجاتی تھی۔
ایک سفر میں ہمارے ایک دوست ایک ذمّے دار شخصیت کے بارے میں کہنے لگے کہ وہ مجھے بے حد اہمیت دیتے تھے ، وہ مجھ پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ جو باتیں صرف مجلس شوریٰ میں کہنے کی ہوتی تھیں وہ بھی مجھے بتادیاکرتے تھے۔ موصوف یہ بات اس سے پہلے بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے تھے۔ اس بار میں برداشت نہ کرسکا۔ میں نے عرض کیا: آپ کی بات پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا ہے۔ لیکن چوں کہ آپ کہہ رہے ہیں تو میں یقین کیے لیتاہوں۔ البتہ یہ ضرور عرض کروںگا کہ یہ تو صحیح ہے کہ آپ کی اس بات سے اس بات کاتو پتاچلاکہ …مرحوم کی نگاہوں میںآپ بہت قابل اعتبار رہے ہیں۔ لیکن آپ کی اس بات سے ان …مرحوم کا اعتبار ختم ہوجاتاہے۔ حیرت ہے کہ انھوںنے صرف شوریٰ میں کہی جانے والی باتیں آپ سے کیسے کہہ دیں؟ ایسی صورت میں تو انھیں ذمّے داری سے معزول کردیاجانا چاہیے تھا۔ میرا خیال ہے کہ آپ خود بھی یہی مناسب سمجھیں گے۔‘‘ پھر میں نے محترم مونس مرحوم کی مذکورِبالا بات سنائی۔ وہاں موجود دوسرے ساتھیوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری تائید کی، مگر صاحب موصوف کافی دیرتک ساکت رہے۔ میرا خیال ہے کہ انھیں اپنے اس رویے پر پشیمانی ہوئی ہوگی۔
استاذ محترم مولانا عامر عثمانی ؒ ﴿ایڈیٹرماہ نامہ تجلّی دیوبند﴾ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میاں! جماعت اسلامی کے لوگ روشنائی میں نہیں برف میں قلم ڈبوکرلکھنے کے عادی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ہندستان میں مولانا ابواللیث ندوی، جناب محمد مسلم اور محترم شفیع مونس کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا کرتے تھے۔ میں نے محترم مونس کے ساتھ بیٹھ کر کئی کام کیے ہیں۔ انھوں نے بڑے لمبے لمبے خطوط بھی مجھ سے لکھوائے ہیں۔ میں نے جو کام بھی ان کی نگرانی یا رہ نمائی میں کیا مجھے استاذ محترم کی اس رائے کا ہمیشہ عملی مشاہدہ ہوا۔ بڑی سے بڑی اور سخت سے سخت بات کو نرم اور غیرمشتعل انداز میں پیش کرنے کا جو ہُنر مجھے ان کے ہاں ملا، وہ کہیں اور کم ہی ملا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے برف میں قلم ڈبوکر لکھنے ہی سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
محترم شفیع مونس کا نام تو میں نے بہت پہلے سے سن رکھاتھا۔ ایک سے زائد بار انھیں دیکھ بھی رکھاتھا۔ لیکن قریب سے دیکھنے اور انھیں سمجھنے کا موقع مجھے ستمبر ۱۹۷۸میں مظفر کے ایک ضلعی اجتماع میں میسر آیا۔ اس کے بعد جنوری ۱۹۷۹ میں انھیںدیکھا۔ میں ان دنوں پندرہ روزہ اجتماع دیوبند کا ایڈیٹر تھا۔ مدیر تجلّی بھائی حسن احمد صدیقی ﴿معروف بہ حسن الہاشمی﴾ اس کے مالک تھے۔ مظفرنگر میں ایک عالم دین تھے۔ وہ جماعت کے شدید مخالف تھے۔ اپنے ماہ نامے میں وہ مسلسل جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف نازیبا باتیں لکھتے رہتے تھے۔ ’’اجتماع‘‘ میں ان کاتعاقب کیاگیا۔ انھوں نے ایک مضمون کو بنیاد بناکر مجھ پر، بھائی حسن احمد صدیقی پر اور اجتماع کے تقسیم کار جناب دلبر حسین خاں پر ہتک ِعزت کا مقدمہ دائرکردیاتھا۔ جس دن ہماری پہلی پیشی ہوئی محترم مونس صاحب مظفر نگر میں ہی موجود تھے۔ انھوںنے اپنا دلّی کا سفر موخر کرکے شام تک ہمارا انتظار کیا، جب ہم لوگ آئے تو پوری تفصیلات سنیں اور دل کی گہرائیوں سے ہمیں دعائیں دیں۔ ان کے اس رویّے سے میں بھی متاثر ہوا اور بھائی حسن احمد صدیقی بھی متاثر ہوئے۔
محترم شفیع مونس شعرگوئی کابڑا ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ ان کی شعری تربیت ضلع مظفرنگر کے مردم خیز قصبے بگھرا کی ’’بزم شمیم سخن‘‘ میں ہوئی تھی۔ بزمِ شمیم سخن کی محفلوںمیں حضرت جگرمرادآبادی، حضرت احسان دانش اور مولانا عامر عثمانی جیسے ارباب فضل و کمال اکثر شرکت کرتے رہتے تھے۔ مولانا ظہیر بگھروی، جناب یحییٰ راغب اور حافظ نسیم بگھروی کے ساتھ حضرت شفیع مونس بھی اس کے خصوصی ارکان میں شامل تھے۔ یہیں سے انھیں حوصلہ ملا اور انھوںنے خود اعتمادی کے ساتھ شعرگوئی شروع کی۔ شاعری میںوہ بنیادی طورپر غزل گو تھے۔ عزل سے انھیں خصوصی مناسبت تھی۔ ان کا مزاج بھی متغزلانہ تھا۔ وہ اپنی اس غزل مزاجی کے لیے ہر طبقے میں جانے جاتے تھے۔ اس زمانے کے کئی شعرائ نے ان کی شخصیت کے اس پہلو کو بڑی اہمیت دی ہے۔
میں تحریکی اعتبار سے ہمیشہ محترم مونس کے خُردوں اور نیازمندوں میں شامل رہاہوں۔ میں نے ان کے اشعار سنے بھی ہیں اور پڑھے بھی ہیں۔ جب بھی ان کی کوئی غزل ان کی زبانی سنی یا کہیں چھپی ہوئی دیکھی اس تاثر میں بہ ہرحال اضافہ ہوا، جو کبھی پہلے ان کے اشعار کے سننے یا پڑھنے سے قائم ہواتھا۔ میںاسے کسی شاعر کی کام یابی کی ایک بڑی دلیل سمجھتاہوں۔ ان کی شاعری کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شاعری کی جملہ روایات کی کافی حد تک پاس داری ملتی ہے۔ فنّی قدروں کااحترام اور زبان و بیان کا رکھ رکھاؤ بہ درجہ اتم ملتاہے۔ سلاست و روانی، اسلوب کی شگفتگی، قوافی و ردیف کی چستی، لہجے کی حلاوت اور لفظوں کا مناسب درو بست یہ سب چیزیں ان کی شاعری کا جزو لاینفک ہیں۔ وہ ایک داعی تھے۔ اسی حیثیت سے وہ جانے پہچانے جاتے تھے، لیکن یہ چیز ان کی شاعری پر کبھی غالب نہیں آسکی۔ وہ شاعری کو شاعری کے خانے میں رکھنے کے عادی تھے۔ اپنی دعوت اور فکر کو رموز و علائم کے ذریعے پیش کرتے تھے۔ وہ بادۂ وساغر کے پردے میں مشاہدۂ حق کی گفتگو کا ہنر جانتے تھے۔ ہمارے جن شعرا کے ہاں نعرے بازی اور شیخ و واعظ کی کردارکشی یا کسی گروہ پر طنز و تضحیک کاانداز ملتاہے، اُسے وہ بے حد ناپسند فرماتے تھے۔ ان کے درج ذیل اشعار سے میرے دعوے کی تصویب ہوتی ہے:
ہے پاسِ احترام ہوش و دانش
میں اپنے فرض کو پہنچانتا ہوں
کوئی بھی آئے مصیبت مسکرادیتا ہوں
دل میں پاسِ احترامِ کاتب تقدیر ہے
وہ لمحاتِ محبت ہاے اکثر یاد آتے ہیں
کہ جن لمحات میں تم سے نہ تھا کوئی گلہ مجھ کو
آرزوئیں بھی ہماری تھیں بڑی موقع شناس
چھپ گئیں دل میں کبھی رخ پر نمایاں ہوگئیں
عطا ہوتی گئی تابِ بیاں آہستہ آہستہ
کھلی آخر محبت میں زباں آہستہ آہستہ
آپ اِن اشعار میں معنی آفرینی بھی پائیں گے اور جذبات کا تموج بھی اور فنّی و لسانی رکھ رکھاؤ بھی اور ان سب کے ستاھ ساتھ مقصدِ زندگی سے وابستگی بھی۔ سطحیت یا نعرے بازی کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔ یہی بڑی شاعری کی پہچان ہے۔ مشہور عالم ادبیات اور ناقد ومحقق پروفیسر نثار احمد فاروقیؒ نے ’’حرف آرزو‘‘ کے دیباچے میں لکھاہے کہ ’’حضرت شفیع مونس کی شاعری جذبات سے زیادہ ہماری فکرپر اثرانداز ہوتی ہے۔‘‘ جب ہم ان کے شعری ذخیرے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو علاّمہ فاروقی کے اس قول کی حرف بہ حرف تصدیق ہوتی ہے۔
محترم شفیع مونس یکم مئی ۱۹۱۸کو اپنے ننھیال قصبہ سوال ضلع میرٹھ یو-پی میں پیدا ہوے۔ ان کے نانا محترم ولی داد خاں عرف بڑے میاں مرحوم سوال اور اس کے مضافات کے معزز لوگوں میں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت انھی کی نگرانی میں ہوئی۔ درجہ پنجم کے بعد اپنے وطن کلہڑی ضلع مظفرنگر کے قریبی قصبے چرتھاول کے اسکول میں داخلہ لیا۔وہیں سے ۱۹۳۴ میں اردو مڈل پاس کیا اور ۱۹۳۵ میں ہندی مڈل ، پھر ۱۹۳۶ میں الٰہ آباد بورڈ سے فارسی میں منشی کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۳۷ میں کامل کا۔پنجاب کا اعلیٰ اردو قابلیت کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا۔ چرتھاول میں ان دنوں مشہور عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف مولانا مشتاق احمد چرتھاولی کاکافی تذکرہ تھا۔ محترم مونس اپنے ابتدائی زمانۂ طالب علمی میں بھی علما اور مشائخ کی مجلسوں سے دل چسپی رکھتے تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے انھیں عقیدت تھی۔ مولانا چرتھاولی بھی حضرت تھانوی کے خصوصی منتسبین میں تھے۔چناںچہ انھیں مولانا چرتھاولی کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے استفادے کا موقع میسر رہا۔
مونس صاحب ۱۹۴۰ میں VTCکرکے اینگلوعربک اسکول دلّی میں استاذ ہوگئے۔ لیکن جب تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی ہند کی تشکیل جدید ہوئی اور ملیح آباد لکھنؤ میں اس کی مرکزی درس گاہ قائم ہوئی تو جماعت کی طلب پروہ ملازمت سے سبک دوش ہوکر اس سے وابستہ ہوگئے۔ پھر پوری زندگی وہ جماعت کے ہوکر رہے۔ اس کے مختلف مناصب پر فائز رہے اور زندگی کے آخری سانس تک وہ جماعت کے مشن کو فروغ دینے کی جدوجہد میں لگے رہے۔ کسی اور طرف مڑکربھی نہیں دیکھا۔ فخر مشرق علاّمہ شفیق جون پوری نے کہاتھا:
موت کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں دنیا والے
کون سمجھائے کہ جینا بھی اہم ہوتا ہے
بلاشبہ محترم شفیع مونس زندگی کی اہمیت اور قدر وقیمت سے باخبر تھے۔ انھوں نے زندگی کو اس کے صحیح تقاضوں کے ساتھ جیا اور بھرپور جیا۔ وہ زندگی کے آخری سانس تک اپنی زندگی سے آنے والی نسلوں کو ہمت و پامردی کا درس دیتے رہے اور بھرپور زندگی جینے کے بعد ایک مومن صالح اور مجاہد فی سبیل اللہ کی حیثیت سے موت کا استقبال کیا۔ اِناّ للّٰہ و انا الیہ راجعون ’’ بے شک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ آج کسی کا یہ شعر مسلسل میری زبان پر ہے:
کٹا تو ہوگئی انگنائی سونی
بہ ظاہر وہ شجر سوکھا بہت تھا
محترم شفیع مونس کی تحریکی زندگی، ان کی حکمت ودانائی ، صبر وثبات، عزم و ہمت اور تحمل و بردباری کے بے شمار واقعات نوک قلم پر آنے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ ایسے واقعات ہیں کہ تحریکی رفقا اور عوام الناس دونوں کے لیے مفید ثابت ہوں گے اور نئی نسل کو ان کی روشنی میں اپنی زندگی کا نقشہ عمل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ’’زندگی نو‘‘ کے مقررہ صفحات اس کے متحمل نہیں ہیں۔ ان سب کو بیان کرنے کے لیے ایک دفتر درکارہے۔ ہمارے موجودہ امیر جماعت حضرت مولانا سید جلال الدین عمری، نائب امیر جماعت محترم سید محمد جعفر اور قیم جماعت محترم نصرت علی اس طرف توجہ فرمائیں تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا۔‘‘
مشمولہ: شمارہ جون 2011