مسلم لڑکیاں اور تعلیم وتربیت

آج کل کے ماحول میں یہ شکایت عام ہوتی جارہی ہے کہ لڑکیاں پڑھی لکھی ہونے کے باوجود اچھی اور نیک بیویاں نہیں ثابت ہورہی ہیں۔ وہ غالب اقبال، شکسپئر اورڈانٹے کے ادبی نکات کو تو بخوبی سمجھتی ہیں لیکن عملی اور معاشرتی زندگی کے حقائق سے ناواقف ہیں، آرایش جمال کے جدید ترین طریقوں سے آشنا لیکن اخلاق وسیرت کی خوبیوں سے بالکل ناآشناہیں۔ یہ شکایت صرف ہمارے ہندوستان ہی میں نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔لڑکیوں میں اس نقص کو پوری شدت کے ساتھ محسوس بھی کیا جارہا ہے۔ لیکن اس کا کوئی مداوا ان کے پاس نہیں۔ جب لوگ شدت احساس سے بے خود ہوجاتے ہیں تو کوئی تربیت سینٹر کھول دیتے ہیں یا پھر کسی سیمینار کا انعقاد کردیتے ہیں مگر اس پیدا شدہ نقص کو دُور کرنے میں ناکامی ہی رہتی ہے۔

اس صورت حال کا سامنا مسلم معاشرے کو بھی ہے اور یہ وبا پوری تیزی کے ساتھ شریف گھرانوں میں بھی پہنچ رہی ہے۔ اب تک اس بات کا رونا تھا کہ مسلم گھروں میں لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام نہیں لیکن اب تعلیم پر پوری توجہ ہے پھر بھی معاشرہ محبت کرنے والی ماؤوں، وفا شعار بیویوں اور سلیقہ مندو دین پسند بہن بیٹیوں سے محروم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ ضرور دی لیکن غلط ڈھنگ پر۔ ایسے اسکولوں میں تعلیم دلائی جاتی ہے، جہاں کا نظام مخلوط ہے یا پھر ایسا نصاب پڑھوایاجاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ بے راہ روی ودین بیزاری ہے۔ والدین مطمئن ہیں کہ انھوں نے اپنی بچیوں کو پڑھنے میں لگادیا مگر اُنھیںپھر اس کی فکر نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہی ہیں اور ان کو جو ماحول مل رہا ہے، وہ کس قدر سازگار ہے؟ پہلے کبھی تعلیم کے ساتھ تربیت جزو لاینفک کی طرح ہوا کرتی تھی ۔مگر اب تعلیم محض تعلیم ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اخلاقی اقدار اور پاکیزہ معاشرت پر زور نہیں بلکہ کتابوں کے پڑھادینے یا نفس مضمون کے رٹادینے اور اس کے متعلق نوٹس تیار کرادینے پر زیادہ توجہ ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے بے جا اختلاط پر نہ کوئی روک ٹوک ہے اور نہ ان کے ہوٹلوں اور پارکوں میں بے تکلف جانے پر کوئی قدغن ۔ گویا تعلیم وتربیت دونوں الگ الگ جز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی لڑکیاں تعلیم یافتہ تو ہوتی ہیں لیکن تربیت یافتہ بہت ہی کم۔

تعلیم کے ساتھ تربیت کے اس فقدان کو گھر کے ماحول میں دور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جتنی اچھی تربیت والدین کرسکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں کرسکتا ۔ بہ شرطے کہ انھیں اس کا احساس بھی ہو اور پوری فکر بھی۔ پرانے دور میں جب تعلیم کی کمی تھی، والدین میں یہ احساس پوری شدت سے کار فرما تھا۔ تربیت کے معاملے میں کسی طرح کا تساہل یا بے اعتنائی گوارا نہیں کی جاتی تھی۔ چنانچہ اس وقت کی لڑکیاں امور خانہ داری میں ماہر بھی ہوتی تھیں اور ساتھ ہی ان میں حد درجہ کا تحمل بھی ہوتا تھا۔ان میں اچھی بری بات برداشت کرنے کا غیر معمولی مادہ ہوتا تھا۔ وہ جس گھر اور ماحول میں جاتی تھیں اپنے آپ کو اس رنگ میں رنگ لیتی تھیں۔ ان کی کسی بات سے اجنبیت کا احساس نہیںہوتا تھا۔ کوئی بات مرضی کے خلاف ہوتی تو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی تھیں۔ سسرال والوں کی کمزوریوں کو زبان پر نہ لاتی تھیں۔ شوہر میں اگر خامی ہوتی تو اسے نظر انداز کرکے اس کی خوبیوں پر نظر رکھتیں اور اپنی محبت والفت سے اس خامی کودُور کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی برکت ونصرت ان کے شامل حال رہتی تھی۔ ان کی زندگیاں خوشگوارہوتی تھیں اور گھر جنت کا نمونہ ہوا کرتا تھا۔ ایسی بیویوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

’’خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ‘‘

نیک عورت دنیا کی سب سے بہترین متاع ہے۔

لیکن آج کل کی لڑکیاں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان خوبیوں سے تہی دامن ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی قدروں کا ان میں فقدان ہے۔ وہ اپنی مرضی کے خلاف چھوٹی سی بات بھی گوارا نہیں کرسکتیں۔ سسرال والوں کی کم زوریوں کو تلاش کرنا پھر اس کو اچھالنا ان کی عادت سی بنتی جارہی ہے۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں اور ظاہری نمائش سے شوہر کو گھر والوں سے بدظن کرتی ہیں اور پھر ان کو علاحدگی پر آمادہ کرتی ہیں۔ اخراجات میں ذرابھی کمی ہوجائے تو سارے احسانات ومحبت کو فراموش کرکے گھر سرپراٹھالیتی ہیں۔ اگر پیسوں کی زیادتی ہو تو نت نئے فیشن میں بے دریغ خرچ کرتی ہیں۔ اگر اپنے ساتھ جہیز کی لعنت لے کر آئی ہیں تو اس کا غرور ان کے سر چڑھ کر بولتا ہے، اور پھر پورے گھر کو متعفن ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آج کل کی لڑکیوں کا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا ہے اور اگر گھر میں رہتی ہیں تو اکثر موبائل فون پر مصروف رہتی ہیں۔ تعلیم کے نام پران کو پرساری آزادیاں حاصل ہیں۔ عریانیت کے سیل رواں کے سامنے ان کے پاؤں ٹک نہیں پارہے ہیں۔ اور اس کے تیز بہاؤ میں ان کے چہرے کا نور، آنکھوں کی حیا، باتوں میں شرم، سرکاڈوپٹا اور رہن سہن سے نسوانیت غرض کہ سب کچھ مفقود سا ہوتا جارہا ہے۔ پھر بھی وہ خوش ہیں کہ وہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور شانہ بشانہ ہیں اور والدین مطمئن ہیں کہ اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کررہے ہیں۔

یورپ وامریکہ اور مغرب زدہ گھرانوں کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا گراف سب سے اونچا ہے۔ تقریباً سبھی لڑکیاں پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔ لیکن اخلاقی انار کی ، نفسیانیت اور عریانیت کی وبا ان میں بالکل عام ہے۔ شادی کے بغیر ہی ہنی مون کوئی معیوب چیز نہیں۔ تقریباً پچاس فیصد لڑکیاں شادی کے بعد طلاق لے لیتی ہیں یا خود دے دیتی ہیں۔ باقی کے تعلقات ان کے شوہروں کے ساتھ بس رسمی سے ہوتے ہیں۔ ان کے مابین رشتہ ایک سمجھوتے کے تحت ٹکا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کسی رشتے سے جڑے بغیر تنہا رہنے کی عام ذہنیت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اس پر طرفہ یہ کہ اسے ’’روشن خیالی‘’ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ ظاہری چمک دمک اور مصنوعی غازے کی اوٹ میں اضطراب وپریشانی ، ذہنی وفکری کشاکش اور اعصابی تناؤ کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے یکسرچشم پوشی برتی جاتی ہے۔ اس اخلاقی وثقافتی زوال کی وجہ یہی ہے کہ لڑکیاں تعلیم یافتہ تو ضرور ہیں مگر تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ بڑی بڑی ڈگریاں تو ان کو ضرور تفویض کی جاتی ہیں مگر ساتھ میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ لڑکی کا سب سے بڑا خزانہ اس کی عفت وپاکدامنی ہے۔ اس کی شرم وحیا ہی اس کا زیوراور اس کا سنگار ہے۔ شادی کے بعد اپنے گھر کو پوری دیانت داری کے ساتھ سنبھالنا ،اولاد کی تربیت اور صالح معاشرہ کی تعمیر میں موثر کردار نبھانا اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ لیکن تف ہے ان کی طبیعتوں پر جن کی افتاد کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ گھروں کے پرسکون ماحول کے بجائے ریسٹورینٹ، ہوٹل اور تفریحی پارکوں میں وقت بتانا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں۔ حتی کہ اولاد کاپیدا کرنا، ان کا پالن پوسن کرنا، ان کی نسوانیت کے منافی ہے کہ اس سے ان کا حسن وجمال متاثر ہوتا ہے اور ان کی جسمانی ساخت بگڑجاتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایسے ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، جن سے اولاد ہی پیدا نہ ہوا، اور اگر غلطی سے حمل ٹھہر بھی جاتا ہے تو اس کے اسقاط میں کوئی تکلف نہیں محسوس ہوتا ہے۔

مغرب کی ناقص تعلیم کے ساتھ وہاں کی تمام اخلاقی بیماریاں بھی مسلمانوں میں پھیلتی جارہی ہیں اور یہ ایک ایسا سیل رواں ہے کہ اس میں ایمان تک بہا جار ہا ہے۔ ایسے نازک حالات میں والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پر خاص توجہ دیں، صرف تعلیم دلانا ہی کافی نہیں، بلکہ تربیت بھی ضروری ہے، اور اگر تربیت نہ ہوئی تو ایسا علم مفید ہونے کے بجائے وبال جان ووبال ایمان بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ روز قیامت یہی علم ان کے خلاف گواہی دے گا اور اس کی گرفت سے والدین وسرپرست نہ بچ سکیں گے۔

لہٰذا ضرورت ہے کہ گھر کے ماحول میں لڑکیوں کی تربیت کا پورا نظم ہو، انھیں اخلاق حسنہ کی تعلیم دی جائے، اسکولوں میں پڑھائے جانے والے اسباق کا جائزہ لیاجائے اور ان کے فاسد پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ان کی ذہن سازی کا نظم کیا اور زندگی کے ایسے روشن پہلو سامنے لائے جائیں، جس سے ان کی صحیح سمت کی طرف رہ نمائی ہوسکے اور وہ ان فاسد خیالات کے زہر سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کا اُنھیں عادی بنایا جائے، اور مسنون دُعاؤں کو یاد کرایا جائے۔اِن شاء اللہ اِس رویے ہمارے معاشرے میں پاک سیرت بہنوں ، بیٹیوں اور تربیت کرنے والی نیک ماؤں کی کمی نہ ہوگی، اور پورا معاشرہ اسلامی تعلیمات کا پرتواور پوری دنیا کے لیے نمونہ اور ذریعہ ہدایت ہوگا۔ اگر یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں تو روز محشر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب ہوگی، جیسا کہ خود آپﷺ  کاارشاد ہے: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم وتربیت کااہتمام کیا، ان کی شادی کرائی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھا تو قیامت کے دن وہ میرے ساتھ اس طرح ہوگا۔‘‘ آپﷺ  نے اپنی دونوں انگلیاں ملاکر اشارہ فرمایا۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223