اسلام کے عائلی قوانین کے حوالہ سے مسلمانوں کی اب تک کی سیاسی ، اصلاحی، تعلیمی کوشش ناقص رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی قوانین یا عائلی قوانین کے حق میں تحریک مخالف حالات سے متاثر ہو کر چلائی ہے، جب کہ اسلامی قوانین کے حق میںتحریک اسلام سے متاثر ہو کرچلانے کی ضرورت ہے۔چاہے حالات اس کے حق میں ہو یا مخالفت میں، اسلام کے کسی بھی مسئلہ میں اس کا نظریاتی پہلو سب سے مقدم ہوتا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی جس اہمیت اور وضاحت کے ساتھ حکومت ہند کے سامنے اس مسئلہ کو رکھنا چاہئے تھا اس میں کمی پائی جاتی ہے ، ابھی مسلمان اور مسلم پرسنل لاء بورڈ، اسلامی قوانین اور دستور ہند کے حوالے سے ملک میں یہ سوال قابل بحث نہیں بنا سکے کہ انسان کا دستور انسان بنائے یا انسان کادستور انسان کا خالق و مالک بنائے ، ظاہر ہے جب ہم اس سوال کو موضوع بحث بنائیں گے تو دلیل اسی کے حق میں آئے گی کہ انسان کے دستور کا حق انسان کے خالق و مالک ہی کو ہونا چاہیے نہ کہ خود انسان کو، اور اسی میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آجائے گی کہ کوئی بھی بڑا سے بڑا انسان بھی چھوٹے سے چھوٹے انسان کا خالق و مالک نہیں ہے، ساتھ ہی دستور ہند کے حوالے سے ہندوستانیوں کے سامنے بطور جائزہ یہ بات بھی رکھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے ستر سال گزرنے کے باوجود ہندوستان میں عدل و انصاف و امن و امان کیوں قائم نہیں ہوا؟
حکومت اور عوام کے سامنے یہ بات شدومد کے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے کہ عدل و انصاف انسانی قوانین کے نفاذ سے قائم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسلامی قوانین کے نفاذ سے قائم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اسلامی قوانین اس اللہ کے بنائے ہوئے ہیں جو الرحمن الرحیم ہے یعنی بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا۔ دوسرا کام مسلم پرسنل لاء کے حوالے سے کرنے کا یہ ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دستور میں مسلم پرسنل لاء کی بجائے شریعت ایکٹ یا اسلام کے عائلی قوانین کا نام درج کرے، ویسے بھی ۱۹۳۷ء سے دستور ہند میں شریعت ایکٹ ہی کا نام چلا آرہاتھا، اس لئے جس طرح حکومت ہند نے دستور میں انگریز حکومت کے دیئے ہوئے بہت سے نام جوں کے توں باقی رکھے ہیں، اسی طرح شریعت ایکٹ کے نام کو بھی جوں کا توں رہنے دیا جائے تو کیا حرج ہے۔
تیسرا کام یہ ہے کہ حکومت ہند اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسلام کے عائلی معاملات کے تنازعات میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت چلنے والے دار القضاء کے فیصلوں کو قانونی درجہ دے ،بلکہ عائلی تنازعات میں دار القضاء کے فیصلہ ہی کو آخری فیصلہ تسلیم کیا جائے، کیونکہ آزادی کے بعد سے آج تک یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری عدالتیں اسلام کے عائلی قوانین کے خلاف فیصلے دیتے آرہی ہیں ، اس کی بنیادی دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ سرکاری ججوں کو اسلام کے عائلی قوانین کا صحیح علم نہیں ہے، او ر دوسری وجہ یہ کہ بہت سے ججوں میں اسلامی قوانین کے متعلق تعصب پایا جاتا ہے۔
چوتھا کام یہ ہے کہ حکومت ہند سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دستور سے متنازعہ دفعہ ۴۴ کو ختم کرے ، جس میں یکساں سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے، کیونکہ جب تک یہ دفعہ دستور میں موجود رہے گی، تب تک ملک میں اسلامی عائلی قوانین کے خلاف اور یکساں سول کوڈ کے حق میں آواز اٹھتی رہیگی، ایک طرح سے یہ پورے ہندوستانیوں پر یکساں سول کوڈکی لٹکتی ہوئی ننگی تلوار ہے جس کی سب سے زیادہ زد مسلمانوں پر پڑرہی ہے۔ یقینا مذکورہ چار کام مسلمانوں کی موجودہ دینی کمزوری اور حکومت کے تعصب کو دیکھ کر ذرا مشکل اور سخت معلوم ہوتے ہیں، لیکن مسلمان اگر اللہ پر توکّل اور عزم و حوصلہ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو یہ کام آسان ہیں۔
مسلمان اگر دعوت دین کا ہتھیار اپنے ہاتھ میںلیں، تو وہ سیاسی لحاظ سے بھی مضبوط و محفوظ ہوں گے، اگر مسلمان آزادی کے بعد دعوت دین کا کام کرتے تو ہر سیاسی پارٹی میں مسلمانوں سے محبت کرنے والے افراد ہوتے، کوئی بھی سیاسی پارٹی مجموعی لحاظ سے مسلمانوں کی دشمن نہیں ہوتی، بہر حال دیر آیددرست آید کے تحت کم از کم آج ہی سے ہم کو اپنے اصل کام اللہ کی بندگی سے جڑنا ہوگا، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینی ہوگی، اسی راستہ سے ماضی میں بھی مسلمان دنیا میں غالب آئے ہیں، اور حال میں بھی اسی راستہ سے غالب آ سکتے ہیں، اور مستقبل کا غلبہ بھی اسی راستہ سے وابستہ ہے،غیر مسلموں میں دعوت دین کے ساتھ مسلمانوں میں بھی اسلام کی مکمل تعلیمات کی اشاعت کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، ابھی مسلمانوں نے مجموعی لحاظ سے دین اسلام کو صرف عبادات کے دین کے طور پر قبول کیا ہے،جس میں دن و رات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی ہے ۔ ماہ رمضان کے روزے ہیں، زکوٰۃ اور حج ہے، جب کہ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی کانام ہے۔لہٰذا یَا یُھاَ الذِینَ امَنوا ادْخُلوا فِی السَّلْم کَافّۃََ۔ (سورئہ بقرہ آیت ۲۰۸) یعنی اے ایمان والوں اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو کے عنوان سے مسلمانوں کو اسلام کی مکمل رہنمائی میں لانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ مسلمانوں میں یہ سوچ بھی عام کرنے کی ضرورت ہے کہ دین اسلام کوئی قومی اور خاندانی دین نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد عقیدہ و عمل پر ہے ، جس کا عقیدہ و عمل اسلامی ہے وہی مسلمان ہے ، چاہے اس کا باپ کافر ہو، اور جس کا عقیدہ و عمل اسلام کے مطابق نہیں ہے وہ مسلمان نہیں ہے ، چاہے اس کا باپ مسلمان ہو، لہٰذا اس حوالے سے بھی کوئی واضح لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ادارہ ہی کوئی لائحہ عمل مرتب کرے تو بہتر ہے ۔
آج معاشرتی سطح پر دین کی تفہیم اور اشاعت کی ضرورت ہے، تاکہ ہر مسلمان یہ جان لے کہ مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کے لئے کچھ عقائد و اعمال کو ماننا ضروری ہے اور کچھ غلط عقائد و اعمال سے بچنا ضروری ہے ، ساتھ ہی غیر مسلم افراد بھی یہ جان لیں کہ کوئی مسلمان صرف مسلمانوں جیسا نام رکھنے سے مسلمان نہیں ہو جاتا، بلکہ اسلامی عقائد و اعمال کو ماننے سے مسلمان ہوتا ہے، اورآج کے حالات میں اس چیز کو واضح کرنا اسلئے ضروری ہو گیا ہے کہ بہت سی غیر اسلامی پارٹیاں اور ادارے صرف مسلم نما نام کے افراد کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، جب کہ ان کے عقائد و اعمال غیر اسلامی ہیں اور وہ دینی لحاظ سے مسلمان کی تعریف میں آتے ہی نہیں ۔غرض یہ کہ مسلم پرسنل لاء کے حوالے سے ملک میں مکمل اسلام کی دعوت کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، اور مسلمانوں میں مکمل اسلام کی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ غیر مسلم بھی اور مسلمان بھی مکمل اسلام سے واقف ہوں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2017