مسلم پرسنل لا – چند غور طلب مسائل وتجاویز

اسلامِ دین رحمت ہے  اور مسلمان خیر امت ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے مسلمانوں کی اکثریت واقف نہیں ہے ۔ ان دو حقیقتوں کی بنیاد پر ملت کی اصلاح وتربیت کا بڑے پیمانے پر کام نہیں ہوا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ مسلمان دین کی ضروری معلومات جیسے شادی بیاہ ، طلاق ، قانون وراثت وغیرہ سے کم ہی واقف ہیں ۔ جس کی وجہ ان سے چھوٹی ، بڑی غلطیاں سرزد ہورہی ہیں جس کوبنیاد بنا کر حکومت ہند مسلم پرسنل لا میں اپنے منشاء کے مطابق تبدیلیاں لانا چاہتی ہے اوراس بہانے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ بھی کرنا چاہتی ہے ۔ یہ اللہ پاک کا نہایت فضل وکرم ہے کہ آج ملت اسلامیہ ہند متحد ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے جھنڈے تلے بڑے ہی عزم وحوصلے کے ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کررہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے مسلمانا ن ہند اس تحریک کا بڑے پیمانے پر مدد کریںاوریہ بھی دیکھیں کہ اتحاد ملّت اسلامیہ ہند میں کسی درجہ کا بھی کوئی رخنہ نہ پڑنے پائے۔

مسلم پرسنل لا کے تحت شادی بیاہ وطلاق کے مسائل کے سلسلہ میں  جزوی طور پر میں نے بھی غور کیا ہے اوراپنے احساسات کوذیل میں بیان کررہا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ بورڈ بھی ان امورپر غور کرے اورمثبت فیصلے صادر کرے۔

دورِ اسلاف میں مطلقہ کا نکاح ثانی جلد ہوجاتا تھا اسی لئے اُن دنوں طلاق کی وجہ سے روٹی روزی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ آج ہمارے مسلم معاشرہ میں کنواری لڑکیوں کا نکاح ہی بڑی مشکل سے ہورہا ہے ۔ مطلقہ اوربیوہ خاتون کا نکاحِ ثانی اورمشکل ہوگیا ہے ۔ اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں مطلقہ اوربیوہ خواتین بے سہارا اورروز ی روٹی سے محروم ہیں ۔ ہم مسلمانوں کی اجتماعی حِس سورہی ہے ۔ آزادی کے بعد سے آج تک ہم نے اس تعلق سے غور وفکر کیا ہی نہیں ان کے روزی روٹی کا کوئی معقول بندوبست کیا نہیں ۔ افسوس صد افسوس ۔ ایسے ہی بے سہارا مطلقہ عورتوں کوسہارا دلوانے کے لئے خواتین کی نام نہاد مسلم اور غیر مسلم تنظیمیں عدالتوں سے رجوع ہوئیں اور عدالتوں نے مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلے صادر کئے ۔ ان فیصلوں کے پیچھے ان کا مقصد بظاہر بے سہارا مطلقہ عورتوں کوانسانی بنیادوں پر روزی روٹی اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنا تھا ۔ لیکن اصل میں وہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلیاں لانا چاہتے  ہیں۔

تجاویز

(1) میاں بیوی میں اختلاف ہوسکتا ہے ۔ اختلاف کی صورت میں وہ دونوں آپس میں گفتگو کے ذریعہ معاملہ کو حل کرلیں۔ ایسا نہ کرسکے توگھر کے بڑوں سے رجوع ہوں ، یہاں بھی مسئلہ کا حل نہ نکلے تو  ہر دو کے دو دو ذمہ دار رشتہ دار ان دونوںمیں صلح صفائی کی کوشش کریں اگر یہ کوشش بھی ناکام ہوجائے تو پھر محلہ میں قائم شرعی کونسل (ہر محلہ کی بڑی مسجد میں وقف بورڈ کی مدد سے شرعی کونسل کا فوراً قیام عمل میں لایا جائے ) سے رجوع ہوں۔ شرعی کونسل دونوں کو سمجھائے اوربتائے کہ طلاق سے نقصانات کیا ہیں؟ اور شرعی حدود کیا ہیں۔ اگر صلح کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوتو طلاق دی جاسکتی ہے ۔بہرحالِ فریقین کورٹ کچہری سے رجوع نہ ہوں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہر دو کے خاندان والوں کوان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے خاص طور سے مطلقہ کے نان ونفقہ کی ذمہ دار ی اس کے والدین یا خاندان کے دیگر ذمہ داروں پر ڈالی جائے۔ اگر مطلقہ کے متعلقین غریب ہوں اس کے نان و نفقہ کی ادائیگی کے قابل نہ ہوں تو ناگزیر صورت میں اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری وقف بورڈ نبھائے۔ وقف بورڈ یہ خصوصی فنڈ ملت کے دولت مندوں اور درد مندوں سےاپیل کرکے چندہ کی صورت میں حاصل کرے ۔

(2) تعلیم یافتہ مطلقہ بیوہ کو ملازمت کے حصول  میں وقف بورڈ  مدد کرے اوردیگر اداروں سے بھی ان کی مدد کروائے۔

(3) اَن پڑھ اور غیر ہنر مند مطلقہ یا بیوہ کوخود روزگار اسکیم کےتحت ٹریننگ دلواکر روزگار کا انتظام کروایا جائے۔ اس کام کوبھی وقف بورڈ اپنے ذِ مّہ لے ۔ دیگر مسلم جماعتیں ان معاملات میں وقف بورڈ کی مدد کریں۔

(4)بے سہارا ضعیف، معذور خواتین کو وقف بورڈ ماہانہ وظیفہ دے  اوراس کے لیے فنڈ ملّت کے خوشحال ، دولت مند اور درد مند اصحاب سے حاصل کرے۔

(5)  مطلقہ یا بیوہ عورتوں (جوغریب وبے سہارا ہوں )کے بچوں کو دینی درسگا ہوں میں یا حکومت کی جانب سے قائم کردہ اِقامتی اسکولوں میں شریک کروائیں۔ ان کی ٹھیک ٹھیک تعلیم کا بندوبست  ہواوران کی دیکھ ریکھ بھی ہوتی رہے ۔ یہ کام بھی وقف بورڈ اپنے ذمّہ لے۔

(6)  ملّت اسلامیہ کا  اہم مسئلہ لڑکیوں ، بیواؤں اورمطلقہ عورتوں کے نکاح کا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اَن بیاہی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابل زیادہ ہے ۔ ساری اُمت یک جُٹ ہوکر کوشش کرے کہ بغیر جوڑے گھوڑے اورلین دین کے لڑکیوں کی بروقت شادی کردی جائے۔ بیوہ اورمطلقہ  بڑی تعداد میں بغیر نکاح کے رہ جاتی ہیں ۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے ۔ یہ صورتِ حال مسلم ملّت پر ایک بد نما داغ ہے اور نہایت ہی شرم وافسوس کی بات ہے ۔ اسلام میں ان مسائل کا بہترین حل موجود ہے ۔ اس کے لئے ہم سب کو دور ِ نبوتؐ اورصحابہؓ کے دور سےرجوع کرنا ہوگا۔جہاں سے ہم کو صحیح رہنمائی حاصل ہوئی ہے ۔ اس معاملہ میں ہماری ماؤں ، بہنوں اوربیٹیوں کو اللہ پاک کی رضا اوراس کی خوشنودی کی خاطر ، مسلم معاشرہ کومزید تباہی سے بچانے کے لیے ایثار و قربانی کے جذبہ کے ساتھ آگے آنا چاہئے۔ دولت مند اورخوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے شوہروں کاایک سے زائد نکاح کروائیں اور اپنے گھروں میں آنےوالی سو کنوں ، کا خندہ پیشانی  کے ساتھ خیر مقدم کریں اورنبا ہ کریں تویہ پہاڑ جیسا مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے گا۔

(7)میں نے بہت بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ آج تک کسی عالم، مفتی یا  سیاسی رہنما نے یہ حل بتانے کی ہمت نہیں کی۔ میںنے یہ تجویز تورکھ دی لیکن اس کی عمل آور ی بہت مشکل ہے ۔ البتّہ ہماری خواتین چاہیں تو میری تجویز کی عمل آوری مشکل نہیں ہے ۔ آج ہمارے ملک میں اسلام اور مسلمان آزمائش سے دو چار ہورہے ہیں ۔ ہمارا شیر ازہ بکھر رہاہے ۔ ہمارے دین وعقیدہ پر قدغن لگایا جارہا ہے ۔ باطل نظریات کواپنانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ ہماری زندگیاں تنگ کردی جارہی ہیں ۔ ایسی صورتحال میں مسلم مرد اورمسلم عورت دونوں دین اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کے لیے کوشش کریں ۔

(8)دینِ اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ساری انسانیت کے لیے نور ہدایت، ضابطۂ حیات، قانون فطرت اورصحیح طریقۂ زندگی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی سارے انسانوں کا خالق اور پرورد گار ہے۔ تنہا وہی اپنی مخلوق کی ہر ـضرورت سے واقف ہے زندگی گزارنے کا صحیح راستہ وہی بتاتا ہے ۔ انسانی نفسیات، اخلاقی اقدار ، ردو قبول کے معیارات سے  واقف ہے انسانی حیات کوقائم رکھنے اوراس کی حفاظت کرنے کے لیے مطلوب قانون اسی کا دیا ہوا ہے ۔  ہر لحاظ سے انسان کو پر امن ، مبنی برانصاف زندگی گزارنے کی رہنمائی کا انتظام اسی نے کیا ہے ۔ اس خصوص میں رہنمائی کرنےوالی قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات (REFERENCES)کوایک کتابی شکل میں مرتب کیاجائے اور جلد سے جلد اس کی کاپیاں صدر، وزیر اعظم سپریم کورٹ ، ہائی کورٹس کے ججوں،  وزرائے اعلیٰ، پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا کے اسپیکرس اوروکلا کی انجمنوں وغیرہ کو فراہم کی جائیں ۔ یہ سب اس کا مطالعہ کریں اور اس حقیقت سے واقف ہوجائیں کہ اسلامی قانون ہی دنیا کا سچا قانون ہے جوناقابل ترمیم اور ساری انسانیت کا نجات دہند ہ ہے ۔

موجودہ حالات سے مسلم ملّت کو واقف کرایا جائے اس کے لئے میڈیا ، اخباروں  ، جلسوں  اور اجتماعات کے ذریعہ پبلسٹی کی جائے اس خصوص میں آرٹیکل ، مضامین شائع کئے جائیں ۔ یہ کام ملک کی ساری دینی وسیاسی جماعتوں کا ہے ۔ اس کو انجام دیں ۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2017

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223