اُمتِ مسلمہ کے اہلِ فکر و نظر ہمیشہ اُمت کو خود احتسابی کی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں۔ اپنی تاریخ کے دوران جب بھی اُمت زوال سے دوچار ہوتی نظر آئی ہے، اہلِ علم نے زوال کے اسباب جاننے کی کوشش کی ہے اور اُمت کی دوبارہ عروج کی طرف پیش رفت کی راہیں تلاش کی ہیں۔ غوروفکر کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اہلِ علم کی جانب سے اس موضوع پر تجزیے اور تحقیق پر مبنی اظہارِ خیال سامنے آتا رہتا ہے۔ زوال کی علامتیں مسلمانوں کی آپس کی گفتگو میں عموماً زیرِ بحث آتی ہیں مثلاً مسلمانوں کی دینی فرائض سے غفلت، اخلاقی پستی، تفرقہ اور انتشار، ایک دوسرے کی حق تلفی، باہم کشت و خون، بے سمتی اور مایوسی، بے حوصلگی اور کم ہمتی، احساسِ ذمہ داری کا فقدان، ضروریاتِ زندگی کے لیے دوسروں پر انحصار، کاہلی اور جمود، علمی و تحقیقی کاوشوں سے بے اعتنائی، اسراف اور فضول خرچی، ذہنی مرعوبیت، سیاسی آزادی سے محرومی اور مقصد زندگی سے لا تعلقی۔ زوال کی اس کیفیت کو عروج سے بدلنے کے لیے زوال کی وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان وجوہات پر قابو پاکر، امت کو دوبارہ عروج کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے، اور جو کچھ کھویا گیا ہے اس کی تلافی کی جا سکتی ہے۔
زوال کے اسباب:
غورکیا جائے تو امتِ مسلمہ کے زوال کے درجِ ذیل اسباب سامنے آتے ہیں:
۱- یقین کی کمی اور لذتِ ایمان سے محرومی
۲- دین کے علم کی کمی
۳- دینی و اخلاقی تربیت کی خامی
۴- انطباق و اجتہاد سے غفلت
اگر اُمت کے زوال کی کیفیت کو عروج سے بدلنا ہے تو مندرجہ بالا اسباب کو دور کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ دینِ حق پر ایمان لانے والی اور ہدایتِ الٰہی کی پیروی کا عہد کرنے والی امت کا زوال سے دوچار ہونا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے، اس لیے کہ حق اور ہدایت سے وابستگی کا فطری نتیجہ، افراد اور گروہوں کا عروج ہے نہ کہ زوال۔ اس لیے یہ حیرت انگیز صورتحال اگر عالمِ واقعہ میں موجود ہو (جیسا کہ اس وقت موجود ہے) تو یقینا اس کے کچھ اسباب ہوں گے جنھوں نے حق و ہدایت سے امت کی وابستگی کو مضمحل اور بے جان بنادیا ہوگا۔ یہ اسباب باقی نہ رہیں اور ان پر قابو پالیا جائے تو امید ہے کہ امت کے اندر زندگی کی نئی لہر دوڑ جائے گی اور وہ خوشگوار منظر سامنے آجائے گا جس کا تذکرہ اقبال نے کیا ہے۔
عطا مومن کو پھر دربارِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی
یقین اور ایمان:
دینِ حق کی برکات سے مستفید ہونے کے لیے پہلا قدم ایمان ہے۔ ایمان کی اساسی اہمیت، دینِ اسلام کا امتیازی وصف ہے چنانچہ عمل میں صالحیت ، ایمان کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔ نیکی محض ظاہری آداب کے اہتمام کا نام نہیں بلکہ اس عملِ صالح کا نام ہے جو ایمان کے نتیجے میں ظہور میں آتا ہے۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
لَّیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ والضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولٰـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولٰـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَo (البقرۃ ۲: ۱۷۷)
’’نیکی محض یہ نہیں کہ تم اپنا رُخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ حقیقی نیکی اس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر اور اپنا مال اللہ کی محبت میں رشتے داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں پر خرچ کرے اور گردن چھڑانے میں خرچ کرے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور عہد کریں تو اسے پورا کریں اور صبر کریں سختی میں، تکلیف میں اور جنگ کے وقت۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ، فرشتوں، یومِ آخرت، کتب آسمانی اور انبیاء پر ایمان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ ایمان کے اساسی امور ہیں۔ ایمان کے ثمرات اعمالِ صالحہ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر بھی اس آیت میں موجود ہے۔ ایمان میں پختگی اور تازگی کے لیے شعوری اہتمام کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر انسان غفلت برتے اور ایمان کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش نہ کرے تو اندیشہ ہے کہ اس کے ایمان کی تابندگی برقرار نہ رہ سکے گی۔ اس ضمن میں جو اہتمام درکار ہے اس کے دو پہلو ہیں، ایک علمی اور دوسرا عملی۔
علمی پہلو یہ ہے کہ انسان اللہ کی آیات پرغورو تدبّر کرے، اُن آیات پر بھی جو کتابِ الٰہی میں درج ہیں اور اُن پر بھی جو کائنات میں اور خود انسان کی اپنی شخصیت اور انسانی تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ اور اُن کے سلسلے میں تفکر و تدبر، انسان کو ایمان لانے پر آمادہ کرتا ہے اور اگراس کے دل میں ایمان موجود ہو تو اس کی تقویت اور تازگی کا باعث بنتا ہے۔ اسلام نے انسانی تاریخ پر جو نمایاں اثرات ڈالے ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے مشاہدے میں آنے والی نشانیوں سے اُن پوشیدہ حقائق تک پہنچنے کا راستہ انسان کو دکھایا ہے، جو انسانی مشاہدے میں نہیں آتے۔ قرآن مجید مثال کے طور پر ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ کرتا ہے جو آیاتِ کائنات کے مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ بُتوں کی عبادت، صریح گمراہی ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لأَبِیْہِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَاماً آلِہَۃً إِنِّیْ أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍo وَکَذَلِکَ نُرِیْ إِبْرَاہِیْمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِیْنَo (الانعام ۶:۷۴-۷۵)
’’اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم، صریح گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات کا مشاہدہ کراتے تھے، تاکہ وہ یقین کرنے والوں میںہوجائے۔‘‘
محض انبیاء علیہم السلام ہی نہیں، بلکہ عام انسان بھی اللہ کی نشانیوں پر غورکرکے حق کو پاسکتے ہیں، اگر وہ عقل سے کام لیں اور ذکرِ الٰہی کے ساتھ تفکر کا اہتمام کریں۔
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِo الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِo (آل عمران۳: ۱۹۰-۱۹۱)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو کھڑے بیٹھے اورلیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے سلسلے میں غور کرتے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو نے یہ سب عبث نہیں بنایا۔ تو پاک ہے سب عیبوں سے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر تفکر و تدبر، عقل رکھنے والوں کو آخرت پر ایمان لانے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
ایمان کی تازگی کے لیے عملی تدبیر یہ ہے کہ انسان اللہ کے راستے میں جان ومال کی قربانی پیش کرے۔ اخلاص کے ساتھ، اللہ کی رضا کے لیے کی جانی والی سعی، انسان کے ایمان میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ قرآن نے غزوہ احد کے فوراً بعد جہاد کے لیے تیار ہوجانے والے مومنین کے ایمان میں اضافے کا ذکر کیا ہے۔
الَّذِیْنَ اسْتَجَابُواْ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَہُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُوا مِنْہُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِیْمٌo الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلo (آل عمران۳:۱۷۲-۱۷۳)
’’جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا، ان میں جو نیک اور پرہیز گار ہیں، اُن کے لیے بڑا اجر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے اُن سے کہا کہ تمہارے مقابلے کے لیے مخالفین نے بڑا سامان جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو یہ سُن کر اُن کا ایمان اور بڑھ گیا۔ اور انھوں نے کہا’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھاکارساز ہے۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ انسان، ایمان کی لذت سے آشنا ہوجائے تو اللہ کے راستے میں کوشش کرنا اور قربانی پیش کرنا، اُس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
دین سے واقفیت
اُمتِ مسلمہ کے زوال کا بنیادی سبب، یقین اور ایمان کی کمزوری ہے۔ اس کے بعد دوسرا سبب، جو زوال کا باعث بنتا ہے، دین کے علم کی کمی ہے۔ اگر اُمت کے افراد دین اور اس کی تعلیمات سے ناواقف ہوں تو دین پر عمل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بنی اسرائیل کے اندر جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ قوم کے بہت سے افراد کتابِ الٰہی سے غافل اور ناواقف تھے اور ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس سے بے خبر تھے کہ اللہ کی کتاب، کیا ہدایت دیتی ہے۔ قرآن مجید نے اس صورتحال کا تذکرہ کیا ہے۔
وَمِنْہُمْ أُمِّیُّونَ لاَ یَعْلَمُونَ الْکِتَابَ إِلاَّ أَمَانِیَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَظُنُّونo(البقرۃ۲:۷۸)
’’اور بنی اسرائیل میں بعض افراد اُمّی ہیں۔ وہ کتابِ الٰہی کا علم نہیں رکھتے اور محض جھوٹی تمناؤں اور ظن و گمان پر جی رہے ہیں۔‘‘
نبی ﷺ کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل تھی کہ آپ اہلِ ایمان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں، اور اُن تمام ضروری امور کی بھی تعلیم دیں جن سے لوگ ناواقف تھے۔
کَمَا أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونo (البقرۃ۲:۱۵۱)
’’(اسی طرح) ہم نے تمہارے اندر، تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے، تمہیں پاک کرتا ہے، اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو اُن سب باتوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
اُمت میں دین کا علم عام کرنے کے لیے یہ انتظام بھی شریعت نے کیا ہے کہ جمعہ کے دن، اللہ کے ذکر پر مشتمل خطبہ، اہلِ ایمان سنیں تاکہ اُن کے علم میں اضافہ ہوسکے۔ جمعہ کی اذان ہو جانے کے بعد خطبہ سننے اور جمعہ کی نماز میں شرکت کے لیے مستعدی کے ساتھ آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِیْ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَo (الجمعۃ:۹)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘
اسلام انسانی معشرے میں جس مزاج کو پروان چڑھانا چاہتا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انسانوں کا رویہ علم پر مبنی ہو۔ چنانچہ اہلِ ایمان کو ہدایت دی گئی ہے کہ
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولٰـئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُلًاo (بنی اسرائیل: ۳۶)
’’اور اس بات کے پیچھے نہ پڑو، جس کا تمہیں علم نہیں۔ بے شک، کان، آنکھ اور دل، سب کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔‘‘
اسلام کا یہ مزاج، معاشرے میں علم کے فروغ کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اُن لوگوں کے سلسلے میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے جو کتابِ الٰہی کو چھُپاتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولٰئِکَ یَلعَنُہُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ o إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَیَّنُواْ فَأُوْلٰئِکَ أَتُوبُ عَلَیْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (البقرۃ۲: ۱۵۹-۱۶۰)
’’بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں ہماری اُتاری ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایت کو، بعد اس کے کہ ہم اُن تعلیمات کو انسانوں کے لیے، کتاب میں کھول کھول کر بیان کرچکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت کرتے ہیں۔ اِلاَّ یہ کہ وہ توبہ کریں، اور اپنا طرزِ عمل درست کریں اور جو چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں تو میں ان کو معاف کردوں گا اور میں بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔‘‘
امتِ مسلمہ کے زریں دور میں اسلامی معاشرے میں علم عام تھا اور معاشرے کا یہ وصف مسلمانوں کے عروج کا اہم سبب تھا۔ اسی طرح اَب مسلمانوں کی علمِ دین سے بے خبری، اُن کی پستی کا سبب ہے:
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر، وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو
تربیت و تزکیہ:
اہلِ ایمان کا تزکیہ نبی کریم ﷺ کے کارِ نبوت کا کلیدی جز تھا۔ تزکیہ کے معنی ہیں، نفسِ انسانی کو عیوب اور خرابیوں سے پاک کرنا اور اس کی ترقی و تکمیل کا اہتمام کرنا۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوْا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ o وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاءُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (الجمعہ: ۲-۴)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں ایک رسول، خود اُن ہی میں سے بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے۔ (اُن کا تزکیہ کرتا ہے) اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور اس رسول کی بعثت ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان (موجود اہلِ ایمان) سے نہیں ملے۔ اور وہ اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے، اپنے فضل سے نوازتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
سورہ جمعہ کی اِن آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان کا تزکیہ (اُن کو عیوب سے پاک کرنا، اُن کی زندگیوں کو سنوارنا اور اُن کی شخصیت کی تکمیل)، نبی کریم ﷺ کا اہم کام تھا۔ چونکہ آپ کی بعثت محض اُس نسل کے لیے نہ تھی جو اُس وقت موجود تھی بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی تھی، اس لیے تزکیہ کا عمل، امتِ مسلمہ میں تاریخ کے ہر دور میں جاری رہنا چاہیے۔
تزکیہ و تربیت تمام اہلِ ایمان کے لیے عام ہے، اس لیے کہ انسان کی فلاح و کامیابی اس سے وابستہ ہے۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاo فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَاo قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَاo وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَاo (الشمس، ۷-۱۰)
’’اور نفسِ انسانی کی قسم اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا پھر بدی اور تقویٰ دونوں کے راستے اس پر الہام کردیے۔ بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ ناکام ہوا جس نے اسے دبادیا۔‘‘
تزکیہ کی اس عمومی ضرورت کی بنا پریہ ناگزیر ہے کہ امت کے ہر فرد پر توجہ کی جائے یعنی اس کی اصلاح و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ تزکیہ کی یہ ذمہ داری سب سے پہلے خود اس فرد کی ہے۔ پھر اُس فرد سے متعلق تمام لوگوں پر اصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، خواہ وہ اُس کے والدین اور اساتذہ ہوں یا پڑوسی، رشتے دار، دوست اور احباب ہوں۔ اس طرح اجتماعی اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عامۃ الناس کی اصلاح وتربیت کریں۔ ان اجتماعی اداروں میں مسجد، تعلیم گاہیں، ابلاغ کے ادارے اور ریاست شامل ہیں۔ امتِ مسلمہ کی غفلت کی بنا پر ایک افسوسناک صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ بہت سے اجتماعی ادارے، معاشرے کو سُدھارنے کے بجائے، انسانوں کو بگاڑنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے جو لوگ یہ چاہتے ہیںکہ فی الواقع تزکیہ و تربیت کی کوششیں بار آور ہوں، ان کو افراد پر توجہ کے ساتھ، اجتماعی اداروں کو درست کرنے کی کوشش بھی کرنی ہوگی یا ایسے متبادل ادارے تشکیل دینے ہوں گے جو مفسدین کے پیدا کیے ہوئے بگاڑکو دور کرسکیں۔ اگر رائے عامہ کی بڑی پیمانے پر تربیت ہوجائے تو وہ —طاقتور اداروں کے شر— کا بھی کامیاب مقابلہ کرلیتی ہے۔
انطباق و اجتہاد:
اللہ اور اس کے رسول نے زندگی کے بعض پہلوؤں کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات دی ہیں مثلاً وراثت کے احکام کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ بعض پہلوؤں میں محض اصولی ہدایات دی گئی ہیں مثلاً شورائیت کا اصول، قرآن مجید کے ایک مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے۔ مختلف ہدایات کے ضمن میں تفصیل اور اجمال کے اس اسلوب سے، اہم حکمتیں وابستہ ہیں۔ جو ہدایت قرآن مجید کی کسی آیت میں بیان ہوئی ہے، ظاہر ہے وہ قیامت تک کے لیے واجب العمل ہے۔ اس کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مجمل اور اصولی ہدایات غالباً اُن امور میں دی گئی ہیں جن میں حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہ تھا کہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ نئے راستے اختیار کرنے کی یک گونہ آزادی، انسانوں کو دی جائے۔ اسی طرح تفصیلی ہدایات، غالباً اُن معاملات میں دی گئی ہیں جن میں حالات و ظروف کی تبدیلی کے ساتھ انسانی مسائل میں زیادہ تغیر نہیں واقع ہوتا یاجہاں انسانوں کو ممکن ضرر سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی واضح حدود قائم کردی جائیں جن کی موجودگی میں، ہدایتِ الٰہی کا مخلصانہ اتباع کرنے والے، نقصانات سے بچ سکیں۔ ہدایتِ الٰہی کے اس اسلوب کا تقاضا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں ابدی اصولوں کا نئے مسائل پر انطباق کیا جائے تاکہ دین کے مزاج سے ہم آہنگ، نئی راہیں تلاش کی جاسکیں۔ اسی طرح جن معاملات میں منصوص اصول بھی نہ ملتے ہوں وہاں اجتہاد سے کام لیا جانا چاہیے، یعنی دین کے عمومی مزاج کی روشنی میں اصول وضع کیے جائیں، پھر اُن کا انطباق مسائل پر کیا جائے۔ اجتہاد اور انطباق کے یہ کام آسان نہیں بلکہ توجہ، تحقیق، محنت اور اجتماعی کاوش کے طالب ہیں۔ ان دشواریوں کے باوجود، یہ کام بہرحال ناگزیر ہیں۔ اُمت کے سامنے، عملِ صالح کی راہ اگر واضح نہ ہو (اس لیے کہ اہلِ علم نے اجتہاد و انطباق کے سلسلے میں درکار محنت نہ کی ہو) تو امت یا تو بے عملی کی طرف مائل ہوتی ہے یا بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس لیے اہلِ فکر و تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ اجتہاد و انطباق کی روایت کو زندہ کریں، زندہ رکھیں اور اسے صحیح رُخ پر قائم رکھنے کا اہتمام کریں۔
جو افراد، تنظیمیں اور ادارے دین کی خدمت کررہے ہیں اور امت کے عروج کے لیے کوشاں ہیں اُن کو اسبابِ زوال کی تشخیص پر غور کرنا چاہیے۔ اس تشخیص پر انھیں اطمینان ہو تو انھیں اپنے منصوبے اور ایجنڈے میں ان اساسی امور کو شامل کرنا چاہیے جن کی نشاندہی سطورِ بالا میں کی گئی ہے۔ یعنی یقین اور ایمان کی تازگی کی سعی، دین کے علم کی وسیع اشاعت، افرادِ امت کی دینی واخلاقی تربیت اور علمی و تحقیقی روایت کی تجدید کے ذریعے اجتہاد و انطباق پر توجہ۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2016