مسلم امت: انصاف قائم کرنے والی امت

(جماعت اسلامی ہند پٹنہ کے زیر اہتمام مورخہ ۲؍مارچ ۲۰۱۳ء بعد نماز مغرب انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک خطاب عام منعقد کیا گیا جس میں مولانا سید جلال الدین عمری، (اس وقت کے) امیرجماعت اسلامی ہند نے یہ تقریرفرمائی۔ محترم احمد علی اختر صاحب نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس تقریر کو قلم بند فرمایا۔ )

بزرگو، بھائیو، عزیزو، محترم ماؤں، بہنو اور بیٹیو۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ دنیا بنائی ہے اس میں انسان کی آسائش وآرام کا بڑا سامان رکھا ہے اور اسے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور زمین میں اختیار اور اقتدار بھی عطا کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ‘اللہ نے تمھیں زمین پر بسایا اور اقتدار دیا، تمھارے کھانے پینے اور تمھاری معیشت کا سامان فراہم کیا لہٰذا تمھیں اللہ کا شکرگذار ہونا چاہیے مگر تم کم ہی شکر گذار ہوتے ہو’۔

بزرگو اور دوستو! اللہ نے زمین کے اندر جو نعمتیں رکھی ہیں اور جو وسائل وذرائع مہیا کیے ہیں انسان جب سے اس زمین پر آباد ہے اس سے فائدہ اٹھارہا ہے، زمین مسلسل اپنے خزانے کھول رہی ہے اور انسان ترقی کرتے کرتے ترقی کی اتنی اونچی منزل پر پہنچ گیا ہے کہ اگر سو سال قبل کا انسان آج اس دنیا میں آجائے تو حیرت سے کہے گا کہ یہ دنیا کچھ دوسری دنیا ہے، وہ دنیا نہیں ہے جو میں نے چھوڑی تھی اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ پچاس ساٹھ سال بعد یہ دنیا بھی نہ رہے۔ جس تیزی سے دنیا بدل رہی ہے اس میں ایسا سوچنے پر انسان مجبور ہے۔

دوستو! پوری دنیا ترقی کررہی ہے، ہمارا ملک بھی ترقی کررہا ہے اور بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ تعلیم، صنعت وحرفت اور مختلف شعبوں میں اس نے اپنا ایک مقام پیدا کرلیا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی اور بڑھتی ہوئی طاقت کا انکار نہیں کرسکتی۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو پانے کے بعد انسان کو اللہ کا شکرگذار ہونا چاہیے۔ اس کے احکام کی بجاآواری کرنی چاہیے، اس کی اطاعت وعبادت اور اس کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ مگر اس کے بجائے آدمی اگر یہ سوچنے لگے کہ یہ چیزیں مجھے خود بخود مل گئی ہیں، یہ میری محنت، میرے کسب اور میرے زور بازو کا نتیجہ ہیں تو ایسا سوچنا اللہ کی ناشکری ہے ااور ناشکری کا کبھی اچھا انجام نہیں ہوتا۔ آج ساری دنیا کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ کو بھول کر ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے۔ آج ساری دنیا میں انسان کو جو نعمتیں، آسائشیں اور ترقی کے جو مواقع مل رہے ہیں وہ ماضی کے انسانوں کی سوچ سے بہت آگے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی پروگرام اور اجتماع ہوگا تو اس طرح کی روشنی ہوگی۔ آدمی بولے گا اور مائک کے ذریعے ہزاروں انسانوں تک بات پہنچ جائے گی۔ آدمی دوگھنٹے کے اندردہلی سے پٹنہ پہنچ جائے گا، چار گھنٹے کے اندر عرب ممالک پہنچ جائے، سات آٹھ گھنٹوں کے اندر یورپ کے ممالک پہنچ جائے گا۔ آج دنیا کے کسی گوشہ میں کوئی واقعہ ہو اس کی خبر آپ کو منٹو ں میں مل جاتی ہے ایک طرف انسانی ترقی کا یہ حال ہے اور دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کو ایک زبردست بگاڑ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ انسان نے ناشکری کی روش اختیار کی ہے اور خدا کا باغی ہوگیا ہے۔ یہ عظیم کائنات اللہ نے انسانوں کے لیے اس طرح پیدا کی ہے کہ پوری کائنات اس کی حمدمیں لگی ہوئی ہے، چاند، سورج، دریا، پہاڑ سب سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے مگر بھول کر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا غلط رخ پر چلی جارہی ہے اور حرص وہوس نے انسانی ذہن کو اپنے شکنجہ میں لے لیا ہے۔ آج ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دنیا کی ساری دولت اس کے ہاتھ میں آجائے، ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ بادشاہ وقت بن جائے، ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے لیکن ہر شخص چاہتا یہی ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کا غلط طریقہ اور غلط ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ ہر طرف کرپشن ہے تو آخر یہ کرپشن ہے کیا؟ یہی کہ ساری دنیا کی دولت میرے پاس آجائے چاہے اس کے لیے کتنا ہی غلط طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو غریب اور مجبور ہیں وہ کرپٹ ہیں۔ شاید ہزاروں لاکھوں انسانوں میں کوئی ایک ہو جو مجبوری کی وجہ سے کرپشن میں مبتلا ہوا ہو۔ زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ لوگ آسودہ حال اور خوش حال ہیں، لاکھوں اور کروڑوں روپے ان کے پاس جمع ہیں لیکن یہ جذبہ کہ سب کچھ میرے پاس آجائے ان کو کرپٹ بنارہا ہے۔ آج ہندوستان میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی اور کوئی نمایاں شخصیت ایسی نہیں ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ یہی لوگ ہندوستان کی سیاست میں دخیل ہیں۔ یہی لوگ ملک پر فرمانروائی کررہے ہیں۔ آئندہ جب الیکشن ہوگا تو ہم مجبور ہیں کہ انھی کرپٹ لوگوں اور کرپٹ پارٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اس لیے کہ کوئی سیاسی شخصیت اور کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ یہ کرپشن سے پاک ہے۔ کرپشن ہمارے سماج میں اور ہمارے ملک کے نظام میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ہر خاص وعام کا یہی قول ہے کہ آپ کرپشن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ الا ماشاء اللہ۔ رشوت لینا، دینا اور آگے بڑھنا، یہی ایک راستہ ہے۔ اس راستے سے آپ انحراف کریں گے تو آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی۔ آپ کی ترقی کا راستہ رک جائے گا اس لیے جو جتنا ہوشیار اور چالاک ہے وہ اتنا ہی زیادہ کرپٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم سے انسان کی زندگی سنور تی ہے اور وہ اچھی عادات واخلاق کا شہری بنتا ہے مگر آج جولوگ کرپٹ ہیں وہ جاہل اورگنوار نہیں ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کوالی فائڈ لوگ ہیں۔ ایڈمنسٹریشن، اور حکم رانی میں دخل رکھتے ہیں وہ ملک کے دروبست پر قابض ہیں، ایسی صورت میں یہ سوچنا کہ ملک کرپشن سے پاک ہوجائے گا ایک بہت دور کی بات ہے تاوقتیکہ باشندگان ملک کے نظریات اور ملک کے نظام میں بنیادی تبدیلی کی کوئی تحریک نہ چلے۔

کرپشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ امیر امیر تر ہوتا اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ جس کے پاس وسائل ہیں وہ زیادہ سمیٹتا ہے اور جس کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ چناں چہ ہمارے ملک میں امیر وغریب کا اتنا بڑا فرق ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وزارت مالیات کے چیئرمین نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ اگر ۲۶؍روپے کسی کی آمدنی روزانہ کی ہے تو اسے ہم غریب نہیں کہہ سکتے لیکن صورت حال یہ ہے کہ اگر ۲۶؍روپے آپ کی جیب میں ہوں تو چائے پینے کے لیےکسی اچھے ہوٹل میں نہیں جاسکتے۔ پھر آپ خود سوچیے کہ آپ اپنا پیٹ کیسے بھریں گے اور کیسے اپنی فیملی کے لیے وسائل زندگی فراہم کریں گے۔ اور یہ باتیں وہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کی آمدنی ۲۶؍لاکھ اور ۲۶؍کروڑ روپے ہے۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ایک غریب شخص دو وقت کی روٹی بھی فراغت سے نہیں کھاسکتا اور کچھ دوسرے لوگ عیش وعشرت کی زندگی گذار رہے ہیں ان کا پروگرام لاکھوں، کروڑوں اور عربوں کا ہوتا ہے، پوری انڈسٹری پر ان کا قبضہ ہے اور یہ قبضہ کچھ اس طرح بسیط اورمحیط ہوتا جارہا ہے کہ عام لوگوں کے لیے کسب معاش کے ذرائع اور مواقع محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں اور لوگ مجبورہیں کہ اپنے صنعتی آقاؤں کے اشاروں پر اپنا خون اور پسینہ قربان کرتے رہیں۔ یہ ہے کہ آج کی جدید مادی دنیا کا استحصالی نظام۔ اس استحصال کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی دولت اور اپنی طاقت کے ذریعے دوسروں کو خرید تا ہے۔ اس کی جسمانی طاقت، اس کا علم، اس کی صلاحیتوں، اس کی جوانی اور اس کے قیمتی اوقات کو خرید تا ہے تب وہ ترقی کرتا ہے اور اپنی دولت کو مزید بڑھاتا ہے۔ میرے دوستو یہی استحصال (exploitation)ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور فنی جوہر سے مالامال شخص بہت ترقی کرسکتا ہے، مگر اس کے پاس وسائل نہیں ہیں، ایک کمپنی اس کو پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے ماہانہ اس وقت دیتی ہے جب کہ وہ شخص اس کمپنی کو ایک کروڑ روپے ماہانہ فراہم کرے۔ بہت پہلے کی بات ہے، ایک صنعت کار مجھ سے بات کررہا تھا۔ اس نے کہا مولانا صاحب ہمیں یہ دیکھنا ہوتا پڑتا ہے کہ کمپنی میں جو آدمی رہے وہ خوشحال اور خوش وضع رہے، وہ بیگ لے کر پیدل چلے گا تو کوئی اس سے بات نہیں کرے گا، موٹر سائیکل پر چلے تو ہوسکتا ہے کوئی اس سے بات کرلے اس لیے ہم اسے کار فراہم کرتے ہیں تاکہ اس کی طرف لوگوں کا attractionبڑھے، اسے اچھا فلیٹ فراہم کرتے ہیں اور ہر وہ چیز فراہم کرتے ہیں جو ہمارے بزنس بڑھانے میں اس کے لیے معاون بنے لیکن ہمیں اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کا بینک بیلنس نہ بڑھے، اس کے پاس سرمایہ جمع ہوگا تو وہ ہمارا حریف بن جائے گا کیوں کہ اس کے پاس تعلیمی صلاحیت، ہنر اور فیلڈ کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہے، پھر وہ مجھ سے زیادہ ترقی کرجائے گا اور میں پیچھے رہ جاؤں گا۔ دراصل یہی exploitationہے کہ ایک شخص کی جوانی کی بھرپور طاقت اور عمدہ صلاحیتوں کو خرید کر اس کا اس طرح استحصال کیاجائے کہ وہ آگے نہ بڑھنے پائے اور میں اس کے زور پر بڑھتا رہوں۔

دوستو، ہر انسان کے کچھ بنیادی حقوق (Fundamental Rights)ہیں۔ ہر انسان جو پیدا ہوا ہے اس کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے غذاملے، دوا ملے، جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہو، تعلیم حاصل کرنا چاہے تو تعلیم ملے، انسان اس دنیا میں پیدا ہی اس طرح ہوتا ہے کہ اگر ان حقوق کو تسلیم نہ کیا جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے دنیا کے تمام جمہوری ممالک ان حقوق کو تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف عملی صورت حال یہ کہ آج جو غریب ہے اور وسائل سے محروم ہے نہ اس کی جان ومال محفوظ ہے اور نہ عزت وآبرو۔ اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ دنیا میں امن ہے، ایک ناقابل یقین بات ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ مغربی ممالک اور امریکہ کس طرح بمباری کرکے ہزاروں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ دنیا میں انسان آتا ہے، زندہ رہنے کے لیے مگر آپ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ مانا کہ آپ کو اس سے اختلافات ہوں گے مگر آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ نے طے کرلیا کہ فلاں ملک نہیں رہ سکتااور آپ نے بمباری کرکے اسے ختم کردیا۔ اس میں وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کے دشمن ہیں، وہ لوگ بھی ہیں جن کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر آپ نے انھیں ختم کردیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انسانی حقوق کو پامال کیا۔ جس سوسائٹی کے اندر انسانی حقوق پامال ہورہے ہوں وہ سوسائٹی باقی نہیں رہ سکتی کیوں کہ ایسی سوسائٹی میں ہرشخص اس خوف وخطر ے کے ساتھ زندگی گذارے گا کہ معلوم نہیں کل میرے ساتھ کیا واقعہ ہوجائے۔ دلی میں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں جوڑے کو ختم کردیا گیا، فلاں کو قتل کردیا گیا، فلاں کی عزت لوٹ لی گئی۔ کہا جارہا ہے کہ آج دلی سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر ہوگیا ہے۔

دوستو اور ساتھیو، یہ جو صورت حال ہے یہ بدلنی چاہیے۔ اس وقت سارا اقتدار سیاست والوں کے ہاتھ میں ہے اور سیاست کیسے ہورہی ہے؟ انسانوں کو تقسیم کرکے۔ یہ اونچی ذات کاہے اسے اوپر آنا چاہیے، یہ نیچی ذات کا ہے اسے نیچے جانا چاہیے، یادو کا ووٹ مجھے ملنا چاہیے، مسلمانوں کا ووٹ مجھے ملنا چاہیے۔ سیاست اس وقت نام ہے اس کا کہ انسانوں کو گروہوں میں بانٹا جائے، کسی کو ان کے عام مسائل سے دل چسپی نہیں ہے۔ صحیح سیاست یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کہیں بھی ہو، کسی انسان کے ساتھ بھی ہو اس کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے۔ لیکن یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ زیادتی کس گروپ کے ساتھ ہوئی ہے۔ جن طبقات کو آپ پسماندہ اور کم زور کہتے ہیں، خدا جانے ان کے ساتھ کتنی زیادتیاں ہوئی ہوں گی۔ ان کی عورتوں، بچوں اور مردوں پر نہ جانے کتنے مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں۔ ظلم چاہے کسی کے ساتھ ہو، مسلمان کے ساتھ ہو، غیر مسلم کے ساتھ ہو، نیچے طبقات کے ساتھ ہویا اونچے طبقات کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ روز بروز انسانوں کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ آخر اس کا علاج کیا ہے۔ میں اسلام کا ایک طالب علم ہوں۔ اسلام کہتا ہے کہ میرے پاس اس کا علاج ہے، دنیا کے ہر بگاڑ کا علاج ہے۔ کیوں کہ رسول آتے ہی اس وقت ہیں جب بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، پھر وہ اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ اصلاح کی بنیاد کیا ہوتی ہے اور کیسے اصلاح کرتے ہیں۔ پہلی بات وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان جو خدا کو بھول گیا ہے وہ خدا کی طرف پلٹ آئے۔ یہ وسیع وعریض کائنات جس میں بے شمار ستارے، سیارے اور کہکشاں ہیں ان کا خالق ومالک اللہ ہے اور اس دنیا پر بھی اسی کی حکومت ہے۔ اس کا انکار ایک بہت بڑی حقیقت کا انکار ہے اور کسی حقیقت کے انکار کے بعد آدمی جو بھی رویہ اختیار کرے گا وہ غلط رویہ ہوگا۔ اس لیے اسلام کی پہلی تعلیم یہ ہے کہ انسان خدا کو مانے اور یہ قبول کرے کہ دنیا پر اسی کی حکومت ہے۔ وہی اصل فرمانروا ہے۔ میں اس کا بندہ ہوں، مجھے اپنا تعلق اس سے جوڑنا چاہیے، اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسی کے احکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی چاہیے دوسری بات اسلام یہ بتاتا ہے۔ اللہ کا بندہ بننے کے بعد انسان کو کیسی زندگی گذارنی چاہیے، اس کا عقیدہ کیا ہو، اللہ کا شکروہ کیسے اداکرے، اس کی عبادت کیسے کرے، کن اخلاق کا پابند ہو، کیا طریقہ گھر میں اختیار کرے، گھر سے باہر کیا طریقہ ہو، بازار میں کیسے رہے، حکومت وسیاست کیسے کرے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری باتیں اسلام بڑی تفصیل سے بتاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کی نگرانی کررہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ وہ کیسے اعمال کررہے ہیں۔ موت کے بعد ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا حساب لے گا اور اعمال کی جزا اور سزا دے گا۔ امیں کبھی کبھی مثال دیتا ہوں کہ آپ ایک ہزار روپے کا کوئی ملازم رکھتے ہیں گھر کا سودا سلف لانے کے لیے، آپ اس کی نگرانی کرتے ہیں کہ واقعی وہ گھر سودا سلف ٹھیک سے لارہا ہے یا نہیں اور جب تک اعتماد بحال نہیں ہوتا یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پیسے میں خرد برد تو نہیں کرتا اور وقت پہ آتا ہے کہ نہیں، کوئی کام ادھورا تو نہیں رہ جاتا، آپ سوچیے کہ پوری کائنات جس نے آپ کے حوالے کی ہے کیا وہ آپ کا حساب نہیں لے گا ؟ اتنی بڑی کائنات اس نے آپ کے حوالے کی ہے، اس طرح حوالے کی ہے کہ ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دنیا میری ہے، ممکن نہیں کہ اتنی بڑی دنیا آپ کے حوالے کردے اور آپ سے یہ نہ پوچھے کہ یہاں کیسے زندگی گزاری، قرآن کہتا ہے یہ بات بھی مانو۔

میرے دوستو اور ساتھیواسلام کی دوسری بڑی تعلیم یہ ہے کہ اس زمین میں فساد نہ ہونے دو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کائنات پیدا کی ہے اس میں کوئی فساد اور بگاڑ نہیں ہے البتہ تمھاری زندگی میں فساد برپا ہے تو اس فساد کو ختم کرو۔ ہر انسان اللہ کو یاد کرکے بیٹھ نہ جائے بلکہ زمین میں جو فساد پھیلا ہوا ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اللہ کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرے گا تو حشر میں اس سے بازپرس ہوگی۔

تیسری بات جو اسلام کہتا ہے وہ یہ کہ انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو، سب اللہ کے بندے ہیں، سب آدم کی اولاد ہیں، اللہ تعالی نے ایک مرد اور ایک عورت سے انسان کو پیدا کیا اور ان کے قبیلے اورخاندان بنادیے، ان کی زبانیں بھی مختلف ہیں ان کے رنگ روپ بھی مختلف ہیں، لیکن اللہ کے نزدیک بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر تقویٰ ہو، جو خدا سے ڈرے وہی مقدم اور افضل ہے، باقی کسی چیز کا اعتبار نہیں ہے، مشرق کے لوگو، مغرب کے لوگو، شمال کے لوگو، جنوب کے لوگو، اس وقت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے لوگو سنو تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو، تمھارے خاندان بھی ہیں، قبیلے بھی ہیں، قومیں بھی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم پہچان سکو، یہ کالا ہے، یہ افریقہ کا رہنے والا ہے، یہ گورا ہے، یہ یورپ کا رہنے والا ہے، یہ سانولے رنگ کاہے، یہ ایشیا کا رہنے والا ہے، کچھ پہچان ہو، ورنہ سب کے رنگ ایک ہوجاتے، سب کے قد وقامت ایک ہو جاتی، شکل وصورت ایک ہو جاتی تو پہچاننا مشکل ہوجاتا، یہ پہچان ہے انسانوں کے درمیان، فرق نہیں ہے۔ جو قوم اللہ سے ڈر کے زندگی گزارتی ہے وہ قوم اللہ کے نزدیک محترم ہے۔ اسلام کو اگر دنیا میں اقتدار ملے گا تو یہی تصور عام کرے گا کہ انسانوں کے درمیان فرق نہیں ہونا چاہیے، جب مکہ فتح ہوا تورسول ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور کسی عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں ہے، کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے، کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں ہے ہاں اگر خدا ترس ہے تو وہ سب سے بہتر انسان ہے۔ میں ایسے موقع پر ایک واقعہ سناتا ہوں آپ بھی سن لیجئے۔

حضرت بلال ؓ کے بارے میں آپ کو معلوم ہے وہ حبش کے رہنے والے تھے، ان کارنگ سیاہ تھا، رسول ﷺ کی بعثت کے بعد کا واقعہ ہے، ان کے بھائی نے کہا کہ میری شادی کہیں کرادیجئے، بلال ؓ نے مکے میں کہا کہ میرا بھائی شادی کرنا چاہتا ہے، تم مجھے بھی جانتے ہواور اسے بھی، میں غلام تھا مجھے آزاد کردیا گیا، میرا رنگ بھی تم دیکھ رہے ہو، میرا بھائی شادی کرنا چاہتا ہے، کوئی تیار ہوتو بتائے۔ ہر طرف سے آواز آنے لگی بلال تم رشتہ چاہتے ہوتو ہاں ہم تیار ہیں۔ تو میرے دوستواور ساتھیو قرآن کہتا ہے کہ تقویٰ کے بنیاد پر تو انسان کو عزت مل سکتی ہے اور کوئی دوسری بنیاد نہیں ہے کہ وہ عزت کا مستحق ہو،

تیسری چیز جس پر قرآن زور دیتا ہے وہ یہ کہ اس دنیا کے اندر انصاف قائم ہونا چاہیے، ہمارا جو آئین ہے اس میں بھی کہاجاتا ہے اس کی تین بنیادیں ہیں، اس میں ایک بنیاد انصاف ہے، قرآن میں جگہ جگہ بتایا گیا کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف کرویہاں تک کہ دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرو۔ قرآن نے کہا کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر نہ ابھارے کہ تم اس کے ساتھ انصاف نہ کرو، انصاف کرو چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو اور کہا کہ تقویٰ سے قریب تر بات یہ ہے کہ انصاف سبھی کے ساتھ ہو۔

میرے دوستواور ساتھیو اس انصاف کو قائم کرنے کے لیے ایک امت کھڑی کردی گئی، امت مسلمہ۔ کہیں ایسا نہیں ہوا کہ انصاف کو قائم کرنے کے لیے ایک پوری امت کھڑی کردی جائے۔ میرے دوستو! اگر یہ امت طے کرلے کہ دنیا میں انصاف ہوگا تو قسم خدا کی اس دنیا میں ظلم نہیں ہوسکتا۔ آپ فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ہم بیس کروڑ ہیں اللہ تعالیٰ ہماری آبادی کو مزید بڑھائے۔ اگر بیس کروڑکی آبادی یہ طے کرلے کہ ہمارے ملک میں انصاف ہوناچاہیے تو ناممکن ہے کہ ناانصافی ہو۔ آپ بیٹھ گئے تو دنیا میں ظلم ہورہا ہے، قرآن نے کہا ہے کہ انصاف کو لے کر کھڑے ہو جاؤ۔ انصاف کی زد اگر تم پرپڑتی ہے تب بھی انصاف کرو، گھر والوں پر پڑتی ہے تب بھی انصاف کرو، رشتہ داروں پر پڑتی ہے تب بھی انصاف کروکیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور دوسری بات اسلام یہ کہتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا، اقتدار والا ہو یا اقتدار سے محروم۔ اللہ کا قانون ہر ایک پر یکساں لاگو ہو۔

چوتھی بات اسلام یہ بتاتا ہے کہ اللہ کا دین سب کے لیے ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ بات ہم اس طرح پیش نہیں کرتے جس طرح اسلام پیش کرتا ہے، قرآن میں جہا ں یہ بات کہی گئی ہے کہ لوگو اپنے رب کی بات مانو، اس کی بندگی کرو، اس سے ڈرو، اس کے احکام کی پابندی کرو وہیں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ یہ دین صرف ہمارے لیے نہیں ہے ساری دنیا کے لوگوں کے لیے ہے۔ یہ بات دنیا کے سامنے آنی چاہیے۔ یہ بات جب تک دنیا کے سامنے نہیں آئے گی اس وقت تک اسلام کی صحیح تعلیم دنیا کے سامنے نہیں آئے گی۔ جب اسلام کا ذکرہوتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا مذہب ہے، حالاں کہ اسلام کے معنی یہ ہے کہ اللہ کے سامنے سر کو جھکانا، جو اللہ کے سامنے سر کو جھکا دے وہ مسلم ہے، جو اللہ کے احکام کا پابند ہوجائے وہ مسلم ہے۔ تو قرآن یہ کہتا ہے کہ ساری دنیا سے یہ کہو کہ وہ اللہ کے بندے بن جائیں، اس کے فرمانبردار بن جائیں۔

اور آخری بات میں یہ کہوں گا کہ اسلام میں دنیا کی بھلائی بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی اوریہ ہمارے مسائل بھی حل کرتا ہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے انصاف کی بنیاد پر اسلام نے حل نہ کیا ہو۔ جو انسان دنیا کو سیدھا راستہ دکھلائے وہ یہاں بھی کام یاب ہوگا اور آخرت میں بھی کام یاب ہوگا۔ اللہ کہتا ہے کہ جو لوگ دنیا کی بھلائی چاہتے ہیں اسے دنیا کی بھلائی بھی دیں گے اور آخرت کی بھلائی بھی دیں گے، اور جو لوگ صرف دنیا کمانا چاہتے ہیں انھیں صرف دنیا ہی میں دیں گے، لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ نہ سمجھوکہ ہم قرآن پر عمل کریں گے تو مصیبت میں پڑ جائیں گے، نہیں بلکہ یہ کہا کہ غربت ہے تو غربت ختم ہوجائے گی، آخری بات میں یہ کہہ دوں کہ یہ دنیا اس وقت عجیب اضطراب کی کیفیت میں ہے۔ پوری دنیا میں ایک طرح کا بھونچال ہے، چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیراور پسماندہ ممالک، سب پریشان ہیں اور دنیا ایک طرح کی کشمکش میں ہے، طاقت ور ممالک ترقی پذیرممالک اور کم زور ممالک کو ختم کرنے کے درپے ہیں، ہر شخص گھبرایا ہوا ہے اور دنیا امن وسکون سے محروم ہے، دنیا میں اس وقت بہت سے نظریات کی کارفرمائی ہے ان نظریات کے باوجود دنیا اضطراب میں مبتلا ہے، ہمار ے دین کا یہ کہنا ہے کہ دیکھوتمھارے دکھ درد کا علاج میرے پاس ہے، دنیا مسائل میں مبتلا ہے میری بات اگر مانوگے تو یہ مسائل دور ہوجائیں گے، انصاف قائم ہوگا، زمین فساد سے پاک ہوگی، تمھاری دنیا بھی سنورے گی اور آخرت بھی سنورے گی۔

میرے دوستو اور ساتھیو جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ اس پر بھی غور کرلو، یہ نہ کہو یہ مذہب کی بات ہے اس لیے ہم نہیں مانیں گے اگر کوئی مذہب تمھارے دکھ درد کا علاج بن سکتا ہے تو عقل کہتی ہے کہ تمھیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ یہ نادانی ہوگی کہ تم یہ کہو کہ چاہے اس میں ہمارے دکھ درد کا علاج ہو مگر ہم نہیں مانیں گے اور آج کے علمی دور میں ایسی بات کوئی عقل مند نہیں کہہ سکتا۔ ہم اسلام کے دشمنوں سے بھی اورغیر جانب دار لوگوں سے بھی کہتے ہیں، ایک نسخہ اسلام بھی پیش کرتا ہے، اس پر غور کیجیے، قرآن کبھی یہ نہیں کہتا ہے کہ میں زبردستی اپنی بات منواؤں گا۔ قرآن تو اپنے پیغمبر سے بھی کہتا ہے کہ آپ جسے چاہیں سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتے اللہ جسے چاہتا ہے راستہ دکھاتا ہے آپؐ داروغہ بناکر نہیں بھیجے گئے، آپ تو بس یاددہانی کرنے والے ہیں۔

اس لیے میرے دوستو اور ساتھیو آپ دنیا سے یہ کہیے کہ دیکھو یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں تمھارے دکھ درد کا علاج ہے، تمھارے ہی دکھ درد کا نہیں پوری دنیا کے دکھ درد کا علاج ہے، اگر تمھاری سمجھ میں آئے اورتم محسوس کرو کہ اس میں تمھارے دکھ درد کا علاج ہے تو اسے بند کرکے نہ رکھو، غور کرو اس پر، یہ عقل کا تقاضا ہے۔ آج دنیا کا یہی حال ہے کہ ہر بات سننے کے لیے وہ تیار ہے لیکن اسلام کے نام پر وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ کو اور ہمیں کھڑا ہونا چاہیے اور ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ غلط رویہ ہے، یہ ڈیموکریسی کے خلاف ہے، سنجیدگی کے خلاف ہے، اگر آپ کو ایک شخص سنجیدگی اوردلائل کے ساتھ کوئی بات کہہ رہا ہے تو آپ آئیے اور اسے دیکھیے سمجھ میں نہ آئے تو رد کردیجئے، لیکن وہ سمجھ میں آتی ہے تو آپ کو مزید اس پر غور کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں نے جو باتیں آپ کے سامنے عرض کی ہیں وہ ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہیں، ہم اس پر غور بھی کریں اور اپنی بساط بھر اس پر عمل بھی کریں۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2024

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau