اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے سب سے اہم سوال یہی ہے کہ وہ دو مختلف حیثیتوں کے مالک ہیں، ایک حیثیت ان کے مسلمان ہونے کی ہے اور دوسری حیثیت ان کے ہندوستانی ہونے کی ہے اور ان کو ان دونوں میں نہایت جچا تلا توافق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس توافق میں فرق آنے کا نتیجہ یا تو یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان مسلمان نہ رہیں یا پورے ملک کو اپنا دشمن بنالیں۔ اور یہ توافق پیدا کرنا کسی قوم پرستانہ تدبیر کے ساتھ ممکن نہیں ہے، کیوں کہ اس نقطہ نظر کے چھاجانے کے بعد اولًا تو اسلامی حیثیت سے خود مسلمانوں میں ایسی کم زوریاں پیدا ہوجائیں گی جو ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو کم زور کردیں گی، جس کی بنا پر وہ عمل و کردار کی مضبوطی نہ دکھلاسکیں گے جو حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے ، اور دوسرے اس کا جو ردعمل ہندو ذہنیت پر پڑے گا اس کے نتیجے میں آئے دن توافق درہم برہم ہوتا رہے گا۔ اس کے برعکس اپنی صحیح اسلامی حیثیت یعنی ایک اصولی پارٹی کا مقام اختیار کرلینے کے بعد فرقہ وارانہ مسائل از خود ختم ہوجائیں گے اور اب ان کو جو مشکلات پیش آئیں گی وہ ہندو مسلم سوال کی بنیاد پر نہیں ہوں گی بلکہ بعض ان اصولوں کی بنیاد پر ہوں گی جن کی تائید و حمایت میں بہت ممکن ہے خود بہت سے غیر مسلم بھی آپ کے شریکِ حال ہوں۔
(مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد، ص ۲۲۸، ۲۲۹)
مشمولہ: شمارہ اگست 2022