دعوت وتربیت- اسلام کا نقطۂ نظر
مصنف : مولانا سید جلال الدین عمری
صفحات : ۱۳۵ ٭ قیمت: -/۵۵ روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۵۲
یوں تو تو مولاناسید جلال الدین عمری ﴿پ:۱۹۳۵ء﴾ کی شہرت عالم اسلام کے نام ور عالم دین، ممتاز محقق اور صاحب طرز مصنف کی حیثیت سے ہے، عصر حاضر کے اہم سماجی موضوعات پر ان کی تصانیف علمی ودینی حلقوںمیں مقبول ہیں، لیکن ا ن کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک قادرالکلام اور بے مثال خطیب بھی ہیں۔ قرآن و سنت سے ماخوذ دلائل، طرز استدلال کی ندرت اور زبان وبیان کی شگفتگی ان کی تقریر اور تحریر دونوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیرہونے اورملک کی دیگر جماعتوں، اداروں اور مراکز سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انھیں تحریکی اور دینی و دعوتی اجتماعات اور دیگر علمی پروگراموں میں خطابات کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرصے سے وہ مرکز جماعت اسلامی ہند کی مسجد اشاعت اسلام میں جمعہ و عیدین کے خطبات دیتے ہیں، جنھیں سننے کے لیے دور دراز سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہوتے ہیں۔
زیرنظر کتاب مولانا عمری کے ۱۳مضامین کامجموعہ ہے۔ ان میں نصف سے زائد عید کے خطبے یا مختلف پروگراموں میں ان کے خطابات پرمشتمل ہیں،جنھیں بعد میں ضبط تحریر میں لایاگیا اور ان پر نظرثانی کی گئی ہے۔ یہ مضامین سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے ساتھ ملک کے اہم اسلامی مجلات میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ بعض خطابات کتابچے کی صورت میں بھی بڑے پیمانے شائع ہوے ہوئے ہیں۔
جیساکہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے۔ اِس میں دوطرح کے مضامین ہیں۔ کچھ مضامین دعوتی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً: امت مسلمہ ہند کے لیے صحیح لائحہ عمل، دعوت اسلام جس پر امت مامور رہے، کیا اسلام سے بہتر کوئی دعوت ہوسکتی ہے؟ قرآن کاپیغام انسانیت کے نام، دعوت دین اور اس کے تقاضے ، ترجیحات دین اور اسلامی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ان مضامین میں پورے زوراور قوت استدلال کے ساتھ امت کو فریضۂ دعوت دین کی ادائی کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، اس کے تقاضوں سے آگاہ کیاگیاہے اور اس معاملے میں کوتاہی کے انجام سے ڈرایاگیا ہے۔ دوسرے مضامین تربیتی اور اصلاحی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید کی عظمت اور اس کے مطالعے کے بعض پہلو، تقویٰ کی زندگی، جائزہ اور احتساب کی ضرورت، اختلاف میں عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑیے، اصلاحِ امت اور قرآن وسنت کی رہ نمائی اور اصلاح امت میں علما کا کردار۔ ان مضامین میں امت کو اصلاح احوال کی جانب متوجہ کیاگیا ہے اور اس کی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ ان مضامین کی خوبی یہ ہے کہ ان میں قاری کو قرآن و حدیث سے استناد و استدلال اور عقلی اپیل کے ساتھ زبان وادب کی چاشنی بھی ملتی ہے۔ اس سے قبل مولانا کے مضامین کے دو مجموعے ’یہ ملک کدھر جارہاہے‘ اور ’ملک و ملت کے نازک مسائل اور ہماری ذمّے داریاں‘ شائع ہوچکے ہیں۔ امید ہے تحریکی و دینی حلقوں میں اس مجموعۂ مضامین سے بھی بھرپور استفادہ کیاجائے گا۔
﴿محمد رضی الاسلام ندوی﴾
انکارِ حدیث- فتنہ وگم راہی
مرتب : سلیم الہندی
صفحات : ۸۰ ٭ قیمت: -/۶۰ روپے
ملنے کاپتا : ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس، پرانی حویلی، حیدرآباد
دین و شریعت کی دو بنیادیں ہیں: کلام اللہ ﴿قرآن﴾ اور کلام رسول یعنی حدیث۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی یہ تھا کہ انسانوں کی ہدایت اور رہ نمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو احکام و فرامین نازل کیے ہیں، انھیں ٹھیک ٹھیک پہنچادیں، ان کی توضیح و تشریح کریں اور ان کا عملی نمونہ پیش فرمائیں۔ اسی بنا پر جمہورِ امت نے آپﷺ کے اقوال و اعمال کو حجت سمجھا ہے اور اسلام میں قانون سازی کا مأخذ قرار دیا ہے۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی عہد میں بعض گم راہ فرقے وجود میں آئے جنھوںنے احادیث نبویﷺ کا انکار کیا اور انھیں مأخذ شریعت تسلیم نہیں کیا تو علمائ ومحدثین میدان میں آئے اور انھوں نے اس فتنے کی سرکوبی کی۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں اس فتنے نے پھر سر ابھارا اور ایک گروہ ایسا سامنے آیا جس نے احادیثِ نبویﷺ کی حجت میں شکوک و شبہات پیدا کرنے شروع کیے۔ ان لوگوں نے پیغمبر کے منصب اور حیثیت کو نشانہ بنایا اور احادیث پر بحثیںکرکے انھیں ساقط الاعتبار قرار دینے کی کوشش کی۔ اس موقع پر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جو علماء میدان میں آئے ان میں سرفہرست مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ﴿۱۹۰۳-۱۹۷۹ ﴾ کی ذات گرامی تھی۔ مولانا نے ان منکرین حدیث کی تحریروں کا محاکمہ اور اعترضات کا پُرزور رد کرتے ہوئے واضح کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض نامہ بر اور قرآن کے شارح ہی کی نہیں، بل کہ آپ ہادی و رہ نما، قاضی و حاکم اور شارع و قانون ساز بھی تھے۔ آپ نے یہ بھی واضح کیاکہ تعلیماتِ قرآن کے ساتھ تعلیماتِ نبویﷺ کی پیروی بھی فرض ہے۔ اس سے آزاد ہوکر صرف احکامِ قرآن کی پیروی کی بات کرنا سراسر گم راہی ہے۔
منکرین حدیث کے اعتراضات اور شکوک و شبہات اور مولانا مودودی کے جوابات ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوتے رہے۔ بعد میں انھیں مذکورہ ماہ کے ’منصب رسالت نمبر‘ میں جمع کردیاگیا۔ پھر خود مولانا محترم نے ان پر نظر ثانی کرکے کتابی شکل میں ’ سنت کی آئینی حیثیت ‘ کے نام سے مرتب فرمایا۔ یہ کتاب مولانا مرحوم کی مقبول ترین کتابوں میں سے ہے اور ہندو پاک میں اس کے بہت سے ایڈیشن منظرعام پر آئے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں مولانا مودودیؒ کی اسی کتاب کی تلخیص ہے۔ جناب سلیم الہندی نے ذیلی عناوین قائم کرکے اور اعتراضات کو نقل کرکے مولانا مودودی کے جوابات کا خلاصہ درج کیا ہے، جس سے مباحث کو ذہن نشین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ آج جب کہ دانش ورانہ زعم میں مبتلا بعض افراد کی جانب سے یہ شبہات اٹھائے جاتے ہیںاور سادہ لوح مسلم نوجوان ان سے متاثر ہورہے ہیں، اس فتنے کی سرکوبی کے لیے یہ کتاب نہایت مفید اور موثر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مرتب کو جزائے خیر دے اور اس کا فائدہ عام کرے۔ ﴿محمد رضی الاسلام ندوی﴾
طب نبوی
مؤلف: ابوعبداللہ ابن القیم الجوزیؒ
ترجمہ: عروہ وحید سلیمانی
صفحات: ۵۰۴ ٭ قیمت: -/۳۰۰ روپے
ناشر: مکتبہ الحسنات، دہلی
امام ابن القیم ساتویں صدی ہجری کے ان نابغۂ روزگار ہستیوں میں سے ہیں، جنھوں نے علمی دنیا کو ’زادالمعاد‘ جیسی اہم کتاب سے نوازا۔ان کا نام محمد تھا۔ چونکہ ان کے والد ابوبکر دمشق کے صدر سنہ جوزیۃ کے قیم ﴿ناظم﴾ بھی تھے، اسی لیے ان کو ابن قیم کہاجانے لگا۔اور اِسی نسبت سے جوزی بھی کہاجاتاہے۔ وہ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید تھے اور آخر دم تک استادکے ساتھ رہے۔
طب نبویﷺ کے تجویز کردہ نسخے، آپﷺ کے تجویز فرمودہ مختلف امراض کے لیے مفردات، ادعیہ وغیرہ کا تذکرہ یوں تو کتب ستّہ کے علاوہ دوسری کتب احادیث میں بھی ملتا ہے اور اس کے علاوہ بھی طب نبوی پر ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ لکھاجاتارہا ہے۔بعض دفعہ اس کا جدید طب سے مقارناتی مطالعہ بھی پیش کیاگیا ہے اور تضادات کو بھی دور کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ، لیکن ابن قیم کی یہ کتاب ’طب نبوی‘ ﴿الطب النبوی﴾ ایک جامع کتاب ہے۔ اس میں حضرتِ امام نے بیماریوں کو دو طرح سے تقسیم کیاہے:دلوں کی بیماریاں اورجسمانی بیماریاں۔ اور دونوں کے بارے میں اس کی تفاصیل، علامات، علاج اور پرہیز سب کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ طب کے لغوی معنی کے ساتھ طبیب حاذق کی تعریف، مرض کے مختلف درجات، طریقۂ علاج اور جاہل وناواقف طبیب کا حکم وغیرہ جیسے مضامین کو بھی احادیث کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ جسمانی امراض میں پھوڑے پھنسی سے لے کر جماع کے اصول وضوابط تک پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ دل کے امراض میں جھاڑ پھونک، مرض عشق اور اس کا علاج ، کے علاوہ آنکھوں کی حفاظت کاطریقۂ نبوی وغیرہ کو بھی شامل بحث کیاگیاہے۔ اس طرح کل ۱۲۳فصلوں کاذکر کیاگیا ہے۔ ایک فصل میں خاص طور سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ مفرد دواؤں اور غذاؤں کا حروف تہجی کے اعتبار سے ذکر کرکے ان کے فوائد و نقصانات پر بحث کی گئی ہے۔ مثلاً حرف لام میں ’لحم‘ کے عنوان سے بھیڑ، بکری، ہرن، خرگوش، گوہ وغیرہ جانوروں کے گوشت کی خاصیات و فوائد کاتذکرہ ہے۔ پرہیز اور احتیاط کا باقاعدہ علاحدہ فصل میں تذکرہ کیاگیا ہے اور آخری فصل میں طب نبویﷺ کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بڑی خاص بات یہ ہے کہ حواشی میں تمام احادیث اور اقوال کی تخریج اور حوالہ جات کااہتمام کیاگیاہے۔ عربی اشعار سے جابجا استدلال کیاگیا ہے۔ کتاب اس اقتباس پر مکمل کی گئی ہے: امت محمدیہ کے دانشوروں کا مزاج دموی ﴿عقل وشجاعت، دانائی و مروت﴾ ہے اور یہود کامزاج صفراوی ﴿رنج وغم، احساس کمتری ، حزن وملال﴾ اور نصاری کا مزاج بلغمی ﴿کند ذہن، کم عقلی، نادانی کا غلبہ﴾ ہے۔ اس سے بھی کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
﴿عاصم شیرازی﴾
مشمولہ: شمارہ مئی 2012