سیدمودودیؒ کا فکری انقلاب[ دوجلدیں [
مرتب : محمد افضل لون
صفحات جلداول:۳۷۶، قیمت=/۲۲۵روپے، جلد دوم: ۳۵۲، قیمت:۔/۲۲۵ روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ تحریک حریت جموں وکشمیر
زیر نظر کتاب زندانی ادبیات میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ ۲۰۰۹ء میں کشمیر میں شوپیان کے الم ناک واقعے کے موقع پر، جب خاکی وردی والوں کے ذریعے دو معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی پھر قتل پر پورا کشمیر سراپااحتجاج بن گیا تھا، محترم سید علی گیلانی کے ساتھ ان کے دفتر میں کام کرنے والے سات افراد کو گرفتار کرکے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کورٹ بلوال جیل جموں پہنچا دیاگیا تھا۔ ان گرفتار ہونے والوں میں سے ایک زیر نظر کتاب کے مرتب بھی تھے۔ اس گرفتاری سے انھیں چھ ماہ بعد رہائی ملی۔ مدت اسیری کو انھوں نے ذکر وفکر ،مطالعہ اور ترتیب و تالیف میں گزارا اور اس کا ثمرہ زیر نظر کتاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔
یہ کتاب دوجلدوں میں ہے۔ جلد اول بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان کے عناوین یہ ہیں: اللہ۔ اس کی ستودہ صفات اور اختیارات، انسان، علم، حضرت محمد
ö رہبرکامل، قرآن۔ سرچشمۂ ہدایت، ایمان، اسلام اور مسلمان، آزمائش، صبر، عبادت کا تصور، نماز، روزہ، انفاق فی سبیل اللہ ۔ جلد دوم میں نو ابواب ہیں، جن کے عناوین یہ ہیں: امت مسلمہ، اسلام بہ حیثیت نظام زندگی، طاغوت۔ اسلام کی نظر میں، منافقین، جہاد، اقامت دین۔ فرضِ عین، اسلامی حکومت، تحریک اسلامی، آخرت- فاضل مرتب نے عرصۂ اسیری میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن اور ان کی دیگر تمام تحریروں کا مطالعہ کیا اور ان کے اہم اقتباسات کو درج بالا ابواب کے تحت جمع کردیا ہے۔ ہر باب میں جمع کردہ اقتباسات پر مرتب نے ذیلی عناوین بھی قائم کیے ہیں۔ دونوں جلدوں کے شروع میں ایڈوکیٹ میر اسداللہ نگران اعلیٰ ہفت روزہ مومن کشمیر، مولانا مجاہد شبیر احمد فلاحی ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر اور جناب سید علی گیلانی کے تعارفی کلمات ہیں، جن میں ان حضرات نے مرتب کی اس علمی کاوش کو سراہا ہے۔ علی گیلانی صاحب نے پورے مجموعے کے مشتملات کا تفصیل سے تعارف کرایا ہے، میر اسداللہ صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ’’زیر نظر کتاب میں مرتب نے بیسویں صدی کے متبحر عالم دین، راہ نما اور برصغیر میں تحریک اسلامی کے بانی مبانی علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتب سے خوشہ چینی کرکے متعدد عنوانات کے تحت ایک ایسا خوش نما گلدستہ ترتیب دیا ہے جو اپنی بے بدل مہک سے قاری کے قلب وذہن کو معطر کرکے اس پر ہدایت کی راہ کھول دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے. یہ کتاب قاری کو مولانا مرحوم کی درجنوں کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز نہیں کرتی، بل کہ ان کے گہرے مطالعے کا اشتہا و اشتیاق پیدا کرکے ان کی طرف راغب کرسکتی ہے‘‘۔ ﴿ص ۱۷﴾
اس مجموعے کی ترتیب وپیش کش پر فاضل مرتب مبارک باد کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ امید ہے اس کے ذریعے اسلام کے تمام پہلوئوں پر مولانا مودودیؒ کی فکر قاری پر بہ خوبی واضح ہوگی۔
کیا ہر ماہ چاند دیکھنا ضروری ہے؟
نام مؤلف : کیو۔ ایس۔ خاں
صفحات: ۱۰۴، قیمت درج نہیں
ناشر : تنویر پبلی کیشن، سوناپور، بھنڈوپ، ممبئی
عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں مواقع پر اکثر مسلمانوں میں چاند دیکھنے کے معاملے میں اختلاف ہوجاتا ہے ۔ عیدالاضحی چوں کہ چاند دیکھنے کے دس دن بعد منائی جاتی ہے اس لیے عموماً یہ اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور کسی ایک تاریخ پر مسلمانوں کا اتفاق ہوجاتا ہے، لیکن عیدالفطرکے چاند کا اختلاف ختم نہیں ہوپاتا، کیوں کہ چند ہی گھنٹوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اگلے دن روزہ رکھا جائے یا نہ رکھا جائے۔ عید منائی جائے یا نہ منائی جائے۔ ایسا ہی اختلاف رمضان المبارک کے چاند کے سلسلے میں بھی ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ اپنے علاقے میں اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو دیگر حضرات دوسرے علاقے میں چاند کی رؤیت کو تسلیم کرکے اس کے مطابق عمل کرلیتے ہیں۔ یہ اختلاف بسا اوقات بڑی جگ ہنسائی کا سبب بنتا ہے کہ ایک ہی علاقے میں دو بل کہ کبھی تین عیدوں کی نوبت آجاتی ہے۔
زیر نظر کتاب کے مصنف، جو میکینکل انجینئرنگ سے بی۔ ای۔ کی ڈگری کے حامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سورج اور چاند کے نکلنے کے اوقات متعین ہیں۔ روزانہ ان اوقات میں جو فرق آتا ہے اس کا بھی حساب کرلیاگیا ہے۔ انٹرنیٹ پر چاند اور سورج کے طلو ع وغروب کااگلے سو سال ﴿دوسری جگہ انھوں نے ایک ہزار سال لکھا ہے﴾کا ٹائم ٹیبل موجود ہے۔ اس حساب سے ہم متعین طور پر جان سکتے ہیں کہ ہر ماہ کب چاند قابل دید ہوجاتا ہے ، اس طرح کس انگریزی تاریخ کو عربی مہینے کی پہلی تاریخ ہوگی۔ ان کا شکوہ ہے کہ سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کے اوقات متعین ہیں جن کا ٹائم ٹیبل بنا لیاگیا ہے۔ ہم پورے اطمینان سے اس ٹائم ٹیبل پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے مطابق روز ہ افطار کرتے ہیں اور اسی کے مطابق ہم نے صبح صادق کا آخری وقت طے کرلیا ہے۔ پھر چاند کے ٹائم ٹیبل پر ہم یقین کیوں نہیں کرتے؟
عموماً چاند دکھائی نہ دینے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مطلع صاف نہیں ہوتا۔ اس کا حل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چوں کہ بادل صرف دس ہزار میٹر کی بلندی تک ہوتے ہیں اور ہوائی جہاز دس ہزار میٹر کی بلندی کے اوپر اڑتا ہے، اس لیے ایک چار ٹرڈ فلائٹ کے ذریعے جس پر دو لاکھ روپے تک خرچ آسکتا ہے، ہم بادلوں سے اوپر اٹھ کر چاند دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس زحمت کی ضرورت کیا ہے۔ چاند جب اپنے نظام الاوقات سے نہ ایک منٹ پہلے ڈوبتا ہے نہ ایک منٹ بعد تو ہمیں ہر ماہ چاند دیکھنے کے جھنجھٹ سے بچتے ہوئے اس نظام الاوقات پر بھروسا کرلینا چاہیے۔ اس پر پورا بھروسا نہ کرنا سچائی سے منھ موڑنا ہے۔
انھوں نے قوم کے علماء سے مؤدبانہ گزارش کی ہے کہ اس سائنس کے دور میں سائنسی حقیقت سے صرف لوگوں کے ڈر سے اپنی ذمے داری سے منھ نہ موڑیں، بل کہ کھلے دل اور ذہن سے اس بارے میں سوچیں اور قوم کو ایک الجھن سے نجات پانے میں مدد کریں۔ ﴿ص: ۸۶﴾
مؤلف موصوف کی تجویز کو قبول کرنے میں دشواری یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے فرمایا ہے: ’’صُوْمُوْا لِرُؤیَتِہٰ وَاَفْطِرُوْالِرُؤیَتِہٰ۔﴿ بخاری﴾ ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی عیدالفطر مناؤ‘‘۔آپﷺ نے رمضان کے آغاز اور اختتام کو چاند کی رؤیت سے جوڑا ہے اور حسابات پر اعتماد کرنے کو رؤیت نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ چوں کہ مشاہدہ ہی کی بنیاد پر سورج اور چاند کے طلوع اور غروب کا وقت نکالا گیا ہے، اس لیے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کرنے کو ’’چاند کو ننگی آنکھوں سے دیکھنا ہی کہا جائے گا اور اس طریقے کو اپنانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی قطعی خلاف ورزی نہیں ہوتی‘‘۔ ﴿ص:۸۵﴾
محفوظ اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ چاند کے معاملے میں رؤیت کو بنیاد بنایا جائے، البتہ فلکی حسابات سے مدد ضرور لی جائے۔ اس موقع پر چند ماہ قبل اسی موضوع پر سعودی عرب میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ یہ کانفرنس رابطہ عالم اسلامی کی اسلامک فقہ اکادمی کی جانب سے ۱۹/ تا ۲۱/ ربیع الاول ۱۴۳۳ھ مطابق۱۱/تا ۱۳/ فروری ۲۰۱۲ء کو مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکاء کی جانب سے تین موقف پیش کیے گئے۔ پہلا موقف یہ تھا کہ شرعی رؤیت ہلال کے لیے حسابات کا کوئی اعتبار نہیں۔ تمام تر انحصارآنکھ سے دیکھنے کی شہادتوں پر ہوناچاہیے۔ دوسرا موقف یہ تھا کہ حسابات کی بنیاد پر چاند ہونے کافیصلہ کردینا چاہیے۔ اور اگر حسابات کی رو سے چاند کا نظر آنا ممکن نہ ہوتو نفی کا اعلان کردینا چاہیے، خواہ کسی نے چاند دیکھنے کی شہادت پیش کی ہو۔ یہ دونوں موقف پیش کرنے والے گنتی کے چند لوگ تھے۔ شرکاء کانفرنس کی اکثریت کا موقف یہ تھا کہ چاند کی رؤیت کا ثبوت صرف حسابات کے ذریعے نہیں ہوسکتا، بل کہ عملاً اس کی کوشش کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر کسی دن چاند کا نظر آنا حسابات کی رو سے ممکن نہ ہو، مثلاً چاند سورج سے پہلے غروب ہوگیا تو ایسی صورت میں اگر کوئی شخص چاند دیکھنے کی شہادت دے تو وہ شہادت معتبر نہیں سمجھنی چاہیے۔چنان چہ کانفرنس کے اختتام پر جو قرارداد منظور ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے : ﴿۱﴾ ’’قمری مہینے کے آغاز اور اختتام کے ثبوت کے لیے اصل معیار چاند کو دیکھنا ہے ، چاہے وہ نری آنکھ سے ہو یا رصد گاہوں اور دیگر فلکی آلات کے ذریعے ہو۔ اگر چاند نظر نہ آئے تو مہینے کے تیس دن مکمل کیے جائیں گے۔ ﴿۲﴾ سال کے ہر مہینے میں چاند کی جستجو واجب علی الکفایۃ ہے۔ ﴿۳﴾ فلکی حساب ایک مستقل عمل ہے ، جس کے اپنے اصول وقواعد ہیں۔ اس کے بعض نتائج کی رعایت رکھنا مناسب ہے ، جیسے کہ چاند اور سورج کے اقتران کا وقت، چاند کا سورج سے پہلے یا بعد میں غروب ہونا اور یہ کہ چاند کی اونچائی اس کے سورج کے ساتھ اقتران ہونے کے بعد والی رات میں کتنی ہوگی؟ اسی وجہ سے چاند دیکھنے کی گواہی کو قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چاند کا نظر آنا علم ہیئت کے مسلم اور قطعی حقائق، جو معتبر فلکی اداروں سے صادر ہوتے ہیں، ان کے مطابق ناممکن نہ ہو، مثلاً چاند اور سورج کے ٹھیک اقتران کے وقت یا غروب آفتاب سے پہلے چاند کے غروب ہونے کی صورت میں‘‘۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012