نقد وتبصرہ

موجِ نسیم حجاز

شاعر:    تاج الدین اشعر رام نگری

صفحات:  ۱۶۰               ٭       قیمت :   ۱۲۶ روپے

ملنے کاپتا: مکتبۂ تحفظِ ملّت، ۱۲۲/۱، رام نگر، وارانسی221008 یو-پی

جناب تاج الدین اشعر  رام نگری ﴿پ:۱۹۳۳﴾ ہمارے عہد کے ممتاز ونام ور ادیب وشاعر ہیں۔ وہ بنیادی طورپرصحافی ہیں۔ عمر کابڑا حصہ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہا، مشرقی اترپردیش کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’قومی مورچہ‘ بنارس کے مدیر رہے۔ اس میں شائع ہونے والے ان کے مضامین اور اداریے اہلِ علم اور دانش اور طبقے میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن اُنھیں طبعی مناسبت شاعری سے ہے۔ یہ چیز اُنھیں خاندانی طورپر ورثے میں ملی ہے۔ اُن کے والد بزرگ وار مولانا ابومحمد امام الدین حافظ رام نگری بہترین نثرنگار و محقق کے ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے، ان کے چچا حضرت آسی  رام نگری ملک کے استاد شعرا میں شمار ہوتے تھے اور ان کے دو برادرانِ بزرگ جناب قمر الدین قمر  رام نگری اور جناب شاہد رام نگری بھی قابلِ ذکر شعرا میں تھے۔ ان سب کے کلام اپنے زمانے کے موقر رسائل وجرائد کی زینت بنتے رہے تھے۔ ’قومی مورچہ‘ بنارس کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ مستقل طورپر رام نگر میں مقیم ہیں اور پوری یک سوئی کے ساتھ شعرو ادب خصوصاً نعت گوئی کے لیے وقف ہوگئے ہیں۔

اپنے والد محترم مولانا ابومحمد امام الدین رام نگری کی طرح جناب تاج الدین اشعر  نے بھی کبھی کسی اسکول یا مدرسے کا منھ نہیں دیکھا۔ اُنھوں نے پوری تعلیم اپنے والدِ محترم سے حاصل کی اور ذاتی محنت و مشقت سے اپنے علمی معیار کو بلند کیا۔ شاعری میں بھی انھوںن ے کسی استاذ کے سامنے زانوے تلمذنہیں تہ کیا، اپنے والد محترم کو ہی دوچار غزلیں دکھائیں اور بس۔ البتہ چوں کہ حضرت مولانا عامر عثمانی مدیر تجلّی دیوبند سے مولانا رام نگری کے گہرے مراسم تھے۔ ماہ نامہ تجلّی پابندی سے ان کے ہاں آتاتھا، تجلّی کا مستقل کالم ’کھرے کھوٹے‘ وہ پابندی سے پڑھتے تھے، اس میں شعری مجموعوںپر مولانا عامرعثمانی کے تبصرے بڑے معلوماتی اور مفید ہوتے تھے، اس لیے ان سے اشعر صاحب نے خصوصی استفادہ کیا، جس کی وجہ سے لفظوں کی نشست وبرخاست، ان کے برمحل استعمال، محاورات اور شعری و فنی نزاکتوں پر ان کی اچھی نگاہ ہوگئی۔ ان کی نظموں اور غزلوں کو مولانا عامرعثمانی نے تجلّی میں بھی متعدد بار شائع کیا۔

’موج نسیم حجاز’‘جناب تاج الدین اشعر رام نگری کی نعتوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کی نعتوں کاایک مجموعہ ’متاع عقیدت‘ کے نام سے ۱۹۹۸ میں شائع ہوچکاہے۔ اُسے علمی و ادبی حلقوں میں خاصی پزیرائی حاصل ہوئی۔ اس سے بھی بہت پہلے ان کا ایک مجموعۂ کلام ’نالہ ساز‘ کے نام سے آیاتھا، جس میں غالب حصّہ نعت پر مشتمل تھا۔ نظمیں اور غزلیں بھی شامل تھیں۔

’موج نسیمِ حجاز‘ دو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ’جوے کہکشاں‘حمدو مناجات پر مشتمل ہے۔ ان کی تعداد صرف آٹھ ہے۔ مناجات کا یہ شعر پڑھ کر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی:

میں کب تک اڑتارہوں نیلگوں فضائوں میں

مجھے کھجوروں کے بن میں اُتاردے یارب!

اِس شعر میں ایک ایسے مومن کی تصویر نظرآئی جو اپنے خالق ومالک کاحقیقی اطاعت گزار بھی ہے اور اس کے دل میں اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کا دریا بھی موج زن ہے۔

دوسرا باب ’چراغاں‘ ہے۔ اِس میں صرف نعتیں ہیں، یہ باب ایک سو اٹھارہ ﴿۱۱۸﴾ صفحات پر مشتمل ہے۔ تمام نعتیں مترنم بحروں میں اور زیادہ تر نظم کے فارم ﴿ہیئت﴾ میں ، مسدّس، مخمّس یا مثلث کی شکل میں ہیں۔ غزل کی ہیئت میں بس چند ہی ہیں۔ تمام نعتیں اپنی جگہ جامعیت لیے ہوئے ہیں۔

جناب تاج الدین اشعر ایک ایسے خانوادے کے پروردہ ہیں، جسے علم وادب کی دنیا میں ایک حیثیت حاصل رہی ہے اور عقیدے کی طہارت، فکر کی پاکیزگی، دینِ حق سے والہانہ وابستگی اور رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ومحبت جس کی شناخت رہی ہے۔ ‘موجِ نسیم حجاز’ میںاِس پاکیزہ اور روحانی ماحول کے اثرات پورے طورپر محسوس ہوتے ہیں۔ نمونے کے طورپر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

عقل وخرد کا اِرتقا، فکرِ بشر کی ہر اُڑان

گر نہ ہو ان کی رہ بری، خیمۂ بے طناب ہے

یادِ نبی میں محو ہوں، مجھ کو جگا نہ دے کوئی

کتنی لطیف نیند ہے، کتنا حسین خواب ہے

مال، خزانہ پاؤں کی دھول

میری دولت عشقِ رسولﷺ

جب تک رہِ سنت پہ یہ امت نہیں ہوگی

نازل کبھی اللہ کی رحمت نہیں ہوگی

یوں نہ اُتاریں گے دل میں اس پیکرنور کا عکس جمیل

اشکِ وفا سے پہلے دل کے آئینے کو دھولیں گے

میں نے نمونے کے طورپر صرف پانچ اشعار نقل کردیے ہیں۔ اسی طرح کے اشعار سے جنابِ اشعر کا پورا چمنستانِ سخن مہک رہاہے۔ میں یہاں اشارۃً چند باتیں دوسرے پہلو سے بھی کرنا چاہوںگا۔

جناب تاج الدین اشعر  کا ایک شعر ہے:

اگرچہ عشق کا دعویٰ بہت زبان پہ ہے

عمل صفرہے دماغ اب بھی آسمان پہ ہے

دوسرے مصرعے میں لفظ ‘صفر’ بروزن نظر یادِگر استعمال ہواہے۔ یہ درست نہیںہے، صحیح تلفظ ‘صِفْر’ بروزن ‘ہجر’ یا ‘فکر’ ہے۔

ایک شعر ہے:

ہر ایک سوپھوٹتی کرن ہے

ہراک کرن تیرگی شکن ہے

پہلے مصرعے میں ‘ہرایک سو’ اسی طرح غلط ہے، جس طرح کہ ‘چند ایک’ کا استعمال غلط ہے۔ یہاں ‘ہرسو’ یا ‘بہ ہرسو’ استعمال کیاجانا چاہیے تھا۔

اشعر صاحب نے ایک جگہ رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ‘افضل البشر’ کے خطاب سے یاد فرمایاہے؛ جب کہ افضل البشر ﴿بعدالانبیاء بالتحقیق﴾ سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب ہے۔

یہ چند باتیں میں نے محض برسبیل تذکرہ عرض کردیں۔ اس لیے کہ جناب اشعر جس مرتبے کی شخصیت ہیں، اُن سے اس قسم کی فروگزاشتوں کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ چیزیں خُردوں کے لیے نظیر بن جاتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جناب تاج الدین اشعر رام نگری کا یہ مجموعہ حمد ونعت ‘موج نسیم حجاز’ رواں صدی کے عشرۂ اول کا ایک بیش قیمت ادبی و روحانی تحفہ ہے۔ اس سے پاکیزہ اصناف سخن میں بڑا اہم اضافہ ہواہے۔ ﴿ڈاکٹر تابش مہدی﴾

٭

ذکرِ شہباز ﴿مولانا شہبازاحمد اصلاحی کے احوال وکوائف﴾

مرتب:   مولانا محمداسماعیل فلاحی

صفحات:  ۴۲۴،  قیمت :   ۱۸۰ روپے

ناشر:     حرم فائونڈیشن لکھنؤ ﴿یو-پی﴾ موبائل نمبر: 9335223411

مولانا شہبازاحمد اصلاحیؒ ایک قدآور شخصیت تھے، انھوں نے فراغت کے بعد سیوان، بھاگل پور، ہزاری باغ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور آخر میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔جہاں بھی رہے وہاں خلق کثیر کو فیض پہنچایا اور اپنے وابستگان و منتسبین کا بڑا حلقہ چھوڑا۔ اُن کے برادر زادے مولانا محمد اسماعیل فلاحی ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ان کاذکرِ جمیل زیرِ نظر مجموعۂ مضامین میں یکجاکردیا ہے۔

یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’کہتی ہے تجھ کوخلق خدا غائبانہ کیا‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مولانا مرحوم کی حیات اورخدمات پر معروف اصحاب قلم کے مضامین شامل ہیں۔ مولانا محمداسماعیل فلاحی نے تفصیل سے ان کے احوال زندگی، تدریسی و تحریکی سرگرمیوں، اخلاق واوصاف وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، ادب اور تعلیم و تربیت کے موضوع پر ان کے علمی نکات کو جمع کیا ہے۔ جناب عبدالمتین منیری نے ان کے قیامِ بھٹکل کی یادیں تازہ کی ہیں۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اور مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے بعض اساتذہ نے ان کے انداز تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردار کی بعض خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان لکھنے والوںمیں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا عبداللہ عباس ندویؒ ، مولانا سیّدسلمان حسنی ندوی، مولانا محمد ایوب اصلاحی، مولانا عبدالحسیب اصلاحی، مولانا عمراسلم اصلاحی اور مولانا امین الدین شجاع الدین ندوی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

دوسرے حصّے میں مولانا کے نام چند مکاتیب ہیں۔ ان میں میاں طفیل محمدؒ ﴿سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان﴾ اور افضل حسینؒ ﴿سابق قیم جماعت اسلامی ہند﴾ کے مکاتیب جماعتی مسائل پر اور قاری علی محمدؒ کا مکتوب معروف بزرگ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحبؒ سے بیعت سے متعلق ہے۔ تیسرے حصّے میں مولانا کی چند تحریریں جمع کی گئی ہیں۔ آخری حصّہ مولانا مرحوم کے مکاتیب پرمشتمل ہے۔ زیادہ ترمکاتیب ان کے قریبی رشتے داروں والد، بھائیوں، بھتیجوں، اہلیہ وغیرہ کے نام ہیں۔ ان خطوط میں علم و معرفت کے گوہرِ آب دار پنہاں ہیں۔ ایمان ویقین، صبرو رضا، توکل وللہیت کی باتیں ہیں۔ بلاتکلف کہاجاسکتاہے کہ یہ اس کتاب کا سب سے قیمتی حصہ ہے۔

رضی الاسلام ندوی

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223