کتاب ِ الٰہی پر ایمان کے تقاضے
مصنف:مجاہد شبیر احمد فلاحی
ناشر: سید مودودیؒ ریسرچ فاؤنڈیشن،ترال ، کشمیر
سنۂ طباعت:۲۰۱۳، صفحات: ۸۸ ،قیمت:۶۰ روپے
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جسے اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر نازل کیا تھا۔ دیگر آسمانی کتابوں کے مقابلے میں اس کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ادنیٰ سی بھی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہے۔ وہ جس طرح آں حضرتﷺ پر نازل ہوا تھا ٹھیک اسی طرح آج بھی موجود ہے۔ دنیا کے تمام مسلمان قرآن کریم کی اس حیثیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ عقیدہ ان کے ایمان کا جز ہے۔ اس کے بغیر ان کے ایمان کی تکمیل ہی نہیں ہوسکتی۔اس کے باوجود قرآن کریم سے ان کے تعلق کی نوعیتوں میں فرق پایا جاتا ہے۔
کچھ مسلمان ایسے ہیں جن کا قرآن سے تعلق محض عقیدت اور عظمت تک محدود ہوتا ہے۔مرحوم ماہر القادری کے الفاظ میں ان کے یہاں قرآن ریشمی جزدان میں لپیٹ کر طاقوں میں سجا کر رکھا جاتا ہے، کسی کے مر-نے پر قرآن خوانی کر لی جاتی ہے، کسی معاملے میں تنازعہ ہو جاتا ہے تو ہاتھ میں لے کر اس کی قسم کھائی جاتی ہے وغیرہ، کچھ اور مسلمان ہیں جو قرآن کو محض اپنی زبان سے دہرا لینے کو کافی سمجھتے ہیں۔ اس میں کیا باتیں بیان کی گئی ہیں اور اس کا ان سے کیا خطاب ہے؟ یہ جاننے کی انہیں بالکل فکر نہیں ہوتی۔پوری دنیا کے مسلمانوں کی غالب اکثریت کا یہی حال ہے۔ حالاں کہ قرآن پر ایمان کے تقاضے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جب تک ان تقاضوں پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔زیر نظر کتاب اس موضوع پر بھر پور رہ نمائی فراہم کرتی ہے۔
اس کتاب کے مصنف مولانا مجاہد شبیر احمد فلاحی ایک صاحب علم، متحرک اور پر جوش داعی، امت میں بیداری لانے کے لیے کوشاں، صالح اور سلیم الفطرت نوجوان ہیں۔ جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کر نے کے بعد انہوں نے مشہور علمی و تحقیقی مرکز ادارۂ تحقیق و تصنیف ِاسلامی علی گڑھ سے تحریرو تصنیف کی تربیت حاصل کی ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے جنرل سکریٹری ، پھر ناظم اعلیٰ اور اس کے علمی و فکری ترجمان ’پیام‘ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں اور اب جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے وابستہ ہوکر دینی و دعوتی اور تحریکی خدمات انجام دے رہے ہیں۔موصوف تحقیق و تصنیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آکر علمی حلقوں میں خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ مثلاً اجتماعیت کا دینی تصور اور عصر حاضر کے تقاضے،نیکی کا قرآنی تصور،غزوۂ احزاب:عالمی حالات کے تناظر میں،روزہ اور رمضان:تعارف اور پیغام وغیرہ۔اس کے علاوہ انہوںنے دروس ِ حدیث کے بھی متعدد مجموعے تیار کیے ہیں ، جن میں آسان اور عام فہم انداز میں احادیثِ نبوی کی تشریح کی گئی ہے۔
زیر ِنظر کتاب میں قرآن کریم پر ایمان کے تقاضوں سے بحث کی گئی ہے۔ ابتدا میں فاضل مصنف نے قرآن کا تعارف کرایا ہے، اس کی عظمت و فضیلت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے امتیازات نمایاں کیے ہیں۔اس کے بعدایمان بالکتاب کے تقاضوں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے مطابق قرآن کو محض پڑھنا، سننا اور حفظ کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے معانی پر غور و تدبرکیا جائے، یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس میں کیا باتیں کہی گئی ہیں؟کن کاموں کا حکم دیا گیا ہے اور کن کاموں سے روکا گیا ہے؟ پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے اور بے چوںوچرا اس کے آگے سر ِتسلیم خم کر دیا جائے۔ اسی طرح قرآن پر ایمان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کی تعلیم کو عام کرنے اور اسے معاشرہ میں نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔
قوموں کی ترقی اور تنزلی کا مدار قرآن کریم سے وابستگی پر ہے۔ امت مسلمہ جب تک قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہی وہ دنیا کی امام بنی رہی اور جب اس کا سرا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئی۔آئندہ بھی وہ اسی وقت عزت اور عظمت کی بلندیوں پر پہنچ سکتی ہے جب قرآن کریم سے اپنا تعلق استوار کرے اور اس پر ایمان کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرے۔امید ہے، یہ کتاب اس معاملے میں صحیح رہ نما ثابت ہوگی۔
الربانیۃ والربانیون
مصنف: شیخ عبدالحمید جاسم البلالی، مترجم : ڈاکٹر عبدالحمیداطہرندوی
ناشر: المنار پبلشنگ ہائوس، N-5B، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔ ۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء، صفحات: ۲۴۰۔ قیمت:۔/۱۰۰ روپے
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ایک اصطلاح ’ربانیون‘ (اللہ والے) کی استعمال ہوئی ہے۔ اس سے کون لوگ مراد ہیں اوران کے کیا اوصاف قرآن میں بیان کیے گئے ہیں؟ یہ زیر نظر کتاب کا مرکزی موضوع ہے۔ باب اول میں آیاتِ قرآنی کی روشنی میں ’ربانیون‘ کی دس نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں۔وہ صفات یہ ہیں:(۱) علم کی طلب (۲) علم کی اشاعت (۳) علم پر عمل (۴) تقرب الی اللہ (۵) ترک دنیا (۶) ترک ضعف (۷) ترک استکانت (۸) دعا (۹)تربیت (۱۰) امربالمعروف ونہی عن المنکر۔ باب دوم میں ممتاز تابعین (حسن بصری، سلمہ بن دینار،محمد واسع،طاؤس بن کیسان، بلال بن سعد) اور تبع تابعین (ابراہیم بن ادھم، عبداللہ بن مبارک، ابوسلیمان دارانی، معروف کرخی، بشر حافی) کی سوانح بیان کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ ان کی زندگیاں ان ربانی صفات کا پرتو تھیں۔ باب سوم میں ان صفات کے دنیوی اور اخروی نتائج و اثرات بیان کیے گئے ہیں۔
شیخ عبدالحمید بلالی کویت کی نمایاںدینی شخصیت ہیں۔ ان کے دعوتی و تربیتی مضامین کویت کے ہفت روزہ ’المجتمع‘ اور دیگر اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ دعوت وتبلیغ، سماجی مسائل اور دیگر موضوعات پر ان کی چار درجن کے قریب تصنیفات شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی بعض کتابوں کا اردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے، مثلاً تابعین کا نظام تربیت، پردہ کیوں؟ تزکیہ نفس وغیرہ۔ زیر نظرکتاب تربیتی نقطۂ نظر سے اہمیت کی حامل ہے۔ امید ہے،اسے قبول عام حاصل ہوگا اور اس سے خاطرخواہ فائدہ اٹھایاجائے گا۔
تاریخ دعوت وتبلیغ (جموں وکشمیر کے تناظر میں) جلد اول
مصنف: خاکی محمد فاروق
ناشر: صدیق پبلی کیشنز، چاڈورہ، بڈگام (کشمیر)
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء، صفحات: ۴۵۸، قیمت ۔/۲۵۰ روپے (لائبریری ایڈیشن۔/۵۰۰ روپے)
اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےار شاد گرامی ’بلغوا عنی ولوآیۃ‘ بخاری: ۳۴۶۱ (میری طرف سے پہنچائو، خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو) کے ذریعے جو ہدایت دی تھی، صحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور بعد کے بزرگوں نے اسے حرز جان بنایا، چنانچہ وہ جہاں بھی پہنچے انھوں نے دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیا اوران کے مواعظ و ارشادات اور سیرت و کردار سے لوگ جوق درجوق دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ کشمیر بھی ایسا ہی ایک خطۂ زمین ہے جہاں اللہ کے کچھ نیک بندوں کے قدم پہنچے اور ان کی کوششوں سے پوراعلاقہ مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ کشمیر کی تاریخ پر یوں تو مختلف زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن ان سے دعوتی وتبلیغی پہلو سے اور اشاعت اسلام کے حوالے سے کچھ زیادہ روشنی نہیں پڑتی۔ ضرورت تھی کہ اس پہلو کو بحث وتحقیق کا موضوع بنایا جائے اوراس پربھرپور معلومات فراہم کی جائیں۔ یہ سعادت نوجوان قلم کار جناب خاکی محمد فاروق کے نام لکھی ہوئی تھی۔ زیر نظر کتاب کی صورت میں انھوں نے اس ضرورت کو بہ خوبی پورا کردیا ہے۔
یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں جموں وکشمیر کے جغرافیے پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں جموںو کشمیر اور اس کے نواحی علاقوں میں اسلام کے ابتدائی نقوش، تیسرے باب میں چودہویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے حالات اور پانچویں باب میں کشمیر میں اشاعتِ اسلام کی ابتدائی کوششوں کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ چھٹے باب میں حضرت میر سید علی ہمدانی (۷۱۳۔۷۸۶ھ/۱۳۱۳۔ ۱۳۸۵ء) اور ساتویں باب میں ان کے فرزند حضرت میر محمد ہمدانی (۷۷۴۔۸۵۴ھ/۱۳۸۲۔۱۴۲۹ء) اور ان کے معاصر مبلغین اور حکم رانوں کی، اشاعت اسلام کے سلسلے میں خدمات بیان کی گئی ہیں۔آٹھویں باب میں ریشی تحریک کے سرخیل حضرت شیخ العالم نورالدین ولیؒ( ۷۷۹۔۸۴۲ھ/۱۳۷۷۔۱۴۴۱ء) کی داعیانہ جدوجہد اور اس کے ثمرات و نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے اور نویں باب میں ان کی شاعری میں اسلامی عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ دسویں باب میں دیگر علمائے کرام کی تبلیغی مساعی بیان کی گئی ہیں۔ گیارہویں باب میں حضرت شیخ حمزہ مخدومؒ (۹۰۰۔۹۸۴ھ/۱۴۹۵۔۱۵۷۶ء)اور ان کے خلفاء اور معاصرین کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں سے متعلق معلومات جمع کی گئی ہیں۔ بارہویں باب میں گلگت، لداخ اور بلتستان میں اشاعت اسلام کی سرگزشت بیان کی گئی ہیں۔
فاضل مصنف نے تاریخ نویسی میں تمام دستیاب مراجع و مصادر سے استفادہ کیا ہے۔ فہرست کتابیات سے ان کی محنت اور تحقیقی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب کی جلد اول ہے، جس میں سولہویں صدی عیسوی تک اشاعت اسلام کے پہلو سے جموں وکشمیر کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ مصنف کے بیان کے مطابق جلد دوم میں سترہویں صدی سے اب تک کی تاریخ کا احاطہ کیا جائے گا۔
زیر نظر کتاب کی صورت میں کشمیر میں تاریخ دعوت وتبلیغ کی ایک مستند دستاویز مرتب ہوگئی ہے،جو امید ہے، راہ دعوت میں کام کرنے والوں کو مہمیزکرے گی اور اس سے ان کے اندر بھی اشاعت اسلام کا جذبہ پیداہوگا۔
بعض اہم اسلامی اصطلاحات اور ان کی تشریح
مصنف: مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔۲۵
سنۂ اشاعت:۲۰۱۳۔ صفحات:۳۲، قیمت:۱۸روپے
ہمارے ملک کے ایک بڑے طبقے میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور بعض فتنہ پرداز اور مفاد پرست لوگ انھیں ان غلط فہمیوں میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں ۔ ان غلط فہمیوں کا تعلق بعض اسلامی اصطلاحات مثلاً کفر، کافر، جہاد، جزیہ، دارالاسلام، دارالحرب وغیرہ سے بھی ہے۔ عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان اصطلاحات سے غیر مسلموں کے سلسلے میں نفرت اور حقارت کا اظہار ہوتا ہے۔ کافروں کو قتل کرنے کو جہاد کہا گیا ہے، جس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ پھر ہندوستان کے پس منظر میں یہ نتیجہ نکالاجاتا ہے کہ ان اصطلاحات کا استعمال ہندئووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرتااور منافرت کو بڑھاتا ہے، اس لیے ان کو ترک کر دینا چاہیے۔اس کے بغیر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی ممکن نہیں۔
ضرورت تھی کہ برادرانِ وطن کے درمیان اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں اور شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ان کا ازالہ کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اسی مقصد سے سہ روزہ’دعوت‘ نئی دہلی کے ایڈیٹر جناب پرواز رحمانی نے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری سے مذکورہ اسلامی اصطلاحات کی توضیح وتفہیم کے لیے ایک طویل انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو پہلے دعوت کی ایک خصوصی اشاعت میں، پھر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی کی جانب سے کتابچہ کی صورت میں شائع ہوا۔
یہ کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے، جو مولانا محترم کی نظر ثانی کے بعد شائع ہوا ہے۔اس سے بعض باتیں زیادہ وضاحت کے ساتھ آگئی ہیں۔اس ایڈیشن میں ہر سوال پر ذیلی عنوان قائم کر دیا گیا ہے، اس سے اس کی افادیت اوربھی بڑھ گئی ہے۔انٹرویو میں جو سوالات چھیڑے گئے ہیں، بہ ظاہر ان کا تعلق ہمارے ملک ہندوستان سے ہے، لیکن ان کا ایک عالمی پس منظر بھی ہے،اسی وجہ سے یہ کتابچہ پڑوسی ملک پاکستان سے بھی شائع ہوا ہے۔
ضرورت ہے کہ اس کتابچہ کا ملک کی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کردیا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے، تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور اسلام کی تعلیمات بے غبار ہوکر لوگوں کے سامنے آسکیں۔
جماعت اسلامی ہند: پس منظر، خدمات اور طریقۂ کار
مصنف : مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنۂ اشاعت:۲۰۱۳، صفحات:۷۲، قیمت۳۵روپے
جماعت اسلامی ہند کی تاریخ، خدمات، سرگرمیوں اور اس پر ہونے والے اعتراضات کے جائزے پر جماعت کے شعبۂ تنظیم کی جانب سے متعدد کتابچے شائع کیے گئے ہیں۔ امیرجماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے اب سے ربع صدی قبل ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی، کی ادارت کے زمانے (۱۹۸۶ء تا ۱۹۹۰ء) میں اس سلسلے کے بعض مضامین مذکورہ مجلہ میں اداریوں کی حیثیت سے لکھے تھے۔ انہی کا مجموعہ زیر نظر کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں روایتی اندا زمیں تحریک کی تاریخ اور اس کی رفتار کار نہیں بیان کی گئی ہے، بلکہ یہ جماعت کے بنیادی فکر، اس کی علمی وعملی خدمات اور طریقۂ کار پر جدید ڈھنگ سے ایک جامع مجموعہ ہے۔ یہ کتاب اس سے پہلے چھ مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ اب ساتویں بار مصنف کی نظر ثانی کے بعد نئے گٹ اپ اورمعیاری طباعت کے ساتھ سامنے آئی ہے۔قارئین کی سہولت کے لیے ذیلی عناوین کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اس کتاب کے پہلے مضمون میں اختصار کے ساتھ جماعتِ اسلامی کے قیام کا پس منظر بیان کیا گیا ہے او رتاسیس کے وقت دنیا میں رائج فلسفوں اور نظریات اور ہندوستانی مسلمانوں کے مختلف اندازِ فکر پر روشنی ڈالتے ہوئے ان پہلوؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھیں جماعت اسلامی نے فکری لحاظ سے نمایاں کیا۔ ایک مضمون کا عنوان ہے’جماعتِ اسلامی کی علمی خدمات‘۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جماعت کے بانی اور اس کے اکابرنے کس طرح کا دینی لٹریچر تیار کیا ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ ایک مضمون میں جماعت کی دعوتی ، اصلاحی اور رفاہی خدمات کا تعارف کرایا گیا ہے ۔جماعت اسلامی کے نظام تربیت پر بعض حلقے اعتراضات کرتے ہیں اور اسے روحانیت سے خالی بتاتے ہیں۔ اس کتاب میں اس موضوع پر تین مضامین شامل ہیں، جن میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ جماعت اپنے افراد کی تربیت کے لیے کیا طریقے اختیا رکرتی ہے ؟ اس سلسلے میں کیے جانے والے مختلف اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے اور وابستگانِ جماعت کو تربیت کے سلسلہ میں بعض مشورے دیے گئے ہیں۔اس مجموعہ کا آخری مضمون جماعت کی پالیسی اور طریقۂ کا ر سے متعلق ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ جماعت نے اپنے زمانۂ تاسیس سے قومی کش مکش سے دامن بچا کراپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں اور سیاست کے معاملے میں بھی خالص اسلامی نقطۂ نظر اپنایا ہے، نیز جمہوریت کے بارے میں جماعت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جماعت نے ہمیشہ پر امن، اخلاقی، آئینی اور جمہوری طریقے اختیار کیے ہیں۔
یہ کتاب جماعت کے رفقاء اور کارکنوں کے لیے بھی مفید ہے اور دوسرے حلقوں میں جماعت کے تعارف کے لیے بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔
مولانا سید امین عمریؒ۔ کردار ساز شخصیت
مصنف: محمد رفیع کلوری عمری
ناشر: ادارۂ تحقیقات اسلامی، جامعہ دارالسلام ،عمرآباد
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء، صفحات: ۱۶۰، قیمت :۶۰ روپے
جنوبی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعہ دارالسلام عمر آباد کے سابق ناظم اور استاذالاساتذہ مولانا سید امین عمریؒ (م ۱۹۸۱ء) کی ذات گرامی بڑی خوبیوں کی مالک تھی۔ جامعہ دارالسلام سے فراغت کے بعد انھوںنے مولانا احمد علی لاہوریؒ کے حلقۂ درس سے فائدہ اٹھایا تھا۔ وہاں سے واپسی پر جامعہ دارالسلام میں درس و تدریس کی ذمے داری سنبھالی اور وہیں کے ہورہے۔ مولانا کاتعلق جماعت اسلامی ہند سے تھا۔ وہ عرصے تک مقامی امیر رہے۔ ایک زمانے میں مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے۔ جماعت کے موجودہ امیر مولانا سید جلال الدین عمری جامعہ دارالسلام عمر آباد سے فراغت کے بعد ان ہی کی تحریک پر، بلکہ ان کے ساتھ مرکز جماعت اسلامی رام پور آئے ، جہاں انھوں نے جماعت کے ذمے داروں بالخصوص مولانا صدرالدین اصلاحی کی زیر نگرانی خود کو تحریر وتصنیف کے لئے وقف کردیا۔
مولانا سیدامین عمریؒ کی وفات کو تین دہائیاں گزر گئی ہیں۔ ضرور ت تھی کہ ان کاذکر جمیل مرتب کیا جائے اور ان کے شناسائوں، معاصرین ، تلامذہ اور اہل خاندان سے ان پر مضامین لکھوائے جائیں۔ جناب محمد رفیع کلوری عمری قابل مبارکباد ہیں کہ انھیں یہ خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
اس مجموعے میں شامل مضامین سے مولانا مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کے شاگردوں نے — جن میں بڑی نامی گرامی شخصیات ہیں، مثلاً مولانا ابوالبیان حماد عمری، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا کاکا سعید احمد عمری، مولانا حبیب الرحمن اعظمی عمری، مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری، مولانا ثناء اللہ عمری وغیرہ— ان کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیا ہے ان سے ان کی علمی عظمت، تدریسی مہارت، خورد نوازی، نیک نفسی، خوش خلقی، سادگی، قناعت وزہد اور دیگراوصاف حمیدہ نمایاں ہوتے ہیں۔ خاص طور سے مرحوم کے برادر خورد مولانا سید عبدالکبیر عمری نے اپنے مضمون میں جن تاثرات کااظہار کیا ہے وہ بڑے موثر اور سبق آموز ہیں۔ اسی طرح مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنے طویل مضمون میں مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بہت عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔افراد خانہ— بیٹوں، بیٹیوں، بہوئوں اور دامادوں — نے اندرونِ خانہ ان کے اخلاق کریمانہ سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان مضامین سے مولانا مرحوم کے کردار کی عظمت ذہن پر نقش ہوتی ہے اور ان کی سیرت و اخلاق کو اپنانے کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ اس سے ہم سب کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔
جنوبی ہند کا ایک علمی و ادبی سفر
مرتب: پروفیسراحمد سجاد
ناشر: مرکزادب و سائنس، بریاتو، رانچی (جھارکھنڈ)
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء، صفحات: ۱۲۰، قیمت ۔/۲۰۰ روپے
پروفیسراحمد سجاد جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سابق رکن اور ادارۂ ادب اسلامی کے سابق صدر ہیں۔ تحریک اسلامی کے ادبی قافلے کے رہ نمائوں میں سے ہیں۔ ادب وتنقید کے موضوع پر ان کی متعدد وقیع تصانیف ہند وپاک کے اشاعتی اداروں سے شائع ہوچکی ہیں۔ تعلیمی موضوعات کے علاوہ ملی و ملکی مسائل پر بھی لکھتے رہتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں تعلیمی، ادبی اور تحریکی اجتماعات ، سیمیناروں اور دیگر پروگرام میں ان کی شرکت رہتی ہے۔
۲/تا ۴/جنوری ۲۰۱۲ء جماعت اسلامی ہند کے مرکز اورحلقہ جات کے ذمے داروں کا تربیتی اجتماع چنئی (تامل ناڈو) میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں پروفیسر موصوف نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کے بعد تقریباً تین ہفتے انھوںنے مہاراشٹر کے مختلف شہروں میںگزارے تھے اور وہاں کے ادبی و تحریکی پروگراموں میں شرکت کی تھی۔ دوسرا اہم پروگرام جماعت اسلامی ہند کے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام ۱۲/تا ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۲ء حیدرآباد میں منعقد ہوا تھا۔ اسے ’لٹریچر ریویو سیمینار‘ کا نام دیاگیا تھا۔ اس میں مختلف موضوعات پر تحریک اسلامی کے تیار کردہ لٹریچر کا جائزہ لے کر آئندہ کے لئے خطوط کار کی نشان دہی کی گئی تھی۔ زیر نظر کتاب میں ان پروگراموں کی مفصل روداد بیان کی گئی ہے۔
پروفیسر موصوف نے یہ سفر نامہ بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ راہ کی دشواریاں، مناظر فطرت کا بیان، دورانِ سفر جن شخصیات اور افراد سے ملاقاتیں ہوئیں ان کا تعارف، ان سے ہونے والی گفتگو، جن اکیڈمیوں، لائبریریوں، ادبی میلوں اور شعری نشستوں وغیرہ میں جانا ہوا، ان کاتذکرہ، اس کے علاوہ مذکورہ دونوں پروگرامو ں میں جو تقاریر ہوئیں جو اور مقالات پڑھے گئے ان کے اہم نکات اور ان پر ہونے والے مباحثے، ان تمام چیزوں کو بہت عمدہ طریقے سے تحریر کیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری مصنف کا ہم سفر ہوجاتاہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بذات خود ان پروگراموں میں شریک ہوکر ان سے استفادہ کررہاہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2013