قربانی کی شرعی حیثیت
مصنف:مولانا سید احمد عروج قادریؒ
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء٭ صفحات: ۵۶٭ ۔؍۳۰ روپے
اللہ تعالیٰ کے لئے مراسم عبودیت کے اظہار کے لیے قربانی کو مشروع کیاگیا ہے۔ یہ عمل دورانِ حج بھی انجام دیا جاتا ہے اور عیدالاضحی کے دن پوری دنیا کے مسلمان بھی اسے بجا لاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عیدالاضحی کی نماز کے بعد خود بھی پابندی سے قربانی کی ہے اور مالی وسعت رکھنے والے مسلمانوں کو بھی قربانی کا حکم دیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قربانی کا حکم قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے۔
لیکن بعض حضرات اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ اسے ایک مسرفانہ اور مہمل رسم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اس سے سنگ دلی کااظہار ہوتا ہے اور اس میں بے شمار جانوروں کا ضیاع بھی ہے۔ حج کے موقع پر بڑی تعداد میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے اور عیدالاضحی کے ایام میں لاکھوں کروڑوں مسلمان قربانی کرتے ہیں، جس سے اربوں روپے بے مصرف چلے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس خطیر رقم کو اگر قربانی کے بجائے رفاہی کاموں میں خرچ کیا جائے تو بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس قسم کے اعتراضات سے بچنے کے لیے بعض مسلم ’دانشور ‘ یہ نکتہ آفرینی کرتے ہیں کہ اسلام میں جانوروں کی قربانی کاحکم ہی نہیں دیا گیا ہے اور یہ ’ملا کی ایجاد‘ ہے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس ذہنیت کے حاملین کی خوب خبر لی ہے اوراپنے متعدد مقالات میں ان کا زبردست رد کیا ہے۔ یہ مقالات ان کی کتاب تفہیمات (جلددوم ) میں شامل ہیں۔
مولانا سید احمد عروج قادریؒ (م ۱۹۸۶ء) نے ربع صدی تک ماہنامہ ’زندگی ‘ رام پور کی ادارت کی خدمت انجام دی ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے مختلف دینی موضوعات پر سیکڑوں مقالات سپرد قلم کیے ہیں۔ آج سے چار دہائیوں قبل پاکستان کے ایک رسالے میں قربانی کے موضوع پر ایک مضمون ان کی نظر سے گزرا، جس میں اسی طرح کی ہرزہ سرائی کی گئی تھی تو ان کی غیرت کو جوش آیا اور انھوںنے قربانی کی شرعی حیثیت اور اہمیت پر ایک مفصل مقالہ رقم فرمایا، جو زندگی کی کئی قسطوں میں شائع ہوا۔ یہی مقالہ زیر نظر کتاب کی صورت میں شائع کیاگیاہے۔
اس کتاب میں مولانا قادریؒ نے پہلے قرآن مجید اور احادیث سے قربانی کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ پھر لکھا ہے کہ اسی وجہ سے تمام فقہی مسالک میں اسے اہمیت دی گئی ہے۔ فقہاء کے درمیان اس کے واجب یا سنت ہونے کے معاملے میں جو اختلاف ملتا ہے وہ محض اصطلاحی فرق کی وجہ سے ہے، ورنہ اس کی اہمیت اور مشروعیت پر تمام فقہاء متفق ہیں۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ عہدِ رسالت سے آج تک اُمتِ مسلمہ تواتر کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہے۔ آخر میں مولانا نے مذکورہ مضمون کا پوسٹ مارٹم کیا ہے اور اس کی کمزوریاں اور مضمون نگار کی غلط بیانیاں واضح کی ہیں۔
امید ہے کہ اس کتاب سے قربانی کی شرعی حیثیت واضح ہوگی اور معترضین کی وسوسہ اندازیوں کا ازالہ ہوگا۔
وراثت کا اسلامی تصور اور ہم مسلمان
مصنف: اظہرالدین فلاحی
ناشر: المکتبۃ الفلاحیۃ الاسلامیۃ، سدھارتھ نگر (یوپی)
سنہ طباعت: ۲۰۱۴ء٭ صفحات: ۴۸٭ قیمت: ۔؍۲۵روپے
معاشرتی زندگی میں مسلمانوں کو جو احکام دیے گئے ہیں ان میں سے ایک اہم حکم میراث کی تقسیم کا ہے ،یعنی کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی مملوکہ چیزیں اس کےقریبی رشتے داروں میں تقسیم کی جائیں اور ان میں سے کسی کو محروم نہ کیا جائے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے تفصیلی اور جزئی احکام قرآن کریم میں بیان کردیے گئے ہیں، حالانکہ دیگر فرائض مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کے صرف اصولی احکام کا بیان قرآن حکیم میں ہے، ان کی جزئیات کا علم ہمیں احادیث سے حاصل ہوتا ہے۔ میراث کے احکام سورۂ نساء کے پہلے رکوع میں مذکور ہیں۔ وہاں صاف صاف یہ بھی کہہ دیاگیا ہے کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائے گا، اسے اللہ تعالیٰ آگ میں ڈالے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے‘‘۔ (النساء: ۱۳۔۱۴) یہ بھی کہاگیا ہے کہ ’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کےمال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔ (النساء: ۱۰)
اتنی سخت تنبیہات کے باوجود یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے میں ان احکام و تعلیمات پر عمل نہیں کیا جاتا۔ عموماً باپ کے انتقال کے بعد لڑکے زمین جائداد اپنے درمیان تقسیم کرلیتے ہیں اور بہنوں کو بالکلیہ محروم رکھتے ہیں ۔ ماحول ایسا بنا دیاگیا ہے کہ لڑکیاں اپنے حصوں کا تقاضا کرنے کی ہمت نہیں کرپاتیں۔
زیر نظر کتابچے میں اس موضوع پر مفید معلومات پیش کی گئی ہیں۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے ۔ پہلے حصے میں تقسیم میراث کی اہمیت، حکمت ومصلحت، تقسیم کے فائدے اور اس پر اجر الٰہی اور عدم تقسیم کے نقصانات اور اس پر اخروی سزا وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں قرآن کریم میں مذکور مستحقینِ میراث کے حصے بیان کیے گئے ہیں اور اس ضمن میں بعض اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے۔ زبان وبیان عام فہم اور سلیس ہے۔
اس کتابچے کے مصنف مولانا اظہرالدین فلاحی شمالی ہند میں دینی تعلیم کے مشہور ادارہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ سے فارغ التحصیل ہیں۔ انھوں نے جامعۃ الفلاح کی شاخ جامعہ مصباح العلوم چوکونیاں (سدھارتھ نگر، یوپی) میں بیس سال (۱۹۹۳ء۔ ۲۰۱۲ء) تدریسی خدمات انجام دی ہیں اور ان دنوں اسی علاقے کے ایک دوسرے مدرسے الجامعۃ الاسلامیہ تلکہنا میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ وہ تحریر وتصنیف کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ دینی واصلاحی موضوعات پر ان کی کئی کتابیں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ یہ کتابچہ بھی ایک اہم سماجی موضوع سے بحث کرتا ہے۔ امید ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا اوراس کے ذریعے مسلمانوں میں وراثت کی اہمیت کا احساس دلانے میںمدد ملے گی۔
رہبرکارواں (مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ)
مرتب: انتظار نعیم
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ۲۵
سنہ طباعت: ۲۰۱۴ء٭ صفحات: ۲۸۸٭ قیمت: ۔؍۱۵۰روپے
جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ کی وفات ۵(؍ دسمبر ۱۹۹۰ء) کو ربع صدی ہونے کو ہے۔ تقسیم ملک کے بعد ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۸ء کو الٰہ آباد میں ایک نمائندہ اجتماع میں اتفاق رائے سے انھیں جماعت اسلامی ہند کا امیر منتخب کیا گیا تھا۔ اس منصب پر وہ مسلسل چوبیس سال (۱۹۴۸ء تا ۱۹۷۲ء) فائز رہے۔ اکتوبر ۱۹۸۱ء میں دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوئے اور مارچ ۱۹۹۰ء تک یہ ذمے داری نبھاتے رہے۔ (۱۹۷۲ء میں مولانا محمد یوسف ؒ امیر جماعت منتخب ہوئے اور نو (۹) سال تک امیر رہے تھے) مولانا نے بہت نازک وقت میں امارت کی ذمے داری نبھائی اور بہت خوش اسلوبی سے جماعت کی سرگرمیوں کو فروغ اور استحکام بخشا۔ وہ متعدد مرتبہ قیدوبند کے مراحل سے بھی گزرے۔ ان کی شخصیت تحریک سے باہر کے حلقوں میں بھی مقبول تھی اور انھیں قدروعظمت کی نگاہ سےدیکھا جاتا تھا۔
مولانا ابواللیث ؒ کی وفات پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کے ترجمان ماہ نامہ ’رفیق منزل‘ اور انجمن طلبۂ قدیم جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے ترجمان ماہ نامہ ’حیاتِ نو‘ کے خصوصی شمارے شائع ہوئے تھے۔ جناب انتظار نعیم صاحب نائب صدر ادارۂ ادب اسلامی ہند و اسسٹنٹ سکریٹری شعبہ ملکی وملی مسائل جماعت اسلامی ہند نے ان دونوں خصوصی شماروں میں شامل مقالات کو معمولی ایڈیٹنگ اور ترتیب نو کے ساتھ اس کتاب میں جمع کردیا ہے۔
اس کتاب میں مولانا مرحوم کی حیات وخدمات کے مختلف پہلوئوں پر تقریباً چار درجن مضامین شامل ہیں۔ مضمون نگاروں میں ملت کے اکابر بھی ہیں، مثلاً مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا مجیب اللہ ندوی، جناب نعیم صدیقی،مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی وغیرہ، جماعت اسلامی ہند کی بزرگ شخصیات بھی ، مثلاً جناب محمد حسنین سید، مولانا محمد شفیع مونس، جناب شمس پیرزادہ، جناب مائل خیرآبادی ، مولانا محمد شہباز اصلاحی، مولانا عبدالرشید عثمانی، جناب سید یوسف، مولانا محمد سراج الحسن ، مولانا سید جلال الدین عمری وغیرہ، مولانا مرحوم کے قریبی رفقاء اور احباب بھی، مثلاً حکیم محمد مختار اصلاحی، مولانا عبدالناصر اصلاحی، مولانا احمد محمود اصلاحی، مولانا ابوبکر اصلاحی اور مولانا اظہار احمد، مولانا کے اہل خاندان بھی ، مثلاً مولانا محمد شعیب مدنی (داماد) محترمہ ساجدہ فلاحی اور محترمہ صالحہ تبسم (صاحبزادیاں) محترمہ ختم النساء (بہن)، اس کے علاوہ مدیر ماہ نامہ ’رفیق منزل‘ مولانا طارق فارقلیط فلاحی اور مدیر ماہ نامہ ’حیات نو‘ مولانا محمد اسماعیل فلاحی اور مرتب جناب انتظار نعیم کے مضامین بھی شاملِ کتاب ہیں۔ مقالہ نگاروں میں اور بھی متعدد اہم شخصیات ہیں۔ انھوں نے مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے اور بڑی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ ان سے مرحوم کے علم وفضل، تقویٰ، سادگی، اخلاص، ذہانت وفطانت، تحمل، دوراندیشی اور دیگر اخلاقِ کریمانہ کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی عظمت کا گہرا نقش دل پر قائم ہوتا ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کو کرنا چاہیے۔ امید ہے، اس سے اس کے جذبات میں تلاطم پیدا ہوگا اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش ابھرے گی۔
شیئرز بازار میں سرمایہ کاری۔ موجودہ طریقۂ کار اور اسلامی نقطۂ نظر
مصنف: ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ۲۵
سنہ طباعت: ۲۰۱۴ء٭ صفحات: ۱۵۲٭ قیمت: ۔؍۸۰روپے
کسی سنجیدہ اور تحقیقی موضوع پر کسی کتاب کا طبع ثانی کتاب کی مقبولیت اور افادیت کا بیّن ثبوت ہے۔ شیئرز بازار میں سرمایہ کاری سے متعلق موجودہ طریقے کی سادہ اور عام فہم وضاحت و تعارف اور متعلقہ موضوعات پر اسلامی نقطۂ نظر پرمشتمل اردو زبان میں اس سے بہتر دوسری کوئی کتاب شاید موجود نہیں ہے۔ اس طبع ثانی میں نئے مباحث خصوصاً صکوک کے تعارف سے متعلق ایک باب کے اضافے سے اس کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی ہندوستان کے اسلامی معاشیات و مالیات کے موضوع پر محققین کے سلسلۂ ذہب (Golden Chain) کے بیچ کی کڑی ہیں۔ ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی (مرحوم) کے لائق شاگرد اور ڈاکٹر شارق نثار کے شفیق استاد کی حیثیت سے موصوف خود علمی تحقیق میں لگے ہیں اور دیگر محققین کے لیے ممد ومعاون اورگائیڈ ہیں۔
کتاب کے نصف سے زائد حصے میں مشترکہ سرمایہ کی کمپنیاں، حصص کا ابتدائی وثانوی بازار، میوچول فنڈ اور حصص کی قیمت میں تغیر کے اسباب وغیرہ عنوانات کے تحت سرمایہ کاری کے موجودہ طریقوں کا تعارف کرایاگیا ہے۔ زبان سادہ اور بیان واضح ہے اور یہ حصہ طلبہ نیز سرمایہ کاری میںدلچسپی رکھنے والے افراد ، علماء اور اہل افتاء حضرات کے لیے مفید ہے۔ آخرالذکر کا ذکر اس لیے کیاگیا ہے کہ ان سے رجوع کرنے والے سائل ،جومعلومات فراہم کرکے فتاویٰ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ اکثر ناکافی، غلط اور گنجلک ہوتے ہیں، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ راست اور درست معلومات فراہم ہوں۔ یہ کتاب اس ضرورت کو احسن طریقے سے پوری کرتی ہے۔
کتاب کے بقیہ نصف حصے میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں علماء ،اہل افتاء اور مسلم ماہرین معاشیات کی آراء سے واقف کرایاگیا ہے۔ مصنف خود اپنی تعلیم وتربیت اور اختصاص کے لحاظ سے دونوں صفوں سے وابستہ ہیں اور یہ بات قاری دونوں اقسام کے مباحث کے دوران محسوس کرتا ہے۔ وہ رایوں پرتبصرہ کرتے ہیں، تجزیہ پیش کرتے ہیں اور اکثر اپنی رائے بھی دیتے ہیں، البتہ عمومی طور پر علمی بحث کوآگے بڑھانے اور مزید غوروفکر کی راہیں وا کرنے کی سعی اس کتاب کا خاصّہ ہے۔
کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت اصطلاحوں کے سلسلے میں احتیاط ہے۔ عربی، اردو اور انگریزی اصطلاحوں کا ذکر کیاگیا ہے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں اردو میں نئی اصطلاحیں وضع بھی کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اردو اور انگریزی اصطلاحوں کا اشاریہ صفحات کے حوالوں کے ساتھ درج کردیاگیا ہے۔
صکوک کے سلسلے میں ایک باب کا اضافہ کیاگیا ہے، جس میںتعارف پر اکتفا نہ کرتے ہوئے مصنف نے اس بازار کی خرابیوں کا بھی واضح ذکر کردیا ہے۔ اس صاف گوئی سے کتاب کے مشمولات کا اعتبار بڑھ گیا ہے۔ درج ذیل اقتباس سے اس عالمانہ ذمےداری کے ادا کرنے کا اندازہ ہوجائے گا۔
’’علماء کی غالب اکثریت کے ان صکوک کے عملاً غیر شرعی ہونے کے فیصلوں کے باوجود بعضـ اکاّ دکاّ فقہاء کی ذاتی رائے کوبنیاد بناکر صکوک کا بازار پھیلتاہی جارہا ہے۔البتہ اس کو سخت قسم کا دھچکا اس وقت لگا جب ۲۰۰۷ء میں AAOIFI کے صدر نے یہ اعلان کیاکہ پچاسی فی صد (85%) صکوک غیر شرعی ہیں‘‘۔ (صفحہ ۱۱۰)
’’مالیاتی انجینئرنگ کے ماہرین اپنے کارنامے دکھاتے رہتے ہیں، خواہ اس میں اسلام کی روح اور مقاصد شریعت دائو پر لگ جائے ۔ کیوں کہ مالیاتی انجینئرنگ کے ماہرین صرف شکلاً ان صکوک کو فقہی احکام کے مطابق بنانے کی فکر کرتے ہیں۔ ان کے پیچھے کیا روح کارفرما ہے اس کی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ راست اورسنجیدہ اہل فکر کی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۱۱۴)
کسی بھی انسانی کاوش کو حرف آخر نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ کسی کاوش کا اچھا حرف آغاز ہونا بھی کم شرف کی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی کی اس کتاب کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ یہ رائے دی جاسکتی ہے کہ اردو زبان میں اپنے موضوع پر ایک اچھی تعارفی کتاب اور علمی کاوش ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ اس فاتحہ کے بعد دیگر مباحث سے بھی اردو زبان مالا مال ہوگی۔
ڈاکٹر وقار انور
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014