تہذیب وسیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار
مرتبین : ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی ومولانا جرجیس کریمی
ناشر: ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی ، بنی نگر ، جمال پور علی گڑھ ۔ ۲۰۲۰۰۳
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۵
صفحات: ۸۳۶،قیمت : /- ۶۰۰ روپے
تہذیب وسیاست نظامِ حیات کے دو اہم اجزاء ہیں ۔ ان دونوں نے افراد اور سماج پر ہر اعتبار سے گہرے اثرات ڈالے ہیں اوران کا آپس میں چولی دامن کاساتھ ہے ۔ کسی بھی ملک یا قوم کی تعمیر وبقا اوراستقلال کا انحصار ان دونوں کی درستی پر ہے۔ اسلام نے تہذیب وسیاست کو اخلاقی دائروں میں رکھا اوران کو نوع انسانیت کے لیے مفید سے مفید تر بنایا ۔ اسلام نے ان کے معا ملا ت کو درست رکھنے کے لیے انتہائی ٹھوس ا ور مضبوط ر ہ نمااصول عطا کیے ہیں ، جن کی نظیر دنیا کی کسی بھی تہذیب یا مذہب میں نہیں ملتی ۔
تہذیب وسیاست کی تعمیر میں اسلام نے کیا کردار ادا کیا ؟ رائج مغربی اوردیگر تہذیبوں اور سیاسی نظاموں میں کیا خرابیاں پائی جاتی ہیں ؟ ان خرابیوں کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے ؟ اور امت مسلمہ کو آئندہ کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟ ان اہم سوالات کے جوابات زیر نظر مجموعۂ مقالات میں مل جاتے ہیں ۔ یہ مقالات ۲۲۔۲۳ فروری ۲۰۱۴ء کوادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ میں منعقد ہونے والے سیمینار میں پیش کیے گئے تھے۔ اسلامی تہذیب وسیاست پر گزشتہ چند دہائیوں میں خاصا علمی کام ہواہے۔ ادارۂ تحقیق کی یہ کاوش اس ضمن میں کافی اہمیت کی حامل ہے ، اس میں چھتیس (۳۶) مقالات کے علاوہ صدرِ ادارہ مولانا سید جلال الدین عمری کا کلیدی خطبہ ، سکریٹری ادارۂ ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی کے افتتاحی کلمات ، جناب نصرت علی نائب امیر جماعت اسلامی ہند کا خصوصی خطاب اورمعروف دانش و ر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا وقیع صدارتی خطاب بھی شامل ہے۔ اس مجموعۂ مقالات میں جن پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے ، ان میں قرآن مجید کی روشنی میں نظامِ حکومت ،تہذیب وسیاست کے مخصوص مسائل، تکثیری معاشرہ کے مسائل اورتحریک اسلامی کا کردار بہ طور خاص قابلِ ذکر ہیں ۔ علاوہ ازیں جن اسلامی مفکرین کی سیاسی آراء پرروشنی ڈالی گئی ہے ان میں علامہ ابن القیم، علامہ ابن تیمیہ، مولانا ابوالحسن علی ندوی ، سید قطب شہید ، جناب علی عزت بیگووچ اورشیخ یوسف القرضاوی شامل ہیں ۔
مولانا سید جلال الدین عمری نے تہذیب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اسلام کی اساس توحید، رسالت اورآخرت کے عقائد پر ہے ۔ اس کی تہذیب بھی اسی اساس پر استوار ہوتی ہے ۔ یہ اصولی طورپر ان تہذیبوں سے مختلف ہے جن میں خدا کا واضح تصور ہے نہ وہ وحی ورسالت اورآخرت ہی کو تسلیم کرتی ہیں۔
پہلا مقالہ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کا ہے جس میں انہوںنے اسلامی تہذیب کے سلسلے میں مغرب کے ناپاک عزائم کا تذکرہ کیا ہے ۔ ابومتین صاحب کا مقالہ ’علوم کی تعمیر میں تہذیب اسلامی کا کردار‘ کا فی اہم ہے، لیکن افسوس کہ وہ حوالہ جات سے مزین نہیں ہے ۔ڈاکٹر محمد ارشد نے اپنے مقالے میں ہنٹنگٹن کی مشہور کتابClash of civilizationکا تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ اس مجموعے میں اسلام کے سیاسی نظام پر پانچ مقالات شامل ہے ۔ مقالہ نگار مولانا عمر اسلم اصلاحی ، ڈاکٹر محمد راشد اصلاحی ، ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی، مرزا سبحان بیگ اور ڈاکٹر محمد عنایت اللہ سبحانی ہیں ۔ مولانا محمد جرجیس کریمی نے اپنے مقالے میں اسلام کے سیاسی نظام میں محدثین کا نقطۂ نظر پیش کیا ہے ۔ پروفیسر یوسف امین کا مقالہ ’مادہ پرست مغرب کا جاری سقوط اورامت مسلمہ‘ مختصر ہونے کے باوجود فکر انگیز ہے ۔ اسلام کا نظریۂ حکومت اورموجودہ پارلیمانی نظام پر مولانا اختر امام عادل قاسمی اورمولانا کمال اختر قاسمی کے مقالات ہیں۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اسلامی نظام حکومت پر مصری دانش ور علی عبدالرزاق کے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے ۔ مولانا ضمیر الحسن فلاحی نے علامہ یوسف القرضاوی کے سیاسی افکار پر گفتگو کی ہے ۔
تکثیری معاشرہ کے مسائل پر چارمبسوط مقالے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی نے اپنے مقالے بہ عنوان ’سیاست وحکومت اورعہد وسطیٰ کے ہندوستانی علماء‘ میں ہندوستان میں عہد سلطنت کے حوالے سے تہذیبی وسیاسی مسائل کے حل میں دینی رجحان پر تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ ان کے علاوہ اوربھی بہت سے مقالات اس مجموعے کی زینت اور لائق مطالعہ ہیں۔ محترمہ سلمیٰ فردوس کے مقالے کا عنوان ہے : ’’سید قطب کے سیاسی افکار‘‘ ۔ اس میں پہلے سید قطب کے حالاتِ زندگی پر تفصیل سے ڈالی گئی ہے ۔ پھر اخوان المسلمون کے سیاسی افکار پر گفتگو کی گئی ہے، لیکن سید قطب کے سیاسی افکار پر براہِ راست کوئی بحث نہیں ہے ۔ یہ مجموعہ اپنے موضوع پر انتہائی اہم اورقابلِ قدر اضافہ ہے ۔ اس میں علماء اوردانش وروں کے علاوہ عام طبقہ کے لیے بھی فکری رہ نمائی کا سامان موجود ہے ۔ اس علمی خدمت پر فاضل مرتبین تحسین و تبریک کے مستحق ہے ۔ یہ مجموعہ بہترین گٹ اپ میں شائع کیا گیا ہے ، البتہ پروف ریڈنگ توجہ سے نہیں کی گئی ہے اورر چند مقالوں میں حوالے تحقیق کے جدید منہج کے مطابق نہیں ہیں۔ (مجتبیٰ فاروق)
اجالوں کا قافلہ
مصنف: مولانا اسعد اسرائیلی
ناشر: شعور حق۔ E-242، شاہین باغ ، جامعہ نگر ، نئی دہلی
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۴ء ، صفحات: ۹۶ ، قیمت: ۱۶۰/-روپے
انسانی زندگی میں واقعات (کہانیوں ) کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک ایسا فن ہے جس میںواقعات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ سننے یا پڑھنے والے کے ذہن میں اس کا پورا عکس اور تصویر سامنے آجاتی ہے ۔ اس کی اہمیت کئی پہلوؤں سے ہے ۔ واقعات نے نہ صرف یہ کہ تاریخ کو محفوظ رکھنے کا کام انجام دیا ہے ، بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل تک زندگی کے تجربات منتقل کرنے اورتہذیبوں کوزندہ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کے اہم ہونے کی بہت سی وجوہ ہیں، جن میں سے ایک ان کا دلچسپ ہونا ہے ۔ یہ واقعات دو طرح کے ہوتے ہیں: کچھ تفریحی قسم کے ہوتے ہیں ، جب کہ اکثر سبق آموز اوراخلاقی قدروں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔
سیرت بنوی ؐ اورتاریخ اسلام کے اہم واقعات پر مشتمل بہت سی کتابیں حکایاتی اورافسانوی اسلوب میں لکھی گئی ہیں ، لیکن دیکھا گیا ہے کہ ان میں صحت بیان کا اہتمام نہیں ہوتا اوربہت کچھ خیالی رنگ آمیزی ہوجاتی ہے ۔ مصنف اس میں اپنے خیالات وافکار کی آمیزش کردیتا ہے اورانہیں افسانوی رنگ دینے میں احتیاط واعتدال کوملحوظ نہیں رکھ پاتا۔ لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ زیر نظر کتاب مندرجہ بالا خامی سے پاک ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے سیرت نبویؐ اورخلفاء راشدین کے زمانے کے اہم واقعات کوبہت مؤثر اسلوب میں پیش کیا ہے ۔ اندازِ بیان بہت سادہ اور پرکشش ہے، جس کا اثر براہِ راست انسان کے دل پر ہوتا ہے ۔ ان واقعات کے بیان میں مصنف نے ان کے پیغام اورمقصدیت کی روح کومجروح نہیں ہونے دیا ہے ۔ ہر واقعہ کے آخر میں اس کا حاصل بھی پیش کیا ہے ۔ امید ہے کہ اس کتاب کو عوام وخواص میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائےگا۔ (محمد اسعد فلاحی)
مشتاق احمد یوسفی کی ادبی خدمات
مصنف : ڈاکٹر محمد طاہر
ناشر: شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج، اعظم گڑھ
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۵، صفحات: ۲۴۶، قیمت :۱۵۰ روپے
’طنزو مزاح ‘ ادب کی اہم صنف اور تاریخ کی قدیم روایت ہے ۔ اس کا سلسلہ ارسطو کی کا میڈی (طربیہ) سے جا ملتا ہے ۔ جدید شاعری کے نقشِ اول مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے مکاتیب کے ذریعہ طنزومزاح کےفن کو ادبی اورفنیّ اعتبار سے مستحکم کیا ۔ بعد کے چند معروف ادبا میں فرحت اللہ بیگ ، کنہیا لال کپور، پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی قابل ذکر ہیں ۔ اس میدان میں ایک اہم نام مشتاق یوسفی کا ہے ۔ انہوں نے اردو مزاح نگاری کوتہہ داری کے ساتھ کیفیت آفرینی سے بھی ہم کنار کیا ہے ۔
’مشتاق احمد یوسفی کی ادبی خدمات ‘ ڈاکٹر محمد طاہر کی کتاب ہے ،جس میں ممدوح موصوف کی ادبی خدمات کا بہتر طریقے سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یوسفی کا فن اس قدر متنوع اور کثیر الجہات ہے کہ اس کی تہہ داری تک آسانی سے پہنچنا اور ان کے فکری رویے کوگرفت میںلینا بہت مشکل ہے ۔ اس کے باوجود ڈاکٹر محمد طاہر نے محنت اورلگن سے ایک اچھی کوشش کی ہے ۔
یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ اس میں طنزومزاح کی روایت کواس کے تہذیبی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ، ساتھ ہی انگریزی ادب سے اس کا تقابل بھی کیاگیا ہے۔ دوسرے باب میں مشتاق احمد یوسفی کی تصانیف کا تعارف اورتجزیہ پیش کیا گیا ہے ، خاص طور پر ’چراغ‘ اور’خاکم برہن‘ کے انشائیوں اور مقدموں کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے ۔ تیسرے باب میں مشتاق یوسفی کے فن ، تکنیک اورموضوع کےحوالے سے بحث کی گئی ہے ۔ یہ با ب اہم ہے اوراس میں مصنف نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے ۔ چوتھا باب تقابلی مطالعہ پر ہے ۔ اس میں طنزو مزاح کے فن ، تکنیک اورموضوع کے حوالے سے یوسفی کا بعض دیگر مزاح نگار ادبا ء سےتقابل کیا گیا ہے ۔گوکہ یہ باب بھی موضوع اورصنف کے اعتبار سے اہم ہے ، مگر اسے مزید تجزیاتی اورتفصیلی طور پر پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ توقع ہے کہ طنزو مزاح کے شائقین اورمشتاق یوسفی کے چاہنے والے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔ (محمد رضوان خان)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016