رجوع الی القرآن
مصنف: پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی
ناشر: القلم پبلی کیشنز ، ٹرک یارڈ ، بارہمولہ ، کشمیر ۔۱۹۳۱۰۱
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۵، صفحات: ۷۲، قیمت:۔/۷۰ روپے
پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی (پ : ۱۹۳۱ء) ماہ نامہ زندگی نو کے قارئین کے لیے محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ وہ ممتاز ماہر معاشیات اوراسلامی اسکالر کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں ۔ انہیں شاہ فیصل بین الاقوا می ایوارڈ تفویض کیا جانا اسلامی معاشیات پر ان کے کام کا اعتراف ہے ۔ اردو زبان میں ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں ،جن میں غیر سودی بینک کاری ، اسلام کا نظریۂ ملکیت، تحریک اسلامی عصر حاضر میں ، انشورنش اسلامی معیشت میں اورمقاصد شریعت خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان کے اہم اورقیمتی مکاتیب کا مجمو عہ ’اسلام،معاشیات اور ادب‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ ان کے مضا مین اور مختصر تحریر یں بھی رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ’رجوع الی القرآن‘ کے موضوع پر ان کی چند تحریریں شامل کی گئی ہیں ، جوانہوں نے بعض سمیناروں میں پیش کی تھیں۔
موجودہ دور میں ’رجوع الی القرآن‘ کی دعوت عام ہے ، لیکن اس کے تقاضوں کی جانب جتنی توجہ ہونی چاہیے، اتنی دکھائی نہیں دیتی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریروں میں دوباتوں پر بہت زور دیا ہے : ایک یہ کہ قرآن کو پڑھنا ، سمجھنا اوراس سے رہ نمائی حل کرنا ہر شخص کا کام ہے ، یہ صرف علماء کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی، سیاسی اورمعاشی حالات میں بسا اوقات فقہ کے قدیم اصول کار گر ثابت نہیں ہوتے، اس صورت میں اگر مقاصد شریعت اورحکمت دین کی روشنی میں قرآن کریم سے رہ نمائی حاصل کی جائے تو پیچیدہ مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اس مجموعے میں شامل مضامین کے چند عناوین یہ ہیں : رجوع الی القرآن اہمیت اورتقاضے۔ علوم القرآن کی پہنچ اوراندازِ تخاطب ۔ فہم قرآن میں مقاصد کا حصہ۔شانِ نزول اورفہم قرآن ۔ اس مجموعے میں قرآنیات سے ہٹ کر بھی چند مضامین ہیں، مثلاً تاریخ، سیرت اور شاہ ولی اللہ ۔ فکر ولی اللٰہی میں مقاصد کا مقام ،مولانا امین احسن اصلاحی کے افادات ، اسلام اورجدید چیلنجز ، اسلامک اسٹڈیز کا نصاب، مولانا صدر الدین اصلاحی۔پروفیسر نجات صاحب کی ہر تحریر فکر ونظر کے دریچے کھولتی ہے۔ اس میں غور وفکر کے لیے بہت کچھ ہوتاہے ۔ امید ہے ، علمی حلقوں میں ان کی اس کتاب کوبھی قبول عام حاصل ہوگا۔کتاب کی ضخامت دیکھتے ہوئے قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔ (محمد رضی الاسلام ندوی)
ندائے تربیت
مصنف: عبد الحمید جاسم البلالی ،مترجم :مفتی محمد ارشد فاروقی
ناشر: المنار پبلشنگ ہائوس N-27، ابو الفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی 110025
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۶ء،صفحات:۵۰۲قیمت:۳۵۰روپے
ایک پودا جنگل میں اُگے۔ کسی نے اس کا بیج نہ ڈالا ہو اوراس کی کاشت نہ کی ہو۔ وہ بڑھے اوربڑھتا چلا جائے ۔ اس کی شاخیں جدھر چاہیں پھیل جائیں۔ اس کے اطراف میں جھاڑ جھنکاڑ ہو۔ اس کے بالمقا بل کسی باغ یا پارک میں کوئی مالی پہلے زمین تیار کرے ، پھر اس میں بیچ ڈالے ، پودا کونپل نکالے تو اس کی خوب دیکھ بھال کرے ، اطراف سے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرے ، کھاد پانی دے ، اس کی شاخیں اِدھر اُدھر پھیلنے لگیں توانہیں کاٹ چھانٹ کر درست کرے۔ کیادونوں پودوں کا معاملہ یکساں ہوگا ؟ ہرگز نہیں۔ ظاہر ہے ،پہلا پودا ایک خودروپودا ہوگا ، جس میں کوئی حسن نہ ہوگا ، جب کہ دوسرا پودا نگاہوں کوبھلا معلوم دے گا اوردیکھنے والے اس کی تعریف کریں گے ۔ ٹھیک یہی حال ’تربیت‘ کا ہے ۔ جوانسان دینی واخلاقی تربیت سے محروم رہ کر پلا بڑھا ہو، اس کے مقابلے میں وہ انسان ہزار درجہ بہتر ہوگا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ہو، اپنے اخلاق وکردار کوسنوارا ہواوراپنی شخصیت کی تعمیر اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر کی ہو۔
تربیت کے موضوع پر مختلف زبانوں میں بے شمار کتابیں موجود ہیں ، جن میں اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے اوراس کے طریقوں کی نشان دہی کی گئی ہے ۔اس حیثیت سے اردو زبان بھی مالا مال ہے کہ اس میں خاصالٹریچر موجود ہے ۔شیخ عبدالحمید جاسم البلالی (ولادت ۱۹۵۵ء) کویت میں ایک مخیّر اور صا حبِ علم شخصیت کے مالک ہیں ۔ وہ عصری اوردینی دونوں علوم کے جامع ہیں۔ دعوت وتبلیغ ، سماجی مسائل اور دیگر موضوعات پرتقریباً چاردرجن کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ کویت کے مشہور ہفت روزہ ’المجتمع ‘ میں ’وقفات تربویۃ ‘ کےعنوان سے ان کا کالم بہت مقبول ہے اوردل چسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔ شیخ البلالی کی ان تحریروں کا اردو ترجمہ زیر نظر کتاب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ مفتی محمد ارشد فاروقی نے سلیس اوررواں ترجمہ کیا ہے ، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔اس کتاب میںتربیت کے مختلف پہلوؤں پر ہلکے پھلکے اندا ز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان میں آیاتِ قرآنی ، احادیثِ نبوی، آثارِ صحابہ ، اقوالِ سلف اورمختلف واقعات کی روشنی میں تربیتی نکتے پر بیا ن کیے گئے ہیں ۔ مصنف نے جابجا اپنے تاثرات اورخود پر بیتے ہوئے واقعات بھی شامل کیے ہیں۔ مضامین مختصر ہونے کی وجہ سے ان کا مطالعہ کرنے کی طرف میلان ہوتا ہے۔ اس کتاب کی جلد اول (صفحات :۳۲۰) پرجناب محمد اسعد فلاحی کا تبصرہ ماہ نامہ زندگی نو، دسمبر ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا تھا ۔ اس اشاعت میں جلد دوم کے ساتھ جلد اوّل کوبھی شامل کرلیا گیاہے۔ (محمد رضی الاسلام ندوی)
میرا تحریکی سفر
مصنف: احسن مستقیمی (میرٹھ)
ناشر: 1946/1، ذاکر حسین کالونی ، میرٹھ ،موبائل :09411022708
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۶ء ، صفحات: ۱۱۲، قیمت:۔/۵۰ روپے
سفر نامہ ، تذکرہ وسوانح اور آپ بیتی ادب کی وہ اصناف ہیں جنہیں بہت ذوق و شوق سے پڑھا جا تا ہے ، اس لیے کہ ان موضوعات پرلکھی گئی کتابوں میں پیش کردہ واقعات کےضمن میں قارئین کوعبرت ونصیحت کی ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے ان کواپنی زندگی سنوارنے میں مدد ملتی ہے ۔ زیر نظر کتاب جناب احسن مستقیمی کی خود نوشت ہے جس میں ان کے تحریکی سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔
احسن مستقیمی بر صغیر ہند کے تحریکی حلقے کا ایک معروف نام ہے ۔ جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے بعد ابتدائی زمانے میں ہی وہ اس کے رکن بن گئے تھے ۔ انہیں مختلف علاقوں میں تنظیمی ذمہ داریاں دی گئیں اورانہوں نے پورے اخلاص اور سرگرمی سے ان ذمہ داریوں کونبھایا ۔ جماعت کی بنیادی فکر کو عام کرنے کے لیے انہوں نے بھر پور جدوجہد کی۔ اس معاملے میں ان کی پختگی اورصلابت کا یہ عالم ہے کہ وہ جہاں بھی اس میں کچھ کمی محسوس کرتے ہیں ،سخت انداز میں اس پر گرفت کرتے ہیں اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔
اس خود نوشت میں ایک طرف مستقیمی صاحب کی نجی اورخانگی زندگی چلتی پھرتی نظر آتی ہےاور پتہ چلتا ہے کہ تحریک اسلامی سے وابستہ ایک کارکن کوکیسا نمونہ پیش کرناچاہیے ۔ انہوں نے اپنےوطن اور خاندان کا سرسری تذکرہ کرنے کے بعد مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں چند سال تعلیم حاصل کرنے ، پھر گھر کی معاشی تنگی کی وجہ سے اس کا سلسلہ منقطع ہونے کا تذکرہ کیا ہے ۔ پھر بڑے دلچسپ انداز میں جماعت سے وابستگی کی رواداد بیان کی ہے۔ انہیں اعظم گڑھ ، سوائی مادھوپور (راجستھان)، مظفر نگر ، سہارنپور اور آخر میں میرٹھ میں رہنے کا موقع ملا۔ ہر جگہ رفقائے تحریک کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے رہے ؟ انہوں نے بچوں کی پرورش، تعلیم وتربیت ، پھر شادی کے معاملے میں کن قدروں کو اپنے پیش نظر رکھا؟ ان نکات پر انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے ۔دوسری طرف ان کی تحریکی زندگی کے خدو خال بھی اس خود نوشت سے خوب نمایا ں ہوتے ہیں ۔ انہیں جماعت کی مختلف سطح کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ سمع وطاعت کے جذبے سے انہوںنے ان کو قبول کیا اورنبھانے کی کوشش کی ، لیکن جب اندازہ ہوا کہ ان سے ( بعض وجوہ سے ) کچھ کوتاہی ہورہی ہے توذمہ دا ری سے معذرت کرلینے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا ۔ انہوں نے بعض رفقاء تحریک کے بے مثال اخلاق وکردار کو خوب سراہا ہےتوساتھ ہی جن رفقاء میں کچھ کم زوریاں دیکھیں ان کا نام لیے بغیر ان کی نشان دہی بھی کردی ہے ۔جناب احسن مستقیمی صاحب اس خود نوشت میں ایک ماہرنباض کی حیثیت میں نظر آتے ہیں ۔ تحریک کی رفتار کارکیوں متاثر ہورہی ہے ؟ کب سے اس کی رفتار سست ہوئی ہے ؟ فکری سطح پر وہ کن بحرانوں کا شکار ہوئی ہے ؟ اورعملی سطح پر اس کے ذمہ داروں اور کارکنوں میں کیا کم زوریاں پیدا ہورہی ہیں ، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے ؟ ان معاملا ت کووہ بہت باریکی سے دیکھتے ہیں اوربرملا اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ، خواہ کسی کو وہ رائے کتنی ہی نا پسندکیوں نہ ہو ۔
سیکولرزم ، جمہوریت ، ملکی سیاسی نظام اورمسئلہ انتخابات وغیرہ کے بارے میں جناب مستقیمی صاحب کا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ تحریک ان کے سلسلے میں اپنے سابقہ موقف سے ہٹ گئی ہے اوریہ کہ سابقہ موقف ہی درست ہے ۔ ان کے اس احساس سے تواتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک سے وابستہ بعض چوٹی کے دانش ور وں نے شعوری طورپر تحریک کو اس کے سابقہ موقف سے ہٹانے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کی اس خواہش کوغلط نہیں قرار دیا جاسکتا کہ تحریک کے موجودہ ذمے دا ر و ں کو موجودہ موقف کے حق میں شرعی دلائل فراہم کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر محض نظم اور فیصلوں کا حوالہ دے کر وابستگانِ تحریک کو ان پر مطمئن نہیں کیا جاسکتا ۔اس خود نوشت کی حیثیت لکھنے والے کے تاثرات کی ہے ۔ ان کی ہر بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے باوجود رفقاء تحریک کے لیے اپنی ذاتی اصلاح وتربیت اورتحریکی فہم کے لیے اس کتابچہ میں بہت کچھ مواد موجود ہے۔(محمد رضی الاسلام ندوی)
شبہات وحقائق
مصنف: مولانا اسعد اسرائیلیؒ
ناشر: شعور حق ، M-21/6,7۔ خلیل اللہ مسجد، بٹلہ ہاؤس ، جامعہ نگر ، نئی دہلی ۲۵
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات:۷۲قیمت:۵۰روپے
تحریکی حلقے کے مشہور داعی اورمصنف مولانا اسعد اسرائیلیؒ نے اس کتاب میں اسلام اورخاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے کیے جانے والے شبہات اوراعتراضات کا اختصار کے ساتھ مدلل اورتشفی بخش جواب دیا ہے ۔ فرقہ پرست اور مخصوص ذہنیت کے افراد نے ملک کا ماحول بگاڑ نے اور نفرت کی فضا پھیلانے کے لیے شر انگیز مہم شروع کررکھی ہے اورآئےدن کچھ نہ کچھ اعتراضات اُٹھاتے رہتے ہیں۔ یہ اعتراضات کچھ توان کی اسلام اور مسلمانوں سے ناواقفیت کی وجہ سے ہوتے ہیں اورکچھ ان کے شرارتی اورفتنہ جوذہن کی پیدوار ۔یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے : پہلے باب میں اسلام اور غیر مسلمو ں کے باہمی تعلقات کے ضمن میں اسلام اور تعصب، اسلام اور دہشت گردی ، مسلم ممالک میں غیر مسلموں پر مظالم، عالمی دہشت گردی، غلامی، ذمّی، جزیہ اورگاؤ کشی کی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ دوسرےباب میں مسلم سماج کے اندرونی معاملات کے تحت عورتوں کے سماجی رتبہ اوران کے حقوق، تعددّ ازواج ، ضبط ولادت، پردہ ، تین طلاق ، مرتد کی سزا، تعزیرات ، گوشت خوری اورپوتے کی وراثت کے متعلق اعترا ضا ت کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تیسرے باب میں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق معاملات: جیسے اپنے ملک سے ان کی عام بیزاری، بابری مسجد ، مسلم بادشاہوں کی ہندوؤں پر زیادتیاں ، پہلے ہندوستانی یا پہلے مسلمان؟ تشٹی کرن ، چار بیویاں ، دفعہ ۳۷۰، حج سبسڈی ، پرسنل لا اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے پائے جا نے والے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔اردو زبان میں اس کتاب کوشائع کرنےکی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم عوام کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے بہت زیادہ ناواقف ہے ۔ اس لیے جب ان کے سا منے اس قسم کے اعتراضات واشکالات آتے ہیں تودوسروں کومطمئن کرنا تودر کنار، بعض ناپختہ ذہن کے لو گ خود ہی شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ کتاب ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی جن کو عام طور سے غیر مسلموں سے وابستہ پڑتا ہے اور ان داعی حضرات کے لیے بھی جودعوت دین کا کام کرتے ہیں۔
اس کتاب میں جوبات بھی کہی گئی ہے نقلی اورعقلی دونوں طرح کے دلائل سے کہی گئی ہے ، تاکہ پڑھنے والا بھی مطمئن ہو اورکسی اعتراض کا اس کو کہیں واسطہ پڑے تومعترض کوبھی مطمئن کرسکے۔ کتاب کی زبان عام فہم اورانداز بیان سلیس ہے ۔ پروف کا بھی خاص اہتمام ہے ، البتہ ص ۱۳پر ایک قرآنی آیت کا حوالہ غلط ہے ۔ اِنَّ اللہَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ …..سورۃ النمل کی آیت ہے نہ کہ سورہ النحل کی (پروف کی تصحیح نہیں ہوسکی ہے ۔) اسی طرح مختلف مقامات پر احادیث کے حوالے نہیں ہیں۔ ادارہ شعورِ حق اس عمد ہ کتاب کوشائع کرنے پر مبارک باد کا مستحق ہے ۔ (عبد الحئی اثری)
آدی باسی سماج اورمسلمان
مصنف: جناب محمد اقبال ملا
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۵ء، صفحات:۴۸قیمت:۲۵روپے
مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتے رہیں ، ورنہ وہ نہ صرف اللہ کی تائید ونصرت، بلکہ اس کی رحمت سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ امتِ مسلمہ کو’خیر امت‘ کہا گیا ہے ۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ خیر کی دعوت سماج کے ہرطبقہ تک پہنچائیں۔ زیر نظر کتاب ’آدی باسی سماج اور مسلمان‘ اپنے موضوع پر بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ اس میں سماج کے ایک پس ماندہ طبقہ( آدی باسیوں ) کی موجودہ مذہبی وسماجی صورت حال ،ان میں دعوت کی ضرورت و اہمیت اوراس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں اور مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔
یہ کتاب چار (۴) ابواب پر مشتمل ہے : پہلے باب کا عنوان ہے : آدی باسی کون ہیں؟ اس میں اس طبقے کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ دوسرا باب ’آدی باسیوں میں فریضۂ دعوت‘ کے عنوان سے ہے ۔اس میں اس طبقہ میں کار ِدعوت کی اہمیت وافادیت پر زور دیا گیا ہے ۔تیسرا باب ’میدانِ دعوت کے مسائل اور ان کا حل‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں دعوت دین کے مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جن میں زبان سے ناواقفیت ،مسلمانوں کی بے عملی، وسائل اور لٹریچر کی کمی بہ طور خاص قابل ذکر ہیں ۔ چوتھے باب میں آدی با سی تحریکات کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے ۔ آخر میں کچھ عملی کاموں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ کتاب برادرانِ وطن ، بالخصوص آدی باسیوں میں دعوتِ دین کا کام انجام دینے والوں کے لیے بیش بہا تحفہ ہے ۔
(مجتبیٰ فاروق)
مولانا مودودیؒ — افکار واثرات
مصنف: عطاء الرحمن وجدیؔ
ناشر: شعور حق ، M-21/6,7۔ خلیل اللہ مسجد، بٹلہ ہاؤس ، جامعہ نگر ، نئی دہلی ۲۵
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۶ء (طبع دوم)، صفحات:۱۲۸قیمت:۷۵روپے
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ(م ۱۹۷۹ء) نے اپنی پوری زندگی اقامتِ دین کی جدوجہد اوراس کی اشاعت کے لیے وقف کررکھی تھی۔ انہوں نے اس راہ کی بہت سی مشکلات ، سختیوں اور آزمائشوں کو برداشت کیا ۔ وہ بیسوی صدی کے صف اوّل کے مفکرین میں سے تھے ۔ ان کا سب سے بڑ ا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کوایک نظامِ حیات کی حیثیت سے عقلی ونقلی دلائل کےساتھ عصری زبان میں پیش کیا اوردور جدید کے فتنوں کا پوری پامردی سے مقابلہ کیا ۔ زیرِ نظر کتاب میں مولانا مودودیؒ کے افکار و نظریات کا مبسوط تعارف کرایا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے اپنے مقدمہ میں سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جب کوئی شخص خداداد صلاحیتوں کی بنا پر قبولِ عام حاصل کرلیتا ہے اورزندگی کے کسی اہم میدان میں اس کی شخصیت مسلّم ہوجاتی ہے تواکثر اس کے کام سے زیادہ نام سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش ہونے لگتی ہے ۔ ایسا ہی آج مولانا مودودیؒ کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔‘‘ اسی کے پیشِ نظر انہو ں نے اس کتاب میں مولانا مودودیؒ کے افکار کوحتی الامکان جو ں کاتوں پیش کرنےکی کوشش کی ہے ، تاکہ ایک عام قاری ان کی شخصیت کوصحیح طور پر سمجھ سکے ۔
کتاب پانچ(۵) ابواب پر مشتمل ہے : پہلے باب میں مولانا کی ابتدائی زندگی اور اس وقت کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ دوسرے باب میں ان کی انقلابی فکر کا تعارف کرایا گیا ہے اوران کی دا عیا نہ فکر ، فکری اساس، طرزِ تحریر اور قوتِ استدلال ، باطل افکار ونظریات پر تنقید ، اسلام پر کیے جانے وا لے اعتراضات وشبہات کا ازالہ اورغلبۂ اسلام کی منظم جدوجہد پر گفتگو کی گئی ہے ۔ تیسرا باب مولانا کی تحریکی وتنظیمی زندگی پر ہے ۔ اس میں جماعت اسلامی کی تاسیس ، انتخابِ امیر، دستورِ جماعت، باریک بینی و دور اندیشی سے بحث کی گئی ہے۔ چوتھا باب ’جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کی ابتدا میں مصنف نے تقسیم ملک کے بعد کے حالات کومختصر بیان کیا ہے، پھر پاکستان میں مولانا کی زندگی میں وقوع پزیر چنداہم اورتاریخی واقعات کا تذکرہ کیا ہے ، جن میں ایامِ اسیری ، سزائے موت کا حکم ، دستور اسلامی کے بائیس(۲۲) نکات پر علماء کا اتفاق قابل ذکر ہیں۔ آخری باب میں مولانا کی جدوجہد اوران کی کاوشوں اور کوششوں کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ اس باب کے آخری حصے میں مولانا کے بارے میں عالم اسلام کے ممتاز مفکرین اوراسلامی تحریکات کے رہ نماؤں کے تاثرات کونقل کیا گیاہے۔
یہ کتاب اپنےموضوع پر ایک عمدہ کاوش ہے ۔ اسلوب ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے جو یقیناً قارئین کی دل چسپی کا باعث ہوگا۔حوالوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ، لیکن کتابوں کی مطبعی تفصیلات درج کرنے سے گریز کیا گیا ہے ۔ امید ہے کہ تحریکی حلقوں میں اس کتاب سے بھر پور استفادہ کیا جائے گا ۔ ;
(محمد اسعد فلاحی)
اردوادب کے فروغ میں اطباء کا حصہ
مصنف: حکیم نازش احتشام اعظمی
ناشر: اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات: ۳۲۴ ،قیمت:۳۰۰ روپے
اردو ادب کی خدمات پر اس کے وسیع تناظر میں جب بھی گفتگو کی جاتی ہے ،تو سماج کے ان تمام طبقات کو نمائندہ کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے جن کا کسی نہ کسی شکل میں اس کے فروغ میں حصہ رہا ہے، لیکن یہ عجیب المیہ ہے کہ حکماء و اطباء کی خدمات کا یا تو ذکرنہیں ہوتا، یا اگر ہوتا ہے تومحض سرسری انداز سے۔یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ حالیہ چند برسوں میں اس خلا کو پر کرنے کی کوشش گئی ہے۔ امید ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اطباء کی پذیرائی کرنے والوں کی تعداد بڑھے گی، بلکہ اردو کے ادبی ذخیرے میں بھی اضا فہ ہوگا۔ طب اور ادب کے باہمی رشتے کو سب سے پہلے پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے بحث کا موضوع بنایا ۔ موصوف ڈپارٹمنٹ آف ہسٹری آف میڈیسن ، جامعہ ہمدردکی جانب سے مارچ ۲۰۰۳ ءمیں اس اہم موضوع پر ایک قومی سیمنار کراچکے ہیں۔ حسنِ اتفاق اس میں راقم الحروف کو بھی ’اردو زبان و ادب کے فروغ میں طبیب شعرا کا حصہ‘ کے عنوان پر مقالہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ حکیم نازش احتشام اعظمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنی فنّی اور تصنیفی مصروفیات کے باوجود اس موضوع پراصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام۲۰۱۵ ءمیں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے آڈیٹوریم میں ایک بین الاقوامی سیمنار منعقد کرانے میں کامیاب ہوئے، پھر اس میں پیش کیے گئے مقالات کوترتیب و تدوین کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا۔ ان کا یہ جذبہ اردو سے محبت اور اس کے فروغ میں غیرمعمولی دل چسپی کا مظہر ہے۔ مرتب اپنی علمی و سماجی اور بعض دیگر سرگرمیوں کے سبب اہلِ علم میں مقبول ہیں۔ ٹائٹیل کی پشت پرسینئر صحافی اور معروف قلم کا رجناب سہیل انجم کی تحریر سے اس کا اندازہ ہوتاہے۔
پیشِ نظر کتاب سیمنارمیں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے، جس میں حکیم ادباء وشعراء کی ادبی خدمات پر مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیاہے۔ ادب سے دل چسپی رکھنے والے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ طبیب شعراءو ادبا کی ایک بڑی تعداد ہر دور میں موجود رہی ہے، جو اپنے پیشے سے وابستہ رہ کر بھی مختلف اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ ظاہرہے ،مرتب کے لیے ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن عناوین دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انہوں نے ا س بات کی پوری کوشش کی ہے کہ ادبی زاویے سے کوئی پہلو تشنہ نہ رہے ۔ مثلاً حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی کا مقالہ’ اردو ادب میں طبی تذکرے آزادی کے بعد‘ ڈاکٹر تابش مہدی کا ’بچوں کا ادب اور حکیم شرافت حسین رحیم آبادی ‘ ڈاکٹرعابد معزکا ’اردو ادب میں ڈاکٹر طنز و مزاح نگار‘ حکیم وسیم احمد اعظمی کا ’اردو شعری ادب اور غیر مسلم طبیب شعرا‘ڈا کٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ’حکیم محمد سعید کے سفرنامے‘ان کے علاوہ کئی اطباء اور حکماکی ادبی خدمات،طبی اصطلاحات اور طبی صحافت پر مقالات شامل ہیں۔ آغاز کتاب میں پروفیسر طلعت احمد، وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جناب سراج حسین، آئی اے ایس کے خطبے، نیز پروفیسر ارتضا کریم ڈائرکٹر قومی کونسل براے فروغ اردو زبان کی چند سطور پیش لفظ کے طور پر شامل ہیں۔ مذکورہ کتاب کے سلسلے میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کے مطالعے سے ہمیں حکماء کی شاعرانہ عظمت اورتصانیف و تراجم میں ان کے کمالات کو جاننے کا موقع ملے گا۔ امید ہے، ادبی حلقوں میں اس کی بھرپور پذیرائی ہوگی۔ (عبدالرحمن فلاحی)
تابش مہدی: پہچان اور پرکھ
مصنف: ڈاکٹر امتیاز وحید
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۵ء، صفحات: ۳۰۲ ،قیمت:۳۰۰ روپے
ڈاکٹر تابش مہدی کی شخصیت اور شعری و ادبی کارناموں پرممتاز ادبا،ناقدین ،شعرا اور دانش و ر و ں کے ادبی مضامین و مقالات کو ڈاکٹر امتیاز وحید، اسسٹنٹ پروفیسر کروڑی مل کالج،دہلی نے یکجا کتابی شکل میں بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔صوری و معنوی ہر اعتبار سے کتاب کو منفرد انداز میں دیکھ کر خوشی ہوئی، کیوں کہ بالعموم کتابوں کو اچھی ترتیب و تدوین کے ساتھ دیدہ زیب بنانے میں وہ سلیقہ نظر نہیں آتا جوپیش نظر مجموعے میں موجود ہے۔ مختلف اصنافِ اد ب میںتابش مہدی کے کارناموں اور علمی سرگرمیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ موصوف تمام مکاتبِ فکر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ملک و بیرون ملک مشاعروں اور سیمناروں میں شرکت کے لیے اکثر سفر کرتے رہتےہیں۔
یوں تو ان کی علمی کاوشوں کا ذکر سوانحی دستاویز میں موجود ہے، لیکن مرتب نے دیباچہ اور اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’نگراں تھا جو اپنا‘جامعۃ الفلاح میں زمانۂ طالب علمی سے اب تک کے مشاہدات کو قلم بند کیا ہے، جس سے ان کی شخصیت اور ادب سے متعلق تقریباً ہر پہلو کا خلاصہ آگیا ہے۔ کتاب کی بیش تر تحریریںان کی تنقیدی کتابوں، مثلاً ’اردو تنقید کا سفر جامعہ ملیہ کے تناظر میں‘ ، ’نقد غزل‘ ، ’ شفیق جون پوری ایک مطالعہ‘ اور ’تنقید و ترسیل‘، اسی طرح مرتب و مدوّن کتابوں ’رباب رشیدی – ایک سخن ور پیارا سا‘،’طاہر تلہری شخص اور شاعر‘اور ’ابوالمجاہد زاہد اور شعری مجموعوں سلسبیل‘،’تعبیر‘، ’کنکر بولتے ہیں‘ ، ’صبح صادق‘،’طوبیٰ‘ پتھر کو موم کیا ہے میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر تابش مہدی نے معروف اہل قلم اور دانش وروں کے تنقیدی مضامین کا جس انداز سے محاکمہ کیا ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کاآئینہ دار ہے۔ مجموعہ میں شامل بیش تر مضامین میں یہ پہلو نمایاں ہے۔
تابش مہدی صالح فکر شاعر اور ادیب کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ شاعری میں فنّی و عروضی قاعدوں کی پابندی ان کی شناخت ہے۔ ان کا تعارف ایک اسلام پسند شاعر اور ادیب کی حیثیت سے ہے۔ ان کی نعت گوئی کے حوالے سے جو مضامین اس مجموعے میں شامل ہیں ان میں نمایا ں طور سے یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ نعت کے حدود و آداب سے اچھی طرح واقف ہیںاور انہیں یہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت کے جذبے سے کہے گئے اشعار میں مبالغے کا پہلو غالب نہ آجائے۔یہ خیال ان کے اس شعر میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے :
یہ ارضِ نعت ہے تابش سنبھل سنبھل کے چلو
وفورِ شوق میں کوئی نہ بھول ہوجائے
اس مجموعہ میں ان کی شخصیت،شاعری، نقد و تنقیح ، صحافت اور سفرنامہ پر مضامین کے علاوہ بعض اہم شخصیات کے تاثرات بھی ہیں، جن میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، پروفیسر اخترالواسع، جناب ناوک حمزہ پوری،مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی ، جناب ندیم صدیقی،ڈاکٹر بشیر بدر، ڈاکٹر سید فاروق اور پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کے اسماء گرامی شامل ہیں۔جناب رشید انصاری کے جدہ میں لیے گئے ایک انٹرویو بہ عنوان ’روٗبرو، اردو میں حمد و نعت نگاری پر افتخار امام صدیقی کے مذاکرہ ، قاری عبدالعزیز اظہر کی برطانیہ میں بالمشافہہ گفتگو اور ’آمنے سامنے‘ کے عنوان پر دسمبر ۲۰۰۶ میں جدہ میں ملاقات کے دوران جناب رؤف طاہر کی بات چیت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آغازِ کتاب میں سید غیور حسن امروہوی کا وہ خاکہ بھی شامل ہے جسے انھوں نے امروہہ کے ایک جلسے میں پڑھا تھا۔اسے قارئین پسند کریں گے۔امید ہے علمی و ادبی حلقوں میں اس کتا ب کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ ( عبدالرحمن فلاحی)
مشمولہ: شمارہ مئی 2016