جسم بے جان
مصنف: ڈاکٹر عبدا لمعز شمس
سن اشاعت : ۲۰۱۴ء ،صفحات:۱۶۸،قیمت/-۹۰ روپے
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، فروغ اردوبھون، FC,33/9۔ انسٹی ٹیو شنل
ایریا ، جسولا ، نئی دہلی۔۱۵
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا کے تمام انسان تسلیم کرتے ہیں ، خواہ وہ کسی مذہب کوماننے والے ہوں یا دہریے ہوں۔ ایک خدا پر ایمان رکھتے ہوں یا شرک میں مبتلا ہو3ں یا خدا کے منکر ہوں۔ ہرایک اس کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس سے دوچار ہوتا ہے۔ موت کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کیا علامتیں ہیںاور کیا اثرات ظاہر ہوتے ہیں؟ یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے سوالات پرعرصۂ دراز سے غور و فکر ہوتا رہا ہے ۔ اب یہ ایک مستقل فن بن گیا ہے جسے علم ممات(Thanatology)کہا جاتا ہے ۔ پیش نظر کتاب میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر سماجی ، مذہبی اورسائنسی اعتبارات سے تحقیقی انداز میں بحث کی گئی ہے۔
مصنفِ کتاب ڈاکٹر عبدالمعز شمس (مقیم حال علی گڑھ) مشہور ماہر امراض چشم ہیں ۔ تقریباً ربع صدی تک انہوں نے سعودی عرب اورایران میں پیشہ ورانہ خدمت انجام دی ہے ۔ مسلم یونیورسٹی میں’ مہمان استاد‘کی حیثیت سے تدریس کا کام انجام دیتے ہیں ۔ ماہ نامہ سائنس میں سائنسی موضو عات پر پابندی سے لکھتے رہتےہیں ۔ ان کی کئی تالیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔
زیرِ نظر کتاب میں موت، اس کے اسباب وعلامات، اثرات اورمابعد تغیرات، موت کی قسمیں: جسمانی اوردماغی، پھر دماغی موت کی پیچیدگیاں وغیرہ پر معروضی انداز میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ طب جدید کے میدا ن میں نئی ایجادات اورترقیات کے نتیجے میں نت نئے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں ، مثلاً اعضا ء کی منتقلی (Organ Transplanlation)اعضاء کا عطیہ(Organ Donation) قتل بہ جذبہ رحم (Euthanesia)اسقاط حمل (Abortion)طفل کشی (Infantacide)مادہ جنین کشی (Female Foeticide)۔ ان موضوعات پربھی مصنف نے تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ انہوں نے سائنسی معلومات بھی فراہم کی ہیں اور سماجی پہلوسے بھی بحث کی ہے ، چنانچہ عالمی سطح پر اعداد وشمار پیش کیے ہیں اورآخر میں مذہبی نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے ۔ چنانچہ قرآن وسنت سے استدلال کیا ہے اورجدید موضوعات پر فقہاء کی آراء اور اکیڈمیوں کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں قتل ، خود کشی اور خود کش حملوں پر بھی مضامین شامل ہیں۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زیر بحث ہر موضوع پر جدید سائنسی معلومات ملتی ہیں اوراس کے سلسلےمیں قرآن کے نقطۂ نظر اوراسلامی تعلیمات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ مصنف کی زبان بہت سلیس اورشستہ ہے ۔ عموماً سائنسی موضوعات پر لکھنےوالے پیچیدہ زبان استعمال کرتے ہیں اورتکنیکی اصطلاحات کی بھر مار کی وجہ سے عبارت بوجھل ہوجاتی ہے، لیکن یہ کتاب اس نقص سے پاک ہے ۔
مصنف قابلِ مبارک ہیں کہ انہوں نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جن پر اردو زبان میں بہت کم لٹریچر دست یاب ہے اور ان پر بہت مہارت کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔ امید ہے کہ یہ عوام اورخواص دونوں میں یکساں طورپر مقبول ہوگی۔ (محمدرضی الاسلام ندوی)
ناشر: الحکمہ فاؤنڈیشن، 176۔ گلی ۸،ذاکر نگر ، نئ دہلی۔۱۱۰۰۲۵
مادہ پرستی : رحمت یا زحمت ؟
مرتب: ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ندوی
سن اشاعت : مارچ ۲۰۱۶ء ،صفحات:۱۶۸
ناشر: الحکمہ فاؤنڈیشن، 176۔ گلی ۸،ذاکر نگر ، نئ دہلی۔۱۱۰۰۲۵
’مادہ پرستی‘ کو روحانیت کی ضد قرار دیا گیا ہے، یعنی ایک ایسا نظریہ جس کے مطابق دنیا میں صرف مادے کی کار فرمائی ہے۔ انسانی زندگی کی ابتدا بھی وہی ہے اور انتہا بھی۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک بالکل غلط نظریہ ہے۔
انسانی وجود جسم اور روح سے مرکب ہے ۔ جسم ایک مادی حقیقت ہے اور اس کے مادی لوازم بھی ہیں ۔ مثلاً کھانا ، پینا، لباس،رہائش وغیرہ ۔ ان لوازم سے انسان کی جسمانی ضرورتیں پوری ہوتی ہیںاور وہ ایک مطمئن زندگی گزارتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی محض مادی اشیاء و لوازم سے کامل اطمینان اور سکون حاصل نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ اس کے وجود کا ایک لازمی جزء اس کی روح ہے ، جو کہ حقیقت میں اس کے وجود کی حقیقی بنیاد ہے۔ اس کے بھی کچھ تقاضے ہیں، جن کی تکمیل کے بغیر اسے کامل اطمینان و سکون میسر نہیں ہو سکتا اوراس کی زندگی میں ایک عظیم خلا پیدا ہو جاتا ہے جو اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
مادہ پرستی نے انسانی زندگی کے کسی ایک گوشے کو متأثر نہیں کیا، بلکہ وہ اس کے بہت سے گوشوں پر اثر انداز ہوئی ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے اس کا نفوذ بڑھ رہا ہے، انسانی زندگی بھی متغیرہو رہی ہے۔انسان صرف مادی وسائل کے حصار میں گھر کر رہ گیا ہے۔اس نظریہ نے اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف خواہشاتِ انسانی کی تکمیل تک محدود کر دیا ہے۔ وہ خود غرضی کے گڈھے میں گرتا جا رہا ہے۔مادہ پرستی ، مال و دولت کمانے کی ہوس کی اندھی دوڑ ہے،جس کی وجہ سے سماج میں اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں ، انتشار و اختلافات بڑھتے ہیں اور اس میں داخلی فساد برپا ہو جاتا ہے۔ مادہ پرستی کے نقصانات سے لوگوں کو بچانے ، انہیں متنبہ کرنے اور انسانی زندگیوں کو اس سے پیش آنے والی تباہ کاریوں سے بچانے کی غرض سے ’الحکمۃ فاؤنڈیشن‘ نے ایک سمینار ’مادہ پرستی:رحمت یا زحمت‘کے عنوان سے منعقد کیا، جس میں معروف اہل علم اور اہل قلم نے اپنے پر مغز مقالات پیش کیے۔ بعد میں افادۂ عام کے پیش نظر اسے کتابی شکل دے دی گئی۔
زیر نظر کتاب سولہ (۱۶) مقالات پر مشتمل ہے، جو مرکزی موضوع (مادہ پرستی: زحمت یا رحمت) کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہیں۔مثلاً مادہ پرستی کی تفہیم (محمد رئیس )، مادی ترقی کے بدلتے رجحانات (سید اطہر رضا بلگرامی)، مادہ پرستی اور ہندوستانی معاشرہ (ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی ندوی)، مادہ پرستی قرآن کی نظر میں (پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی)، مادہ پرستی اور اسلام (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)، مادہ پرستی اور ہندوستانی معاشرہ (سلمان نسیم ندوی)، مادہ پرستی کے اثرات ہمارے اخلاق پر (محب اللہ قاسمی)،مادہ پرستی رحمت یا زحمت؟ (محمد فرمان ندوی) وغیرہ۔
کتاب ہر پہلو سے قابل قدر اور لائق ستائش ہے، البتہ بعض جگہوں پر پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں۔ آیتوں پر اعراب نہیں لگائے گئے ہیں۔امید ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ لوگوں کے لیے حقیقت کی طرف رہ نمائی اور غلط نظریوں سے بچنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مرتبین اور معاونین کو اجر عطا فرمائے۔ (محمد اسعد فلاحی )
ندائے سیرت (وقفات تربویۃ من السیرۃ النبویۃ)
مصنف: عبدالحمید جاسم البلالی ، مترجم : مفتی محمد ارشد فاروقی
سنِ اشاعت : مارچ ۲۰۱۶ء ،صفحات:۱۴۴، قیمت:50/-روپے
ناشر: المنار پبلشنگ ہاؤس ، 27-N، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی ۲۵
حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ پر متعدد اشخاص نے قلم اُٹھایا ہے ۔ کسی نے آپؐ کی سیرت پر وقیع کتا بیں تحریر کی ہیں، کسی نےسیرتِ رسولؐ کے مختلف واقعات کوجمع کردیا ہے اورکسی نے اس سے موجودہ زمانے میں حاصل ہونے والے دروس ونصائح کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کویت کے مشہور داعی ، مربی اورمصلح عبدالحمید جاسم البلالی نے سیرت کے کچھ منتخب واقعات کو اپنی کتاب ’وقفات تربویۃ من السیرۃ النبویۃ‘ میں جمع کردیا ہے ، اس کا اردو ترجمہ زیر نظر کتاب کی صورت میں ’ندائے سیرت‘ کے نام سے مفتی محمد ارشد فاروقی نے کیا ہے ۔ سیرتِ رسولؐ کے واقعات کے انتخاب میں مصنف نے تنوع کا خاص خیال رکھا ہےاور دعوتی، معاشرتی اورتہذیبی، ہر طرح کے متنوع واقعات کا ایک گلدستہ سجایا ہے، تا کہ ہر سطح اور ہرطبقے کے افراد چمن سیرت کے گل ہائے رنگا رنگ سےاپنی راہیں روشن اوراپنی زندگیوں کومنور کرسکیں۔
سیرتِ رسولؐ پر شیخ بلالی کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ جب کسی واقعہ پر لکھتے ہیں توسب سے پہلے اللہ کے رسول ؐ کی سیرت کا کوئی واقعہ تحریر کرتے ہیں، اس کےبعد قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں، پھر صحابہ کرام وصلحا ء امت کی سیرت یا ان کے اقوال پیش کرکے ان سے ایسے دروس نصائح کا استنباط کرتے ہیں جن کی جانب عام طور سے ذہن نہیں جاتا۔ اس سے ان کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے، کیوں کہ ان کا احساس ہے کہ لوگوں کو اصلاح اسی راہ سے ہوسکتی ہے جس سے ابتدائی دور کے لوگوں کو اصلاح ہوئی تھی۔
اس عمدہ کتاب کا ترجمہ مفتی محمد ارشد فاروقی نے کیا ہے جواس سے قبل مصنف کی ایک اور مشہور اوراہم کتاب ’وقفات تربویۃ ‘ کا ترجمہ ’ ندائے صبح‘ کے نام کرچکے ہیں ۔ یہ کتاب ہر سطح کے لوگوں کے لیے کافی مفید ہے اوراس کی پیش کش بھی عمدہ ہے ، مگر کتاب کی سیٹنگ اورپروف کی بعض غلطیاں اس کا وقار مجروح کررہی ہے ۔ پوری کتاب ایک ہی انداز میں کمپوز ہوئی ہے ۔ کوئی واقعۂ سیرت یا مضمون کہاں سے شروع ہورہا ہے اور کہاں ختم ہورہا ہے؟ اس کو قارئین پر چھوڑدیا گیا ہے کہ وہ اندازہ لگالیں کہ بات کہا ں ختم ہوئی ہے ۔ اسی طرح عنوان اورذیلی عنوان کے درمیان بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا ہے ۔ پروف کی بعض غلطیاں اس پر مستز اد ہیں، جیسے دیکھیں ص ۱۳ پر عمررضی اللہ عنہما ، ص ۱۴ پر مدینہ منور ہ( مختلف مقامات اسی طرح ہے ) ‘ ص ۵۰ پر اداراک ، باجو۔ص۵۱پر ام سلمہ کی جگہ ابوسلمہ ہونا چاہیے ۔ بعض جگہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ الفاظ کمپوز ہونے سے رہ گئے ہیں ،کیوں کہ عبارت میں بے ربطی کا احساس ہوتا ہے ۔ اس طرح کی معمولی تسامحات کے باوجود کتاب لائق مطالعہ ہے اور ہر داعی ومربی کوخاص طور سے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ( عبدالحئی اثری)
آیات (جنوری تا جون ۲۰۱۵ء )
مدیر: ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی
سن اشاعت : ۲۰۱۵ء ،صفحات:۱۲۸، قیمت:۱۷۵؍روپے
ناشر: ایوی روز اکیڈمی ، دارالفکر ، اقرا کالونی، علی گڑھ ۔ ۲۰۲۰۰۲
’آیات‘ مسلم ایسوسی ایشن فاردی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کا علمی تحقیقی اورفکری شش ماہی مجلہ ہے۔ ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی وسیع المطالعہ اور اسلاما ئزیشن آف سائنس کے پروجکٹ پر کام کررہے ہیں ۔ ان کی ادارت میں یہ تحقیقی مجلہ شائع ہوتا ہے ۔ زیر نظر شمارے میں سب سے پہلے فاضل مدیر نے ’قرآن کریم : عقل اورتہذیب کا محور ، کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے ۔ اس کے بعد معروف دانش ور ڈاکٹر نقیب العطاس کا مقالہ بعنوان ’ مسلمانوں کے در پیش مسائل فکری پس منظر‘ ہے ، جس میں ڈاکٹر موصوف نے بڑی وضاحت سے امت کے فکر ی مسائل کا جائزہ لیا ہے۔محمد یحیٰی اور ڈیکلان بٹلر کے مقالہ کا عنوان ’مابعد عرب بہار سائنس کا حال اور مستقبل ‘‘ ہے ۔ اس کے بعد اسٹیفینربگلیارزی کا مقالہ ہے جس کا عنوان ہے ’ہندوستان میں اسلامی سائنس پر بحث کا جائزہ : علی گڑھ اسکول کا خلاصہ‘ ۔
ان مقالات کے علاوہ فاضل مدیر کے علی گڑھ مسلم یو نی ورسٹی میں برج کور س کے طلبہ کے سامنے دیےگئے لکچرس بھی شامل ہیں۔ ایک مضمون میں محترمہ رعنا دوجانی نے بتایا ہے کہ ’’میں مسلم طلبہ کونظریۂ ارتقاء کیوں پڑھاتی ہوں؟‘‘ مجلہ خوب صورت سرورق سے مزین ہے، کاغذ بھی عمدہ ہے۔ اسلامی سائنس سے د لچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ مجلہ بہت مفید ہے ۔ ( مجتبیٰ فاروق)
ندائے صبح
مولف: عبدالحمید جاسم البلالی،مترجم: مفتی محمد ارشد فاروقی
ناشر: المنار پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
سن اشاعت:مارچ ۲۰۱۶ء،صفحات: ۱۶۶ ، قیمت: ۶۰ روپے
پیش نظر کتاب ’ندائے صبح‘جناب عبدالحمید جاسم البلالی کی عربی کتاب ’تاملات بعد الفجر‘ کا اردو ترجمہ ہے، جو انھوں نے دو سال کی مدت میں تحریر فرمائی ہے۔ یہ مصنف کی کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے، بلکہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو دعوت،علم نفس، اخلاق، ادب، تاریخ، سیاست اور واقعات و حوادث جیسے عناوین کے تحت انہوں نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران اور کچھ کویت میں قلم بند کیے تھے۔ تحریر کا انداز نہایت سادہ، شگفتہ اور رواں ہے۔ مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے کتاب پر اپنی تقریظ میں لکھا ہے: ’’امر واقعہ کا سحر انگیز اساطیری انداز اور موثر اسلوب بیان کبھی کبھی فکر انسانی کے نہج کو ہی نہیں بدل دیتا،بلکہ فکر وخیال میں ایسا انقلاب برپا کردیتا ہے کہ طرز حیات سے لے کر بود و باش اور خیال معاش سے فکر معاد تک منقلب ہوجاتے ہیں۔‘‘یہ مضامین اگرچہ عربی زبان سے اردومیں منتقل ہوئے ہیں، لیکن کسی بھی پہلو سے ترجمانی کا گمان نہیں ہوتا۔ترجمے میں ادبی شان کے علاوہ مصنف کا لب ولہجہ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔عناوین میں افسانوی انداز غالب ہے جو قاری کو پورا مضمون پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ مثلاً ’گھرواپسی‘، ’داخل خارج‘،’جال کی پھانس‘، ’نووارد‘ ، ’الرجی‘، ’ آمنے سامنے‘،’ دیوار کی کہانی‘،’محاوروں کی تصحیح‘،’ محبت ‘اور’ قبول ہو تو کیسے ہو؟‘ ایسے موضوعات ہیں جنہیں پڑھ کر مواد کاصحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ تحریرمیں رمز و ایما کا یہ اسلوب انتہائی موثر ہے۔اسے پڑھنے والا پوری طرح سے دامن گرفتہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔عناوین اور ابتدائی سطروں کے مطالعے سے قاری کے اندر یقینا جستجوپیدا ہوگی اور وہ پورے انہماک و یکسوئی سے ورق گردانی میں مصروف ہوجائے گا۔ اچھی تحریر کی یہی خوبی ہے کہ پڑھنے والاشروع کی چند سطریں پڑھ کرمطالعہ میں اس طرح کھوجائے کہ اسے اپنے ارد گرد کا ہوش ہی نہ رہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شمارواقعات و حوادث ہمارے علم و مشاہدے میںاکثر و بیش تر آتے رہتے ہیں،لیکن ان پر یا تو غوروتدبرکرنا ضروری نہیں سمجھتے، یاان میں ان کے ادراک کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ لیکن اہل علم و دانش میںایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو مسائل حیات کے تمام گوشوں میں حکمت و موعظت کا پہلوڈھونڈ لیتے ہیںاور دوسرے لوگوں کوبھی اس سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔فاضل مصنف نے اپنے مشاہدات اور فکر و خیال کو استدلالی پیرایہ میں اس طرح بیان کردیا ہے کہ سبھی مضامین معلومات سے بھرپورنظر آتے ہیں۔کتاب میں دعوت و تبلیغ اورامت مسلمہ کے منصب و مقام کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، اس سے مصنف کے فکر وخیال کی نمائندگی ہوتی ہے۔’دل کیسے جیتیں؟‘، ’دعوتی زندگی میں دو طرح کی غیرت پائی جاتی ہے‘،’بات شرم ساروں کی‘ اور ’نووارد‘جیسے مضامین میں یہی جذبات کارفرما نظر آتے ہیں۔
شیخ بلالی کی شخصیت علمی حلقوں میں مشہور و معروف ہے۔ وہ کویت اور عالم اسلام میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔دعوت و تبلیغ اور سماجی مسائل پر ان کی متعدد تصانیف قارئین سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔موصوف کے خطبے اور تقاریر بھی عوام میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ان کی تحریر میں درد مندی، خلوص اورسوز و گدازکا پہلو نمایاں ہے۔چوں کہ یہ وقفے وقفے سے لکھی گئی تحریروں کا مجموعہ ہے اس لیے مضامین میں ربط و تسلسل تو نہیں پایا جاتا، لیکن اصلاح و تربیت کے نقطۂ نظر سے ان کی ناصحانہ گفتگو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوؤں پر حاوی ہے۔اس میں ابواب قائم کرنے کا التزام نہیں ہے، بلکہ متفرق موضوعات کو ایک تسلسل کے ساتھ تحریر کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے،حالاں کہ انہیں موضوعاتی ترتیب دے کر زیادہ مفید اور قابل استفادہ بنایا جاسکتا تھا۔ غالباً کتاب کی ضخامت بڑھ جانے کے اندیشے سے ہر عنوان کو نئے صفحہ سے شروع کرنےکا اہتمام نہیںکیا گیا ہے۔
ناشر جناب محمد خالداعظمی نے آغاز کتاب میں شیخ بلالی کی تصنیف کا پس منظر اور ان کی خدمات کے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ جناب امین عثمانی سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی نے ’کلام نرم و نازک‘ کے زیر عنوان مذکورہ کتاب پر انتہائی موثر اور دل نشیں تبصرہ فرمایا ہے۔ مترجم نے مولف کی شخصیت اور ان کی مخلصانہ کوششوں کو ادبی پیراے میں بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، جس سے پورا خاکہ سامنے آجاتا ہے۔کتاب کے مقدمہ میں نماز فجر کے بعد سہانے اور خوش گوار ماحول میں احساس و خیالات میں جو تازگی پیدا ہوتی ہے ،اس پر روشنی ڈالی گئی ہے، نیز تالیف کی غرض وغایت اور اس میں پیش کردہ مواد بڑے اختصار سے پیش کیا گیاہے۔ٹائٹیل کی پشت پر مولف کی شخصیت ، علمی کارنامے اور سماجی خدمات میں ان کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔کتاب کی عمدہ کاغذ پر نفیس طباعت ہوئی ہے۔ ٹائٹیل دیدہ زیب اور پرکشش ہے۔ امید ہے علمی حلقوں میں اسے پسند کیا جائے گا۔ (ڈاکٹر عبد الرحمن فلاحی)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2016