تہذیب و سیاست کی اسلامی قدریں
مصنف: مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
سن اشاعت: ۲۰۱۶ء،صفحات: ۹۶قیمت: ۶۵ روپے
مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند کا شمار تحریک اسلامی کے اہم قائدین اور مایہ ناز علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔وہ صرف برصغیر ہی نہیں ، بلکہ پوری علمی دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر اب تک ان کی چار درجن سے زائد تصانیف منظر عام پرآچکی ہیں۔ ان میں سے بعض کتابیں ایسی بھی ہیں جو پندرہ سے زاید اڈیشن شائع ہوکر مقبولیت کا ریکارڈ قائم کرچکی ہیں۔
زیرنظر کتاب ’تہذیب و سیاست کی اسلامی قدریں‘ اپنے موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، بلکہ ایک طویل عرصے میں تحریر کیے گئے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے جنہیں مولانا نے سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ اور ماہ نامہ زندگی نو، نئی دہلی کے لیے تحریر فرمایا تھا۔ نظرثانی اور بعض ترامیم کے ساتھ انہیں ترتیب دے کر کتابی شکل میں شائع کیا گیاہے ۔بہ قول مصنف ’ان مضامین میں تہذیب و سیاست سے متعلق اسلامی تعلیمات کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کی صرف چند جھلکیاں دکھائی جاسکی ہیں۔‘ کتاب میں ابواب قائم کرنے کے بجائے نو(۹) مرکزی عناوین کے تحت ذیلی سرخیاں دے کرہر موضوع پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔مولانا نے اسلامی تہذیب کے بعض مظاہر ،مثلاً تقریبات، دعوت و ضیافت اور خورد ونوش کے طریقوں سے بحث کی ہے،اسلامی تہذیب پر اغیار کے حملوں کی نشان دہی کرکے ان کا محاکمہ کیاہے ، اسلام کے سیاسی افکار اور اس کی بنیادوں پر قرآن سے دلائل پیش کیے ہیں۔ اس بات سے ہم سبھی واقف ہیں کہ اسلامی تہذیب کی شان تصور کیا جانے والا عمل ’سلام‘ ہے۔ مصنف نے اس کے معنی و مفہوم ، اسے عام کرنے کی ہدایت اور غیر مسلموں کے لیے اس کے استعمال پر اسلامی تعلیمات بیان کی ہیں ۔ تحائف کی دینی و سماجی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، اس کے لین دین اور تبادلے پر جو ترغیبات ہمیں ملتی ہیں انہیں اصحاب رسول کے واقعات کی مثال دے کرسمجھایاگیاہے۔ ہدیہ کے رد و قبول اور غیر مسلموں کے تحفے قبول کرنے پر احادیث نبوی سے دلائل دیے گئے ہیں۔
کتاب میں ایک عنوان ’اسلام اور اصول سیاست‘ سے متعلق ہے ۔اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل پر مبنی ہے اور یہ آزادی کا علم بردار ہے۔ اسلام کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟ اس پر اکثر اعتراضات کیے جاتے ہیں ۔ ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے صاف کردیا ہے کہ سیاست کا شعبہ اسلام سے خارج نہیں ہے ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں بےشمار نقائص موجود ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان سب سے پاک ہے۔اسلام میں شورائی نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن و احادیث میں اس کی فضیلت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اجتماعی معاملات،سیاسی معاملات غرض یہ کہ تمام شعبوں میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔انسانی حقوق کی پاس داری کے لیے بہت سی تحریکات نے جد وجہد کی، اقوام متحدہ نے ایک عالمی منشور جاری کیا تھا، جس کے تحت فرد کی آزادی ، عدل وانصاف اور مساوات اساسی حیثیت رکھتی ہیں ،لیکن اس میں بعض خامیاں بھی ہیں، جن کی طرف مولانا نے اشارہ کیا ہے۔ کتاب میں یہ وضاحت بھی ملے گی کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جس نے تمام احوال میں بنیادی انسانی حقوق عطاکیے ہیں،مثلاً حق حیات، حق مساوات، عدل وانصاف، قانون کی برتری، معاشی جدوجہد کی آزادی، معاشرتی و سماجی حقوق، خاندان بسانے کا حق، پردہ داری کا حق، اظہار خیا ل کی آزادی، ملک و ملت کی خدمت کا حق،دفاع کا حق، کم زوروں کے حقوق کا تحفظ اور مذہبی آزادی وغیرہ۔
زبان نہایت سادہ و شگفتہ اور روزمرہ کے مطابق ہے۔مولانا کایہ انداز تحریر قارئین کے ہر طبقے میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ تکلف و تصنع اور مسجع و مقفع عبارتوں کا نام ونشان تک نہیں ملتا، لیکن عبارت میں روانی اور بہاؤ کا دریا موج زن نظر آتا ہے ۔ اس کتاب سے واضح ہوگا کہ تہذیب اور سیاست کا آپس میں کتنا گہرا رشتہ ہے اور یہ ایک دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مذکورہ کتاب کے سلسلے میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قارئین کو اس موضوع پر بھرپورمعلومات حاصل ہوگی۔
(ڈاکٹر عبدالرحمن فلاحی)
(انچارج شعبۂ ادارت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی)
شخصیت کی تعمیر ۔ اسلام کی روشنی میں
مصنف : مولانا محب اللہ قاسمی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سن اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات : ۱۳۴، قیمت/-۷۵ روپے
مشہور حدیث ہے کہ ’’ روزقیامت ایک بندہ اس حال میں بارِ گاہ الٰہی میں حاضر ہوگا کہ اس کے پاس نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کا سرمایہ ہوگا، لیکن اس نے کسی کوگالی دی ہوگی ، کس پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا ، کسی کومارا ہوگا ۔ چنانچہ اس شخص کی نیکیاں ان تمام لوگوں کو دے دی جائیں گی ۔ پھر اگر حساب برابر ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان تمام لوگوں کی برائیا ں اس کے اوپر لاد دی جائیں گی ، پھر اسے جہنم میں جھونک دیا جائےگا۔ (مسلم) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اگر چہ دین میں عبادات کا ایک خاص مقام ہے، لیکن بعض پہلوؤں سے روز قیامت اخلا قیا ت اورمعاملات ان سے زیادہ اہمیت اختیار کرجائیں گے ۔ اس لیے ہر بندہ مومن کواس معاملے میں ہوشیار اورمحتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ زیر نظر کتاب میں اسی پہلو کونمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے مصنف مولانا محب اللہ قاسمی نوجوان صاحبِ قلم ہیں ۔ مرکز جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ دعوت اورشعبۂ تربیت کے مشترکہ معاون ہیں۔ دینی موضوعات پر ان کے مضامین آئے د ن رسائل وجرائدکی زینب بنتےرہتے ہیں اورانہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ زیر نظر کتاب انہی مضامین کا ایک انتخاب ہے جس میں اخلاق فاضلہ اوراخلاق سیئہ دونوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کچھ مضامین میں انفرادی تربیت کونمایاں کیاگیا ہے اوراس کی تدابیر بیان کی گئی ہے ۔ ان کے عناوین یہ ہیں: تزکیۂ نفس ، بیداری ضمیر، سکونِ قلب، حیا، زبان کا صحیح استعمال ، خلوص، صبرو شکر، جب کہ دوسرے مضامین میں حقوق العباد سے بحث کی گئی ہے، مثلاً ایثار، صدقہ کا وسیع مفہوم ، مال میں غریبوں کا حق، نیکی پرمداومت ، یکساں پیما نے وغیرہ ۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بہت سادہ اسلو ب، شستہ زبان اورعام فہم انداز میں اسلامی اخلاقیات کونمایاں کیاگیا ہے۔ قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے مباحث کو مدلل کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تربیتِ نفس اور حسن عمل کا جذبہ ابھرتا ہے ۔ مناسب ہوگا کہ اس کتاب کا ہندی زبان میں بھی ترجمہ کروایا جائے اوراسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جائے ۔
( محمد رضی الاسلام ندوی )
ماہ نامہ ’المؤمنات‘ لکھنؤ (عائشہ صدیقہ نمبر)
رئیس التحریر : شاہ اجمل فاروق ندوی
ناشر: جامعۃ المومنات الاسلامیۃ ، اودھ انکلیو ، ہر دوئی روڈ ، دوبّکا ، لکھنؤ
صفحات: ۱۲۸ ، جلد ۱۴ ، شمارہ : ۲۱، ۳، مارچ تا مئی ۲۰۱۶ء
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ سیرت النبیؐ سے متعلق کتا بوں میں ضمناً، سیرصحابہ وصحابیات کے موضوع پر کتابوں میں ایک باپ کی حیثیت سے ، اس کے علاوہ ان پر شائع ہونے والی مستقل کتابوں میں ان کی شخصیت، کارناموں اور علمی خدمات کا مفصل بیان ملتا ہے ۔ اردو زبان میں ان پر ایک درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ عربی زبان میں شائع ہونے والی مستقل کتابوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے ۔ ان کی تفسیری روایات کو جمع کیاگیا ہے اور ان پر کئی تحقیقی مقالات شائع ہوچکے ہیں ۔ اس کے باوجود ان کی شخصیت اورخدمات کے متعدد پہلو ابھی تشنہ ٔ تحقیق ہیں اوران پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جامعۃ المؤمنات الاسلامیہ لکھنؤ اوراس کے ترجمان ماہ نامہ المومنات لکھنؤ کے ذمہ داروں ، خاص کر اس کے رئیس التحریر مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی کو کہ انہوںنے موضوع کی اہمیت محسوس کی اور اس پر ایک خصوصی شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیا ۔
ما ہ نامہ المومنات نے اپنے اجرا کے تیرہ (۱۳) سال پورے کرلیے ہیں ۔ مضامین کے حسنِ انتخاب ، متانت ، افادیت اورمسلکی منافرت پھیلانے والے اورعصبیت کوہوا دینے والے مضامین کی اشاعت سے اجتناب کی بنا پر اسے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔۱۲۸؍صفحات پر مشتمل یہ خصوصی شمارہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ پر قیمتی، مفید اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ہے ۔ اسے پانچ عناوین میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ’تعارفی جھلکیاں‘ کے تحت چھ مضامین ہیں: حضرت عائشہؓ صدیقہ : سفر حیات (ڈاکٹر ثمینہ تابش ) حضرت عائشہؓ کی تعلیم وتربیت (علامہ سید سلیمان ندوی) حضرت عائشہؓ قرآن کے آئینے میں (مفتی محمد داؤد ندوی) حضرت عائشہؓ احادیث کی روشنی میں (مفتی نصرت علی ندوی) حضرت عائشہؓ اورسلف صالحین (یحیٰ مطیع الحق صدیقی) حضرت عائشہؓ اورمؤرخین (مولانا خبیب احمد ندوی ) ’ ہشت پہلو شخصیت ‘ کے تحت محترمہ عاتکہ رضوان صدیقی، مولانا کفیل احمد ندوی ، مولانا محمد سرفراز ندوی قاسمی، ابو ہالہ دہلوی، مولانا مطیع الرحمن عوف ندوی، اورمحترمہ طوبیٰ کوثر صالحاتی نے تفسیر قرآن، علم حدیث، فقہ، ادب وبلاغت ،زہد وتقویٰ اورخانگی زندگی کے مختلف پہلوؤںمیں ان کے مقام و مرتبہ کا تعین کیا ہے۔ ’ اختلافی مباحث‘ کے ذیل میں دو مضامین ہیں : مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی نے وقتِ نکاح ان کی عمر اورمولانا محمد روح اللہ ندوی نے جنگ جمل میں ان کی شرکت کے بارے میں تحقیقی بحث کی ہے ۔
ایک باب ’’علمی وفکری خباثتیں‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس کے تحت مولانا فاروق اعظم قاسمی نے واقعۂ افک پر اعتراضات، جناب تنویرآفاقی نے ان پر شیعوں کے اعتراضـات اورشاہ اجمل فار و ق ندوی نے مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیاہے۔چند صفحات میں ان کے بارے میں اردوشعرا کا منظوم خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔ آخر میں چند بڑی قیمتی فہرستیں پیش کی گئی ہیں ۔ مثلاً احادیث مسند عائشہؓ (۹۳؍احادیث ) حضرت عائشہؓ اوردیگر صحابۂ کرام کے درمیان فقہی اختلا فا ت (۳۱؍ا ختلافا ت ) حضرت عائشہؓ سے روایت کرنے والے مرد ( ۲۲۳) حـضرت عائشہؓ سے روایت کرنے والی خواتین (۶ ۶)
تمام مضامین بہت عمدہ ہیں اور محنت سے لکھے گئے ہیں ۔ زبان وبیان کی سلاست کا خیال رکھا گیا ہے ۔ اس خصوصی شمارے سے ام المؤمنین کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بھر پور روشنی پڑتی ہے ۔ فا ضل مرتبین اس اہم علمی خدمت پر قابل مبارک باد ہیں۔ امید ہے ، اسے علمی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہوگئی ۔ آئندہ کتابی صورت میں اس کی اشاعت سے افادیت کا دائرہ وسیع ہوگا ۔
(محمد رضی الاسلام ندوی )
مصر کی بیٹی ، زینب غزالی
مصنفہ : مرجان عثمانی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ،۲۰۱۶
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ء ،صفحات: ۴۰ ، قیمت:/۲۶روپے
ہر زمانے میں کچھ ایسی عظیم شخصیات ہوتی ہیں جن کے نقشِ پا آنےوالی نسلوں کے لیے سنگ میل بن جاتے ہیں ۔ موجودہ دور میں ایسی ہی ایک عظیم شخصیت زینب غزالی کی ہے ، جن کا تعلق مصر سے تھا، مصر ایک قدیم تہذیب وروایت کا ملک رہا ہے۔ اس سرزمین سے بڑےبڑے حکم راں اورفرماں روائے سلطنت بھی پیدا ہوئے ہیں۔ انبیا ء ورسل کا بھی تعلق رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ ملک مسلسل حوادث وآزما ئشوں کا بھی شکار رہا ہے ۔ اس کے باوجود اس سرزمین سے ایسی شخصیات پیدا ہوئی ہیں جوہر زمانہ میں لوگوں کے لیےمشعل راہ ہیں ۔ زیر نظر کتاب اخوان المسلمون کی ایک عظیم رہ نما خاتون زینب غزالی کی زندگی اوران کی علمی اور عملی خدمات کا احاطہ کرتی ہے چالیس (۴۰) صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ان کی پیدائش سے لےکر وفات تک کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ حصول علم کے لیے ان کی ذاتی کوشش وکاوش ، مصر میںحقوق نسواں کی تحریک میں ان کا کردار اور ایک حادثہ کے نتیجہ میں اسلامی تحریک کی طرف ان کا رجحان زیر بحث آیا ہے۔ اخوان المسلمون میں ان کی سرگرمیوں کے لیے جدوجہد، حکومت وقت سے ٹکراؤ اوراس کے نتیجہ میں بے پناہ مصائب وآلام اورقید وبند کی صعوبتوں کوبھی بیان کیا گیا ہے ۔
قرآن مجید سے ان کی گہری وابستگی اورتفسیر لکھنے کا پس منظر بھی کتاب میں مذکور ہے۔ زینب غزالی گنتی کی ان چند خواتین میںسے ہیں جنہیں قرآن مجید کی مکمل تفسیر لکھنےکا شرف حاصل ہے ۔ ان کی تفسیر دو جلدوں (تقریباً پندرہ سو صفحات) میں شائع ہوگئی ہے ۔ غرض اس کتاب میں زینب غزالی کی ذاتی زندگی ، دین سے ان کی وابستگی اور سماج سے اللہ کے لیے محبت ، علمی اور سماجی سرگرمیوں کا احاطہ اس کتابچہ میں کیا گیا ہے، جس سے قاری کو کم وقت میں اس عظیم مجاہد ہ اور داعیہ کے بارے میں واقفیت حاصل ہوجاتی ہے ۔ کتاب میں محترمہ کی تحریروں کے کچھ اقتباسات پیش کیے گئے ہیں ،لیکن ان کا حوالہ مذکور نہیں ہے۔ بہتر تھا کہ ان کا حوالہ بھی درج کردیا جاتا ۔ مصنفہ کا اسلوب تحریر سادہ ، شستہ اورمؤثر ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کا مقصد تالیف پورا ہو اور قارئین اس سے حوصلہ اور رہ نمائی حاصل کریں۔ آمین ۔ (ندیم سحر عنبرین)
(ریسرچ اسکالر ، شعبہ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی)
Limits of Islamism: Jamaat-e-Islami in contemporary India and Bangladesh
مصنف: مائد الاسلام
ناشر: کیمبرج یونی ورسٹی پریس
سن اشاعت : ۲۰۱۵ء ،صفحات:۳۴۵، قیمت: درج نہیں
تحریکات اسلامی کے فکر وکردار پر مغرب ومشرق میں تحقیق ،جائزہ اورتنقید جاری ہے ۔ برصغیر میں نمائندہ تحریک (جماعتِ اسلامی) کوبھی محققین اوراسکالرس نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ زیر نظر کتاب جماعتِ اسلامی ہند وبنگلہ دیش پر لکھے گئے لٹریچر میں ایک اہم اضافہ ہے ۔ یہ کتاب جماعت اسلامی ہند(مسلم اقلیتی ملک) اورجماعت اسلامی بنگلہ دیش (مسلم اکثریتی ملک) کی کام یا بیوں اور ناکامیوں پر تحقیقی اورتجزیاتی مطالعہ ہے ۔ اس کے مصنف جناب مائد الاسلام ہیں، جوپریز ڈینسی یو نی ورسٹی کلکتہ کے شعبۂ سیاسیات کے استاذ ہیں ۔یہ در اصل ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جن پر موصوف کوآکسفور ڈ یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے ۔ مصنف نے سیاسی اسلام ، اسلامی تحریک اوربنیاد پرستی جیسی اصطلاحات کے بجائے کتاب میں ہرجگہ ’اسلام ازم‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ ان کے مطابق اسلام ازم وہ کلی نظریہ ہے جو سماج ، معاشیات اورسیاست کواسلامی رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔(ص ۵)
یہ کتاب ایک طویل تمہید کے علاوہ چھ (۶) ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب کا عنوان Islamism and Idiologyہے ۔ اس میں مصنف نے اسلام ازم کے موجودہ لٹریچر کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے، بالخصوص اس کے منہجی پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ دوسرا باب Islamism in Neoliberal Indiaکے عنوان سے ہے ۔ اس میں ہندوستان کے اس ماحول کا تجزیہ کیا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی ہندوستان میں مسلم اقلیتی گروہ میں کام کررہی ہے ۔ یہ وہ ماحول ہے جہاں مسلمان سیکولر سیاسی جماعتوں کا تعاون کررہے ہیں ۔ ان حالات میں جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کے مخصوص مطالبات کومذہبی رنگ میں پیش کر رہی ہے۔
تیسرا بابIdeological Articulations of Jamaate-Islami Hindکے عنوان سے ہے ۔ اس میں مصنف نے بتایا کہ جماعت اسلامی ہند نے نیولبرل اقتصادی اصطلاحات کے علاوہ استعماریت کی بھی مخالفت کی ہے ۔ اس کے علاوہ مادہ پرستانہ تہذیب صارفیت کی بھی وہ مخالف رہی ہے (ص :148) ان کے مطابق جماعت اسلامی ہند جمہوریت اورسیکولر زم کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے ۔ انہوںنے اس پر بھی بحث کی ہے کہ جماعتِ اسلامی ہند نہ عوام میں سیاسی مقام حاصل کرسکی ہے اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آسکی ہے ۔ چوتھے باب کا عنوان ہے : Islamism in a Muslim Mejority Context: The case of Bangladesh اس میں مصنف نے تفصیل سے شیخ مجیب الرحمن کےنظریہ اوران کی حکومت کا تجزیہ کیا ہے ۔ یہی وہ دور ہے جس میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے ان کے سیکولر نظریے کا جواب دینا ضر وری سمجھا ۔ اس باب میں مصنف نے مجیب الرحمٰن کی ناکامی اوراس کی ڈکٹیٹر شپ پر گفتگو کی ہے ۔ اس کے ساتھ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیاسی کردار کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ پانچواں باب : The crises of Islamist popularim of Bangladesh Jamaate-Islamiکے عنوان سے ہے ۔ اس میں مصنف نے بتایا ہے کہ جماعت اسلامی ہند اورجماعت اسلامی بنگلہ دیش دونوں نے لبرل اصولوں ، لا دینیت ، بے حیائی ، ہم جنس پرستی، آزادانہ جنسی تعلق وغیرہ کی زبردست مخالفت کی۔ اس تعلق سے جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے عوام کو مغربی فکر وتہذیب اورگلوبلائزیشن کےمنفی اثرات سے بچانے اوران کے درمیان اخلاقی اصولوں کورواج دینے کی کوشیش کیں ۔
آخری باب :Islamism in Contemporary India and Bangladesh comparative overview of the politics of Alternative.کے عنوان سے ہے۔ اس میں جماعت اسلامی ہند اورجماعت اسلامی بنگلہ دیش کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں اسلام ازم بنگلہ دیش کے اسلام ازم سے مختلف ہے ۔ جماعتِ اسلامی ہند سیکولر جمہوریت اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے، جب کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش سیکولرزم ، لبرل ازم ، سوشل ازم اوربائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کواپنا دشمن سمجھتی ہے ۔ ان کے مطابق ہندوستان میں جماعت اسلامی کارپوریٹ ماڈل کی ناقد ہے ، جبکہ بنگلہ دیش میں جماعت صنعتوں اورپرائیویٹ سرمایہ کاری کے حق میں ہے ۔ اس کے علاوہ انہوںنے دونوں جماعتوں کے درمیان چند ایشوز کی مماثلت بیان کی ہے، مثلاً دونو ں جماعتیں ہم جنسیت ، بےحیائی ، لادینیت ، سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی متنازع تحریروں کے خلاف ہیں۔ یہ بات واضح ر ہے کہ دونو ں جماعتیں اپنا الگ الگ تشخص رکھتی ہیں ،دونوں کی پالیسی وپروگرام ، لائحہ عمل اورترجیحات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، دونوں جماعتوں کا منہج وطریقہ ٔکار اورذرائع بھی الگ الگ ہیں ۔
بہ حیثیت مجموعی یہ کتاب قابل مطالعہ ہے ۔ اس میں بہت سے پہلوؤں پر غور وفکر کے لیے مواد موجود ہے ۔ امید ہے ،دونوں ممالک میں وابستگان تحریکِ اسلامی اس سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھائیں گے ۔
(مجتبیٰ فاروق)
(اسکالر ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ)
رنگ وبو( تبصراتی مضامین)
مصنف : ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
ناشر: کرناٹک اردو اکادمی ، بنگلور
سن اشاعت: ۲۰۱۵ء ، صفحات: ۱۳۶، قیمت:۱۵۰/-روپے
زیر نظر کتاب ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی کے تبصراتی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں سترہ (۱۷) نثری کتب او راٹھارہ (۱۸) شعری مجموعوں پرتبصرے شامل ہیں۔ پیش لفظ میں جناب محمد عارف اقبال ، ایڈ یٹر ماہ نامہ اردو بک ریویو نئی دہلی نےتبصرہ کی تاریخی اہمیت بیان کی ہے اور تقریظ اورتبصرہ میں فرق واضح کیا ہے ۔ اس کتاب میں کچھ نام ور مصنفین کی قیمتی اوراہم کتابوں پر تبصرے کیے گئے ہیں ۔ مثلاً نثری کتب میں ’اردو زبان اورلسانیات‘ (گوپی چند نارنگ) ’ اقبال اوراقبالیات‘(عبدالحق) ’ نئی منزل نئے امکا نا ت‘ (سیفی کرونجی) ’ الواح الصنادید ‘ (عطا الرحمن قاسمی )’ زمین کے بادل ‘ (ابن صفی) ’ یہ جہاں اور ہے ‘ ( ابن فرید) ’مطالعہ شعر وادب ‘ (محسن عثمانی ندوی ) ’ آدابِ شناخت‘ (سید عبدالباری) اور شعری مجموعوں میں ’معنی دیریاب‘ (ذکی ذاکانی )’اوجِ سخن‘(کوثر جعفری ) ’صحرا کے بگولے‘ (فیاض شکیب) ’ شمع ہدیٰ‘ (امجد حسین حافظ کرناٹکی ) ’ بارشِ تجلیات‘ ( جوہر بلیاوی ) ’ شب آفتاب ‘ (شاہ حسین نہری ) وغیرہ۔تبصرہ میں ہر کتاب کی خوبیوں کونمایاں کیا گیا ہے اور اس کے بعض کم زور پہلوؤں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے ۔ زیر نظر کتابوں میں تاریخ ، سوانح، سماجیات، مذہبیات ، ادب وشعر اور دیگر موضوعات کی کتابیں شامل ہیں۔ ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کتا ب میں مطبعی غلطیوں کی بھر مار ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بغیر پروف دیکھے کتاب کوطباعت کے لیے بھیج دیا گیا ہے ۔ مثلاًصفحہ ۱۰ کے ایک پیراگراگ کی تکرار اگلے صفحے پر بھی ہوگئی ہے ۔ کتاب کا نام کہیں ’کتابوں کے ر نگ وبو‘ لکھا گیا ہے ، کہیں رنگ وبو تبصراتی مضامین ۔پیش لفظ میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب میں (۳۲) نثری وشعری کتابوں پر تفصیلی یا اجمالی تبصرے کیے گئے ہیں ، جب کہ اس میں کل ۳۵ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں ۔ شخصیات اور جگہوں کے ناموں کے تلفظ میں بڑ ی فاش غلطیاں در آگئی ہیں ۔ لفظ لائبریری کوبیش تر جگہوں پر لا مغیریری اورپھلواری شریف کو پھگواڑی لکھا گیا ہے ، اگر مصنف اس کتاب کوٹائپنگ کے بعد ایک نظر دیکھ لیتے تواس طرح کی فاش غلطیاں نہ ہوتیں۔ توقع ہے کہ کتاب کا اگلا ایڈیشن صحیح پروف خوانی کےبعد شائع کیا جائے گا۔
(محمد رضوان خاں)
ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی
مشمولہ: شمارہ اگست 2016