قیام امن اور اسلام
مصنف: مولانا کمال اختر قاسمی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سن اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات: ۱۸۴،قیمت: ۱۰۰؍ روپے
اسلام سراپا رحمت، امن اور سلامتی کا دین ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں اسلام کی روشنی پہنچی ہے وہ مقام امن و سکون کا گہوارہ بن گیا ہے۔ اسلام انسانیت کو امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اور ظلم وزیادتی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ آج بھی اگر اسلام کی آفاقی تعلیمات پر عمل ہونے لگے تو یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس کی تعلیمات بھی آفاقی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر معاشرہ میں امن کا قیام ممکن ہے اور اگر اس کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا جائے تو تو زندگی کا پورا فلسفہ بے معنیٰ ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی بھی نظام حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے نہ غلطیوں اور کوتاہیوں سے مبرا ہو سکتا ہے، لیکن اسلام کا نظام حیات تمام لغزشوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے جو انسانوں کے بنائے ہوئے نظام میں پائی جاتی ہیں۔ اسلام محض چند مراسم عبودیت کا نام نہیں ، بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے، جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہ نمائی کرتا ہے۔
زیر نظر کتاب امن اور اسلام کے موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے۔ فاضل مصنف ہندوستان کے معروف تحقیقی ادارے ’ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ‘ سے وابستہ ہیں۔ کتاب کی ابتداء میں عالمی حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ موجودہ دور میں افرا تفری اور بدامنی کا ماحول ہر طرف چھایا ہوا ہے ، فتنہ و فساد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے، چوری ،ڈاکہ زنی، رشوت، بدعنوانی کی شرح سماج میں بڑھ رہی ہے ،یہ سب ارباب شعور کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔اِن مسائل کی اصل وجہ ہے اسلام سے دوری، حیران کن بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو بہت منظم طریقے سے اسلام کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔
فاضل مصنف نے پوری کتاب کو تین حصوں میں منقسم کیا ہے: پہلے باب میں عالمی سطح پر ہو رہے فتنہ و فساد اور خوں ریزی اور اس کے اسباب و عوامل کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ساتھ ہی ان چیزوں کی نشان دہی بھی کی ہے جن کی وجہ سے دنیا میں آج یہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ دوسرے باب میں سماج میں پھیلے ہوئے جرائم، شراب نوشی، جوا، لاٹری، عداوت، ظلم، قتل و خوں ریزی کے عوامل بیان کیے ہیں اور ساتھ ہی ان کا اسلامی حل بھی پیش کیا ہے۔ تیسرے باب میں اسلام کے نظام امن پر روشنی ڈالی گئی ہے اور عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا گیاہے۔
کتاب جا بجا حوالوں سے مزین ہے ۔ اسلوب سلیس اور رواں ہے۔کتاب کے آخر میں مصنف نے ’کتابیات ‘ کے تحت مراجع ومصادر بھی درج کیے ہیں ۔ موجودہ حالات میں اس کتاب کو عام کرنے اور دیگر زبانوں میں اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
(محمد اسعد فلاحی)
معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی
مجلہ دراسات دینیہ (۲۰۱۵ء)
مدیر: پروفیسرعلی محمد نقوی نائب مدیر: ڈاکٹر محمد راشد
سن اشاعت: ۲۰۱۵ء،صفحات: ۴۰۰ ، قیمت درج نہیں
ملنے کا پتہ: فیکلٹی آف تھیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
زیر نظر مجلہ فیکلٹی آف تھیالوجی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترجمان ہے، جس میں مشاہیر اہل قلم ،جن میں فیکلٹی دینیات کے دونوں شعبوں (سنّی وشیعہ) کے اساتذہ اور یونی ورسٹی کے بعض دیگر دانش وران شامل ہیں، کے مقالات کو شائع کیاگیاہے۔
’’صوفیائے کرام کا طریقۂ اصلاح‘‘ ]پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی] میں مولانا نے متعدد صوفیائے کرام کی اصلاحی کوششوں اور مستفید ین کاتذکرہ کیا ہے۔’ ’مطالعۂ مذاہب ہند شناسی میں مسلمانوں کے کارنامے‘‘ ]پروفیسر سید علی محمد نقوی[ اس میںقدیم مسلمان محققین کے مختلف علوم و فنون پر کارناموں اور خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ترکی، مصر اور ایران میں کیے گئے اقدامات کو بہ طور مثال پیش کیا گیاہے۔ ’’بائبل میں خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت‘‘ ]پروفیسر عبدالخالق]اس مقالے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے متعلق تورات و انجیل اور بعض دیگر مذہبی کتابوں میں تذکروں کی تفصیلات ہیں۔ ’ ’شاہ ولی اللہ دہلوی کا تجدیدی کارنامہ‘‘ ]پروفیسر توقیر عالم فلاحی[ مقالہ نگار کے الفاظ میں ’شاہ صاحب نے اپنی مدتِ حیات کے قلیل عرصے میں وہ کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں جن کے احسان کا بار مسلمانانِ عالم بالعموم اور مسلمانانِ برصغیر بالخصوص صدیوں محسوس کرتے رہیں گے۔ (ص۸۴ ) ’ ’تصوف اور شریعت – ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ ]پروفیسر ابوسفیان اصلاحی[ تصو ف کے لغوی و اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کے ساتھ مستند و معتبر علماء اور اسکالرس (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، پروفیسر عبدالحق انصاری ؒ، مولانا صدر الدین اصلاحیؒ) کے نقطۂ نظر سے استدلال کیا گیا ہے۔’ ’سماجی علوم کی اسلامی تشکیل‘ ‘]پروفیسر عبیداللہ فہد فلاحی[ مقالہ نگار نے سماجی علوم کی تشکیل کے مضمرات پر ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،یمن کے محمد بن اسماعیل الامیر ،ترکی کے شیخ بدیع الزماں سعید نورسی ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور بعض دیگر علماء کے افکارسے بحث کی ہے۔ ’ ’شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور خدمات حدیث‘ ‘ ]ڈاکٹر محمد سلیم[ اس میں شیخ کی حیات ،خدماتِ حدیث اور تالیفات کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔’’ فساد فی الارض کا قرآنی تصور -تفسیر تفہیم القرآن کا مطالعہ‘‘ ]ڈاکٹر احسان اللہ فہد فلاحی[ انھوں نے مولانا مودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر’ تفہیم القرآن‘ کی امتیازی خصوصیات اور اس میں مذکور ’فساد فی الارض‘ کی عالمانہ تشریح پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’عالمی امن اور خوش حالی کا قرآنی تصور‘‘ ]ڈاکٹر محمد راشد[ اس میں حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملہ سے برادرانِ وطن کے سامنے اپنی شبیہ بہتر کرنے کی عملی تدابیربتائی گئی ہیں۔’ ’انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں دعوت اور تبلیغ کے آداب‘‘ ]ڈاکٹر ندیم اشرف[ اس میںانبیاء کی بعثت دعوتی نقطہ نظر سے، ہادی اور رہبر کی ضرورت،انبیاء کی بعثت کا مقصد،دعوت الیٰ اللہ کے امتیازات، پیغمبرانہ آداب،براہ راست تنبیہ سے صرف نظر، مشکل حالات میں دعوت، عفو و درگزاور محمد عربی کا پیغام جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ’’ اسلامی قوانین جنگ کے قرآنی اصول‘‘ ]ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی]قرآن کی روشنی میں جنگ کے بیس اصول بتائے گئے ہیں ۔ ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام ہوس ملک گیری کے لیے جنگ کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ ’’خواتین کے سیاسی حقوق‘‘ ]ڈاکٹر شائستہ پروین[ محترمہ نے بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ شرعی دائرے میں رہتے ہوئے خواتین اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرسکتی ہیں، جیسا کہ عہد رسالت میںاس کی مثالیں موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی متعدد اہم مقالات شامل ہیں۔
مجلہ میں شامل سبھی مقالات مستند حوالوں سے مزین ہیںاور معیاری ہونے کے ساتھ بھر پور معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات شدت سے کھٹکی کہ اشاعت سے قبل ایڈیٹنگ اورپروف ریڈنگ پر توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ اس لیے بے شمار غلطیاں موجود ہیں۔ نائب مدیر نے یہ کہہ کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ہے کہ مقالات کی پروف ریڈنگ مقالہ نگار حضرات نے خود کی ہے۔
مرتبین کی یہ کاوش بہرحال قابلِ ستائش ہے کہ انھوں نے مشاہیرِ اہل قلم کے مختلف موضوعات پر تحریر کیے گئے مقالات کو جمع کرکے مجلہ میں شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس سے مطالعے کے شائقین بالخصوص دینیات کے اسکالرس کو استفادے کا موقع ملے گا۔امید ہے علمی حلقوں میں اس کی بھرپور پذیرائی ہوگی۔ ڈاکٹر عبدالرحمن فلاحی
انچارج ،شعبۂ ادارت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
زندگی کا خزانہ
مصنف: ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ء ، صفحات: ۴۰۸، قیمت:200/=روپئے
ملنے کا پتہ: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
’’زندگی کا خزانہ‘‘ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا تیار کردہ ماہِ نامہ زندگی رام پور اورماہ نامہ زندگی نو دہلی کے ۶۷ سال (نومبر ۱۹۴۸ء تا دسمبر ۲۰۱۵ء) کا اشاریہ ہے ۔ موصوف ممتاز عالم دین اور اسلامی اسکالر ہیں ۔ ان کا تصنیفی سفر تین دہائیوں پر محیط ہے ۔ اب تک موصوف کی مختلف موضوعات پر پانچ درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو تصنیف ، تحقیق ، تنقید ، ترجمہ اورترتیب کے کاموں سے متعلق ہیں۔ ان میں اسلامیات اور طب کے موضوعات خاص ہیں۔ انہوں نے طب یونانی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے ، مگر ان کے علمی کاموں کا اصل میدان اسلامیات ہے۔ان کی کتابوں اورمقالات کو ہند وپاک کے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
اشاریہ سازی کا کام تحقیق سے متعلق ہے ۔ اس میں محنت، لگن ، یکسوئی اورخاصاوقت درکار ہوتا ہے۔ اشاریے تحقیق کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے گرامی قدرسرمایہ ہوتے ہیں ، کیوں کہ ان میں معلومات کا خزانہ ہوتا ہے ،جس سے محققین کم وقت میں زیادہ فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔
ما ہ نامہ زندگی کو جماعت اسلامی ہند کے آرگن کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ ایک بامقصد ماہ نامہ ہے جو نظریات ، عقائد، عادات ، اعمال، رہن سہن کے طریقے ، معاش ، معاملات ، سیاست ،تمدن، تعلیم، ادب ، آرٹ، غرض انسانی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات کی اصلاح چاہتا ہے ۔
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی نے تحقیق وتصنیف کے طویل تجربے کوبروئے کار لاتے ہوئے اس مجلہ کی اشاریہ سازی کے کام کو دیدہ وری اور عصری آگہی کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ابتدا میں جلد، شمارہ ، ماہ وسال ہجری وعیسوی کی فہرست درج کی گئی ہے ۔ اس کے بعد ان موضوعات کی فہرست دی گئی ہے جن کے مطابق موضوعاتی اعتبار سے اشاریہ کو مرتب کیا گیا ہے ۔ اس اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۶۷؍ سالوںمیں زندگی میں پانچ ہزار ترسیٹھ(۵۰۶۳)مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔ مضمون نگاران اور مترجمین کا بھی اشاریہ تیار کیا گیا ہے ۔ آخر میں مختلف زبانوں (اردو ، عربی ،انگریزی ، فارسی ، ہندی ) میں تبصرہ شدہ کتب ورسائل کابھی اشاریہ درج کیا گیا ہے ۔فاضل مرتب نے جس محنت اورباریکی سے کام کو انجام دیا ہے وہ قابل قدر ہے۔ تحریکی افراد اور خاص طور پر زندگی نو کے چاہنے والوں کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے ۔ توقع ہے کہ وہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیںگے۔
(محمد رضوان خان)
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو ، دہلی یونی ورسٹی
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2016