رسائل ومسائل (تدوینِ نو)
مصنف: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،D-307، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات جلداول :۶۰۰، قیمت :۵۰۰/ روپئے
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳۔ ۱۹۷۹ء) کاشمار موجودہ دور کی ان ممتاز اورنام ور شخصیتوں میں ہوتا ہے ، جنہوں نے اسلام کے نظام فکرو عمل کوشرح وبسط اوردلائل کے ساتھ پیش کیا اوراسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی ، اپنے جان دار قلم کے ذریعے نظریات اورفلسفوں کے مقابلے میں اسلام کی برتری ثابت کی ، ا س کی معقولیت اورحکمت ومعنویت واضح کی اور اسلام کے بارے میں جوشکوک و شبہات پائے جاتے ہیں انہیں رفع کرکے دل ودماغ کواطمینان فراہم کرنے کی کا م یاب کوشش کی۔
مولانا اپنے ما ہ نامہ ’ترجمان القرآن ‘ میں ’رسائل ومسائل‘ کے عنوان کے تحت ایک طویل عرصے تک اسلام سے متعلق مختلف النوع سوالات کے جوابات دیتے رہے ہیں ۔ ان کا مجموعہ ’رسائل ومسائل ‘ ہی کے نام سے یکے بعد دیگرے پانچ جلدوں میں شائع ہوا اوراب تک شائع ہورہا ہے ۔ جن علمی اور فکری مسائل کے سلسلےمیں مولانا سے رجوع کیا گیا اور انہوں نے ان کا جواب دیا ان کا دائرہ بڑا وسیع ہے ۔ اس میں قرآن ، حدیث اور فقہ کے علاوہ جدید سماجی ، معاشی ، سیاسی اور تمدنی مسائل بھی آتے ہیں ، تحریک اسلامی اور اسلامی نظام کے قیام سے متعلق بھی سوالات کیے جاتے رہے ہیں ، ان کا جواب بھی مولانا نے دیا ہے۔ ان سوالات سے اسلام کے متعلق آج کاذہن کھل کر سامنے آتا ہے اوراندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا فکری اور عملی الجھنیں ہیں، جن کاوہ جواب چاہتا ہے ۔ مولانا مودودیؒ نے مختصر سے مختصر الفاظ میں ان کا اس قدر واضح اور دوٹوک جواب دیا ہے کہ وہ طویل تحریروں سے زیادہ باوزن معلوم ہوتے ہیں۔
امت کے درمیان ایمان اورعقیدے سے متعلق کلامی مباحث بھی رہے ہیں ، فقہی مسائل میں اختلاف بھی رہا ہے ، تصوف وسلوک کی حقیقت اوراس کی افادیت اورعدم افادیت پر گفتگو بھی رہی ہے ، اسی بنیاد پر مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آئے ۔ مولانا نے ان سب کا گہرائی سے جائزہ لیا اوران سے بھر پور فائدہ اُٹھایا ۔ کبھی کسی رائے پرتنقید کی ہے اور کسی کوترجیح دی ہے ۔ خود مولانا کی رایوں سے بھی بعض اصحابِ علم نے اختلاف کیا ہے اوربعض اہلِ علم نے اس کا جواب بھی دیا ہے ۔ علم وتحقیق کی دنیا میں ہمارے نزدیک یہ ایک پسندیدہ روایت ہے ، بشرطےکہ وہ ردّ وکد اورذاتی مخاصمت کی شکل نہ اختیار کرے۔
’رسائل ومسائل ‘ کے پانچوں حصوں میں ایک ہی طرح کے ابواب کے تحت سوالات وجوابات جمع کیےگئے ہیں ۔ مثال کے طور پر تفسیر آیات وتاویل احادیث یافقہی یامعاشی مسائل کے ابواب ہر حصے میں موجود ہیں ، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک عنوا ن کے تحت مولانا کے خیالات کو جاننا چاہے تواسے پانچوں حصوں کی ورق گردانی کرنی پڑے گی ۔ بہت دنوں سے یہ خیال بار بار ذہن میں آرہا تھا کہ ایک موضوع کے تحت ان حصوں میں جوسوالات وجوابات ہیں وہ سب یکجا کردیے جائیں، تاکہ جوشخص جس موضوع کا مطالعہ کرنا چاہے اسے ایک ہی حصے میں سارا مواد مل جائے۔ برادرم ڈاکٹرتابش مہدی نے میری درخواست پر یہ کام کردیا تھا، مگر بعض وجوہ سے وہ شائع نہ ہوسکاتھا ۔ اب یہ کام پاکستان میں اسلامک پبلی کیشنز لاہور کے تحت انجام پایا ہے اوررسائل ومسائل کی پانچوں جلدیں تدوین نو کے بعد ایک جلد میں شامل کردی گئی ہیں، اس میں ڈاکٹر تابش مہدی کی کوشش سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
ہندوستان میں تدوین نو کے بعد اس نئے ایڈیشن کو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نے دو جلدوں میں شائع کیا ہے ۔ امید ہے کہ یہ ایڈیشن زیادہ فائدہ مند ہوگا اورا س سے استفادہ آسان ہوگا۔
(سید جلال الدین عمری)
امیر جماعت اسلامی ہند
اسلام کی دعوت
مصنف: مولانا سید جلال الدین عمری
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ء ، صفحات: ۳۴۴، قیمت۲۰۰/-روپے
مولانا سید جلال الدین عمری کی شہرت عالم اسلام کے ایک جید عالم دین،فقیہ، محقق اور صاحب طرز مصنف کی حیثیت سےہے ۔ ان کی زیر تبصرہ کتاب ’اسلام کی دعوت‘ کا چودہواں اڈیشن پیش نظرہے جواس کی غیر معمولی مقبولیت کی دلیل ہے۔اسے مصنف کی نظرثانی اور ضروری حذف و اضافے کے بعد شائع کیا گیا ہے۔
اس میں چار مباحث ہیں۔پہلی بحث میں کار رسالت کی تشریح ہے۔اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول کس لیے آتے ہیں؟ کب آتے ہیں؟اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے کیا قربانیاں پیش کرتے ہیں؟مولاناکے الفاظ میں ’’اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی مثال دنیا میں بہتے چشمے کی ہے، جس سے ہزاروں لاکھوں انسان سیراب ہوتے ہیں۔ انسانیت کی کھیتی جب بھی سرسبز وشاداب ہوئی ہے،ان ہی سے ہوئی۔ وہ نہ پیدا ہوتے تو انسانیت جل کر راکھ ہوجاتی۔‘‘اس کے بعد ’حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم کارنامۂ دعوت‘ کے عنوان کے تحت آپؐ کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا تفصیلی بیان ہے۔ رسولوں کے کام کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے فاضل مصنف نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیاہے جس میں داعی کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ اتباع دعوت میں ثابت قدم رہیں،یعنی یہ کہ ’’کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے رسول کی مخالفت کرے یا اس پر ایمان لائے اور اس کے بتائے ہوئے نظام اطاعت کو قبول کرلے، دونوں صورتوں میںوہ اس کے درمیان دعوت ہی کا کام انجام دیتا ہے۔ ‘‘
دوسری بحث ’اسلام کی دعوت‘ سے متعلق ہے۔اس میں دین حق کی شہادت، امت مسلمہ کی دعوتی ذمے داری اور اس ضمن کے تین بنیادی اور ضروری کام یعنی دعوت وتبلیغ، اصلاح و تربیت اور اسلام کے غلبہ و نفاذکے لیے جدو جہد کو اہم اور لازمی قرار دیاگیا ہے۔دعوت اور اتباع، دعوت و اصلاح کی ترتیب ، دعوت کے اصول و آداب، داعی کام یاب ہے اور انکار دین کے اسباب جیسے عناوین کے مختلف پہلوؤں پرنصوص قرآنی کے حوالہ سے دل نشیں گفتگو کی گئی ہے۔ تیسری بحث ’دعوت کے لیے ضروری اوصاف‘ کے موضوع پر ہے۔ اس میں دعوت و تبلیغ کے لیے مطلوبہ صفات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ایمان باللہ، ایمان بالآخرۃ، اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، نماز اور دعوتِ دین، انفاق فی سبیل اللہ، قربانی، اخلاص، روحِ دین اور استقامت ، جو کارِ دعوت کے لازمی جز شمار ہوتے ہیں، ان کی تفصیلات بھی آگئی ہیں۔چوتھی بحث ’دعوت اور تنظیم‘ کے موضوع پر ہے۔اس میں تنظیم کے استحکام کی تدابیربتائی گئی ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تحریک تنظیم کے بغیر اپنے اہداف کے حصول میں کام یاب نہیں ہوسکتی۔مولانا نے یہ معلومات پیش کی ہیں کہ دنیا میں جو بھی انقلاب آیا وہ منّظم کوششوں کے نتیجے میں ہی آیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:’’پوری تاریخ میں کسی ایسے انقلاب کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی جو غیر منّظم اور منتشر افراد کی کوششوں سے وجود میں آیا ہو۔ ‘‘ مولانا آگے رقم طراز ہیں: ’’یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسان چلنے کے لیے پیر کا اور کسی چیز کو گرفت میں لینے کے لیے ہاتھ کا جس قدر محتاج ہے، اس سے زیادہ دعوت اپنی کام یابی کے لیے تنظیم کی محتاج ہے۔‘‘ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے اندر اجتماعیت کا احساس پیدا ہو، اطاعت امرکے تقاضے پورےکیے جائیں،حسن ظن سے کام لیا جائے، جماعت کے اندر خیرخواہی کے جذبے کو پروان چڑھایا جائے اور اس کے لیے ماحول بھی سازگار بنایا جائے۔مصنف نے خیرخواہی کی مختلف شکلیںبتائی ہیں، مثلاً جماعت کے اصول ونظریات کے ساتھ خیرخواہی، اسی طرح امیر و مامورین اور عام افراد کے ساتھ خیرخواہی۔انھوں نے خیرخواہی کو جماعت کا سرمایہ قرار دیا ہے، کیوں کہ ’’اس کے بغیر جماعت زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘ مولانا عمری نے ان خیالات اور پروپیگنڈوں کا بھی مؤثر جواب دیا ہے، جن کے مطابق اسلام کی دعوت کے لیے تنظیم سازی کا کتاب و سنت اور دور اول میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
یہ کتاب اپنے موضوع پرانتہائی مفید اور معلوماتی ہے۔ جماعت کے دعوتی لٹریچرمیںاس کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔بعض حلقوں میں یہ شامل نصاب بھی ہے۔اس کا انگریزی،ہندی، تیلگو اور کنٹر میںترجمہ ہوگیا ہے ۔ پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریک اسلامی کے کارکنوں میں داعیانہ جذبہ پیدا کرنے اور نھیں اپنی اصلاح و تربیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیےیہ ایک انتہائی مؤثر اورجامع کتاب ہے۔ اس میں داعی کی علمی و فکری تیاری کے سلسلے میںجومواد پیش کیاگیاہے، وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ( ڈاکٹر عبدالرحمٰن فلاحی)
انچارج شعبۂ ادارت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک۔سیرت کی روشنی میں
مصنف : عبدالرب کریمی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سن اشاعت: ۲۰۱۶ء صفحات : ۳۶قیمت -/۲۴روپے
پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئےتھے۔ آپ اخلاق و کردار کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ نبوت سے قبل بھی آپ کےاخلاق حسنہ کو دیکھتے ہوئےاہل مکہ آپ کو صادق و امین کے القاب سے پکارتے تھے۔ آپؐ کا حسن سلوک صرف اعزاو اقربا اوراپنے صحابہؓ تک ہی محدود نہ تھا،بلکہ آپؐنے دشمنوںکے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا۔ایک مرتبہ کسی غزوہ سے واپسی پر آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ میدان میں آرام کر رہے تھے کہ آپ کو غافل پاکر ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلواراٹھا لی اورکہنے لگا :’’تمہیں مجھ سے کون بچاسکتاہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’اللہ۔‘یہ سنتے ہی اس پر ایسی وحشت طاری ہوئی کہ تلواراس کے ہاتھ سے گرگئی۔ اب آپ نے تلواراپنے قبضے میں لی ،مگراسے معاف کردیا اور اس سے درگزرکیا۔فتح مکہ کے وقت آپؐ چاہتے توان لوگوں کا قتل کروادیتے ،جنھوںنے آپ سے دشمنی کی تھی اور آپ کو اپنے وطن سے نکالا تھا، مگر رحمۃ اللعالمین نے یہ فرمان جاری کیا : ’’جاؤ!تم سب آزادہو ۔ ‘ ‘ سیرت کی کتابوں میں اس طرح کے واقعات بہ کثرت ملتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تلوار اور ہتھیار سے جنگ جیتی جاسکتی ہے، مگر دلوں کو فتح نہیں کیا جاسکتا ۔ دِل فتح کرنے کے لیے حسن سلوک سے بڑا ہتھیار کوئی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بڑا سے بڑا دشمن بھی آپ کے اخلاق سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ کا حسن سلو ک آپ کے شدید مخالفین کو بھی قبول اسلام کی طرف مائل کرتا تھااور انھیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیتا تھا۔
اس کتاب کے مصنف جناب عبدالرب کریمی شعبہ دعوت مرکز جماعت اسلامی ہند کےمعاون ہیں۔اس سے قبل بھی اُن کی ایک کتاب ’پیغمبر کی باتیں‘منظر عام پر آئی ہے۔ زیر نظر کتاب سیرت نبوی کے ایسے ہی مستندواقعات کا انتخاب ہے،جس میں مصنف نے تین حصوں( نبوت سے قبل ، نبوت کے بعد اور ہجرت کے بعد )میںان واقعات کا بالترتیب ذکر کیا ہے،جن میںدشمنوں کے ساتھ آپ ؐ کے حسن سلوک کو نمایاں کیا گیا ہے۔اس کتابچے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں سادہ اسلو ب، آسان زبان اورعام فہم انداز اختیارکیاگیا ہے۔ حوالوں کے ساتھ اورمدلل انداز میں بات کی گئی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ دعوت دین کی خدمت انجام دینے والے حضرات کے لیے مفید ہوگا ۔اس کے ذریعہ غیرمسلموں کے سامنے آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو نمایاں کیا جاسکتا ہے اوراسلام کے خلاف نفرت کے ماحول کو ختم اور غلط فہمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کا ہندی ترجمہ برادران وطن اور ہندی پڑھنے والے فرزندان توحید کے لیے بھی سیرت نبوی کا بہترین تحفہ ہوگا۔ (محب اللہ قاسمی )
معاون شعبۂ تربیت جماعت اسلامی ہند
اپنی شخصیت خود بنائیں ( رہ نمائے طلبۂ مدارس)
مصنف : محی الدین غازی
ناشر: وہائٹ ڈاٹ پبلشرز ۔ D-300، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی
سن اشاعت: ۲۰۱۶ء صفحات : ۶۴قیمت -/۲۰روپے
شخصیت کی تعمیر (Personaity Development)ایک جدید موضوع ہے ، جس پر مختلف زبانوں میں متعدد قیمتی کتابیں شائع ہوئی ہیں اوران میں سے بعض کا اردو زبان میں ترجمہ بھی ہواہے ، لیکن وہ عمومی نوعیت کی ہیں۔ زیر نظر کتاب میں دینی مدارس کے طلبہ کو مخاطب بنایا گیا ہے اور ان کی شخصیت کی تعمیر وترقی کے لئے بہت قیمتی نصیحتیں کی گئی ہیں۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ طلبۂ مدارس سے انہی کی زبان میں خطاب کیا گیا ہے ۔ علمائے سلف کے نمونے پیش کیے گئے ہیں ۔ ہندوستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنےوالی بزرگ شخصیات کے اقوال وارشادات اوران کی قیمتی تحریروں کے اقتباسات درج کیے گئے ہیں ۔ مثلاً مولانا مناظر احسن گیلانی ، سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا عزیز الرحمٰن مفتی دارالعلوم دیوبند، مولا شاہ ابرار الحق ، مولانا سلمان حسینی ندوی، مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی، مولانا صالح حنیف، مفتی احمد خاں پوری، مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی وغیرہ ۔ خاص طور سے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’’ پاجا سراغِ زندگی‘‘ سے کثرت سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں ۔ اس طرح امید ہے کہ مدارس کے طلبہ اس کا مطالعہ شوق سے کریں گے اور اس سے اجنبیت محسوس نہیں کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ بند ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اوران کا فکری افق بھی بہت ’’محدود ہوتا ہے ۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کا وہ جذبہ نہیں رکھتے ۔ معرکوں کو سر کرنے اور مشکلات پرقابو پانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہ کتاب ان کی خودی کو بیدار کرتی اوران کے حوصلوں کو مہمیز لگاتی ہے ۔ طلبہ دوران طالب علمی خود کو کیسے تیار کریں؟ اس سلسلے میں اس کتاب میں بہت قیمتی نصیحتیں کی گئی ہیں۔
اس کتاب کو مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء : مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مولانا کلب صادق، نائب صدر مسلم پرسنل لا بورڈ ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ واسلامک فقہ اکیڈمی وناظم اعلیٰ المعہد العالی للدراسات الاسلامیۃ حیدرآباد اور مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، ناظم عمومی مرکزی جمعیۃ اہلِ حدیث ہند نے سراہا ہے ، جیسا کہ ان کے پیغامات سے ظاہر ہے، جواس کتاب میں شامل ہیں۔
اس کتاب کوزیاد ہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ (محمد رضی الاسلام ندوی)
وطن پرستی نہیں وطن دوستی
مصنف : خان یاسر
ناشر: منشورات پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز ، E-88A، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی ۲۵
سن اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات : ۴۸،قیمت -/۲۵روپے
موجودہ دور میں ہمارے عزیز ملک ہندوستان میں شر پسند عناصر نے ’ قومیت پرستی‘ یا ’وطن پرستی‘ کے نام پر قتل وغارت گری ، خوی ریزی ، ظلم وستم کا جوبازار گرم کررکھا ہے وہ ہوش مندوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔وطن پرستی کے نام پر ملک کی پر امن فضا کو مسموم کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ کہیں گئورکشا کے نام پر نوجوانوں کو پھانسی پر لٹکادیا جاتا ہے تو کہیں محض افواہ پر کسی انسان کوبے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ شر پسندوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور حکومت خاموش بنی ہوئی ہے ۔ وقت کے اس حساس اوراہم موضوع پر جناب خان یاسر صاحب نے قلم اُٹھایا ہے ۔ موصوف کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ۔ علمی دنیا میں انہوںنے کم عمری میں اپنا ایک مقام بنالیا ہے ۔ ان کے علمی وتحقیقی مضامین تحریکی جرائد میں برابر شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ان کی نصف درج کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جن میں سے ’جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں ‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
زیر نظر کتاب کی ابتدا میں مصنف نے دنیا کے مختلف خطوں میں پائےجانے والے قوم پرستی کے رجحانات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے ، پھر اس کے بعد نیشن ، اسٹیٹ اورنیشنلزم پرتفصیل سے بحث کی ہے ۔ نیشنلزم کے معنیٰ ومفہوم کے ذیل میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں : ’’یوں تو ہر دور میں نیشنلزم کو’دشمن ‘ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس دور میں یہ ضرورت اس قدر شدت اختیار کرلیتی ہے کہ اگر دشمن بیرون میں نہ ملیں تواندر ڈھونڈ کر نکالے جاتےہیں ۔ نیشنلزم کی قوم کے لیے وہی حیثیت ہے جوجسم کے لیے کینسر کی ۔ اگر اس ’کینسر‘ کو پنپنے اورکھل کھیلنے کا موقع ملا تویہ اس قدر ’ترقی ‘ کرتا ہے کہ ’جسم‘ کا خاتمہ بالشر ہوجاتا ہے ۔‘‘ (ص ۱۴)
فاضل مصنف نے بیان کیا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے بھی اپنی کتابوں میں نیشنلزم کا بھر پور تجزیہ پیش کیا تھا ، جس سے بیسویں صدی کوسابقہ در پیش تھا ۔ لکھتے ہیں : ’’ نیشنلزم کا مولانا مودودیؒ نے ’مسئلہ قومیت‘ اور’مسلمان اورموجودہ سیاسی کشمکش‘ میں تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ تحریک کی نئی نسل کا فرض یہ تھا کہ وہ اس کام کوآگے بڑھائے ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کام آگے بڑھنا تو دور ،تحریک سے وابستہ افراد کی ایک قابل ذکر تعداد اگر ان کتابوں کے نام تک سے اپنی ناواقفیت کا اظہار کرے تو بہت تعجب نہیں ہوگا۔‘‘ (ص : ۲۲)
کتاب کا اسلوب قابلِ ستائش ہے ۔ اختصار کا خاص خیال رکھا گیا ہے اوربے جا طوالت سے احتراز کیا گیا ہے ۔ آخر میں اردو ، ہندی ، انگریزی تینوں زبانوں کے مراجع ومصادر درج کردیے گئے ہیں ۔ مطالعہ کے شائقین حضرات اس سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ اب ضرورت ہے کہ اس بحث کو ملکی اور عالمی سطح پر دنیا کے سامنے ظاہر کیا جائے ۔ ( محمد اسعد فلاحی)
شعبۂ تصنیف ، جماعت اسلامی ہند
خیابانِ خیال ( مکتوباتِ مولانا طیب عثمانی ندویؒ )
مصنف : ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
ناشر: اپلائڈبکس ، دریا گنج، نئی دہلی
سن اشاعت: جون ۲۰۱۶ء صفحات : ۲۳۲،قیمت -/۲۵۰روپے
مولانا طیب عثمانی ندویؒ تحریک اسلامی ہند کے رہ نماؤں میں سے تھے ۔ ان کی پیدائش ۳۰؍ستمبر ۱۹۳۰ء کو بمقام سملہ، ضلع ارونگ آباد ، بہار میں ہوئی ۔ بعد میں نیا کریم گنج ، بہار میںسکونت اختیار کی ۔ ان کی وفات گزشتہ سال ۲۹؍ستمبر ۲۰۱۵ء کوہوئی ۔ آپ جماعت اسلامی ہند حلقۂ بہار کی مجلس شوریٰ کے رکن اور ضلع گیا کے امیر مقامی بھی رہے ۔ تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ تحقیق وتنقید پر گہری نظر رکھتے تھے۔
آپ کی درجن بھر کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جن میں رسول اکرمؐ ، نقش دوام ، اقبال: شخصیت وپیام ، افکار واقدار اور صحرا میں اذان کافی مقبول ہوئیں۔ آپ نے ادبی وصحافتی دنیا میں بحیثیت مدیر ، نقیب ، پھلواری شریف اور معاون مدیر ’ نئی نسلیں، لکھنؤ بھی خدمت انجام دی ہے ۔
’خیابانِ خیال ‘ مولانا طیب عثمانی ندوی ؒ کے خطوط کا مجموعہ ہے ، جسے ان کے لائق فرزند ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے ۔ فاضل مرتب الحمد للہ تحریک اسلامی سے وابستہ ہیں اور ادبی موضوعات پر ان کی کئی اہم کتابیں منظر عام پر آکر مقبول بھی ہوچکی ہیں ۔ موصوف ادبی دنیا میں اپنی پہچان رکھتے ہیں اورانہیں علمی وادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
خطوط نگاری کی روایت قدیم ہے ۔ جدید اردو نثر کی ابتدا خطوط غالب سے ہوتی ہے۔ مکتوباتی ادب کی قدرو قیمت اس لیے بھی ہے کہ خط مکتوب نگار کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اوربقول پروفیسر حنیف نقوی ’’انسانی جبلّت کا جیسا واشگاف اظہار خطوط میں ہوتا ہے کسی اورتحریر میں نہیںہوتا ۔‘‘ ’ خیابانِ خیال‘ میں مرتب نے خطوط پر حواشی لگانے کا بھی اہتمام کیا ہے جس سے ان خطوط کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ ان خطوط کوپانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ باب اوّل میں ملّی واجتماعی موضوعات پر خطوط ہیں ۔ یہ جن شخصیات کولکھے گئے ہیں ان میں (۱) مولانا ابواللیث ندویؒ ، (۲) مفتی عتیق الرحمٰن عثمانیؒ، (۳) جناب محمد مسلم ، ایڈیٹر ’دعوت‘ اور(۴) ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانی وامیر جماعت اسلامی ہند ، وغیرہ شامل ہیں ۔
باب دوم میں علمی وادبی خطوط ہیں۔ ان کے مکتوب الیہم میںکئی قدر آور شخصیات ہیں، جن میں مولانا عبدالماجد دریا بادی ، ایڈیٹر صدق جدید، ڈاکٹر عبدالمغنی ، وائس چانسلر متھلا یونیورسٹی ، بہار ، ڈاکٹر وہاب اشرفی ، مولانا سید رابع حسنی ندوی ، جناب عزیز بگھر وی ، ڈاکٹر ابن فرید اورڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی وغیرہ اہم ہیں۔
باب سوم میں تعزیتی ودینی خطوط شامل ہیں ،جو قریبی احباب اورتحریکی افراد کو لکھے گئے تھے ۔ ان میں ڈاکٹر سید حبیب الحق، محترمہ طاہرہ ابدالی ، ڈاکٹر سلیم الدین احمد،اسسٹنٹ ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری ، ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ امیر حلقہ جماعت اسلامی بہار ، مولانا محمد سراج الحسن ، امیر جماعت اسلامی ہند وغیرہ شامل ہیں۔
باب چہارم میں چند نجی نوعیت کے خطوط شامل ہیں۔ آخر میں ’عکس تحریر‘ کے عنوان سے مولانا مرحوم کے چند خطوط کا عکس شامل کیا گیا ہے ۔ کتاب میں پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں ۔ اسی طرح اردو کے قدیم رسم الخط کورکھا گیا ہے، جواب متروک ہوگیا ہے ۔ بہر حال یہ کتاب مکتوباتی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے ، جس کے لیے مرتب ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
(محمد رضوان خان )
شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی ، دہلی
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016