عقیدۂ توحید اوروحدتِ امت
مصنف: احراز الحسن جاوید
ناشر: صفا پبلی کیشن ، F-9، شاہین باغ ، جامعہ نگر ، نئی دہلی ۔۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ ،صفحات: ۲۰۰، قیمت: /- ۱۲۰ روپے
قرآن کریم میں سب سے زیادہ زور عقیدۂ توحید پر دیا گیا ہے ۔ یہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔تمام انبیاء نے ایک اللہ کی اطاعت کی طرف بلایاہے اورشرک کو سب سے بڑا گناہ اور ظلم عظیم قرار دیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ عقیدۂ توحید میں ہر زمانے میں بگاڑ آتا رہا ہے اورشرک کی مختلف صورتیں انسانوں کے درمیان رائج رہی ہیں ۔ مزید افسوس اس بات کا ہے کہ خود امت مسلمہ کے عقیدۂ توحید میں انحراف در آیا او ر وہ غلط راہوں پر جا پڑی ، جس کی بنا پر اس کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی اورانتشار و تفرقہ سے اس کی شناخت ہونے لگی۔مسلمانوں میں عقیدۂ توحید کے بگاڑ کے اسباب کیا ہیں؟ زیر نظر کتاب میں تفصیل سے ان کی نشان دہی کی گئی ہے ۔
عقیدۂ توحید سے انحراف کے پانچ اسباب اس کتاب میں بیان کیےگئے ہیں :(۱) تصوف کا بگاڑ ، قبر پرستی ، عرس ، بدعات وغیرہ (۲) سیکولرزم (۳) قومیت (۴) اونچ نیچ ،ذات پات کا تصور (۵)شیعیت۔ فاضل نے ہر سبب پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اوراکابر علماء کے اقتباسات اور حوالوں سے اپنی باتیں مدلّل کی ہیں۔
یہ مکمل کتاب پہلے بالا قساط ماہ نامہ زندگی نو میں ( مارچ ۲۰۱۵ء تا جنوری ۲۰۱۶ء ) شائع ہوچکی ہے ۔ اب اسے کتابی صورت میں طبع کیا گیا ہے ۔ ابتداء میں ڈاکٹر محمد رفعت مدیر ماہ نامہ زندگی نو اورڈاکٹر محمد سعود عالم قاسمی، پروفیسر شعبۂ دینیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تعارفی تحریر یں ہیں، جن میں مصنف کی کاوش کو سراہا گیا ہے ۔ خود مصنف نے اپنے پیش لفظ میں عقیدۂ توحید میں بگاڑ پر اظہار خیال کرتے ہوئے تصوف کی راہ سے دین میں در آنے والی غلو آمیز چیزوں کی نشان دہی کی ہے ۔
امت کے مختلف طبقات میں عقیدۂ توحید کے معاملے میں پیدا ہونے والی بے اعتدالیوں کو جاننے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے ۔ امید ہے، دینی حلقوں میں اس سے فائدہ اُٹھایا جائےگا۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
صلح حدیبیہ کی عصری معنویت
مصنف: مولانا محمد علاء الدین ندوی
ناشر: مجلس علم وعرفان ، لکھنؤ
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ ،صفحات: ۲۱۶، قیمت: مذکور نہیں
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک تاریخ ساز اورانقلابی واقعہ صلح حدیبیہ ہے ۔ یہ صلح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے نمائندے سہیل بن عمر و کے درمیان ذی قعدہ ۶ ھ میں حدیبیہ کے مقام پر ہوئی تھی۔ اس کی دفعات اس طرح تھیں : (۱) دس سال تک جنگ روک دی جائے گی، اس دوران لوگ امن سے رہیں گے۔(۲) مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اورآئندہ عمرہ کے لیے آئیں گے۔ اہلِ مکہ تین دن ان کے لیے مکہ کوخالی کردیں گے ۔ تلوار یں میان میں رہیں گی ، اس کے علاوہ کوئی ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے ۔ (۳) جوقبیلہ جس فریق کے ساتھ چاہے اس معاہدے میں شامل ہوسکتا ہے ۔ (۴) قریش کا جوشخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئےگاآپؐ اسے واپس کردیں گے ،لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی قریش کے یہاں چلا جائے تووہ اس کو آپؐ کے حوالے نہیں کردیں گے ۔ (۵) نہ خفیہ طور سے کسی دوسرے کی مدد کی جائے گی نہ اعلانیہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی جائے گی ۔ اس صلح نامے پر مسلمانوں میں سے حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ، حضرت عبداللہ بن سہل بن عمروؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت محمود بن مسلمہؓ اور ابوعبیدہ بن الجراحؓ اورقریش کی طرف سے مکرز بن حفص ، حویطب بن عبدالعزی نے بطور گواہان اپنے دستخط کیے۔
قرآن مجید نے اس واقعہ کو ’فتح مبین‘ سے تعبیر کیا، کیوں کہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس صلح کے نتیجے میں اسلام کی دینی ، سیاسی ، معاشی اورثقافتی کام یابیوں کی راہیں ہموار ہوئیں ۔ اسلامی حکومت پہلے سے زیادہ وسیع، منظم اورمستحکم ہوئی اوراشاعت اسلام کا کام تیز رفتاری سےہوا ۔ دعوت اسلامی کوفروغ حاصل ہوا اور کچھ ایسی سعیدر وحیں بھی حلقۂ اسلام میں داخل ہوئیں جنہوں نے بعد میں اسلام کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے ۔
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اوّل میں صلح حدیبیہ کا پس منظر واضح کیا گیا ہے، تاکہ قارئین دونوں طرف کے حالات کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ باب دوم میں صلح حدیبیہ کے واقعات کا بیانیہ ہے ۔ باب سوم میں اس صلح کے مضمرات ، نتائج اورمعنویت پر حکیمانہ اوربصیرت افروز گفتگو کی گئی ہے ۔ باب چہارم میں حق وباطل کے درمیان سمجھوتے پر بحث کی گئی ہے کہ کیا میثاق مدینہ اورصلح حدیبیہ سے دعوت اسلامی کوفروغ حاصل ہوتا ہے یا یہ صلح کل کی پالیسی ہے ؟ باب پنجم ’ معاہداتِ رسول اور معاصر مسلم اقلیت‘ تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے ۔ بقول مصنف ’’ یہ باب صلح حدیبیہ کی ظاہری اورمعنوی روح کا عطر مجموعہ اور کتاب کی جان ہے ۔‘‘ عرض مصنف کے تحت جوکچھ تحریر کیا گیا ہے وہ بھی لائق مطالعہ ہے ۔ ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی نے اس کتاب پرمقدمہ لکھا ہے ۔تحریر فرماتے ہیں کہ ’’دین اسلام میں اصل اورپسندیدہ صورت حال توصلح وامن ہے اورغیر مسلموں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کی ہے ،لیکن حالات کبھی ایسی شکل اختیار کرلیتے ہیں کہ جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے ۔‘‘
حیات طیبہ کاہر واقعہ اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے اور ان سے ہمیں کچھ دروس ونصائح حاصل ہوتے ہیں ۔ قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ اگر دشمنان اسلام صلح کی طرف مائل ہوتے ہیں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہوجاؤ اوراللہ پر توکل اختیار کرو ۔‘‘ یعنی اگر جنگ کے زمانے میں مخالف صلح پر آمادہ ہو تواللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے صلح کرلینا چاہے ، کیوں کہ یہ اسلام کی آئیڈیل صورت حال ہے ۔ واضح رہے کہ یہ بات جنگ کے موقع پر کی گئی ہے، مگر ہمارے زمانے کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر حال میں صلح کل کی پالیسی پر عمل کرنا چاہے۔ وہ مصالحت سے آگے بڑھ کر مداہنت اور رواداری کا سبق دیتے ہیں۔ سیرت رسول ؐ میں صلح حدیبیہ ،میثاق مدینہ اوردوسرے معاہدات میں اسلام کے بنیادی عقیدے کو کہیں ذرہ برابر مجروح نہیں ہونے دیا گیا تھا ۔ آج کچھ لوگ اسلام اورجاہلیت کا ایک معجون مرکب تیار کرنا اوراسلامی نظام زندگی کو جمہوریت اورسیکولرازم کی چھتر چھایا میں غالب ونافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ لائق مصنف کی یہ رائے بالکل حق ہے کہ ’’اگر غلطی سے ہم نے اپنے قصرِ ایمان کی دیواروں کوشکستہ اوراس کی بنیادوں کوکھوکھلا کردیا ہے تو پلٹ کر اصلاح ومرمت کی فکر ہونی چاہیے۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہم اپنے گھر کوچھوڑ کر دوسروں کے گھروںمیں پناہ لینے کو کام یابی سمجھیں۔ اسلام تو ہماری تقدیر ہمارے اختیار میں دینا چاہتا ہے اورہم ہیں کہ غیر اسلامی نظام زندگی کے ہاتھوں کھلونا بن جانے پر راضی ہیں۔ ‘‘ ( ص : ۲۳)
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ کوشش ہے ۔ لائق مصنف سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ اسی طرح سیرت رسول ؐ کے کچھ اور گوشوں کو بھی اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں گے۔
(عبد الحیّ اثری)
F-135 شاہین باغ ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر ،نئی دہلی F-135
عورت کا مقام – اسلام کی نظر میں
مصنف: علامہ یوسف القرضاوی
مترجم: عبد الحلیم فلاحی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ ،صفحات: ۱۳۶، قیمت:70/-روپے
مخالفین اسلام کی جانب سے اسلام پر جواعتراضات کیے جاتے رہے ہیں اورآج بھی کیے جارہے ہیں ، ان میںسے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے عورت کوتما م طرح کی آزادیوں (آزاد یٔ اظہار رائے ، آزادیٔ معاش ، آزادیٔ رہن سہن) اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے اوراسے گھر کی چہار دیواری میں قید کردیا ہے ۔ مسلم علماء نے ہر دور میں ان اعتراضات کا جواب دیاہے ۔ علامہ یوسف القرضاوی موجود دور کی عظیم شخصیات میں سے ہیں ۔ عصری مسائل وموضوعات پر ان کی تصانیف عالمی سطح پر مقبول ہیں اور بہت سی زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہوگیا ہے ۔
پیش نظر کتاب ان کی تصنیف ’’مرکز المرأۃ فی حیاۃ الاسلام‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ اس کتاب میں اسلام میں عورت کے مقام ومرتبہ کو، عورت بحیثیت انسان ، عورت بحیثیت ماں ، عورت بحیثیت بیٹی، عورت بحیثیت بیوی، عورت بحیثیت نسوانی وجود ، عورت کی شہادت، عورت کا حق وراثت جیسے موضوعات کے تحت بہت مربوط شکل میں قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے ۔
علامہ قرضاوی نے جہاں ایک طرف مخالفین اسلام کے اعتراضـات بیان کرکے ان کے جوابات دیے ہیں، وہیں دوسری طرف اس حقیقت کابھی اعتراف کیاہے کہ اسلام نے عورت کوجوحقوق عطا کیے ہیں ، مسلمانوں نے اسے ان سے محروم کررکھا ہے ۔ چنانچہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مختلف ادوار میں بعضـ مسلمانوں نے عورتوں پر بے جا ظلم ڈھایا ہے اورانہیں ان کے بنیادی حقوق سےمحروم رکھا ہے ۔ انہیں نہ دین میں تفقہ (سوجھ بوجھ) حاصل کرنے دیا اورنہ انہیں دنیوی امور میں ا پنی صلاحیتوںکوبروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا ۔ انہیں عبادت اور تعلیم کے لیے مسجدوں میں جانے سے روک دیا ، جس کی اجازت شریعت نے باقاعدہ طور پر دی ہے ۔ انہوں نے اس کو مجبور کیا کہ وہ اس شخص سے شادی کرے جسے وہ ناپسند کرتی ہو اوراس کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ ساری عمر گھر میں محبوس ہوکررہے ۔ لیکن یہ سب کچھ صحیح دینی شعور کے فقدان کے نتیجے میں تھا۔‘‘ ( مقدمہ ص : ۱۴)
اپنےموضوع پر یقیناً یہ ایک بہترین تصنیف ہے ۔ اس کا رواں اورشستہ ترجمہ مولانا عبدالحلیم فلاحی نے کیا ہے، جو اس سے پہلےعالم عرب کے تحریکی اصحاب قلم کی متعدد کتابوں کا ترجمہ کرچکےہیں ۔ انہوںنے امیدظاہر کی ہے کہ آئندہ اس کتاب کا ہندی اور انگریزی میں بھی ترجمہ شائع کیا جائےگا۔
امید ہے ، دینی وتحریکی حلقوں میں اس کتاب کوقبول عام حاصل ہوگا اور یہ مسلمان عورت کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کودور کرنے کا ذریعہ بنے گی ۔
(محمد اسعد فلاحی )
معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
پیغام عمل
مصنف: محمد خواجہ عارف الدین
ناشر: مکتبہ علم وادب ، جامعۃ الصفۃ ،ورنگل ، آند ھرا پردیش
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ ،صفحات: ۲۵۶، قیمت:160/-روپے
جامعۃ الصفۃ ورنگل (صوبہ تلنگانہ ) کا ایک تعلیمی ادارہ ہے ، جسے ملت کی نئی نسل کوعلوم دین سے آراستہ کرنے، ان میں دعوت وتبلیغ کا جذبہ پیدا کرنے اور انہیں دینی وعصری علوم سے واقفیت بہم پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ہے ۔ اس کی تاسیس ۲۰۰۲ء میں عمل میں آئی تھی ۔ اس کے بانی جناب خواجہ محمد عارف الدین(مرکزی سکریٹری شعبۂ خدمت خلق، جماعت اسلامی ہند وسابق امیر حلقہ آندھرا پردیش ) نے اپنے رفقاء کے ساتھ اسے ترقی دینے اورپروان چڑھانے میں بھر پور جدوجہد کی ہے ۔ خواجہ صاحب کا کافی دنو ںتک یہ معمول رہا کہ وہ روزانہ بعد نماز عشاء طلبۂ جامعہ سے خطاب کر تے تھے ۔ ان خطبوں میں وہ قرآن وحدیث، سیرت نبوی، سیرت ِ صحابہ ، ائمہ ومحدثین کی زندگیوں کے حالات ، سلفِ صالحین کے واقعات کے علاوہ دنیا میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں ، عالمی سطح پر اسلامی تحریکات کے ذریعے دینی شعور کی بیداری ، نیز ملک وملت کے سماجی ، معاشی ،سیاسی اورتعلیمی مسائل پر بھی اظہار خیال کرتے تھے ۔ بعض طلبہ ان خطبوں کو نوٹ کرلیا کرتے تھے ۔ بعد میں انہی نوٹس پر نظر ثانی کرکے اوران کی زبان کودرست کرکے زیر نظر کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے ۔
ان مضامین کی ترتیب وتدوین کی خدمت مفتی تنظیم عالم قاسمی ، استاد دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد نے انجام دی ہے ۔ ابتداء میں مصنف، مرتب اورجناب ظفر عاقل، صدر جامعۃ الصفۃ کے قلم سے تعارفی کلمات ہیں۔پھر پچاس عناوین کے تحت مختصر مضامین ہیں۔ ان میںقرآن ، حدیث اورواقعات سیرت سے استدلال کیاگیا ہے ۔ فاضل مرتب نے دورانِ تدوین حسب ضرورت حوالے دے دیے ہیں ۔
امید ہے ، دینی وتحریکی حلقوں میں اس کتاب کو مقبولیت حاصل ہوگی اور اس سے استفادہ کیا جائے گا ۔ (محمد رضی الاسلام ندوی)
The Indian Journal of Arabic and Islamic Studies
ایڈیٹر: ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی
پتہ: مولانا آزاد آئیڈیل ایجوکیشنل ٹرسٹ، بولا پور، مغربی بنگال
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ ،صفحات: ۲۳۰، سالانہ زر تعاون:600/-روپے
زیر نظر مجلہ ہندوپاک سے عربی زبان وادب اوراسلامیات میں انگریزی زبان میں نکلنے والے رسائل و مجلات میں ایک خوش گوار اضافہ ہے ۔ اس کے ایڈیٹر ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی ذی صلاحیت نوجوان ہیں ۔ انہوںنے مدرسۃ الاصلاح ، سرائے میر اعظم گڑھ سے فضیلت کرنے کے بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ایم اے اوروہیں سے ’قرآن کریم کے چند منتخب انگریز ی تراجم (۲۰۰۱۔ ۱۹۳۰ء ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ہے ۔ پانچ سال (۲۰۱۴ء۔ ۲۰۰۹ء ) وشوبھارتی سینٹرل یونیورسٹی شانتی نکیتن ، مغربی بنگال میں اسسٹنٹ لیکچرررہے ہیں ۔ اس کے بعد سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کےشعبۂ عربی میں تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ انگریزی ، عربی اوراردو تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں اور ان میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔
ڈاکٹر اعظمی ۲۰۱۲ء سے عربی زبان میں ایک رسالہ ’ مجلۃ الہند‘ کےنام سے نکال رہےہیں ۔ اب انہوں نے ۲۰۱۶ء کے اوائل سے انگریزی زبان میں زیر نظر سہ ماہی مجلہ نکالنا شروع کیا ہے۔ یہ ایک معیاری مجلہ ہے ۔ پہلے شمارے میں مسٹر اشحم نے ہندوستان میں غیرسودی مالیات کے بڑھتےرجحان کاجائزہ لیا ہے ۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے ابن رشدکی تحریر وں کی روشنی میں مذہب اور فلسفہ کے درمیان توافق اور تعارـضـ کے پہلوؤں سے بحث کی ہے ۔ ڈاکٹر احمد ز بیر نے عربی اورتامل زبانوں کے اشتراک سے ایک نئی زبان کی تشکیل، ارتقاء اور عروج وزوال کو موـضوع بحث بنایا ہے۔قاضی اطہر مبارک پوری کے مقالہ عرب وہند کے درمیان قدیم تجارتی تعلقات اورمولانا ابوظفر ندوی کے مقالہ’ مسلم عہد میں گجرات کے دینی مدارس‘ کے انگریزی تراجم بھی شامل ہیں۔اسی طرح دوسرے شمارے میں پروفیسر الطاف احمد اعظمی کا مقالہ ’اسلام کا تصور جہاد‘ ، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کامقالہ ’یروشلم ۔ ماضی اورحال‘ جناب محمد اشفاق حسین کا مقالہ ’ اسلامیات میں مولانا صدر الدین اصلاحی کی خدمات‘ اور’اسلام میں پردہ‘ کے موضو ع پر علامہ شبلی کے مضمون کا ترجمہ شامل ہے ۔ دونوں شماروں میں دیگر متعدد مقالات ، کتابوں پرتبصرےاورسیمیناروں کی رپورٹیں شامل ہیں۔
ہم اس مجلہ کا استقبال کرتے ہیں۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اسے پذیرائی حاصل ہوگی۔
(محمد رضی الاسلا م ندوی)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2017