نام کتاب : انسان اور اس کے مسائل
مصنف : مولانا سید جلال الدین عمری
صفحات : 96، قیمت: 40 روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی-۵۲
زیر نظر کتاب مولانا سید جلال الدین عمری کی مشہور و مقبول تصانیف میں سے ہے، یہ اس کا نیااور نواں ایڈیشن منظرعام پر آیاہے۔ یہ اگرچہ مولانا موصوف کی ابتدائی کتابوں میں سے ہے، لیکن اپنے مباحث کی اہمیت اور پُرزور انداز بیان کی وجہ سے دعوتی لٹریچر میں اہم مقام کی حامل ہے۔ پاکستان سے بھی اس کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ انگریزی ، ہندی اور بعض دیگر علاقائی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوچکے ہیں۔
موجودہ دور کا انسان نت نئے مسائل میں گھرا ہواہے۔ ان میں روٹی، کپڑا، مکان، جان، مال، عزت وآبرو، تہذیب و معاشرت اور جنگ وامن کے مسائل اہم ہیں۔ غور کیاجائے تو ان تمام مسائل کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے بارے میں کیا سوچتا اور اپنے اردگرد کی دنیا کے متعلق کیا نظریہ قائم کرتاہے؟ دوسرے انسانوں کے ساتھ وہ کن بنیادوں پر معاملہ کرے؟ اور کاروبارِ زندگی میں وہ کس قانون کاپیرو ہو؟ ان مسائل کو درج ذیل تین جامع الفاظ میں سمیٹا جاسکتاہے : نظریات، سماجی تعلقات اور قانون۔ اسلام ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے، زیر نظر کتاب میں تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ابتدا میں عقائد و نظریات کے ذیل میں شرک اور مادیت کے تصورات کاتجزیہ کرکے ان کی غیرمعقولیت واضح کی گئی ہے اور اسلام کے عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت کی تفصیلات پیش کرکے یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ اس کائنات میں انسان آزمائش اور امتحان کی حالت میں ہے۔ یہاں وہ جیسے کام کرے گااس کے مطابق دوسری دنیا میں جزا یا سزا پائے گا۔ انسانی تعلقات کے ضمن میں تصورات کاتذکرہ کرکے ان کی محدودیت اور نقص کو طشت ازبام کیاگیاہے اور ان کے مقابلے میں وحدتِ انسانیت، مساوات، عدل وانصاف، ہم دردی اور مواسات کی اسلامی اقدار کا تفصیل سے تعارف کرایاگیاہے۔ پھر انسانی قوانین کی خامیوںاور کمزوریوں کاتجزیہ کرتے ہوئے اسلامی قانون کی ہمہ گیری اور اس کی کامیابی کے امکانات سے بحث کی گئی ہے۔
معترضینِاسلام اسے ایک فرسودہ نظام قرار دیتے ہوے کہتے ہیں کہ تاریخ کے کسی دور میں اگر اسلام نے تہذیب و ثقافت کے میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیابھی ہو تو اب اس نے اپنی افادیت کھودی ہے۔ مولانا نے اس اعتراض کا بھرپور جائزہ لیاہے اور واضح کیا ہے کہ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے ۔ وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی وہ اگر تاریخ کے ایک دورمیں نافذالعمل رہ چکاہے تو آئندہ بھی اس کے امکانات پوری طرح موجود ہیں۔ کتاب کے آخر میں ’’بغاوت کیوں؟‘‘ کے عنوان سے ان اسباب کا جائزہ لیاگیاہے جو قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مصنف نے فلسفیانہ اندازبحث اور دقیق فنّی اصطلاحات سے اجتناب کیاہے۔ اسلوب اتنا شستہ اور رواں ہے کہ صفحات کے صفحات پڑھتے چلے جائیے، ذرا بھی پیچیدگی یا ابہام کا احساس نہیں ہوگا۔
یہ کتاب غیرمسلموں کے درمیان اسلام کے تعارف اور مسلمانوں کے لیے حقیقی اسلام کے فہم، دونوں مقاصد کے لیے مفید اور موثر ہے۔
﴿ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی﴾
نام کتاب : برصغیرمیں مطالعۂ قرآن
مصنف : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
صفحات : ۴۲۶، قیمت: ۱۶۰روپے
ناشر : اسلامک بک فائونڈیشن نئی دہلی
قرآن فہمی کے حوالے سے برصغیر ہند و پاک کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں متعدد جید علماء نے قرآن کی تفسیر و تشریح میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور بعض تفسیری رجحانات کی داغ بیل ڈالی ہے۔ جیسے سرسیداحمدخاں اور مولانا حمیدالدین فراہی الگ الگ تفسیری رجحانات ہیں۔ عربی زبان میں بھی یہاں قابل قدر تفسیری کاوشیں ہوئی ہیں۔ قرآن میں حروف مقطعات ایک مستقل موضوع ہے، ان کے بارے میں الگ الگ آراء ہیں۔ بعض ہندستانی مفسرین نے قرآن فہمی میں کلام عرب سے استشہاد و استفادہ پر زور دیاہے۔ ضرورت تھی کہ ان سب کا مطالعہ کرکے قرآنیات سے متعلق مختلف کاوشوں کی قدرو قیمت متعین کی جائے۔ زیر تبصرہ کتاب اسی ضرورت کی تکمیل کرتی ہے ۔
یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں سرسید احمد خاں کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر اس کے اثرات کاجائزہ لیاگیاہے، باب دوم میں دو مقالات ہیں۔ ایک مقالے میں بیسویں صدی میں عربی زبان میں تفسیر و علوم قرآنی کے میدان میں ہونے والے کاموں کا تعارف کرایاگیاہے، جب کہ دوسرے مقالے میں بیسویں صدی میں لکھی جانے والی تفاسیر میں حروف مقطعات کے مباحث پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب سوم میں چند مشہورعلماے کرام:علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولاناصدرالدین اصلاحی کی تفسیری خدمات کے بعض پہلوؤوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، چوتھے اور آخری باب میں قرآنی موضوعات پر گزشتہ دودہائیوں میں شائع ہونے والی بعض اہم تصانیف کاجائزہ لیاگیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب بیسویں صدی میں برصغیر کی تفسیری کاوشوں ورجحان کے جائزے پر ایک قابل قدر کوشش ہے۔
اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف مندرجہ بالا موضوعات کاجائزہ پیش کیاگیاہے، بل کہ ان کامحاکمہ بھی کیاگیاہے۔ مثال کے طورپر سرسیداحمد خاں کی تفسیرالقرآن پر جواعتراضات کیے جاتے ہیں، ان کی صحیح نوعیت کیاہے؟ اس تفسیر کے زمانۂ تالیف میں اس کی تالیف کے کیا مقاصد تھے اور موجودہ زمانے میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ اسی طرح تفسیر قرآن میں کلام عرب سے استشہاد کی کتنی گنجایش ہے اور بعض علماء نے اس میں کیا بے اعتدالیاں کی ہیں؟ حروف مقطعات کے بارے میں مختلف آراء میں کون سی رائے زیادہ مناسب اور فہم قرآن میں ممدومعاون ہے؟ بیسویں صدی کی جن شخصیات کی قرآن فہمی کاحوالہ آیاہے ان کے منہج کی کیا اہمیت ہے اور اس کی کیا حدود ہیں؟۔
فاضل مصنف برصغیر کی ایک معروف شخصیت ہیں، ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی کے سینئر رکن ہونے کے ساتھ اس کے ترجمان تحقیقات اسلامی کے مدیر معاون بھی ہیں، اسلامیات پر موصوف کی درجنوں تصانیف شائع ہوچکی ہیں، کچھ دنوں قبل ’’نقدفراہی‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب نے علمی دنیا میںہلچل پیدا کردی تھی۔ ان شاء اللہ یہ کتاب بھی دینی و علمی حلقوں میں مقبول ہوگی۔
﴿مولانامحمد جرجیس کریمی﴾
نام کتاب : عکسِ خیال
مصنف : مجیب بستوی
صفحات : ۲۷۲ ٭قیمت : ۱۵۰ روپے
ناشر : انجمن افکارِ ادب اردو،سمریاواں بازار ، ضلع سنت کبیر نگر،یوپی
جناب مجیب بستوی مشرقی یوپی کے ایک بزرگ سال شاعر ہیں۔ وہ کم و بیش نصف صدی سے شعرو سخن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اب تک ان کے چھوٹے بڑے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ’’عکس خیال‘‘ میں مجیب بستوی کی نعتیں بھی شامل ہیں اور غزلیں بھی۔ اس کتاب کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ اس میںحضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ ، قاضی عدیل عباسی، ڈاکٹر سلام سندیلوی، مولانا عبدالحفیظ رحمانی اور مولانا صادق بستوی جیسے اہل علم ودانش کی رائیں بھی شامل ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2011