نام كتاب : مہر و محبت جس کی شان !
مصنف : مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۷ء،صفحات: ۳۸۴، قیمت: ۳۰۰؍روپے
عصر حاضر میں امت مسلمہ جس فکری انتشار،اخلاقی گراوٹ، سیاسی اور معاشی بدحالی کی شکار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ جب تک یہ امت نبی آخر الزماں ﷺ کی سیرت اور آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا تھی اس وقت تک اس کی عظمت اور شان وشوکت ضرب المثل تھی۔دور جدید میں مسائل کا حل سیرتِ رسول ﷺہی سے نکالا جاسکتا ہے ۔ آپ ؐ کی حیات طیبہ تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ ہے ۔ جب تک اس کا مطالعہ نہ کیا جائے اس وقت تک اسلام کو نہیں سمجھا جاسکتا ۔ دور نبوت سے لے آج تک سیرت کے ہر پہلو پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔دور جدید میں برصغیر میں سیر ت رسول ﷺ پر منفرد انداز سے لکھنے والوں میں مولانامحمد عنایت اللہ سبحانی کانام نمایاں ہے۔ سیرت پر ان کی ایک کتاب’محمد عربی‘ ہند وپاک میں مشہور و معروف ہے ۔ سیرت پر ان کی ایک دوسری کتاب ’ جلوئہ فاراں ‘ بھی بہترین تصنیف ہے۔ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے حال میں ان کے قلم سے ایک نئی تصنیف ’مہر ومحبت جس کی شان !‘ منصّہ شہود پر آئی ہے، جو تزکیری پہلوؤں سے مزین ہے ۔مصنف نے بڑی دل سوزی کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’آج اقوام عالم کے ذہنوں میں آپؐ کی جو تصویر بنی ہوئی ہے، وہ پیار و محبت سے بھری ہوئی اس تصویر سے بالکل مختلف ہے جو تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے ۔ ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم عملی زندگی میـں رحمت عالم ﷺ کے سچے پیرو بنیں اور اپنے طرز عمل سے لوگوں کو آپ ؐ کی شفقت و رحمت اور آپ ؐ کی شان کریمی کے مشاہدے کرائیں ۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض اور اپنی ذمے داریوں کا صحیح شعور پیدا کریں اور ان سے عہدہ بر آہونے کے لئے منصوبہ بند جدوجہد کریں !‘‘
زیر تبصرہ کتاب سینتیس( ۳۷ )دل کش عناوین پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند عناوین یہ ہیں : ’’وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی ‘‘، ’’ماہ رسالت طائف کی گلیوں میں‘‘ ،’’ وہ رحمت جو کوہ ہمالیہ سے بھی بلند تھی‘‘ ، ’’ شعب ابی طالب کے تین سال‘‘ ،’’ اللہ رے وسعت تیرے دامانِ کرم کی !‘‘،’’گورنروں کا انتخاب رعایا کے لیے‘‘ ،’’عورتوں کو نئی زندگی ملی !‘‘ ، ’’عورتوں اور مردوں کو یکساں عزت دی ‘‘، ’’غلاموںکے لیے فکر مندی ‘‘،’’حالت جنگ میں بھی الفت کا درس دیا ‘‘،’’ تر بیت کا مشفقانہ انداز‘‘،’’ جنگوں کا مقصد تشدد نہیں ‘‘،’’ اسلام کے مستقبل کے لیے فکر مندی‘‘ وغیرہ ۔ان مضامین کو پڑھ کر قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دربار نبوت ﷺ کی محفلوں سے براہ راست فیض یاب ہورہا ہے۔
کتاب کا اسلوب نہایت دل چسپ ،انداز بیان نہایت ایمان افروزہے ۔ مزید یہ کہ مصنف نے ہر واقعے کو ناصحانہ انداز میں پیش کیا ہے، جس سے کتاب کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے ۔امید ہے کہ اس کتاب سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا ۔
(مجتبیٰ فاروق )
رکن ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
نام كتاب : تربیت کے فکری و عملی پہلو
مصنف : مولانا محمد فاروق خاں
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزدہلی
سنہ اشاعت : ۲۰۱۷، صفحات :۷۲؛ قیمت ۳۶ روپے
دعوتِ دین ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے، لیکن اُسے وہی شخص بخوبی انجام دے سکتا ہے جو اس کی مبادیات اور مصادر و مراجع کا علم رکھتا ہو ۔ اس کے ساتھ ایک مسلمان پر یہ ذمہ داری بھی عائدہوتی ہے کہ وہ جس چیز کی طرف دعوت دے رہا ہو اس کی تربیت سے لیس ہو ۔ اس تعلق سے مولانا محمد فاروق خان صاحب کی زیرِ نظر کتاب ’تربیت کے فکری و عملی پہلو‘ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب گیارہ (۱۱) مضامین پر مشتمل ہے جو مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں ۔ پہلا مضمون ’ رجوع الی ٰ اللہ ‘ کے عنوان سے ہے ۔اس میں مولانا نے مدلّل انداز سے مقصد زندگی کی وضاحت کی ہے۔انہوں نے لکھا ہےکہ زندگی کا مرکزی مـحور اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ و ہی ہماری زندگی کی اصل منزل ہے ۔ ہماری ساری دوڑدھوپ اور جدوجہد اسی کے لیے ہونی چائیے ۔ دوسرا مضمون ’ تفسیر قرآن کے اصول ‘ کے نام سے ہے ۔ یہ مضمون کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں مصنف نے علامہ حمید الدین فراہیؒ کے اصول تفسیر سے متعلق تحریروںکو سراہا ہےاور کہا ہے کہ انھوں نے جتنا بھی کام کیا ہے وہ نہایت معیاری ، سائنٹفک اور قابل قدر ہے ۔ تیسرے مضمون کا عنوان ـ’ حکمت قرآن ‘ ہے ۔اس میں انھوں نے حکمت کی تعریف اور اس کے ذرائع پر جامع گفتگو کی ہے ۔ ’تزکیہ اور اس کے ذرائع و سائل‘ عنوان کے حامل مضمون میں مولانا نے سورہ ٔالبقرۃکی آیت رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ دین میـں اصل مقصود تزکیۂ نفس ہے۔ اس کے بعد آدمی ایسے کردار کا حامل ہوجاتا ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے، نیزاطاعتِ امر میں وہ کبھی پیچھے نہیں رہ سکتا اور نہ اس کے علم و فکر اور عمل و کردار میں کسی قسم کی تنگی باقی رہ سکتی ہے ۔ ایک مضمون’ توحید اور مسائل حیات ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے واضح کیا ہےکہ توحید کو انسانی زندگی میں زبردست اہمیت حاصل ہے ۔ یہ اپنے اندر آٖٖفاقی ذہن عطا کرنے کی قوت رکھتی ہے، اس کے ساتھ یہ انسان کو کشادہ دامن بھی بناتی ہے ۔’انسانی زندگی کے تین بنیادی عناصر ‘ کے عنوان سے ایک اوردلکش مضمون ہے، جس میں زندگی کے تین اہم پہلوؤںـ پر گفتگو کی گئی ہے ۔کتاب میں ایک اورعمدہ مضمون ’ہندوستان میں اشاعت اسلام کی تاریخ ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں مصنف نےتفصیل سے بتایا ہے کہ اشاعتِ اسلام کے تعلق سے کس طرح سے ہندوستا ن میں صحابۂ کرام ، تاجروں، صوفیوں اور علما ء نے ابتدائی کوششیں کیں ۔انھوں نے ان سبھی جگہوں کا تذکرہ کیا ہے جہاں اسلام تیزی سے پھیلا، جن میں سندھ ، مالابار، مالدیپ، دکن ،وسطی ہند ،پنجاب ، گجرات ، کشمیر ،بنگال اور آسام قابل ذکر ہیں ۔مضمون میں لکھا گیا ہے کہ سید علی ہمدانیؒ سات سیدوں کے ہمراہ ایران سے تشریف لاکر کشمیر میں سکونت پزیر ہوئے ۔ صحیح یہ ہے کہ وہ سات سو(۷۰۰) سیدوں کے ساتھ کشمیر تشریف لائے تھے ۔ اس کے بعد’ خیر امت‘،’وحدت امت ‘اور ’دعوت اسلامی‘ کے عناوین سے تین ایسے مضامین ہیں جن میں امت کے فرض منصبی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان مضا مین میں واضح کیا گیا ہے کہ دعوت اور شہادتِ حق کا کام حقیقت میں کار نبوت ہے ، اس سے عظیم تر کام کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ قوی امید ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد اس کتاب سے فائدہ اٹھائیں گے۔
(مجتبیٰ فاروق )
رکن ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
نام كتاب : چند ہندوستانی مذاہب
مصنف : مولانا محمد فاروق خاں
ناشر : مرکز ی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۷ء صفحات: ۲۴۰، قیمت ۲۰/-روپئے
علمی دنیا میں مولانا محمد فاروق خاں کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے ۔ موصوف تحریک اسلامی کے ان مخلص کارکنوں میںسے ہیں ، جنہوں نے تحریک اسلامی کے لیے اپنی زندگیوں کووقف کررکھا ہے۔ موصوف نے اردو اورہندی زبان میں اپنی بیش قیمت تصانیف کے ذریعہ اسلامی لٹریچرمیں گراںقدر اضافہ کیا ہے ۔ انہوںنے اسلام کے مختلف موضوعات پر چار درجن سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا ہندی زبان میں ترجمہ ہے۔
پیش نظر کتاب ہندوستانی مذاہب کو جاننے ، سمجھنے اوران کا تعارف حاصل کرنے کے لیے بہت اہم ہے ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے ہندوستان کے چار مذاہب (ہندو دھرم، بودھ دھرم، جین دھرم، اورسکھ دھرم ) کا مختصر تعارف کرایا ہے۔یہ کتاب جہاں عوام الناس کے لیے قیمتی معلومات فراہم کرتی ہے وہیں خصوصی طور پر ملک عزیز میں دعوت اِلی اللہ کا کام انجام دینے والوں کے لیے بھی بہت مفید ہے ۔ کتاب کی اس خصوصیت اورافادیت کی جانب فاضل مصنف نے بھی اشارہ کیا ہے :’’ ہم نے اس کتاب میں چند بڑے اوراہم ہندوستانی مذاہب کا تعارف کرایا ہے اوردکھایا ہے کہ وہ اپنے نظریات اوراعمال کے لحاظ سے کس قدر خدا کے نازل کردہ دین سے بہت دور جاپڑے ہیں ۔ ان میں دعوتی کام کرنے کے لیے ان کے دین ومذہب سے واقفیت ضروری ہے ۔‘‘ (پیشِ لفظ)
کتاب کی اہمیت وافادیت کے اعتراف کے ساتھ تشنگی کے احساس کا اظہار بے جا نہ ہوگا۔ فاضل مصنف نے صرف ہندو دھرم کے تعارف کے ساتھ آخر میں اس کے بعض نقائص وعیوب کوبھی واضح کیا ہے ۔ اگر یہ اندازوہ تمام مذاہب کے ضمن میں بھی اختیار کرتے تو یقیناً حق کی آواز بلند کرنے والوں کے لیے مفید رہ نمائی فراہم ہوتی۔
(محمد اسعد فلاحی)
تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
نام كتاب : خطوط زنداں
مرتب : ڈاکٹر ذکی طارق
ناشر : مرکز ی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۷ء صفحات: ۴۸، قیمت ۲۸/-روپئے
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جب بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں نے احکامِ اِلٰہی کواپنے سینوں سے لگا کر شہادتِ حق کا فریضۂ انجام دیا ہے ، فرعونی نظریات کے حاملین نےان کومختلف قسم کی اذیتوں میں مبتلا کیا ہے ۔ کبھی انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تو کبھی تختۂ دار پر لگادیا گیا ، لیکن اللہ کے ان نیک بندوں نے اپنے فریضۂ حق سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اوروقت پڑنے پر دین حق کی سربلندی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی اللہ کے حضور پیش کردیا۔
جان دی ، ہوئی اسی کی تھی
حق تویہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
بیسوی صدی عیسوی میں شہادت حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے اسلامی تحریکیں وجود میں آئیں۔ عالم عرب میں اخوان المسلمون اوربرصغیر ہند میں جماعت اسلامی ۔ دونوں تحریکوں نے اقامت دین کواپنا نصب العین قرار دیا اوراسی پر جم گئے اور پھر آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ آج بھی جاری ہے۔
زیر نظر کتاب جناب متین طارق باغپتی کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جوانہوں نے ایمرجنسی (۱۹۷۵ء) کے د وران جیل میں رہتے ہوئے اپنے اہلِ خانہ ، دوست احباب اورسیاسی لیڈران کولکھے تھے۔
جناب متین طارق باغپتی جماعت اسلامی ہند کے ایک مخلص رکن تھے ۔۱۹۷۵ء میں جب جماعت پر پابندی عائد کردی گئی اورتحریک کے تمام کارکنان کوجیل میں بھیجا گیا تو ان میں متین صاحب بھی شامل تھے۔ موصوف نے آزمائش کے دور میں جس جواں مردی کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً لائق تحسین ہے۔ انہوںنے نہ صرف خود استقامت اورصبر کا مظاہرہ کیا ، بلکہ دوست احباب اوراہلِ خانہ کوبھی اس کی تلقین کی ۔ ایک خط میں موصوف اپنے بیٹے ذکی کولکھتے ہیں: ’’پیارے بیٹے! دنیا میں دین حق کے قیام کے لیے ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا۔ راہِ حق وصداقت کے مسافروں کومصائب وابتلا ، قید وبند اور دارورسن کے مقامات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ انبیا ء کی سنت ہے اس لیے ایک ایسے شخص کو، جس نے اس راہ میں قدم رکھا ہے ، ان ابتلاؤں کو برداشت کرنا چاہیے‘‘۔ ( ص ۲۴)
اس کتاب کا مطالعہ تحریک سے وابستہ افراد کو اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ یہ تحریک کوئی معمولی تحریک نہیں ہے ۔ اس کا مقصد اقامت دین ہے ۔ یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ تحریک اسلامی کی ایک روشن تاریخ ہے۔ اس کی آزمائش کل بھی ہو ئی تھی ، آج بھی ہورہی ہے اور آئندہ بھی ہوگی ۔ تحریک سے وابستہ ہر فرد کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ وابستگان تحریک کو انبیاء کی سیرت کے مطالعے کے ساتھ آزمائش کا شکار ہونے والے اللہ کے نیک بندوں کی زندگیوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے ۔ اس سے انہیں دین کی راہ میں استقامت، صبر اور ثابت قدمی کا حوصلہ ملےگا۔ ان شاء اللہ۔
(محمد اسعد فلاحی)
نام كتاب : دستورِ زندگی ( خوش گوار زندگی گز ارنے کے سنہرے اصول)
مصنف : عبدالعظیم رحمانی سلکا پوری
ناشر : القاء پبلیکیشنز ، ممبئی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ء، صفحات:۲۲۴، قیمت ۱۵۰/-روپئے
زندگی کیا ہے ؟ کیسے گزاری جائے ؟ اور اس کا کیا مقصد ہے ؟ اس کے بارے میں ماہرین اور دانش وروں کے خیالات ونظریات مختلف ہیں ۔ ہر ایک نے اپنے فکری رجحان کے مطابق اس دنیا کی حقیقت بتانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے مطابق یہ دنیا دارالعذاب ، دارالجزا، تفریح گاہ اوررز م گاہ ہے ۔
اہل ایمان کی نظر میں یہ دنیا امتحان گاہ ہے ۔ وہ اسی نقطۂ نظر کے مطابق اس دنیا کی زندگی کوگزارتے ہیں اورآخرت کے لیے زاد ِ راہ تیار کرتے ہیں ۔ زندگی کوصحیح طریقے سے گزارنے کے اصول وضوابط پر مختلف کتابیں موجود ہیں ۔ ان میں(۱) آداب زندگی (مولانا محمد یوسف اصلاحی)(۲) رازِ حیات اور (۳) اسلامی زندگی (مولانا وحیدالدین خاں) (۴) مقصد زندگی کا اسلامی تصور (ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری) (۵) شاہ راہ زندگی پر کام یابی کا سفر (محمد بشیر جمعہ) خاص طور پر قابل ملاحظہ ہیں۔
زیرِ نظر کتاب ’ دستورِ ,زندگی ‘ عبدالعظیم رحمانی ملکا پوری کی پہلی باقاعدہ کاوش ہے ۔ اس میں انہوں نے زندگی کے مختلف گوشوں اورشعبوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کومختصر طور پر پیش کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے :(۱) تصورِ زندگی (۲) خوش گو ار زندگی (۳) اسلامی زندگی ( ۴) خانگی زندگی ( ۵) الوداع، اے زندگی ۔ اس طرح ادوارِ زندگی سے اختتام زندگی تک کے سفر میں آدمی کو زندگی کوبہتر اوراللہ ورسول کے بتائے اصولوں کے مطابق گزارنے کے لیے جن باتوں اور جن چیزوں کا علم ہونا ضر وری ہے وہ سب مصنف کتاب نے قرآن مجید کی آیات، احادیث نبویؐ، سیرت نبوی ، صحابہ اور سلف صالحین کے اقوال، مفکرین ودانش وروں کے علمی بیانات ، محققین کے فکر ی و علمی فن پاروں، تجربہ وتجزیہ ، غرض کہ زندگی سے متعلق جوکچھ دست یاب ہوسکا ہے اس کا ایک حسین گل دستہ سجا کر قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
جناب عبدالعظیم رحمانی بنیادی طور سے معلّم ہیں ۔ وہ درس وتدریس کے علاوہ دینی، تعلیمی اوراصلاحی مضامین اور مراسلے بھی لکھتے رہتےہیں۔ سماجی اوررفاہی کاموں سے بھی انہیں دل چسپی ہے ۔فی الوقت اسلامک مراٹھی پبلی کیشن ٹرسٹ کے سکریٹری ہیں ۔
کتاب پر جناب خان حسنین عاقب نے تقریظ لکھی ہے ۔ انہوںنے کتاب کا تفصیلی تعارف کرایا ہے ۔
غلطی کا احتمال ہر جگہ رہتا ہے اورلوگوں کا اپناالگ الگ اور جدا جدا اسلوبِ بیان ہے ۔ کتاب عمدہ اور قابل مطالعہ ہے ۔ عملی زندگی میں اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اس کی پزیرائی ہونی چاہیے۔
عبدالحیّ اثری
ڈی ۳۰۷، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی۔۲۵
نام كتاب : محبت نامے
مرتب : ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی
ناشر : ادبی دائرہ ، اعظم گڑھ
سنہ اشاعت: ۲۰۱۷ء صفحات:۳۰۴، قیمت ۳۰۰/-روپئے
خطوط نگاری ایک قدیم فن ہے ۔ اردو زبان میں اس فن کومعراج عطا کرنے والے مرزا اسد اللہ خان غالب ہیں۔ خطوط جہاں شخصیت کے آئینہ دار ہوئے ہیں وہیں اپنے وقت اورحالات کے ترجمان بھی ۔ خطوط میں دو شخصی معاملاتِ واقعات ، حادثات اور دِلی کیفیات کا عکس نمایاں ہوتا ہے ۔ خطوط ذاتی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں اورادبی بھی ۔خطوط ادبی ، سیاسی ، سماجی اورمعاشی موضوعات کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی لکھے گئے ہیں۔ انوکھے طرزِتخاطب ، نرالے اندازِ بیان ادبی رچاؤ اورگوں نا گوں خصوصیات کی بنا پر غالب کے خطوط مشہور ہیں ۔ اس کے علاوہ جگر کے خطوط، صحرا نورد کے خطوط، علی سردار جعفری کے خطوط، جوش ملیح آبادی کے خطوط اور پطرس بخاری کے خطوط اپنی معنویت اور عصری اہمیت کی روشن دلیل ہیں۔اسی طرح مولوی سید عبدالغفور شہباز کے خطوط کا مجموعہ ’ نامۂ شوق‘ ذاتی خطوط کی مثال ہیں۔
’محبت نامے‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے مرتب کردہ علمی اورا دبی خطوط کا مجموعہ ہے ۔اس میں ہندو پاک کی ستر (۷۰) دینی ، ملّی، سماجی اور ادبی شخصیات کے خطوط شامل ہیں ۔ ان میں سے کچھ عالمی شہر یافتہ ہیں اور کچھ ملکی ۔ کچھ شخصیات ابھی حیات ہیں اور کچھ وفات پا چکی ہیں ۔ ان نام ور لوگوں میں ڈاکٹر آدم شیخ ، ڈاکٹر آذر می دخت صفوی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی، پروفیسر اشتیاق احمد ظلی، پروفیسر اصغر عباس، مولانا سید جلال الدین عمری، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر خلیق انجم ، پروفیسر خورشید احمد نعمانی ، نواب رحمت اللہ خاںشروانی ، پروفیسر ریاض الرحمن شروانی، سید حامد ، شارب ردولوی ، شمس الرحمن فاروقی ، پروفیسر عبدالحق ، پروفیسر عبدالستار دلوی ، پروفیسر کبیر احمد جائسی ، محبوب الرحمن فاروقی ، مولانا محمد رابع حسنی ندوی ، پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی ، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ، سید منصور آغا اورڈاکٹر ہاشم قدوائی قابل ذکر ہیں۔
شبلی شناسی کےمیدان میں ڈاکٹر الیاس الاعظمی کوشہرت حاصل ہے ۔ اس موضوع پر ان کی اب تک تقریباً درجن بھر کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ تحقیق تدوین کے میدان میں بھی ان کی کچھ کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔ زیر نظر کتاب در اصل ان کے نام اہلِ علم کے خطوط کا انتخاب ہے ۔ انہیں تقریباً پینتیس (۳۵) برسوں میں مختلف علمی ، ادبی اورملّی شخصیات سے خط وکتابت کا موقع ملا۔ یہ کتاب انہی خطوط کا انتخاب ہے ۔ چند خطوط ایسے ہیں جوخالص علمی ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک خط میں لکھا گیا ہے : ’’آپ نے (اور مقتدر معاصر’ معارف‘ نےبھی )ہمزہ کوتقریباً دیس نکالا دے دیا ہے ۔ لطف یہ ہے کہ جہاں ہمزہ اردو کے قاعدے سے غلط ہے وہاں ہمزہ ضرور دیا گیا ہے ۔ ذیل کوملاحظہ کریں: مجموعۂ نظم شبلی ، سفر نامۂ روم ومصر وشام، ہدیۂ سلیمانی ، سر مۂ سلیمانی ، فلسفۂ جدیدہ، تلامذۂ شبلی، مندرجہ بالا تمام تراکیب میں ہمزہ اضافت غائب ہے‘‘۔ ’’آپ نے انشاء پردازی ‘‘ لکھا ہے ، حالاں کہ یہ کوئی لفظ ہی نہیں ہے ۔ اسی طرح جگہ جگہ ’معرکہ آراء ‘ لکھا ہے‘‘ ۔(شمس الرحمن فاروقی کے خطوط سے ماخوذ)۔ اس مجموعۂ خطوط میں متنوّع خطوط شامل ہیں۔کچھ کی حیثیت ذاتی ہے ، کچھ خط برائے خط ، کچھ خط برائےاطلاع احوال وکوائف اورخیریت طلبی، کچھ کی حیثیت خط کے جواب میں خط یعنی رسمی ہے ۔ زیادہ تر خطوط مرتب کی کتاب کی وصولی کے بعد بہ طور تشکر اور آگاہی لکھے گئےہیں ، البتہ ان میں سے کچھ اہم ا ور معلوماتی خطوط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک خط مولانا اسیرادروی کا ہے ، جس کا عکس مرتب نے کتاب میں شامل کیا ہے ۔ اگر کچھ اور لوگوں کے خطوط کا عکس بھی دے دیاجاتا تو بہتر ہوتا ۔توقع ہے کہ ادبی حلقوں میں اس کتاب کوقدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔
خان محمد رضوان
دہلی یونیورسٹی دہلی ،
Mob:9810862783
نام كتاب : بندۂ ’مولا صفات‘ مولانا آر عبد الرقیب
مصنف : محمد عبد اللہ جاوید
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹر بیوٹرس، نئی دہلی ۔110025
سنہ اشاعت: ۲۰۱۷ء صفحات:۸۰، قیمت ۶۰/-روپئے
تحریکات اسلامی کا اصل سرمایہ وہ بندگان خدا ہیں جنہوںنے اپنی جان ومال کوخدا کی مرضی کے حصول کے لیے لگادیا ہے۔ ایسے چیدہ افراد کی تابناک زندگیوں کا مطالعہ بہت سے طالبانِ حق کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتا ہے ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ جب اسلاف کا نمونہ عصر حاضر میں میسر آجائے تو اس کی اثر انگیزی بہت سوں کی زندگی کا رُخ پلٹ دیتی ہے۔
جماعتِ اسلامی ہند کی تاریخ میں ایسے بہت سے بزرگ گزرے ہیں جن کی حیات وخدمات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔ مثلاً مولانا ابواللیث اصلاحیؒ ندوی، مولانا صدر الدین اصلاحیؒ، ڈاکٹر ضیاء الہندیؒ وغیرہ ۔ ماضی قریب میں رحلت کرجانے والے بعض بزرگانِ تحریک کی زندگی کے حالات جاننے کی عرصۂ دراز سے تمنا تھی ۔ انہیں میں ایک شخصیت مولانا آر عبدالرقیب ؒ بنگلور کی ہے، جن کا انتقال ڈھائی برس قبل ہوا۔ جناب عبداللہ جاوید صاحب (سابق جنرل سکریٹری ایس آئی او) نےان کی حیات کے چند گوشوں سے تحریکی رفقا ء کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔
جناب آر عبدالرقیب ؒؒ کے تذکرہ کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے محترم عبداللہ جاوید صاحب رقمطراز ہیں’’ ایک ایسی ہی دلنواز شخصیت کا تذکرہ کیا جارہا ہےجوبس اپنے شہر اورحلقہ ومرکز کے کچھ افراد تک تھی‘‘۔ (ص :8) محترم مصنف کا یہ احساس بڑی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ واقعتاً مولانا عبدالرقیب ؒ کوئی معروف شخصیت نہ تھے۔ لیکن اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے۔
اس کتاب کے شروع میں مصنف نے مولاناکی زندگی کے ابتدائی حالات ، جماعت سے وابستگی اور تحریکی خدمات کا تذکرہ کرایا ہے ۔ اس تذکرۂ خیر کے دوران مصنف اس احساس کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’تحریک میں ایسے لوگوں کی نہ صرف قدر ونی چاہیے جنہوںنے ناسازگار حالات میں تحریکی کاز کو آگے بڑھایا ہے بلکہ ان کے اوصاف کووابستگانِ جماعت میں پروان چڑھانے اورانہی کے جیسا تحریک کا سچا خیر خواہ بنانے کی شعوری کوشش ہونی چاہیے ۔ (ص :18)
کتاب میں مولانا عبدالرقیبؒ کی حیات وخدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا کی زندگی کے بعض اہم کارناموں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً ص 26 پر ایک سُرخی کا یہ ہے کہ ’’قبضے کا منصوبہ ناکام کردیا ‘‘۔ اسی طرح مولانا ؒ کی بعضـ دعوتی ملاقاتوں کا بھی مختصراً کر ذکر کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں مولاناؒ کے معراج اور کردار پر گفتگو مولاناؒ کے قریبی رفقاء کے حوالے سے کی گئی ہے ۔ اسی طرح ایمرجنسی کےدور میں جب مولاناؒ حوالۂ زنداں کردیے گئے تو اس نازک موقع پر ان کے صبر وتحمل ،ہنر، توکل علی اللہ کا تذکرہ بخوبی کیا گیا ہے۔ مولانا ؒ کے داعیانہ کردار، ذوقِ مطالعہ اورنظم وضبط کی پابندی کا ذکر بہت سے وابستگان کے لیے باعثِ تحریک ہے ۔
کتاب کے ایک حصے میں افادات رقیب کے عنوا ن سے مولاناؒ کی ذاتی ڈائرو ںکا ذکر کیا گیا ہے جس سے موصوف کے علمی ذوق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس ڈائری کا ایک حصہ اس کتاب میں جوں کا توں نقل کردیا گیا ہے جس میں منتخب قرآنی آیات اورافراد تحریک کے لیے خطوط اور احادیث ہیں ۔ کتاب کے آخر میں مصنف یہ اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ ’’ تحریک میں ایسے مخلص لوگوں کے آگے بڑھنے کی راہیں محدود ہوجاتی ہیں ، اس کےبرعکس ان کے راستے ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں جواپنے آپ کوپیش کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ (ص:77)
کتاب میں ابواب کی تقسیم کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔ کتاب کو ’’ابتدائی حالات‘‘ ’’تحریکی خدمات‘‘ اور’’افادات رقیب‘‘ جیسے ابواب میں منقسم کیا جاسکتا ہے ۔مطالعہ کے دوران بعض مقامات پر پروف کی غلطیاں باذوق قاری کی طبیعت پرگراں گزرتی ہیں۔ علاوہ ازیں بعض جگہ موضوعات کی تکرار کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ امید ہے کہ یہ کتاب تحریکی حلقوں سے دادِ تحسین حاصل کرے گی اور مصنف کے درجات کی بلندی کا باعث ہوگی۔ انشاء اللہ ۔
محمد معاذ
معاون مدیر رفیقِ منزل
نام كتاب : پیامِ اعلیٰ
مصنف : مولانا محمد فاروق خاں، مرتب: وسیم یوسف مکائی
ناشر : القلم پبلی کیشنز، بارہمولہ ۔ کشمیر
سنہ اشاعت: ۲۰۱۶ء صفحات:۲۴، قیمت ۲۰/-روپئے
انسانی زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہدایت ہے ۔ کیونکہ اس کے بغیر ابنِ آدم کو خدشہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں بے راہ روی کا شکار ہوجائے ۔ خود قرآنِ حکیم کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ’’ بے شک قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کوجونیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے (بنی اسرائیل ) اسی لیے داعی کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن کی تعلیمات مدعوئین تک پہنچا ہے ۔
زیرِ نظر کتابچہ معروف مفسر قرآن مولانا محمد فاروق خاں صاحب کا وہ درس قرآن ہے جوانہوںنے ادارہ فلاح دارین بارہمولہ کی دعوت پر دیا تھا۔ اس درس کوکتابی شکل میں مرتب کرنے کا اہتمام جناب وسیم یوسف مکائی صاحب نے بخوبی انجام دیا ہے۔ اس کتابچہ میں مولانا نے سورۂ اعلیٰ کا پیغام بہت ہی مؤثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ کتاب کے مقدمہ میں مولانا محترم رقمطراز ہیں’’شخصیت کی تکمیل جسے قرآن نے تزکیہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ‘‘ اس کے حصول کے لیے ہوش مند اور باشعور ہونا ضروری ہے ، اور با شعور ہونے کے لیے خدا کی عظمت کا شعور واحساس لازمی ہے ۔
سورۂ اعلیٰ کے ضمن میں محترم مصنف کا خیال ہے کہ یہ سورۂ قرآنِ حکیم کے نزول کی اصل غرض وغایت پر بڑی حدتک روشنی ڈالتی ہے ۔ لہٰذا دعوتِ دین کے میدان میں سرگرم رہنے والوں کے لیے اس سورت کے معنیٰ کا ادراک اشد ضروری ہے ۔ اسی لیے مصنف نے دعوت کے بعض اصولوں پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ مثلاً لکھتے ہیں کہ ’’دعوت کا ایک اصول ملا ہم کوکوئی داعی اگر چاہتا ہے کہ اس کی دعوت اثر انداز ہو تو اسے چاہیے کہ مخاطب کے اندر ڈر پیدا کرے (ص :14)
ایک اہم سوال تز کیہ کے سلسلے میں ذہن میں آتا ہے کہ نفس کا تزکیہ ہورہا ہے یا نہیں؟ اس کی پہچان بتاتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں کہ ’’ تزکیہ کی پہچان یہ ہے کہ اپنے رب کوجان گیا وہ شخص اورجب جان گیا تو رب کی طرف لپکنے میں دیر نہیںلگے گی ۔ نماز رجوعِ اِلی اللہ کا جامع عنوان ہے۔
کتابچہ کے آخر میں مصنف نے یہ احساس دلایا ہے کہ قرآن حکیم ایک سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہونے والا ہی اس کی وسعت وگہرائی کوجان سکتا ہے ۔ کتابچہ کی زبان سلیس اور رواں ہے ، البتہ ضخامت کے لحاظ سے قیمت کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔ امید ہے یہ کتابچہ فہم قرآن کے نئے دریچے کھولنے میں معاون ثابت ہوگا۔
(محمد معاذ)
معاون مدیر رفیقِ منزل
Mob:9891097859
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017