شرک — جاہلیت کی نمایاں قسم

(2)

ڈاکٹر ابو ذر اصلاحی

تلسی داس نے بیان کیا کہ رام ایودھیا کے راجہ دشرتھ کی بیوی ’’کوشلیا‘‘ کے پیٹ سے پیدا ہوئے ۔   مگرشرک نے یہ سمجھا دیا کہ انسان کو اوتار بناؤ  ۔  رام  ایودھیا کے انسان ہیں ان کی بیوی سیتا کو لنکا کا راجہ ’’راون ‘‘ اُٹھالے گیا تھا ، اورجس کی رہائی کے لئے انہوںنے ہنومان کی مدد سے بندروں کا ایک پل جنو بی ہند سے لنکا تک تیار کرایا ،  رام کی فوج لنکا پہنچی ، پھر گھمسان کی لڑائی ہوئی ، راون مارا گیا ہم نہیں کہہ سکتے کہ رام کوئی پُر اسرار ہستی تھے جن کے کارنامے ہماری سمجھ سے باہر ہوں—— اگر رام مصر سے ’’رعملیس ‘‘ کا نام ہے تووہ بھی کوئی کرشمے ساز پُر اسرار ہستی نہیں جوسمجھ سے بالا ہو ۔  —— لہٰذا ہند دانش ورں کو چاہئے کہ وہ دیومالائی رنگ سے آزاد کریں  ۔تاکہ حقیقت کی راہیں واضح ہوں۔

شرک میں یہ بساط نہیں ہے کہ وہ انسان کو عقل اورعلم، تدبر اورتجربہ سے نوازے ۔ بلکہ ہمیشہ وہ سطحی کام کی ترغیب (Inducement) دیتا ہے جس سے انسان دھکے کھاتا ہے ۔ اس زمین پر صرف توحید ہی وہ نظریہ ہے جو ہر معاملے میں انسان کو ارتقائی نظریہ دیتا ہے ۔ اس لئے کہ شرک کی بحث صرف قیاس، اٹکل اورجہالت سے ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس توحید کی بحث عقل ، یقینی اورعلمیت سے ہوتی ہے ۔  توحید ایسی شاہ راں ہے جہاں سے ہزاروں ، لاکھوں راستے پھوٹتے ہیں ۔ توحید پر ایمان لانے کے بعد انسان کی عقل کا پردا کھلتا ہے اوروہ ہر چیز کوقدرت کی مخلوق سمجھ کر خدمت لینے کوسوچتا ہے ۔ اگرآج توحید کو ماننے والے بھی پہاڑ کومعبود سمجھتے تو شاید آج اینٹ اورسیمنٹ کا وجود نہ ہوتا اوردنیا کوآج تک محکم تعمیرات کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ اگر اہلِ توحید دریا کو دیوی تسلیم کرتے اور سمندر کوبرہما کا بسیرا گمان کرتے تو شاید آج تک نہ اس میں جہاز چلتا نہ اسٹیمر ، نہ اس میں شکار ہوتا  نہ اس سے بجلی بنتی۔  توحید ہی نے یہ نظریہ دیا ۔

’’تمہارے لئے مویشیوں میں ایک درس ہے ، ان کے پیٹوں میں جوکچھ ہے اس میںسے ایک چیز (دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں بہت سے دوسرے فائدے (یعنی کھال جسے تم پہنتے، بچھاتے ، اوڑھتے اورکپڑے بناتے ہو، ان کے اندر کا پانی پیتے ہو ، ان کے اون سے گرم کپڑے بناتے ہو ، ان کے دودھ سے طرح طرح کی چیزیں مثلاً گھی وغیرہ بناتے ہو، ان کی ہڈیوں کو پیس کر منجن اور کھاد وغیرہ بناتے ہو ، ان کی خریدوفروخت سے نفع حاصل کرتے ہووغیرہ) بھی ہیں۔ ان کو تم کھاتے ہواوران پر اورکشتیوں پر سواری بھی کرتے ہو۔‘‘(المومنون : ۲۱۔۲۲)

اس جیسے نظریات اگر قرآن نےنہ دئے ہوتے تو جس طرح سے دنیا نزول قرآنِ سے پہلےگمراہ تھی، گمراہ رہتی ۔ توحید کے دئے ہوئے ان نقوش کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہے کہ اس کائنات کو بہت سے اولیاء  وابدال چلارہے ہیں تویہ سراسر باطل ہے، اس کائنات کا ا یک ہی حاکم اورمالک ہے ۔

مسلمانوں پر شرک کے اثرات:۔

مسلمانوں کے اندر بھی رفتہ رفتہ وہ بیماری سرایت (Penetration)کرگئی جومشرکین کا خاصہ تھی ۔ کہ کیوںنہ ہم بھی اس زمین پر کچھ ایسی شخصیات کو خدا کے روپ منتخب کریں،  چنانچہ مختلف طرح کے چھوٹے چھوٹے خداتصنیف کرلئے گئے ۔ کوئی قبرپرست ہے ، کوئی بزرگ پرست ہے ، کوئی پیر پرست ہے، کوئی تعزیر پرست ہے ، الغرض  طرح طرح کے شرک لوگ کر رہے ہیں۔ دماغ میں ایک جاہلانہ قیاس یہ بٹھالئے ہیں کہ بغیر سفارشی کے ہم  خدا کے یہاں اپنی نائے پار نہیں لگا پائیں گے ۔ ایسے میں کوئی خالص سوفیصد الا ماشاء اللہ خدا پرست نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ جتنی پرستیاں ہیں ان کے ثبو ت سے قرآن اورحدیث  خالی ہیں ۔ یہ  یہودیوں کی طرح سے ان کے اپنے نفس کی ایجاد ہے ۔

قبرپرست:۔

قبرپرست ہیں توانہوں نے مردوں کوعام انسانوں سے الگ کرنے کے لئے مختلف نام ایجاد کئے ہیں ۔ جن کی نہ کوئی  سند ہے نہ تاریخ ۔ یہ انہیں سے دعائیں مانگتے ہیں ، منتیں مانتے ہیں ، اولاد مانگتے ہیں ، حتیٰ کہ سجدہ تک کر گزرتے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ وَاسْجُدْ وَاقْتَربُ     صرف خدا کوسجدہ کرو اور اس کی قربت حاصل کرو۔  وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِیْ الْقُبُوْرِ تم انہیں نہیں سناسکتے جوقبروں میں ہیں ۔  ’’ والا نصاب والازلام رجس من عمل الشیطان۔ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ۔‘‘ انصاب سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جہاں پر اللہ کے علاوہ دوسروں کے نام پر کوئی کام ہوتا ہے ۔ یہ قرآن کی بڑی خلاف ورزی ہے ۔

خدا کے ہاں خدا پرستی کے سوا دنیا کی کوئی پرستی کام نہیں دے گی ۔ یہ کہاں کھوئے ہوئے ہیں ۔ فانی تصرفون  قرآن کااعلان ہے :يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّہٗ وَمَا لَا يَنْفَعُہٗ ’’ جولوگ اللہ کےعلاوہ دوسروں کوپکارتے ہیں وہ نہ اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ ۔‘‘ (الحج ۔ ۱۲)

پیر پرست:۔

اسی جیسے کچھ دوسرے لوگ ہیں جوہرمرض کا علاج خدا اور رسولِ خدا سے نہیں ، بلکہ کچھ دوسرے لوگوں سے طلب کرتے ہیں اورانہیں ایسا درجہ دے دئے ہیں کہ نبی کے مماثل (Similar) لا کھڑا کردئے ہیں ۔ عام آدمی ان کا نام لینے کولرزتا ہے اورسوچتا ہے کہ اگر بےو ضو ان کا نام لے لئے تو توہین ہوجائے گی اور ہم گناہ کی زد میں آجائیں گے۔

یہ لوگ ہرمسئلے کا حل ان سے چاہتے ہیں اوریہ توفیق نہیں ہوتی ہے کہ ہم اس فرمان کی طرف رجوع کریں جونظام کائنات ہے ، اور جس نے ہر مسئلے کے حل کی ضمانت لے رکھی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسئلے کا حل نہیں نکل رہا ہے ۔

قرآن صاف صاف کہتا ہے : اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول

قرآن کہتا ہے :اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ   (الاعراف: ۳) ’ ’ لوگو ! جو کچھ تم پرتمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘

کامیابی سے صرف وہی ہمکنار ہوگا جوقدم قدم پر ، ہر معاملے میں ، ہر لمحے صرف خدا کواپنا رہنماتسلیم کرے اورصرف اس  ہدایت کی اتباع کرے۔ جوخد ا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجی ہے ۔  اسلام کی تعلیم تو یہ تھی کہ پہلے ہر مسئلے کا حل کتاب اللہ ، پھر رسول اللہ ، پھراجتہاد

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ملاحظہ ہو، پھر اس کے آئینے میںاپنے چہرے کوباغور دیکھئے۔

جب آپؐ نے ’’معاذ بن جبل ‘‘ کویمن کا  حاکم بنا کر بھیجا، توان سے پوچھا :۔

کیف تقضی ؟ قال : اقض بمافی کتاب اللہ قال : فان لم یکن فی کتاب اللہ؟ قال: فبسنۃ رسول اللہ ۔ قال: فان لم یکن فی سنۃ رسول اللہ ؟ قال: اجتھد رأی ۔ قال: الحمد للہ الذی وفق رسول ، رسول اللہ ؐ’’ (جب تمہارے سامنے کوئی نیا مسئلہ پیش ہو)تو کیسے فیصلہ کروگے ۔ معاذ نے کہا : میں اس کا فیصلہ کتاب اللہ سے کروںگا ۔ آپؐ نے پوچھا: اگر اس کا حل کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو کیا کروگے ؟ تو انہوں  نے جواب دیا کہ : پھر میں سنت رسول اللہ کے ذریعے اسکا فیصلہ کروںگا۔ اسپر آپؐ نے پوچھا: اگر سنتِ رسول اللہ میں بھی نہ ملے گا تو کیا کروگے ؟ انہوں نے کہا : کہ میں اپنی رائے کے مطابق اجتہاد کروںگا ۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا : الحمد اللہ اس نے رسول کے نمائندے کوصحیح توفیق عطا فرمائی —— معاذ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ اگر مجھے قرآن وسنت دونوں سے حل نہیں ملے تو میں پھر کسی صحابہ ، کسی ولی، کسی کا ہن یا پھر کسی نبی ہی کی طرف رجوع کروں گا ۔‘‘

اسلام ایک سیدھا سادہ دین تھا ’ ’ ان الدین یسر‘‘ جس کی بنیاد صرف توحید پر مبنی تھی ۔ مگر ہم نے اسپر اس قدر ردّا چڑھا دیا کہ اسے ایک ناقابل فہم فلسفہ بنا کر رکھ دیا ۔ جسے دیکھ کر  لوگ وحشت کرنے لگے   ۔ اصلیات کو نظر انداز کرکے  فروعیا ت اور اختراعات کا ہیولیٰ کھڑا کردیا ۔ جس کا نتیجہ  یہ نکلا کہ ہم اپنے کولا کر یہودیوں کی صف میں کھڑا کرلئے۔  تبصرۃ وذکریٰ لکل عبد منیب اس میں بصیرت افروز نصیحت ہے ہر اس بندے کے لئے جومتوجہ ہونا چاہتا ہے  —— اب جاہلیت کا نرغہ آزادی کا مطالبہ کررہا ہے۔

منتر پرست:

جب کسی قوم کا عقلی اورعلمی زوال ہوتا ہے تووہ بڑی تیزی کے ساتھ ساحری ، شاعری، جھاڑ پھونک کی طرف لپکتی ہے تا کہ منتروں کے ذریعے سے عروج حاصل کرسکے۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا ہے کہ یہ بلندی پر لے جانے والے کرتب نہیں ہیں ، بلکہ پستی کی انتہا ء میں دھکیلنے والے فارمولے ہیں ۔ یہ وہ راہیںہیں جوانسان کے اندر سے کچھ کرنے کا جذبہ چھین لیتی ہیں، اس کے احساس کومردہ بناتی ہیں اور اسے ایک ایسی کہکشاں میں قید کر دیتی ہیں جس کا شیوہ صرف ہر معاملے میں اس کے آگے اور پیچھے منڈلانا ہوجاتا ہے ۔ایک دور  میں یہودیوں کی ساری توجہات جادو منتر اورپھونک پھانک پر مرکوز تھیں ۔ ان کےبازار میں جس چیز کی سب سے زیادہ مانگ تھی وہ تعویذ اورگنڈے تھے ۔ ان کی اخلاقی حالت بگڑ  گئی تھی کہ شیطان نے انہیں یہاں تک سمجھادیا کہ سلیمان ؑ کی سلطنت تک انہیں منتروں کے بل پر چل رہی ہے ۔ چنانچہ وہ اس جانب اس تیزی سے لپکے کہ ہر طرح کے اخلاقی درس اور روحانی سبق کو ٹھکرادیا ، اوراس کے بدلے میں جہنم  خرید لی ۔

وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۝۰ۣۭ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ(البقرہ: ۱۰۲)’’ اور وہ خوب جانتے تھے کہ جواس چیز کاخریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ کتنی بری وہ چیز تھی جس کےبدلے انہوں نے اپنی جانوں کوبیچ ڈالا۔‘‘

آج اسی ڈھرّے پر ہماری قوم کے  لوگ چل رہے ہیں اوریہ سمجھنا گوارا نہیں ہے کہ یہ چیز ہمارے لئے زندگی ہے یا زہر ۔ قدم قدم پرجھاڑ پھونک کرنے والے دوکان لگا کر بیٹھے ہیں ۔ جھوٹاغیب دانی کا ڈھونگ رچتے ہیں ، عوام کوگمراہ کرتے ہیں ، کچی اورپکی تعویذیں بیچتے ہیں ۔ یہ دوکان مالک اوراس کے گاہک  شرک کے نرغے میں ہیں۔ یہ ہمارے دین جس پر ہم ایمان رکھتےہیں اس سے توثابت نہیں ہے ، اس سے تو ثابت ہر معاملے میں اللہ سے استعانت چاہناہے ۔ البتہ یہ یہودیوں کی ایک یاد گار ضرور ہے ۔  حفاظت کا ذمہ تو خدا نے خود لےرکھا ہے :

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۹۸ اِنَّہٗ لَيْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۹۹(النحل :۹۸۔۹۹)’’پس جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔ اسے ان لوگوں پرتسلط حاصل نہیں ہوتا جوایمان  لاتے ہیں اوراپنےرب پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں بتائی ہیں ۔ ایک تو قرآن کا پڑھنا ، دوسرے ایمان لانا ، تیسرے خدا پر بھروسہ رکھنا۔ یعنی جولوگ اپنی پناہ ان چیزوں میں ڈھونڈیں گے وہ یقیناً ہر طرح کی آفات سے محفوظ رہیںگے ۔ اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا مطلب کہ ہم وہ مومن نہیں ہیں  جوخدا کومطلوب ہے ۔ اس سبب سے ہر طرح کی شیطانی آفتیں ہم پر مسلط ہوتی ہیں ۔ لیکن اس کا علاج کسی جھاڑ پھونک کرنے والے ، کسی تعویذ اورگنڈا ، کسی جنتر اورمنتر میں نہیں ہے ، بلکہ خود آپ کے پاس موجود ہے ، جو یہ ہے کہ آپ صرف وہی مومن بن جائیے جیسا بننے کو قرآن کہتا ہے ، پھر خود بخود سارے امراض دور ہوجائیں گے ۔ ادخلوا فی السلم کافۃ ’’ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ ، اسی میں تمہاری ہر پیرائے سے زمین سے لے کر آسمان تک سلامتی ہے ۔‘‘

ذراآپ غور کیجئے کہ اگر کوئی روحانی مصیبت آپ پر آگئی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اس با  ب میں معذور ہے کہ وہ اسے دور نہ کرسکے ۔

قرآن کوبھیجنےوالا تو کہتا ہے :

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ  (یونس۔۵۷)’’ اے لوگو!تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے ، یہ وہ چیز ہے جودلوں کے امراض کی شفاء ہے ، جواسے قبول کرلیں ان کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے۔‘‘

اس آیت کے چار الفاظ پر غور کرلیجئے ایک موعظت ، دوسرے شفاء ،تیسرے ہدایت اورچوتھے رحمت اوردیکھئے کہ جس طرح سے قرآن روحانی، جسمانی، ذہنی اورقلبی عافیت کی ضمانت لیتا ہے ۔ اگر ہم اس کو دل سے لگالیں تو کیا ہمیں کہیں اور جاکر ٹھوکر کھانے کی ضرورت ہے ۔صداقت تویہ ہے کہ تعویذ اور گنڈے ، لوبان اورفلیتے کسی چیز کا علاج ہی نہیں ۔ اگر یہ علاج ہوتے تو سب سے پہلے اسے آنحضورؐ دئے ہوتے ، پھر آپ ؐ کے بعد آپ کے اصحاب دیتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضورؐ نے بالکل اس کے برعکس نظر یہ دیا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے : ’’ میر ی امت کے وہ لوگ بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے جونہ داغنے کا علاج کراتے ہیں ، نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں ،نہ فال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ (مسلم )بس زیادہ سے زیادہ اتنی ہی چیز جائز  ہے۔  جتنے کی آنحضورؐ نے اجازت دی ہے ۔ یعنی دعا ء پڑھ کر دم کرنا ، پانی میں دم کرکے پینا، دعاء سے دفاع کرنا وغیرہ ۔ اگر اس سے کوئی آگےبڑھتا ہے تووہ دین میں غلو کررہا ہے ، ایک بدعت کو بڑھا رہا ہے، اپنےایمان کوادھوا ثابت کررہا ہے اور یہودیوں کی سی ذہنیت رکھتا ہے ۔

کچھ لوگ ہیں جو اس طرح کا استدلال پیش کرتے ہیں ، جیسا کہ میرے بھی سامنے آیا کہ جس طرح سے ایک مریض اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ،ٹھیک اسی طرح سے اگر کوئی اثرات بد کے علاج کے لئے کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کے پاس جاتا ہے ، تو اس میں کیوں قباحت ہے ۔ اچھا استدلال ہے ۔ لیکن اگر اس کی تہ میں گہرائی سے جھانکے تو اسکا جواب بھی مل جائے گا ۔ جویہ ہے کہ اگر انسان کا جسم بیمار ہوتا ہے تو یہ عقل کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے ۔ کیونکہ بیماری کوسمجھنے اوراس کےعلاج کے لئے ڈاکٹر علم وفن کی ڈگری لے کر آیاہے  ۔ پھر ہر طرح کی بیماریوں کی جانچ کے لئے مختلف طرح کی مشینیں آچکی ہیں جس سے بیماریو ں کاپتہ چل جاتا ہے ۔ لیکن ا س روحانی علاج کے لئے نہ توکوئی ڈگری دی جاتی ہے ، اورنہ ہی اس کی جانچ کے لئے کوئی مشین آئی ہے ۔ روح کوکیا تکلیف لاحق ہے اس کا علم صرف خدا کو ہے اور اس کے علاج کے لئے خود اس نے ایک تعویذ بھیجا ہے جس کا نام قرآن ہے ۔ جولوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ موکل کے ذریعے سے پتہ لگالیتے ہیں کہ اسے کیا ہوا ہے وہ صرف فراڈ کرتے ہیں ، عوام کوگمراہ کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو ایسے لوگ یہ بتائیں کہ یہ جھاڑ پھونک کی دوکان کھولنے کا لائسنس کہاں سے لے آئے ، اسلام نے تو نہیں دیا ہے ۔ ہاں ان کا اسلام اگر کوئی اور ہے تو ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں ہ

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau