نام كتاب : اسلام کا نظام سیاست و حکومت (ایک نخلِ تمنا، ایک شجر آرزو)
مصنف : پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ناشر : نیوکر یسنٹ پبلشنگ کمپنی، دہلی
سنہ اشاعت : ۲۰۱۷، صفحات: ۱۹۲، قیمت۔ ۱۵۰؍ روپے
موجودہ دور کے بعض دانش وروں کا خیال ہے کہ اسلام اور سیاست کے درمیان کوئی رشتہ نہیں، دونوں کی دنیا الگ ہے اور اسلامی ریاست نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ وہ اسلام اور سیاست کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے اہل مغرب نے عیسائیت اور سیاست کو دیکھا تھا۔ دوسری طرف موجودہ دور میں مسلم ممالک میں قائم حکومتوں نے جو مطلق العنانیت، ظلم و جبر اور استبدادی نظام قائم کر رکھا ہے اس نے بھی اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس کی تصویر کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلام کے سیاسی نظام پر مختلف زبانوں میں کچھ کتابیں پائی جاتی ہیں ، لیکن ان میں اس موضوع پر اٹھنے والے نئے مباحث و مسائل کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے پروفیسر محسن عثمانی ندوی کو کہ انھوں نے زیر نظر کتاب میں اس اہم اور نازک موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اسلامی موقف کی درست ترجمانی کی ہے اور موجودہ مسلم حکومتوں کو اس کی کسوٹی پر جانچنے کی جرأت کی ہے۔
ڈاکٹر عثمانی موجودہ دور میں بر صغیر کے ان علماء اور مفکرین میں سے ہیں جو اپنی علمی وجاہت اور تحقیقی شان کے ساتھ درد مند دل رکھتے ہیں۔ امت مسلمہ بین الاقوامی سطح پر ، عالم اسلام کی سطح پر یا ملکی سطح پر جن ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہی ہے، ان پر وہ تڑپ اٹھتے ہیں اور ان کا جذب دروں قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر بکھر جاتا ہے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت اذیت محسوس کرتے ہیں کہ امت اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے کے بجائے باہم دست و گریباں ہے۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ نہ مسلم حکم راں اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور نہ علماء کرام اور دانش وران عظام کو اپنے منصب کا صحیح شعور ہے۔ امت اور خاص کر اس کے سربر آوردہ طبقہ کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے ڈاکٹر عثمانی پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ چنانچہ کانفرنسوں، سمیناروں میں اپنے مقالات ، خصوصی پروگراموں میں خطبات اور رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے مضامین کے ذریعے وہ یہ فریضہ بہ خوبی نبھا رہے ہیں۔۲۰۱۲ء میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی میں ’دین اور سیاست کا رشتہ‘ کے موضوع پر ایک لکچر دیا تھا، بعد میں ۲۰۱۴ء میں انھیں دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ میں ’جمہوریت اور اسلام‘ کے موضوع پر لکچر دینے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بھی اس موضوع کے دیگر پہلوؤں پر ان کا مطالعہ اور تحقیق جاری رہی، جس نے اس کتاب کی شکل اختیار کر لی۔
یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول کا عنوان ہے’دین اور سیاست کا رشتہ‘۔اس میں فاضل مصنف نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ اسلام دین اور دنیا کا جامع ہے۔ وہ زندگی کے تمام پہلوئوں میں انسانوں کی رہ نمائی کرتا اور ان کے جملہ مسائل کو حل کرتاہے۔ ان میں اجتماعی اور سیاسی معاملات بھی شامل ہیں۔ اس بحث کو انہوں نے آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی کے ساتھ قدیم و جدید علماء کی آراء و افکار سے بھی مدلل کیاہے۔ قدیم علماء میں ماوردیؒ، ابوعبیدؒ، قاضی ابویوسفؒ، علامہ ابن تیمیہؒ اور معاصر علماء میں شیخ حسن البناء شہید ؒ،علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے حوالے دیے ہیں۔
دوسرا باب، جو بہت مبسوط(ص۳۹۔۱۲۲) ہے ،’اسلام کا سیاسی نظام کے عنوان سے ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے اسلام کے مطلوبہ سیاسی نظام کے خدّو خال نمایاں کیے ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ ’’انعقادِ خلافت کے لیے اسلامی طریقہ بیعت ہے۔ بیعت کا طریقہ اس وقت ختم ہوا جب حکم رانوں نے مغربی نظام سیاست کو اختیار کیا۔‘‘(ص۴۲۔۴۳)’’اسلام کا نظام حکومت جمہوریت کے قریب ضرور ہے، لیکن یہ وہ عین جمہوریت نہیں ہے جو یورپ میں رائج ہے، جس میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کے حوالے کردیاجاتاہے کہ وہ جو چاہیں قانون بنائیں ، چاہے وہ مذہب سے متصادم ہو۔‘‘(ص۴۷۔۴۸)وہ فرماتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائیت پر مبنی ہوگا۔ حکم راں کو من مانی کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔بلکہ وہ اہل الرای کے مشوروں پر عمل کا پابند ہوگا۔ انہوں نے حکم راں کی مطلوبہ صفات پر تفصیل سے اظہار خیال کیاہے۔(ص۵۷۔۶۵) ان کے نزدیک حکم راں کا تقرر تا حیات بھی ہوسکتاہے اور اربابِ حل و عقد ایک متعین مدت کے لیے بھی اس کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام نے اس سلسلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیاہے‘‘۔ (ص۸۶۔۸۷)وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں عوام کو حکم راں پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ اس بنا پر حزب اختلاف کی گنجائش ہوگی، لیکن ضروری ہے کہ وہ اختلاف برائے اختلاف کے بجائے اصولی اختلاف کو اپنا شیوہ بنائے۔(۷۱) اسلامی جمہوریت میں کسی کی مذہبی دل آزاری ممنوع ہوگی اور اقلیتوں کے حقوق محفوظ رہیں گے۔ (ص۱۰۴۔۱۰۵)اس باب میں انہوں نے اسلام کے تصور جہاد پر بھی مختصراً اظہار خیال کیاہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام مطلوب ہے۔جب اس کا سقوط ہوا تو اسے از سر نو قائم کرنے کے لیے بارہا کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ حضرت حسین بن علیؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓ نے اس کی بحالی کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ نے اسی وجہ سے انقلاب کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔
کتاب کا تیسرا باب موجودہ حالات سے پر ہے۔ اس کا عنوان ہے:’موجودہ عالم اسلام اور اسلام کا سیاسی نظام‘۔اس میں فاضل مصنف نے تفصیل سے یہ بحث کی ہے کہ اس وقت دنیا کے جتنے مسلم ممالک ہیں، کسی میں اسلام کا سیاسی نظام نافذ نہیں ہے۔ تمام ممالک میں موروثی بادشاہت اور استبدادی نظام جاری و ساری ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ حقیقی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنے والی جماعتوں، تحریکوں اور شخصیات کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور ان کی سرکوبی کی پوری کوشش کی گئی۔ مصنف نے ان درباری علماء پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جنھوں نے ان ظالم حکومتوں کی تائید کی اور ان کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں اور احتجاجوں کے خلاف فتویٰ دیے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تفصیل سے اس موضوع پر بحث کی ہے کہ ظالم حکم رانوں کے خلاف خروج جائز ہے۔ انھوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کے جواز کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل پیش کیے ہیں۔ صحابۂ کرام و تابعین عظام کے عہد کے واقعات سے استدلال کیا ہے اور علماء و ائمہ کے اقوال سے بھی استفادہ کیا ہے۔ وہ علماء کرام کا فریضہ مذہبی قرار دیتے ہیں کہ وہ حکم رانوں کا احتساب کریں، ان کے انحراف پر ان کی گرفت کریں اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔
زیر نظر کتاب جہاں اسلام کے سیاسی نظام کا عمدہ تعارف کراتی ہے وہیں موجودہ مسلم حکومتوں کو اس کسوٹی پر پرکھ کر ان کا کھوٹ بھی ظاہر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر محسن عثمانی کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے ایک ایسا آئینہ رکھ دیا ہے جس میں مسلم حکم راں اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : Islamic Philosophy of Education
مصنف : پروفیسرکے۔محمد۔ ایرور
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۷ء،صفحات: ۲۰۴، قیمت: ۲۵۰؍روپے
جدید نظام تعلیم انتہائی ناقص اور محدود ہے۔ اس میں خالق کائنات کے بارے میں کوئی واضح تصور نہیں ہے اور نہ اس میں خدااور وحی الٰہی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا بنیادی نقص مادہ پرستی ہے کہ اس میں ہر چیز اور ہر معاملہ کو پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھا اور تولا جاتا ہے۔ انسانی اور سماجی ضروریات کے برعکس اس میں ذاتی مفادات کا پہلو غالب ہے۔ اس نظام تعلیم کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس نے ہر چیز کو دو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔اس نے مذہب کو سیاست سے الگ کر کے دونوں کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں رکھا۔ اس نے مذہب کو انسان کا ایک ذاتی مسئلہ قرار دیا ۔ اس کے علاوہ اس میں انسان کے آفاقی مشن، نصب العین اور انسان کے بہ حیثیت خلیفہ ہونے کے معاملے میںبھی کوئی رہ نمائی نہیںملتی ہے۔ نیز انسان کی حقیقی مقصدِ زندگی سے بھی اس کا کوئی سروکار نہیں ۔ اس کے برعکس اسلام نے علم کا جوتصور دیا ہے وہ بہت جامع ہے ۔وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی پہچان کراتا ہے، اس کی مرضی و منشا کا تعارف کراتا ہے ،رشد و ہدایت کی طرف راہ دکھاتا ہے، مقصدِ زندگی سے آشنا کراتاہے اور اس دنیا کے بعد کی زندگی سے متعلق یقین و بصیرت عطاکرتا ہے ۔
زیر نظر کتاب Islamic Philosophy of Education اسلام کے فلسفہ ٔ نظام تعلیم کے موضوع پر ہے ۔اس کتاب کے مصنف معروف استاذ اور ماہر تعلیم پروفیسر کے۔محمد۔ ایرورہیں ۔ انھوں نے یہ کتاب طلبہ، اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس کے لیے لکھی ہے ۔ کتاب دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔پہلا حصہ گیارہ( ۱۱) ابواب پر مشتمل ہے ۔اس میں جدید تعلیم کی فلسفیانہ بنیادوں کو گفتگو کا موضوع بنایا گیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان ہے: Educational philosophy۔اس میں مصنف نے مختلف مفکرین کی آراء کی روشنی میں تعلیم کامفہوم اور اس کے مقاصد بیان کیے ہیں۔دوسرا باب Sociology of Education کے عنوان سے ہے۔ اس میں بتایا گیاہے کہ کس طرح تعلیم انسان کو صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے تیار کرتی ہے ؟ ایک اور باب کا عنوان ہے: Philosophical Foundation of Education۔ اس میں مصنف نے تعلیم کی فلسفیانہ بنیادوں سے بحث کی ہے ۔ اس کے بعد Education Philosphies کے عنوان سے ایک اور باب ہے، جس میں موصوف نے جدید تعلیم کے چار بنیادی فلسفوں: آئیڈلزم ، رئیلزم ، نیچرلزم اور وجودیت پر گفتگو کی ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ،جواس کا مرکزی موضوع بھی ہے ، اسلام کے فلسفۂ تعلیم پر ہے ۔ یہ پندرہ (۱۵) ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے دو ابواب میں اسلام کی خصوصیات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ تیسرا باب Islam ـ Importance of Education in کے عنوان سے ہے ۔اس میںاسلام میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں علم کے متعلق ۷۷۹، کتاب کے متعلق ۲۷۷،سمع کے متعلق ۱۸۴، بصر کے متعلق ۱۴۸،عقل سے متعلق ۴۹؍ اور تفکر و تدبر کے متعلق ۶۱ ؍آیتیںوارد ہیں ۔(ص ۸۷) ۔ چوتھا باب Aims of the Islamic Educational Philosophy کے عنوان پر ہے، جو کتاب کا سب سے اہم باب ہے ۔اس میں مصنف نے مدلل انداز سے اسلام کے فلسفۂ تعلیم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام نے تعلیم کی اہمیت و افادیت کو مقدم رکھا ہے ۔اس کے ساتھ علم و تعلیم کو رب کے نام سے جوڑنے کا حکم دیاہے، تاکہ علم کا صحیح مقصد اور فائدہ ظاہر ہو ۔ اس کے بعد فاضل مصنف نے اسلام کے فلسفۂ تعلیم کے متعد پہلوؤں سے بحث کی ہے، جس میں علمیات ، مابعد الطبیعیات ،نصاب ، استاد ، طالب علم اور منہج تعلیم بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔
زیر نظر کتاب میں ایک بات بار بار کھٹکتی ہے کہ اس میںجہاں بھی مفکرین کی آراء سے استفادہ کیا گیا ہے وہاں حوالے نہیں دیے گئے ہیں۔ امید ہے کہ اگلے اڈیشن میں حوالوں کا اہتما م کیا جائے گا ۔ کتاب نہایت مفید ہے ۔ ہر طالب علم ، استاد اور تعلیم پر کام کرنے والے افراد کو اس کا ضرورمطالعہ کرنا چائیے ۔
(مجتبیٰ فاروق)
رکن ا دارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
نام كتاب : مطالعات، مشاہدات، تجربات
(ایک نشست معروف اسلامی دانش ور مولانا محمد فاروق خاں کے ساتھ)
انٹرویو : ابوالاعلی سید سبحانی
ناشر : القلم پبلی کیشنز، بارہمولہ، کشمیر
سنہ اشاعت : ۲۰۱۷ء،صفحات: ۴۸،قیمت:۴۰ روپے
اس عالم رنگ وبو میں ہر فرد کچھ منفرد تجربات سے دوچار ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی واقعہ سے مختلف افراد الگ الگ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ اللہ کی اس وسیع وعریض کائنات میں سمجھ دار انسان کے لیے حکمت ودانش کے موتی جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ اب یہ ابن آدم کا ظرف ہے کہ وہ اپنا دامن ان موتیوں سے بھرے یا خارزار جھاڑیوں میں الجھ کر رہ جائے۔ دوسروں کی زندگی سے سبق حاصل کرنا اور ان کے تجربات اور طرز زندگی کے روشن پہلوؤں سے فائدہ اٹھانا اہل نظر کا شیوہ ہے۔ اسی طرح اپنے حالاتِ زندگی اور تجربات ومشاہدات کو اہل نظر کی خدمت میں پیش کردینا بھی بہت دل گردے کا کام ہے اور یہ انہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جن کی زندگی ایک خاص اور متعین نصب العین سے عبارت ہوتی ہے اور جو انسان کو اس کے اصل مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ تحریک اسلامی ہند کی نمایاں شخصیت مولانا محمد فاروق خاں ان چیدہ افراد میں سے ہیں جن کی تمام عمر راہِ وفا میں سفر کرتے ہوئے گزری اور یہ سفر ہنوز جاری ہے ۔ حالت یہ ہے کہ ؎
شوقِ سفر نے دم ہی نہ لینے دیا مجھ کو
میں تیری رہ گزر سے بھی آگے نکل گیا
مولانا فاروق خاں سے ایک طویل انٹرویو برادر م ابوالاعلی سبحانی (مدیر ماہ نامہ حیات نو) نے لیا تھا۔ اسی کو اب کتابی شکل دے دی گئی ہے۔کتابچہ کا عنوان ’مطالعات، مشاہدات، تجربات‘ خوب ہے۔
اس انٹرویو کو چار ذیلی عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے: پہلے حصے میں مولانا نے اپنے آبائی وطن اور ابتدائی حالاتِ زندگی کا تعارف کرایا ہے۔ اس ضمن میں ان شخصیات کا بڑی دردمندی سے ذکر کیا ہے جن سے وہ متأثر رہے ہیں۔مثلاً بانی ٔ جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ علیہ الرحمہ کو یاد کرتے ہوئے وہ یہ شعر گنگناتے ہیں ؎
یقیناً اس تری جرأت کو دنیا یاد رکھے گی
سزائے موت سن کر بھی نہ پیشانی پہ بل آیا
اسی طرح ملت اسلامیہ ہند کی تاریخ کے درخشاں ستاروں، مثلاً مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی ؒکا ذکر بھی بہت بے ساختگی کے ساتھ کیا ہے۔مولانا اپنی سب سے بڑی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’میں خود کو حسن وصداقت کا ادنیٰ خادم سمجھتا ہوں، آرزو ہوسکتی ہے تو اس کی کہ حسن وصداقت کی خدمت میں عمر تمام ہو‘‘۔(ص ۱۴)
انٹرویو کا دوسرا حصہ مولانا کی تصنیفی سرگرمیوں ، خاص طور سے قرآن حکیم کے ترجمہ اور تفسیر سے متعلق ہے۔ اس میں وہ قرآن حکیم کی اردو تفاسیر اور ان کی خوبیوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً تدبر قرآن کی خوبی اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تفسیر ’تدبر قرآن‘ کی اس پہلو سے بڑی اہمیت ہے کہ انہوں نے حتیّٰ الوسع مولانا فراہیؒ کے قرآنی فکر کو اپنی تفسیر میں محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے، اس لیے علمی پہلو سے تدبر قرآن کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (ص۱۷) علاوہ ازیں تفسیر کے سلسلے میں ایک اصولی بات یہ بتاتے ہیں کہ ’’قرآن کی تفسیر تو اصل میں وہی ہے جو روح کو گرمادے، جو قلب کو تڑپادے۔‘‘ (ص ۱۸)اسی طرح مولانا نے اپنے آسان ترجمۂ قرآن اردو اور زیرطبع ہندی تفسیر کی امتیازی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ اس انٹرویو میں ایک اہم سوال علامہ حمیدالدین فراہی ؒ کی فکر سے متعلق بھی ہے۔ فکر فراہی کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں کہ ’’مولانا فراہیؒ نے یہ اصول رکھا کہ قرآن کو قرآن ہی کے ذریعے سمجھنے کی کوشش ہونی چاہیے‘‘۔(ص۲۱)
انٹرویو کے تیسرے حصے میں مولانا نے اپنی گراں قدر تصنیف ’کلام نبوت‘ کا جامع تعارف کرایا ہے۔ اسی طرح اپنی ادبی سرگرمیوں اور مجموعۂ کلام ’حرف وصدا‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ مولانا کی ادبی تصانیف کا الگ سے تفصیلی تعارف آتا اور احادیث سے متعلق ان کے تصنیفی کاموں کا علیٰحدہ ذکر ہوتا۔
انٹرویو کا آخری حصہ امت مسلمہ کے لائحہ عمل اور اس کے داعیانہ کردار سے متعلق ہے۔ مولانا کے نزدیک امت مسلمہ کی حقیقی زندگی کا راز اس کی دعوتی سرگرمیوں میں پنہاں ہے۔ جوں ہی یہ جذبہ سرد پڑا ، امت مختلف مسائل سے دوچار ہوگئی۔ داعی کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں: ’’حقیقت میں داعی وہی ہے جو یہ احساس رکھتا ہے کہ دعوتی سرگرمی کا تعلق کارِنبوت سے ہے اور کارِ نبوت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی تعمیری کام نہیں ہوسکتا‘‘۔ (ص ۳۷) انٹرویو کے آخری حصے میں مولانا نے اپنے دعوتی تجربات بیان کیے ہیں۔ ان کا احساس بجا طور پر یہ ہے کہ ہندوستان میں دعوت ِ دین کے بہت مواقع ہیں ۔ہم وطن ساتھیوں کے عقائد کا مطالعہ کیا جائے اور خود بھی قرآنی تعلیمات کا پیکر بن کر اس میدان میں قدم رکھا جائے تو حالات میں خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے۔
اس انٹرویو میں بیش تر سوالات کے جوابات موضوع کا احاطہ کرتے ہیں اور قاری کو مزید غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں، البتہ بعض مقامات پر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ امید ہے، یہ کتابچہ خاص وعام کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
( محمد معاذ)
معاون مدیر ماہ نامہ رفیق منزل نئی دہلی
9891097859,[email protected]
مشمولہ: شمارہ فروری 2018