نام كتاب : قرآن کا پیغامِ عمل
مصنف : ڈاکٹر محی الدین غازی
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹریبیوٹرس ، F-155 فلیٹ نمبر ۴۰۲،
ہدایت اپارٹمنٹ ، شاہین باغ، جامعہ نگر ،نئی دہلی
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات۱۲۰،قیمت:۵۰ روپے
گزشتہ برس رمضان المبارک کے پورے مہینے میں روزانہ ڈاکٹر محی الدین غازی کا تیار کردہ، قرآن مجید کے ایک ایک پارہ کا خلاصہ اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر بھی، نظر سے گزرا تھا تو خواہش ہوئی تھی کہ اگر یہ کتابی صورت میں شائع ہوجائے تو بہت مفید ہوگا۔ _ اس کتاب کی اشاعت سے میری اس خواہش کی تکمیل ہوگئی ہے ۔
تراویح کے موقع پر پڑھے جانے والے ، قرآن مجید کے متعدد خلاصے کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں ، لیکن ڈاکٹر غازی کا تیار کردہ یہ خلاصہ انفرادیت رکھتا ہے۔ _ اس لیے کہ اس میں راست خطاب ڈایرکٹ اپروچ (Direct approach) پایا جاتا ہے _۔ اس کو پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ قرآن انسان سے براہ ِراست مخاطب ہے۔ _ وہ اسے مختلف کاموں کا حکم دیتا ہے اور مختلف کاموں سے روکتا ہے۔ _ وہ کہتا ہے : یہ کرو اور کہتا ہے : یہ نہ کرو۔ _ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ _ چنانچہ جب وہ یہ کتاب پڑھے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسے براہ راست مخاطب کر رہا ہے۔ _ وہ اسے جن کاموں کا حکم دے رہا ہے ان پر اسے عمل کرنا چاہیے اور جن کاموں سے روک رہا ہے ان سے اسے رک جانا چاہیے۔ _اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے اللہ کی خوش نودی حاصل ہوگی اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجائے گا ۔
ڈاکٹر غازی نے اپنے پیش لفظ میں بجا طور پر لکھا ہے کہ’’جو باتیں قرآن مجید میں زیادہ نمایاں نظر آئیں وہ ہماری زندگی میں بھی نمایاں نظر آنی چاہئیں اور جو اعمال قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ بار بار نظر آئیں وہ ہماری زندگی میں بھی اسی کثرت سے نظر آنے چاہئیں ۔
ہر پارہ کا خلاصہ کرتے ہوئے درمیان میں سورتوں کی بھی نشان دہی کر دی گئی ہے _۔ اس سے قاری بہ آسانی یہ جان سکے گا کہ کس سورہ میں کیا بات کہی گئی ہے؟
امید ہے، اس کتاب سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا جایے گا۔ _ اصحابِ خیر اگر اسے بڑی تعداد میں منگا کر عوام کے درمیان تقسیم کریں تو بہت اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔ _شاید اسی لیے ناشر نے کتاب کی قیمت کافی کم رکھی ہے _۔
( محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : علم وتحقیق کا اسلامی تناظر
مصنف : ڈاکٹر محمد رفعت
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سنہ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات ،۱۳۶،قیمت/-۸۰؍روپے
زیرنظر کتاب ڈاکٹر محمد رفعت چیر مین تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند و مدیر ماہ نامہ زندگی نو کے چند مضامین کا مجموعہ ہے ۔ ان میں سے بیش تر مضامین زندگی نو کے ادارتی صفحات میں شائع ہوئے ہیں۔ بعض کی اشاعت ما ہ نامہ رفیقِ منزل نئی دہلی میں ہوئی ہے ۔ ان مضامین میں علم کے مغربی تصور پر نقد کیا گیا ہے اوراس کے اسلامی تصور سے بحث کی گئی ہے۔
گزشتہ چند صدیوں میں مغرب میں علوم وفنون کے میدان میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے اوران کی بنیاد پر نئی نئی ایجادات سامنے آئی ہیں اور ٹکنالوجی کونمایاں فروغ ملا ہے۔ لیکن مغربی سائنس کا تصور سراسر مادی ہے ۔ اس کا دائرہ مشاہدہ اورانسانی تجربہ تک محدود ہے ۔ غیب چوں کہ انسانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے ، اس لیے مغرب کے مقبول تصوّرِ علم میں اس کا انکار پایا جاتا ہے ۔ مغرب میں انکار غیب کا نتیجہ مذہب بیزاری اور الحاد کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں اسلام کا تصوّرِعلم مشاہدہ اورغیب کا جامع ہے ۔ ہروہ علم جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی اور با لا تر حقائق کی معرفت حاصل ہو اورخلقِ خد کواس سے نفع پہنچے ،مطلوب ومقصود ہے ۔ نفع وضرر کے اعتبار سے علم کو مطلوب یا نامطلوب قرار دیا جائے گا۔ ضرورت ہے کہ علوم، خواہ طبیعی اور حیاتیاتی ہوں یاسماجی اور نفسیاتی، ان کی تدوینِ نو اسلامی بنیادوں پر ہو۔ اسی کے ساتھ جدید مغربی سائنس اور اسلامی تصور کائنات کے درمیان ہم آہنگی اور اختلا ف کے پہلوؤں کی نشان دہی کی جائے۔
زیر نظر مجموعہ میں شامل مضامین میںدرج بالا نکات پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد رفعت نے عصری جامعات میں تعلیم حاصل کی ہے ، اس کے بعد سے تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں، اس بنا پر جدید علوم ، سائنس اورفلسفۂ سائنس پران کی نظر ہے ۔ ان مضامین میں انہوں نے جہاںایک طرف عالمی سطح پر رونما ہونےوالی فکری تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے اورمغربی ماحول میں پروان چڑھنے والی سائنس پر نقد کیا ہے ، وہیں دوسری طرف اسلام کے تصورّ علم کی وضـاحت کی ہے اورموجودہ دور کے علوم کی بنیادی اسلامی قدروں کی روشنی میں تشکیل نوکی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔
امید ہے کہ یہ مضامین علم وتحقیق کے اسلامی تناظر کی توضیح میں معاون ثابت ہوںگے اوران سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا جائے گا۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : Muslim Intellectual Deficit Reasons and Remedies
مصنف : ڈاکٹر توصیف احمد پرے
ناشر : ادارہ مطبوعات طلبہ جموں وکشمیر ،
ملنے کا پتہ : الکوثر بک سینٹر ، مائسومہ ، سری نگر ۔ ۱۱۰۰۱
سنہ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات ،۱۰۱، قیمت/- ۱۵۰؍ روپے
مسلم دانش وروں کے لیے یہ سوال بہت پریشان کن رہا ہے کہ وہ امت جس کے دین میں علم کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے، جس کے پیغمبر پر پہلی نازل ہونے والی وحی علم سے متعلق رہی ہے اور خود پیغمبر نے تحصیلِ علم پر بہت زیادہ زوردیا ہے اور اس کے فروغ کے لیے مختلف کام یاب تدابیر اختیار کی ہیں اورجس نے کئی صدیوں تک قافلۂ علم کی سربراہی کی ہے اوراس کی ایجادات واختراعات کے ثمرات سے انسانیت فیض یاب ہوتی رہی ہے، وہ زوال کا شکار کیوں کر ہوگئی ؟ کاروانِ علم سے پچھڑ کیوں گئی؟ یہاںتک کہ علمی میدا ن میں اس کی کوئی پہچان باقی نہیںرہی ۔ بعض مسلم دانش ور و ں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اوران اسباب وعوامل کا جائزہ لیا ہے جو امت مسلمہ کے علمی زوال کا سبب بنے۔ زیرِ نظرکتاب بھی اس سوال کا جوا ب تلاش کرنے کی ایک سنجیدہ اور قابل قدر کوشش ہے۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر توصیف احمد پرے نے اسلامک اسٹڈیز میں کشمیریونی ورسٹی سری نگر سے پوسٹ گریجویشن اورعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے پی ایچ ڈ ی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ ان کے مضامین، تبصرے اورکالم ملک وبیرون ملک کے مشہور جرائد و مجلات میں شائع ہوتے رہے ہیں اورعلمی حلقوں میں انہیں قبول واعتبار حاصل ہے ۔ بین الاقوامی سیمیناروں بھی ان کی شرکت رہتی ہے ۔ ۲۰۱۳ء میںانٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد میںترجمۂ قرآن کی مشکلات و مسا ئل کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں ان کے ساتھ راقم سطور کوبھی شرکت کا موقع ملا تھا۔
اس کتاب کی ابتدا میں مصنف نے اسلام کے تصور علم سے بحث کی ہے، پھر یہ دکھایا ہے کہ تاریخ اسلام کے زرّیں عہد میں علوم وفنون کے مختلف میدانوں میں مسلمانوں نے کیا ترقیاں کیں؟ اوردنیا کو کیا عطا کیا؟ اس کے بعد مسلمانوں کے زوال کی تصویر کشی کرتے ہوئے ان اسباب کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے جوان کے علمی زوال کا سبب بنے۔ آخر میں عہداستعمارکے خاتمے کے بعد قائم ہونے والے ان علمی مراکز اورتحقیقی اداروں کا تذکر ہ کیا ہے جنہوںنے مسلمانوں کی علمی ترقی کو اپنا مشن بنایا ہے اوراس میدان میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوںنے یورپ، مشرق وسطیٰ اوربرصغیر ہندوپاک میں قائم ہونے والے اداروں کا مختصر تعارف کرایا ہے۔
امید ہے ، علمی حلقوں میں اس کتاب کوقبول عام حاصل ہوگا اور ڈاکٹر موصوف کے قلم سے آئندہ بھی مفید علمی تحریر یں منظر عام پر آئیںگی۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : سہ ماہی ’نئی روشنی‘ سنت کبیر نگر(اترپردیش)
مدیر : سلمان کبیر نگری
ناشر : سہ ماہی ’نئی روشنی‘، برینیاں ، پوسٹ گنوا کھور، سنت کبیر نگر (یوپی)
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات ،۳۲، قیمت/- ۳۰؍ روپے زر تعاون سالانہ
یوں تو برصغیر ہند میںاردو رسائل کثرت سے نکل رہے ہیں، ان میں دینی رسائل کی بھی کمی نہیں ہے ، لیکن عموماً وہ مواد اوراسلوب دونوں اعتبار سے معیارِ مطلوب تک نہیں پہنچتے ۔دینی رسائل میں روایتی اورمسلکی مضامین کا غلبہ ہوتا ہے اوران کی زبان بھی آسان اورعام فہم نہیںہوتی۔غیر معیاری طباعت اورپروف کی غلطیاں اس پر مستزاد ہوتی ہیں۔ مشرقی اترپردیش سے نکلنے والے سہ ماہی رسا لہ ’ نئی روشنی ‘ کا تازہ شمارہ (اکتوبر ،دسمبر ۲۰۱۷ء ) دیکھنے کا موقع ملا تووہ مذکورہ بالا کمیوں سے پاک نظر آیا ۔ بتیس (۳۲) صفحات پرمشتمل اس رسالے میں سترہ(۱۷) مختصر مضامین اورآٹھ (۸) منظوما ت ہیں۔ مضامین معاشرہ کی اصلاح وتربیت سے متعلق ہیں ، ان میں اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے ، حقوق العباد کی ادائیگی اور خدمتِ خلق پر اُبھارا گیا ہے ، سماج میںبڑھتے جنسی جرائم پر تشویش کا اظہا ر کیا گیا ہے، شادی بیاہ میں مسرفانہ رسوم پر تنقید کی گئی ہے ۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت و ا ہمیت بیان کی گئی ہے ۔ غرض اس مختصر رسالہ میںجومضامین شامل ہیںوہ معاشرہ کی اصلاح کے لیے بہت مفید ہیں ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالے کومرتب کرنے میں کافی محنت کی جاتی ہے اورمضامین میں تنوعّ کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ رسالے کے قلمی معاونین میں معروف اصحابِ قلم شامل ہیں ۔ یوںتو مجلس مشاورت اورمجلس ادارت کے ارکان کی طویل فہرست ہے ، لیکن اس کے حسن ترتیب میں خاص دخل اس کے ایڈیٹرجناب سلمان کبیر نگری کا ہے۔
مشرقی اترپردیش سے چند ہی دینی رسائل نکل رہے ہیں ، امید ہے سہ ماہی ’نئی روشنی ‘ ان میں اپنی جگہ بنائے گا اوراس کے ذریعے اصلاح معاشرہ کی اہم خدمت انجام پائے گی۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
مشمولہ: شمارہ مئی 2018