نام كتاب : تعلیم سے ہی تصویر بدلے گی
مصنف : کلیم الحفیظ (ہلال)
ناشر : حفیظ ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ،B-9، بھاسکر کمپاؤنڈ ، جامعہ نگر، نئی دہلی –۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۸ء ، صفحات: ۱۷۶، قیمت 250/-روپے (مجلّد)
ہندوستانی مسلمانوں کے اہم ترین مسائل یہ ہیں کہ وہ معاشی اعتبار سے غریب اور تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں ۔ ان کی غربت اورجہالت شمالی ہند میں بہت نمایاںہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اِدھر کچھ عرصے سے سماجی اوررفاہی کام کرنے والوں کی توجہ ان مسائل کی جانب ہوئی ہے اور وہ معاشی اورتعلیمی میدانوں میں ترقی کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں ۔ چنانچہ پرائیویٹ اسکولس ، کالجز اوریونی ورسٹیاں خاصی تعداد میں قائم ہوئی ہیں اورمسلم طلبہ وطالبات میں بھی تحصیل علم کا رجحان بڑھا ہے۔
اس کتاب کے مصنف جناب کلیم الحفیظ اگرچہ سول انجینئر(آرکی ٹیکٹ) ہیں، لیکن انہیں تعلیم سے غیر معمولی دل چسپی ہے ۔ انہیں مشہور ما ہر4 تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سے تحریک ملی ہے ، جس کا وہ اعتراف کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوںنے کئی رفاہی ادراے اور ٹرسٹ قائم کیے ہیں ، مثلاً الحفیظ اکیڈمی سہسوان، امن(این جی او) نئی دہلی) ، حفیظ ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ ، الامین ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ۔ اوران کے ذریعے وہ مسلمان نئی نسل کی تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔
اس کتاب میں حفیظ صاحب نے اپنے تعلیمی تجربات بیان کیے ہیں ۔ ماضی کی تعلیمی تحریکیں، امت مسلمہ کی موجودہ تعلیمی صورت حال، تعلیم کی اہمیت ، مقصد اور معیار، تعلیم کی راہ کی رکاوٹیں ، تعلیم کے مختلف طریقے، اساتذہ اوروالدین کی ذمے داریاں، تعلیم کی سرکاری اسکیمیں، اوقاف کا کردار ، تعلیم میں مساجد کا رول اوردیگر موـضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ کتاب کے مشتملات تجربات پر مبنی ہیں اور ان میں عملی مسائل اور تدابیر پرروشنی ڈالی گئی ہے ۔ کتاب کے مطالعے سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف درد مند دل رکھتے ہیں۔ وہ مسلم امت کی تعلیمی پس ماندگی سے کڑھتےہیں اور اس کے از الے کے لیے ہر ممکن کوشش پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
کتاب کے آخرمیں دینی تعلیم کے بڑے اداروں، مفت کوچنگ فراہم کرنے والے مراکز، اقلیتی (مسلم) یونی ورسٹیوں ، ہندوستان کی سینٹر ل یونی ورسٹیوں اورقابل ذکرعصری اداروں، اہم بین الاقوامی یونی ورسٹیوں اوراسکالر شپ فراہم کرنے والے اداروں کی فہرستیں درج کی گئی ہیں۔ لیکن انہیں اپ ٹوڈ یٹ کرنے کی ضرورت تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کتاب اگست ۲۰۱۸ء میں شائع ہوا اور اسکالر شپ فراہم کرنے والے اداروں کے تعارف میں کہیں درج ہوکہ اسکا لر شپ اسکیم جون ۲۰۱۷ء سے شروع ہوگی، یادرخواست جمع کرنے کی آخری تاریخ یہ ہے : ۲۱؍جون ۲۰۱۷ء یا ۳۰؍جون ۲۰۱۷ء یا ۱۰؍جولائی ۲۰۱۷ء ، یا ۳۱؍جولائی ۲۰۱۷ء، یا ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۷ء یا ۲۰؍نومبر ۲۰۱۷ء وغیرہ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ فہرستیں بہت جلدی میں شامل کردی گئی ہیں اوران پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے۔
امید ہے ، تعلیم سے دل چسپی رکھنے والوں میں یہ کتاب مقبول ہوگی اور وہ مصنف کےتجربات سے فائدہ اُٹھائیں گے۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : اسلامی علوم میں خواتین کی خدمات
مصنف : ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۸ء ، صفحات: ۳۲، قیمت 24/-روپے
اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جو اعتراضات کثرت سے کیے جاتے ہیں، ان میں سر فہرست اعتراض خواتین کے حقوق اورحیثیت سے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خواتین کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں کیا جاتا، انہیں برابری کا درجہ نہیں دیا جاتا، انہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے مواقع نہیں دیے جاتے۔ زیر نظر کتاب میں اس اعتراضـ کا جواب دیا گیا ہے اور مدلل انداز میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ خواتینِ اسلام نے جہاں دین کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات کا لوہا منوایا ہے ، وہیں میدانِ علم میں بھی ان کی خدماتِ جلیلہ کوفراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
فاضل مصنف نے اس موضوع کوچند ذیلی عناوین میں تقسیم کرکے ، ان کے تحت مرتبّ انداز میں گفتگو کی ہے ۔ابتدا میں انہوںنے معترضین کی غلط فہمیوںکا تذکرہ کرکے خواتین کے امتیازی کردار پر روشنی ڈالی ہے، پھر خواتین کے ذریعہ علوم اسلامی کی سرپرستی کوبیان کیا ہے ، اس کے تحت ان عظیم خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے مدارس ، مکاتب اور یونی ورسٹیاں قائم کیں اور اشاعتِ علم کے میدان میں زبردست کارنامے انجام دیے۔ آگے معروف صحابیات وتابعیات کی علمی خدمات کا تعارف کرایا ہے ۔
پھر عالم اسلام کی ان برگزیدہ خواتین کا تذکرہ ہے ، جنہوںنے تعلیم وتعلّم کے میدان میں موتی بکھیرے ہیں ۔ یہ وہ خواتین ہیں جومیدانِ علم میں بلند مرتبے پرفائز تھیں۔ وہ درس وتدریس کی مجلسوں کو آراستہ کرتی تھیں اورہزاروں علم کے پیاسوں کو(جن میں مرد بھی شامل ہیں اورخواتین بھی) فیض پہنچاتی تھیں۔ (ص ۔۱۲۔۱۷)
علوم اسلامی کے بعض میدانوں میں خواتین نہ صرف مردوں کی ہم پلّہ نظر آتی ہیں ، بلکہ بعض گوشوں میں وہ مردوں سے سبقت لے گئی ہیں۔ اس معاملے میں چند خواتین ، مثلاً حفصہ بنت سیرینؒ، شیخہ صالحہ بنت شیخ ابوالفرج ، فاطمہ بنت محمد بن احمد السمرقندی اورعائشہ بنت ابراہیم بن صدیق وغیرہ کا بطور مثال تذکرہ کیا گیا ہے۔
کتاب کا آخری حصہ عصر حاضر میں خواتین کی علمی خدمات سے متعلق ہے ۔ اس میں گزشتہ دو صدیوں کی چند اہم خواتین:ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطیؒ، زینب الغزالیؒ، محترمہ نائلہ ہا شم صبری وغیرہ کی علمی خدمات کا تفصیل سے تعارف کرایا گیا ہے۔فاضل مصنف کا خیال ہے کہ ’’گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھا ہے ، ان کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور عصری جامعات میںبھی انہیں داخلے کے مواقع ملے توان کی صلاحیتوں کوجِلا ملی ۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی طرف توبہ دی جائے، انہیں تحقیق کا موضوع بنایا جائے اور ان کو نمایاں کیا جائے ۔(ص ۔۳۱۔۳۲)
فاضل مصنف علم کے میدان میں خواتین کے مستقبل کے منظر نامے کے بارے میںرقم طراز ہیں: ’’علوم اسلامیہ کے میدان میں خواتین کی موجودہ پیش رفت کواطمینان بخش کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن ان سے مزید کی توقع رکھنا بے جانہ ہوگا۔ جس طرح ان کا ماضی درخشاں اورتاب ناک رہا ہے اسی طرح مستقبل میں بھی امید ہے کہ ان کے ذریعے علوم اسلامیہ کے مختلف میدانوں میں قابل قدر اورمعیاری کام سامنے آئے گا۔(ص ۳۲)
ا س کتاب کا مطالعہ ایک طرف جہاں خیرالقرون سے عصر حاضر تک کی خواتینِ اسلام کی علمی خدمات کے تعارف کا سبب بنتا ہے ،و ہیں دوسری طرف قاری کے اندر میدان علم میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جذبہ بھی پروان چڑھاتا ہے۔
اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ امید ہے ، اس سے اسلام میں خواتین کے مقام ومرتبہ کا صحیح تعارف ہوگا ، مسلم خواتین کی علمی خدمات سے لوگوں کوواقفیت ہوگی اورموجودہ دور کی مسلم خواتین اورطالبات میں تحصیل علم کا جذبہ پیدا ہوگا ۔
(محمد اسعد فلاحی)
معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی ، جماعت اسلامی ہند
نام كتاب : عفو و درگذر (معاف کرنے کے فضائل)
مصنف : ابوطلحہ بنارسی ندوی
ناشر : امام بخاری ریسرچ اکیڈمی، علی گڑھ
سن اشاعت: مئی ۲۰۱۷ء ،صفحات: ۸۸،قیمت: 60/- روپے
کتاب کے مؤلف مولانا ابوطلحہ بنارسی ندوی امام بخاری ریسرچ اکیڈمی، علی گڑھ کے رفیق ہیں۔ کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے۔ اس میں اس کے ایک اہم پہلو ’عفو درگذر‘ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔مؤلفِ کتاب نے اخلاق کے اس پہلو کو اس طور پر پیش کیاہے کہ مشکل ترین ہونے کے باوجود معاشرے اور گھر کے ماحول کو خوش گوار رکھنے میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور یہ اخلاقی صفت اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی کا تقاضا کرتی ہے، بلکہ بہادری اور شجاعت و مردانگی کی علامت ہے۔
کتاب دیباچہ، دعائیہ کلمات، مقدمہ اور عرض مؤلف کے علاوہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے بات میں قرآن مجید کی روشنی میں عفو درگذر کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ذکر کیاگیا ہے کہ یہ صفت اللہ کی ہے اور اللہ نے اسے اپنے نبی کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں عفو و درگذر کی اہمیت واضـح کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں احادیث کی روشنی میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ مختلف احادیث اور دور نبوی کے واقعات کی روشنی میں عفو و درگذر کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں اللہ کے رسولﷺ کی سیرت کے چند نمونے پیش کیے گئے ہیں، جو آپؐ کی صفتِ عفو پر روشنی ڈالتے ہیں۔ چوتھے باب میں عفو و درگذر سے متعلق صحابہ کرام، تابعینِ عظام اور سلف صالحین کی زندگیوں سے واقعات کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر کافی جامع ہے ۔اس سے قاری کو متعلقہ موضوع پر عمدہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
مؤلف نے کوشش کی ہے کہ صحابہ و تابعین یا اسلاف کے وہ واقعات ہی بیان کیے جائیں جو مستند ہیں، چنانچہ انھوں نے ’عرضِ مولف‘کے تحت یہ بات لکھی بھی ہے کہ ’غیر مستند واقعات ‘ سے کتاب کو پاک رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہر باب کے آخر میں اُس باب سے متعلق حواشی درج کیے گئے ہیں اور کتاب کے آخر میں ان کتابوں کے نام مع ضروری تفصیلات درج کر دیے گئے ہیں جن سے مؤلف کتاب نے استفادہ کیا ہے۔
(تنویر آفاقی)
لائبریرین ، مرکزی اسلامی لائبریری ، جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی
Mob:9811912549
نام كتاب : فقہی مسالک اور حدیثِ نبوی
مصنف : شیخ محمد عوامہ
تلخیص وترجمانی : مولانا محمد فرید حبیب ندوی
ناشر : امام بخاری ریسرچ اکیڈمی، امیر نشاں ، علی گڑھ
سن اشاعت : مئی ۲۰۱۷ء ،صفحات: ۸۰،قیمت: 60/- روپے
یہ کتاب در اصل شیخ محمد عوامہ کی تصنیف ’اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاء ‘کی تلخیص وترجمانی ہے ۔ یہ خدمت امام بخاری ریسرچ اکیڈمی ، علی گڑھ کے محقق اوراسکالر مولانا محمد فرید حبیب ندوی نے انجام دی ہے ۔ اس پر مقدمہ مولانا بلال عبدالحیّ حسنی ندوی نے تحریر کیا ہے اورمولانا محمد غزالی ندوی نے اس کا تفصیلی دیباچہ لکھا ہے ۔ ان دونوں تحریروں سے موضوع اورکتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں ایک ایسی کتاب کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جس میں مختصراً یہ بتایا جائے کہ تمام ائمہ کرام حدیث ہی کی پیروی کرنے والے ہیں اورسب کے مسالک احادیث پر ہی مبنی ہیں۔ ان کی آپس میں مختلف آراء بھی احادیث ہی سے مستفاد ہیں اور کسی امام نے احادیث سے بے اعتنائی نہیں برتی ہے ، نہ ان کے متبعین نے اس بات کو صحیح سمجھا ہے۔
یہ کتاب حسب ذیل مباحث پر مشتمل ہے :ائمہ فقہاء کے نزدیک حدیث کی اہمیت، حدیث کے صحیح ہونے کی شرطوں میں اختلاف، ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں اختلاف ، فہم حدیث میں اختلاف ، متعارض احادیث کے درمیان تطبیق وترجیح میں اختلاف ، احادیث سے واقفیت میں تفاوت۔ آخر میں اس سلسلے میں پیدا ہونے والے آٹھ شبہات کا ذکر کرکے ان کا تفصیل سے جواب دیا گیا ہے، تاکہ ذہن مطمئن ہوجائے اوراحکام پر پوری دل جمعی اوریکسوئی سے عمل کیا جائے۔
یہ بات ہمیشہ مستحضر رہنی چاہیے کہ ائمہ اورفقہاء کے نزدیک دین کے بنیادی اصولوں میں کوئی اختلا ف نہیں ہے ۔ ان پر سب کا اتفاق ہے صرف چند فروعی نوعیت کے معاملات میںا ن کی رائیں الگ الگ ہیں ۔ بعض لوگوں نے ان فروعی مسائل کوہی اصل دین سمجھ لیا ہے اوربنیادی باتوں کووہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جن کی وہ مستحق ہیں ۔
زیر ِ نظر کتاب اس موضوع پر ہماری رہ نمائی کرتی ہے کہ ان مسائل میں حدیثِ نبوی سے استفادہ کیسے ہو؟ ان اسباب کوبھی بیان کرتی ہے جن کی وجہ سے رایوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ اپنے موضوع پر یہ ایک عمدہ کا وش اورلائق مطالعہ کتاب ہے۔ امید ہے، اس سے پورا استفادہ کیا جائے گا۔
(عبدالحیّ اثری)
ڈی ۳۰۷، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی
نام كتاب : خطوط مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری
مرتب : مسعود الرحمٰن خاں ندوی ازہری
ناشر : ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی ، بھوپال
سن اشاعت : ۲۰۱۷ء ،صفحات: ۳۷۲،قیمت: 500/- روپے
خطوط نگاری کی اہمیت مسلّم ہے ۔ خط تہذیب وثقافت ،اور سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ خطوط میں ہم خطوط نگار کے عہد ، اس کے ذاتی معاملات ، خاندانی احوال، سیاسی فضا اور دیگر کیفیاتِ حیات کا عکس پاتے ہیں۔اس ضمن میں ادباء کے کئی مجموعہ ہائے خطوط کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ، جیسے خطوطِ غالب، مکاتیب شبلی، مکاتیب حالی، مکاتیبِ سرسید، صفیہ اختر کے خطوط زیرِ لب ، غبارِ خاطر۔
زیر ِ نظر کتاب ان خطوط کا مجموعہ ہے جومولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری سابق مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء و ناظم دارالعلوم تاج المساجد بھوپال نے اپنے عزیز مولانا مسعود الرحمٰن خاں ندوی کو تحریر کیے تھے ۔
مولانا عمران خاں صاحب بڑے صاحب نظر عالم تھے۔ آپ تقویٰ اور خوفِ اِلٰہی کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ آپ عالم باعمل تھے ۔ اس مجموعہ میں کئی رنگ کے خطوط ملتے ہیں ۔ کچھ خطوط روایتی ہیںتو کچھ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں آپ نے اپنے اسفار اور خاص طور پر عالم عرب اوردیگر اہم مما لک کے اسفار کا ذکر کیا ہے ۔ دنیا کی تاریخی مساجد میں بھوپال کی تاج المساجد کا نام اہم ہے ۔ ان خطوط میں اس کا بھی ذکر آیا ہے اوراس کی تعمیر وتکمیل کے احوال کا پتہ چلتا ہے۔ مولانا کی علمی اوردینی سرگرمیوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے ۔ ان کو پڑھ کر اس عہد کی دینی فضا اورمولانا کی فکر ورجحان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ان میں مختلف علمی وادبی سیمیناروں اورکانفرنسوں سے متعلق بھی معلومات ملتی ہیں۔
فاضل مرتب نے ان خطوط کوترتیب دے کر ایک اچھی خدمت انجام دی ہے اورتاریخ دانوں کے لیے بھی مواد فراہم کردیا ہے۔
اس مجموعۂ خطوط کودیکھ کر دوباتوں کا احساس ہوتا ہے ۔ ایک تویہ کہ کتاب کی ابتدا میں خطوط نگار کی سوانح پر ایک مضمون ہونا چاہیے تھا، جس سے ان سے متعلق ضروری معلومات قاری کو حاصل ہوجاتیں ۔ دوسرے یہ کہ خطوط کی فہرست ہونی چاہیے تھی اوربہ اعتبار مضامین وموضوعات اشاریہ تیار ہونا چاہیے تھا۔ اس سے ان خطوط سے استفادہ میں آسانی ہوتی۔
کتاب کی طباعت دیدہ زیب نہیں ہے ۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ مجموعی طور پر یہ کتاب عمدہ اور لائق مطالعہ ہے ۔ توقع ہے کہ اہلِ علم اس کی جانب توجہ دیں گے۔
(خان محمد رضوان)
Mob:9810862283
Email:[email protected]
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018