کرسٹوفر ہچنز کے بیانیے

اسلام اور مسلمانوں پر کی جانے والی تنقیدوں کا جائزہ

اس سلسلہ مضامین میں ہم جدید الحاد کے چار گھڑ سواروں کے ان بیانیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہوں نے اپنے لیکچروں میں، مختلف مباحثات میں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں پیش کیے ہیں۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ عام طور پر ان چاروں کی کتابوں کے حوالے سے کافی کچھ تنقیدی مواد موجود ہے لیکن ان کے بیانات میں، یوٹیوب پر موجود ان کے لیکچروں میں اور مسلمان علما کے ساتھ ان کے مباحثوں میں، ان میں اٹھائے گئے سوالات اور اسلام پر ان کی تنقیدوں کا کوئی قابل ذکر جائزہ کہیں موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے کے گذشتہ مضمون میں ہم نے رچرڈ ڈاکنز کے مختلف لیکچروں، ویڈیو اور ان کی پوسٹوں کا تجزیہ پیش کیا تھا اب اس مضمون میں کرسٹوفر ہیچنز کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

کرسٹوفر ہیچنز جدید الحاد کے ان نمائندوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی خطابت، حاضر جوابی اور پرزور ادبی پیشکش کے ذریعے عوامی سطح پر بہت مقبولیت حاصل کی۔ وہ بنیادی طور پر ایک صحافی اور ادیب تھے مگر ان کا انداز ایسا ہے کہ علمی مجلس ہو یا عوامی اجتماع، وہ اپنے جملوں اور طنزیہ طرزِ گفتگو سے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتے تھے۔

تاہم جب آپ ان کے بیانات کو غور سے دیکھتے ہیں، تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ  ایک طرف جب کرسٹوفر ہیچنز عیسائیت پر تنقید کرتے ہیں تو اپنے بعض دلائل مضبوط انداز میں رکھتے ہیں، بطور خاص عیسائیت اور اس میں موجود بہت سی فلسفیانہ پیچیدگیاں اور عقائد و اصول کے اعتبار سے موجود بہت سے لاینحل مسائل،  گناہ و ثواب کے عیسائی تصور اور  عیسائی تثلیث کے گنجلک عقیدے پر ان کے طنزیہ اور بعض اوقات تضحیکی جملے سامعین کے لیے دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں اور واضح طور پر متاثر کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف اسلام کے بارے میں ان کی تنقیدوں کا حال یہ ہے کہ زیادہ تر زور خطابت اور عمومی بیانیے پر ہوتا ہے اور علمی سطح پر ان میں کئی خامیاں ہوتی ہیں۔

انہوں نے کئی مسلم دانشوروں سے اور مختلف عیسائی علما سے بحث و مباحثہ کیا ہے ان کے مختلف ویڈیو دیکھنے سے یہ احساس قوی ہوتا ہے کہ ان کا انداز علمی ہونے کے بجائے مناظرہ بازی والا ہوتا ہے۔ یہ بات اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آجاتی ہے جب ہم اسلام سے متعلق ان کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہچنز کے مشہور مباحثے Is Islam a Religion of Peace? (92nd St Y, New York, 2010) میں ان کے کئی جملے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسلام اپنے بارے میں بہت بڑے بڑے دعوے کرتا ہے، یہ کہتا ہے کہ یہ آخری وحی ہے اور ہر پہلو میں مکمل حل فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اس تصور کو “total solution” کہا اور لفظ ”total“ کو ”creepy“ یعنی خوفناک قرار دیا (christophererichitchens.com, 2010)۔

یہ جملہ سامعین کو متاثر کرتا ہے مگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کئی مسائل ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام کے  اس دعوے کو کہ اسلام  تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے یا اپنے اندر دنیا کے بیشتر مسائل کا حل رکھتا ہے، کہیں بھی علمی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا گیا بلکہ سرسری طور پر اس دعوے کا مذاق اڑایا گیا۔ حالاں کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کی بنیاد پر سات آٹھ سو سالوں تک دنیا میں وہ سارے بڑے مسائل جو اس وقت موجود ہیں جیسے غربت، بھکمری، معیار زندگی کا پست ہونا، مصنوعی اور انسانی اقدام کی وجہ سے ہونے والے قحط، اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شاندار طریقے سے حل کیے گئے۔

تاریخ کو جاننے والا کوئی طالب علم اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے اور عملی دنیا میں اس کو برتتے ہوئے ماضی میں مسلمانوں نے ان تمام مسائل کو بخوبی حل کیا ہے۔

مثلًا غلامی کا مسئلہ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات نے مسلمانوں کے اجتماعی ذہنی شاکلے کو اس طرح سے ڈھالا کہ سارے کا سارا جزیرہ نمائے عرب بہت قلیل عرصے میں غلامی کی لعنت سے باہر نکل گیا۔

غلاموں کو آزاد کرنا، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، صرف اللہ کی رضا کی خاطر غلاموں کو آزاد کرنا اور انسانی مساوات کے سلسلے میں ایک اعلی ترین رویہ اپنانا، ان تمام چیزوں نے مل کر مسلم سوسائٹی میں ایک ایسا اجتماعی ماحول تشکیل دیا کہ اللہ کے رسول کی  رحلت کے بعد ہر اس  معاشرے سے جہاں مسلمان حکمراں کی حیثیت سے پہنچے، غلامی عملًا ختم ہو گئی۔

اسی طرح زکوة وصدقات کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اس نظام نے جس طرح سے غریب اور امیر کے فرق کو مٹانے میں کامیابی حاصل کی اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔معاشرے میں دولت کے ارتکاز کو روکنے کے حوالے سے اس نظام کا اعتراف نہ کرنا علمی بددیانتی ہوگی۔ اس نظام معیشت پر مسلمانوں نے عمل کیا تو تاریخ نے دیکھا کہ جہاں جہاں مسلم حکمران موجود رہے وہاں غربت کو اس کی کم ترین سطح تک لانے میں کامیابی ملی۔

اسی طریقے سے غیر سودی نظام پر مبنی معاشیات کو مسلمانوں نے اس قدر ترقی دی کہ جہاں جہاں ان کی حکومتیں قائم رہیں وہاں کا جی ڈی پی اس وقت کے تمام ملکوں سے بہتر رہا اور امیری و غریبی کا فرق غیر معمولی طور پر ختم ہوا۔ اسی طرح بھکمری کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلام کے سنہری دور میں  بھکمری پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا۔ طبی نظام کے حوالے سے پوری دنیا میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مسلمانوں نے یونانیوں سے علم طب کے بعض اصول اخذ کیے اور اپنی جانب سے اس میں غیر معمولی ترقی دی۔ انھوں نے اجتماعی طبی نظام کو عملًا نافذ کیا اور ایک لمبے عرصے تک برت کر بھی دکھایا۔

اوپر دی گئی مثالوں میں وقت کے بڑے سماجی مسائل کو حل کرنے کی تمام تر  عملی شکلیں موجود ہیں اور اس پر تمام تاریخ دانوں کا اتفاق ہے حتی کہ وہ تاریخ داں بھی جو نسبتًا مسلمانوں کے تئیں تعصب میں مبتلا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی مسلمانوں کی اس حصہ داری کو تسلیم کیا اور اس کو اپنے تحقیقی مقالات اور کتابوں میں جگہ دی۔ یہ تمام باتیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں وہ عام طور پر اتنی عام اور تسلیم شدہ ہیں کہ ان کے حوالے دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اب آپ اوپر دی گئی اجمالی  مثالوں کو ذہن میں رکھیں اور  پھر کرسٹوفر ہیچنز  مبلغین اسلام کے دعوے کا جو مذاق اڑاتے ہیں اس کا تجزیہ کریں۔ آپ کو کرسٹوفر ہیچنز تمام تر تاریخی حوالوں، مؤرخین کی تحقیقات اور بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ حقائق سے نظریں چراتے نظر آئیں گے۔

اسلام کے مبلغین جب یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام تمام مسائل کا حل ہے تو ان کی مراد کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہوتی۔ ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اسلام کے اصولوں میں وہ صلاحیت موجود ہے جس کو استعمال میں لاکر تغیر پذیر دنیا کے بڑے مسائل کو حل کرنے کی کامیاب کوشش کی جاسکتی ہے۔

یقینًا اس کے لیے خصوصی قسم کے ادارے درکار ہوں گے، ان اداروں کو چلانے کے لیے خاص سطح کی اخلاقی حیثیت رکھنے والے افراد درکار ہوں گے اور یقینًا اس کے لیے اسلامی عقیدے پر سچا یقین رکھنے اور اسلامی احکام پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والا معاشرہ اور اسلامی اصولوں پر تشکیل پانے والا نظام حکومت ضروری ہوگا۔ کرسٹوفر ہیچنز ان تمام باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ وہ محض ایک مناظرہ باز کی طرح یہ بات کہتے ہیں کہ یہ دیکھیے یہ کیسے احمق لوگ ہیں جو اس طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ 1400 سال پرانے  اسلام میں دور جدید کے پیچیدہ اور ہمہ جہت مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

وہ موجود مسلم معاشروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر آپ کا اسلام اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے اصولوں میں اتنی ہی پائیداری  اور اتنی ہی لچک موجود ہے تو آپ کے سماجوں میں موجود غربت، ٹیکنالوجی کا فقدان، عورتوں کے حقوق کی پامالی وغیرہ تمام مسائل کا حل اسلامی اصول کیوں نہیں کر پاتے۔

اس بات کا تذکرہ گذشتہ مضمون میں بھی آچکا ہے کہ عام طور پر دو مختلف چیزوں کا موازنہ ممکن نہیں ہے۔جب آپ اس دعوے کا تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا اسلام میں تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو آپ کو اصولی بنیادوں پر یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا اس کے اصولوں نے اس طرح کے کسی سماج کی تشکیل میں معاونت کی ہے اور کیا ان اصولوں کی بنیاد پر کسی معاشرے کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ اگر واقعی ان اصولوں کی بنیاد پر مسائل حل ہوئے ہیں اور بہتر تہذیب تشکیل پائی ہے تو اس دعوے میں وزن ہے۔ اب اگر آج کے سماجوں میں ان اصولوں کا ان کی روح کے ساتھ کلی طور پر اطلاق نہیں کیا گیا تو ظاہر سی بات ہے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔غرض سماج اور تہذیب کا موازنہ اصولوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ اصولوں کی بنیاد پر جب سماج وجود میں آجائے گا تب اس کا موازنہ آپ دیگر سماجوں سے کریں گے۔ سماج کا موازنہ سماج سے ہوگا، تہذیب کا موازنہ تہذیب سے ہوگا اصولوں کا موازنہ اصولوں سے ہوگا۔ اس کے علاوہ (Creepy)جیسا لفظ یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ اس کا استعمال کرنے والا شخص ایک متعصب ذہنیت کا حامل ہے۔ یہ لفظ محض ایک طنزیہ تاثر پیدا کرتا ہے، علمی استدلال  سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اسی طرح ان کا مضمون Londonistan Calling جو Vanity Fair میں شائع ہواان کے عامیانہ انداز کو واضح کرتا ہے۔

اس مضمون کے مشمولات کی بنیاد پر انہوں نے برطانیہ میں کئی انٹرویو دیے ہیں۔ بطور خاص برطانیہ میں انتہا پسندی کے بعض واقعات کے حوالے سے جن میں بعض مسلمانوں کا نام آیا (اس طرح کے واقعات کو برطانوی میڈیا اور اب بشمول ہندوستان تمام دنیا کا میڈیا بلا جھجھک مسلم انتہا پسندی کے نام سے موسوم کر دیتا ہے) انہوں نے برطانیہ میں مسلم انتہاپسندی کو موضوع بنایا اور یہ کہا کہ مغرب نے اسلام پسندوں کو برداشت کر کے اپنی ہی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ نقطۂ نظر بظاہر سیاسی تجزیہ معلوم ہوتا ہے مگر اس میں مذہب اور سیاست کے عوامل کو خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ انتہاپسندی لازمی طور پر مذہب کا پیدا کردہ مظہر نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے متعدد اسباب جیسے معاشی ناہمواریاں، استعماری پالیسیوں کے اثرات اور عالمی سیاست کا ردعمل وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ ہچنز کے یہاں اس معاملے میں انصاف کی پاسداری نہیں ملتی۔ اس کے برعکس یہ عمومی تاثر ابھرتا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی مغرب کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ انداز علمی پیش کش کم اور سیاسی پروپیگنڈا زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

اسی طرح کا ایک پہلو آزادی اظہار کے حوالے سے بھی ہے۔آزادی اظہار کے موضوع پر ہچنز کے لیکچر بہت مشہور ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ اگر کوئی اسلام پر تنقید کرے تو لازماً تشدد کی دھمکی سامنے آتی ہے اور اسلام آزادی رائے کو برداشت نہیں کرتا (YouTube: Christopher Hitchens on Free Speech, 2006)۔ ۔ بلاشبہ بعض ایسے واقعات موجود ہیں جن میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے، جیسے کارٹون تنازعہ وغیرہ، مگر یہ واقعات علمی تنقید پر ردعمل کے نہیں بلکہ اشتعال انگیزی پر رد عمل کے ہیں۔

اسلامی روایت ایسے علما اور مفکرین سے مالا مال ہے جنہوں نے مباحثے کی آزادی کو تسلیم کیا، خود فلسفیانہ سوالات اٹھائے اور کلامی مسائل پر طویل مناظرے کیے۔ اس پہلو کو نظرانداز کر دینا اور اسلام کو مطلق طور پر عدمِ برداشت کا مذہب قرار دینا غیر علمی انداز ہے۔

وہ اسلام کے اس بنیادی اصول کو بھول جاتے ہیں جو لوگوں کے دین اور ان کے خداؤں کو برا بھلا کہنے سے روکتا ہے۔ وہ اسلام کے اس اصول کو بھی خاطر میں نہیں لاتے جس میں صاف کہا گیا کہ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مشہور واقعات سے بھی تجاہل برتتے ہیں جن میں دیگر ادیان کے ماننے والے پوری آزادی کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ سے دینی عقائد پر مناظرے کرتے تھے اور وہ واقعات بھی جن میں بعض لوگ آپ کے ساتھ غیر مہذب طریقے سے پیش آتے لیکن انھیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح وہ خلیفہ وقت حضرت عمر کے فیصلے پر ایک عورت کی تنقید جیسے واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں، جو اسلامی روایت میں تنقید اور اختلاف کی آزادی کو ثابت کرتے ہیں۔

یہاں اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اظہار رائے کے حدود اور اظہار رائے کی آزادی کے مختلف اصول جو ایک یوروپ مرکوز فریم میں بنائے گئے ہیں، کیا وہ دنیا کے تمام معاشروں پر آنکھ بند کرکے لاگو کیے جا سکتے ہیں؟ اسی طرح مغربی الحادی ہیومنسٹ فکر جن اصولوں کی بنیاد پر اظہار رائے کی آزادی کو طے کرتی ہے ان پر ہر قسم کی تنقیدیں موجود ہیں لیکن کرسٹوفر ہچنز مغربی تہذیب کی بنیاد پر وجود میں آئے اظہار رائے کی آزادی کے فلسفے کو حرف آخر مانتے ہیں اور اس کے فریم اور کسوٹی پر اسلام میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اسلام اصولی طور پر اظہار رائے کی آزادی کو مکمل طور پر قبول کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا بھی حکم دیتا ہے کہ آپ کے اظہار رائے سے کسی کی دل شکنی نہ ہو، کسی کے بنیادی حقوق سلب نہ ہوتے ہوں اور فساد فی الارض رونما نہ ہوتا ہو ۔

ایک اور اہم بات جو ہچنز کی تقریروں میں ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ تمام مذاہب کو ایک ہی خانے میں رکھ دیتے ہیں۔ مذاہب میں موجود فرق اور خاص طور سے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے مختلف مذاہب کے مختلف رویوں کا وہ تجزیہ نہیں کرتے۔ بطور خاص اسلام کے سلسلے میں ان کے اندر کا تعصب صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وہ عیسائی اور بعض اوقات سیکولر ہیومنسٹ عدسے (lens) سے آزادی رائے کے سلسلے میں اسلام کے موقف پر کلام کرتے نظر آتے ہیں۔ یا وہ مختلف مذاہب کے رویوں کا ملغوبہ بنا کر اسے اسلام پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہچنز نےGod Is Not Great نامی اپنی کتاب میں مذہب پر سب سے زیادہ جارحانہ تنقید کی۔ اور اس کتاب کے مشمولات میں سب سے زیادہ زور جو ان کی تقاریر اور ویڈیو میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے وہ ان کا مشہور جملہ ہے کہ مذہب ہر چیز کو زہریلا بنا دیتا ہے۔ ان کا یہ مشہور جملہ  ”Hitchens, 2007, p. 13)”Religion poisons everything)محض ایک نعرہ ہے جسے وہ جگہ جگہ دہراتے ہیں۔

اسلام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی ابتدا ہی مشکوک ہے اور یہ کہ اس کے دعوے تکبر اور تکلّف سے بھرے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اس کی تعلیمات میں کوئی ایسی بات نہیں جو اس دعوے کی توجیہ کر سکے کہ وہ الہامی مذہب ہے، ایک رب کریم کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس میں دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔

(AZQuotes, n.d.)۔ یہ بیانات علمی معیار پر اس لیے کمزور ہیں کہ یہ تعمیم پر مبنی مگر یکسر بے دلیل ہیں۔ مذہب کو ” poisons everything“ کہنا ایسا ہی ہے جیسے انسان کی پوری تاریخ کو یک قلم ظلم کی تاریخ قرار دے دیا جائے۔ ان کا موقف مضحکہ خیز  ہوجاتا ہے جب وہ انسانی تہذیب میں اسلام کے غیر معمولی کنٹریبیوشن کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔

اسلام نے انسانی تہذیب کو وہ عملی ماڈل فراہم کیے جن کا تصور آج سے پندرہ سو سال قبل غالبًا ممکن بھی نہیں تھا۔ مثلًا شہریت  کا نظام، تکثیری سماج کے اصول جو اللہ کے رسول نے مدینے میں برت کے دکھائے۔

اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ عام طور پر تکثیری سماج کے حوالے سے مدینے کے تکثیری سماج کے حوالے سے مستشرقین کے یہاں یہ پروپیگنڈا تو خوب کیا گیا کہ مدینے کے تین یہودی قبائل کو جلاوطن کر دیا گیا تھا، لیکن اس بات کا تذکرہ بالکل نہیں کیا جاتا کہ اللہ کے رسول کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں رہن پر رکھی ہوئی تھی۔ یعنی مدینہ میں یہودی اچھی خاصی تعداد میں بستے تھے اور وہ خوشحال اور متمول تھے۔ ان کا اپنا عبادت خانہ تھا۔ قانونی مسائل کے حل کے لیے ان کا اپنا قضا کا نظام تھا اور اس میں اللہ کے رسول نے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔ یعنی اسلام نے آج سے پندرہ سو سال قبل ایک تکثیری سماج میں انسانی احترام، بقائے باہمی اور اخوت اور شہریت کے حوالے سے ان تمام تصورات کو عملی طور پر برت کر دکھا دیا جن پر آج کے تمام ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور اس کے عملی ماڈل کی تلاش میں ہیں۔ اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کیا کرسٹوفر ہیچنز اتنے بے خبر ہیں  کہ انہوں نے اسلام کی اس تاریخ کو نہیں پڑھا جس میں اسلام کے زیرِ حکمرانی خطوں میں امن و امان کی صورتحال اور ادب، سائنس، ٹیکنالوجی اور طب کے حوالے سے غیر معمولی ارتقا مذکور ہے۔

اس کے علاوہ اسلام میں معتزلہ، صوفیا، فقہا اور جدید اصلاحی مفکرین  وغیرہ کی مختلف روایات موجود ہیں جنہوں نے مذہب کو مختلف زاویوں سے سمجھا ہے۔ ان سب کو ایک ہی خانے میں رکھنا اور سب کو ایک طرح کے سخت تبصروں سے نوازنا، یا تو انتہا درجے کی سادگی یا خطرناک نوعیت کا تعصب ہے۔

ان کے انٹرویو اور میڈیا بیانات میں بھی یہی انداز نظر آتا ہے۔ مثلاً ہچنز نے کہا کہ اسلام جمہوری اقدار کے ساتھ متصادم ہے اور اس میں ایک خطرناک ”absolutism“ پایا جاتا ہے (Hugh Hewitt Interview, 2007)۔

اس طرح کے جارحانہ تبصرے ریڈیو  کے سامعین یا ٹی وی ناظرین پر فوری اثر ڈالتے ہیں مگر ان کا کھوکھلا پن بہرحال ظاہر ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض مسلم ریاستیں جمہوری اصولوں کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتیں، تو یہ بات قابل توجہ ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ پورا اسلام جمہوریت سے ٹکراتا ہے، علم و انصاف کے خلاف ہے۔

آخر اس حقیقت کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے پندرہ سو سال قبل ساری دنیا کو شورائیت کے نظام سے متعارف کرایا اور  اللہ کے رسول ﷺ نے اس خطے میں آئین  و دستور کی بنا رکھی۔

یہ بات درست ہے کہ ہچنز نے اپنی غیر معمولی خطیبانہ صلاحیتوں کا استعمال کرکے مغربی عوام کو بڑے پیمانے  پر اپنی طرف متوجہ کیا۔ لیکن جب ان کی تحریروں اور تقاریر کو تحقیقی پیمانے پر پرکھا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام کے تئیں ان کا رویہ زیادہ تر غیر علمی رہا ہے۔

حوالہ جات

  1. Hitchens, C. (2007). God Is Not Great: How Religion Poisons Everything. Twelve Books.
  2. Hitchens, C. (2007, June). “Londonistan Calling.” Vanity Fair.
  3. Is Islam a Religion of Peace?” Debate, 92nd Street Y, New York, 2010. Transcript: christophererichitchens.com
  4. YouTube. Christopher Hitchens on Free Speech and Religion, 2006.
  5. Hugh Hewitt Interview with Christopher Hitchens, 2007.
  6. AZQuotes. Christopher Hitchens quotes on Islam.
  7. https://www.youtube.com/watch?v=an7TaDQ5Yo0 Hitche son religion and politics

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2025

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223