درسِ حدیث

استقامت

عَنْ سُفْیَان بن عبداللہ قال قلتُ یا رسولَ اللّٰہِ قُلْ لِی فِی الاِسلامِ قَولاً لاأسْألُ عَنْہ اَحَداً بَعْدَکَ، قَالَ: قُلْ اَمنتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ۔      ﴿رواہ مسلم، کتاب الایمان، باب جامع أوصاف الاسلام، حدیث۶۲:﴾

حضرت سفیان بن عبداللہ سے مروی ہے انھوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ  مجھے اسلام کی، کوئی ایسی جامع بات بتادیجئے کہ پھر مجھے کسی اور سے اس کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپﷺ  نے ارشاد فرمایا: کہومیں اللہ پر ایمان لایا، اس پر جم جاؤ۔

اس حدیث میں جو جامع بات کہی گئی ہے اس میں بظاہر صرف دو الفاظ ہیں ’’ایمان‘‘ اور ’’استقامت‘‘ ۔ یہ دراصل ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں ہیں۔ ایمان دعویٰ ہے، استقامت اس پر دلیل ہے۔ ایمان اللہ کے لیے خود سپردگی اور حوالگی کا اقرار ہے اوراستقامت اس کا مظہر ہے۔ ایمان بندگیِ رب اور اس کے لیے اخلاص کااعلان ہے، استقامت اس کی حقیقی تعبیر ۔ استقامت دین کی اساس اور مومن کا وقار ہے۔ اس کے ذریعے سے دنیا میں بھی عزت وشرف حاصل ہوتا ہے اور یہ جنت میں بھی داخلے کا وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَآئِکَۃُ اَلَّاتَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَبْشِرِوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔ ﴿حٰمٓ السجدہ:۳۰﴾

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، اور ان سے کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔

استقامت کامطلب ہے ثابت قدم رہنا، ثابت قدمی اقوال وافعال میں ، عقیدہ واعمال میں، ظاہروباطن میں، عمل وسیرت میں، فکر ونظر میں، اللہ کی معرفت اور اس کی خشیت میں، اللہ کی عظمت وہیبت کے ادراک میں، اس کی کبریائی وجلال کے اعتراف میں، اس سے امیدوبیم میں اور اللہ پر توکل اور غیر اللہ سے بے زاری میں۔

استقامت کی راہ میں عام طور پر دو طرح کی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ کچھ کا تعلق خارجی امور سے ہوتا ہے۔ گھر، خاندان، معاشرہ اورماحول، حکومت وقت، دشمنان دین، مخالفین ومعاندین، برے ساتھی، ان کے دباؤ میں آکر انسان راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور ثابت قدم نہیں رہ پاتا۔ کچھ رکاوٹوں کا تعلق انسان کے اندرون سے ہوتا ہے، اس کی وجہ سے وہ جس ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اور جس عزم کااظہار کرتاہے اس پر قائم نہیں رہ پاتا ہے، اس کا نفس اسے بھٹکادیتاہے، نفسانی خواہشیں اور لذتیں اس پر غالب آجاتی ہیں، اور وہ شیطانی وساوس کے گھیرے میں آکراستقامت کی راہ کھو بیٹھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :

أرَأیت مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہُ ھَوَاہُ أَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیلآ۔ ﴿الفرقان:۴۳﴾

کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو، کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو۔

یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے اس مرحلے سے کامیاب وبامراد نکلنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دُعا سکھائی ہے:

رَبَّنَا لاَتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الوَّھَابَ﴿ال عمران:۸﴾

پروردگار سیدھی راہ دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کیجو، ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کرکہ تو فیاض حقیقی ہے۔

رَبَّنَا اَفْرِغْ عََلَیْنَا صَبْراً وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا۔ ﴿البقرہ:۲۵۰﴾

اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمارے قدم جمادے۔

حضرت انسؓ  سے ایک دوسری دُعا بھی مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ  اس دُعا کو کثرت سے مانگا کرتے تھے :

یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ۔

اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔

راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم آپﷺ  پر ایمان لائے اور آپﷺ  کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان لائے۔ کیا ہمارے بارے میں آپ کو اندیشہ ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نَعَمْ انَِّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَائُ۔ ﴿رواہ الترمذی﴾

ہاں دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان میں ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اس کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔

استقامت کی راہ پر قائم رہنے کے لیے دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، دعا کمزوروں کے لیے اسلحہ ہے۔ صالحین کے لیے ڈھال ہے، اس لیے کہ ہدایت وضلالت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس کی توفیق کے بغیر ہدایت نہیں مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ اِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ۔

اے نبی تم ہدایت نہیں دے سکتے ہو اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اس لیے دین پر استقامت اور ثابت قدمی کے لیے برابر اللہ سے دُعا کرنی چاہئے۔ اللہ کے رسولﷺ  کا ارشاد ہے:

اِنَّ رَبَّکُمْ حَیَّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِ مِنْ عَبْدِہٰ أنْ یَرْفَعَ اِلَیْہِ یَدَیْہِ فَیَردَّھُمَا صِفْراً۔ ﴿ابن ماجہ﴾

تمہارا رب زندہ جاوید اور کریم ہے جب بندہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتا ہے تو ان ہاتھوں کو خالی واپس کرتے ہوئے اس کو شرم آتی ہے۔

استقامت کے لیے دوسری معاون چیز دعوت ہے یعنی انسان جس بات پر ایمان کااظہار کرے، اس کا داعی بن جائے دین پر ثابت قدم رہنے کا یہ اہم ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَلِذٰلِکَ فَاَدْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا امرتَ۔ ﴿الشوری:۱۵﴾

اس لیے اے محمدﷺ  تم اس دین کی طرف دعوت دو ،اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے، اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاؤ۔

اس آیت میں استقامت کاحکم دینے سے پہلے دعوت دینے کا حکم دیاگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْت﴿ھود:۱۱۲﴾

اے نبی تم دین پر ثابت قدم ہوجاؤ جیسا کہ تم کو حکم دیاگیا ہے۔

آگے آیت ۱۱۷ میں فرمایاگیا :

وَمَاکَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُریٰ وَاَھْلُھَا یُصْلِحُوْنَ۔ ﴿ھود:۱۱۷﴾

تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ اس کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔

ان دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے استقامت کا حکم دیا اور آگے کی آیت میں دعوت واصلاح کاکام کرنے والوں کی حفاظت اور سلامتی کااعلان فرمایا۔

اسی طرح سورہ حم السجدہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَائِکۃُ اَلَّاتَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔

﴿حم السجدہ:۳۰﴾

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہورہے ہیں، اور ان سے کہتے ہیں، نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔

آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَنْ اَحْسَن قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا اِلیَ اللّٰہِ وَعَمَلَ صَالِحاً وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ ﴿حم السجدہ:۳۳﴾

اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

پہلی آیت میں استقامت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور آگے کی آیت میں دعوت الی اللہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت دین ، استقامت علی الدین کا ذریعہ ہے۔ استقامت کے لیے دعوت دین کا کام ضروری ہے۔

تیسری معاون چیز ’’صبر‘‘ ہے۔ استقامت کا راستہ صبر سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ ان اولوالعزم لوگوں کا راستہ ہے جنہوں نے اپنی جانوں اور مالوں اور اپنی خواہشات ومرغوبات امنگوں اور ارمانوں تمام چیزوں کا سودا اس جنت کے عوض کرلیا ہو۔ جس کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کرنے کا عہد کرلیاہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَایُلَقَّاھَا اِلاَّالَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَایُلَقَّاھَا اِلاَّذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ۔   ﴿حم السجدہ:۳۵﴾

یہ صفت نصیب نہیں ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا ہے مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔

اللھم ارزقنا الاستقامۃ واحلّنا دارالکرامۃ واجرنا من الذُل الخزی والمُھَانَۃ۔

اے اللہ استقامت کی روش کی توفیق عطا فرما، اور عزت واکرام کا گھر عطا فرما اور ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھ ۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau