دینی جامعات میں علم فلکیات کی تدریس

معرفت کے مقاصد و منہاج

زیر نظر تحریر میں علم فلکیات کو دینی جامعات کے نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ دینی جامعات کے لیے اس مضمون کی اہمیت و افادیت کے ساتھ اس کے نصاب اور مقاصد و منہاج کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ گو کہ عصری اداروں میں یہ مضمون داخل نصاب ہوتا ہے، تاہم مقاصد و منہاج کے حوالے سے ان اداروں کے لیے بھی اس تحریر کی اہمیت ہے۔ امید ہے کہ معرفیات و درسیات سے دل چسپی رکھنے والے اہل دانش پیش کردہ نکات کو غور و فکر اور گفتگو کا موضوع بنائیں گے۔ (ادارہ)

 

علمی، تحقیقی و تخلیقی میدان میں ہماری خاطر خواہ کارکردگی نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ علم کی تفریق ہے۔ دینی و عصری علوم میں فرق نے اسلاف کے شاندار کارناموں اور ہماری موجودہ ناگفتہ بہ حالت کا فرق واضح کردیا ہے۔ امت مسلمہ کی ترقی و سربلندی کی مطلوبہ جہت علم کو ایک اکائی سمجھنے، علم وتحقیق کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے اور اس کے پیش نظر تعلیمی اداروں کے احیا میں مضمر ہے۔

اس نقطہ نظر سے ہماری دینی جامعات میں ایسے علوم کی ترویج و اشاعت کا اہتمام ہو جس سے بطور خاص روز مرہ کے معاملات اور موجودہ ترقیوں کے سلسلے میں صحیح معلومات حاصل کرنے اور ملک و ملت کی رہ نمائی کرنے کے لیے طلبہ کو مطلوبہ خطوط کارمیسر آئیں۔ دور حاضر کے کئی علوم کا حالات اور ضروریات کے تحت انتخاب مفید ہوسکتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں موجودہ دور کے ایک اہم اور روز افزوں تغیر پذیر میدان، علم فلکیات کا تعارف اورضروری تفصیلات پیش کی جارہی ہیں۔ امید کہ اس کے پیش نظر دینی جامعات کے طلبہ کے لیے فلکیات کا مختصر المیعاد کورس وضع کرنے میں آسانی ہوگی۔

(۱)علم فلکیات، تعارف اور ابتدائیہ

فلکیات، ایسا مضمون ہے جس کا ہر کوئی کسی بھی عمر میں طالب علم بن سکتا ہے کیوں کہ اس کی آنکھوں کے سامنے یہ وسیع وعریض کائنات اپنی چمکتی دمکتی کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں کے ساتھ ہر وقت ایک کھلی کتاب کی طرح موجود رہتی ہے۔ علم فلکیات سے مراد، زمینی فضا سے اوپر آسمانوں میں پائے جانے والے اجرام فلکی کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہے کہ اس کائنات کا نظام کیسے چل رہا ہے۔

علم فلکیات کو سمجھنے کے لیے بعض دیگر مضامین کی مدد ضروری ہے اس لیے اس کو بین المضامین (inter disciplinary) مضمون بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی انتہائی وسیع و عریض کائنات میں موجود اجرام فلکی اور پیش آنے والے مختلف حوادث کا صحیح علم و فہم اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ ریاضی، کیمیا، ارضیات اور حیاتیات جیسے مضامین کا علم بھی ساتھ شامل رہے۔ ریاضی کا علم اس لیے کہ مختلف اجرام فلکی سے متعلق فاصلے، ان کی رفتار، اکائیوں کے حساب، مختلف دوربینوں سے حاصل ہونے والے مواد (data) کے تجزیہ کے لیے یہ ضروری ہے۔ کیمیا کا علم اس لیے ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر مختلف شعاعوں، گیسوں اور فضاؤں میں موجود کیمیائی عناصر کی کارکردگی اور ان کے درمیان کا رد عمل وغیرہ سمجھنا ممکن نہیں۔ پھر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ چاند اور مریخ وغیرہ میں پیڑ پودوں کی کاشت ممکن ہے یا یہ کہ کرۂ ارض کے علاوہ کیا واقعی کہیں کسی سیارہ میں زندگی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ حیاتیات کا علم ضروری ہے۔ ارضیات کا علم اس لیے ضروری کہ اس کے بغیر سیاروں کی سطح، اس پر پائے جانے والے پہاڑ وغیرہ کی اصل نوعیت معلوم نہیں کی جاسکتی۔

عموماً دینی جامعات کے اعلیٰ درجات میں فلکیات کی ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ عبادات سے متعلق بعض اہم امور کے بارے میں بھرپور واقفیت رہے۔ جیسے قمری و شمسی تاریخ، رویت ہلال، کعبہ کی سمت اور سورج و چاند گرہن کی نوعیت۔ اس لیے بیشتر دینی مدارس سے فارغ طلبہ علم فلکیات سے بنیادی واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے طلبہ دینی مدارس کی مختصر المیعاد منصوبہ کے ذریعے موثر رہ نمائی کی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں فلکیات کی تعریف، مقاصد وغیرہ کے بیان کے علاوہ ان سارے امور کا احاطہ کیا جائے جن سے یہ معلوم ہو کہ فلکیات کی وسعت اور گہرائی کیا ہے؟ اس میں وہ تمام ضروری اصطلاحات اور تصورات کی وضاحت بھی شامل رہے جن سے خلائی سائنس میں ہونے والی ترقی اور کائنات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی بڑی حد تک واقفیت ہوسکے۔ اس مختصر المیعاد کورس میں حسب ذیل امور شامل کیے جاسکتے ہیں:

(۲)دینی جامعات کے لیے نصابِ علم فلکیات کے خدوخال

دینی جامعات میں زیر تعلیم طلبہ کے لیے حسب ذیل تین امور کے تحت ضروری معلومات شامل نصاب کی جاسکتی ہیں:

(الف)تعارف: فلکیات کی تعریف، اس کی شاخیں، فلکی تاریخ، وجود کائنات کا نظریہ، زمینی فضا اور اس کی تہیں، نظام شمسی اور اس کے سیارے، کہکشائیں، کائنات میں موجود دیگر اجرام فلکی، اہم فلکی تصورات اور اصطلاحات کی تفہیم کے علاوہ خلائی سائنس کی مختصر تاریخ اور اس میدان میں ہورہی موجودہ پیش رفت کے ساتھ ساتھ مسلم سائنس دانوں کے کارنامے جیسے امور کا احاطہ ہو۔

نوٹ: ان امور کے علاوہ جو بقیہ فنی، تکنیکی اور علمی تفصیلات ہیں، ان کے مطالعہ کے لیے خواہش مند طلبہ متعلقہ استاد کی زیر نگرانی از خود پیش رفت کرسکتے ہیں جس کے لیے مندرجہ بالا امور سے متعلق علم کفایت کرجائے گا۔

(ب)افادیت: شمسی و قمری تاریخ، سمت کعبہ، رویت ہلال اور سورج اور چاند گرہن سے متعلق ضروری معلومات۔

(ج)انطباق: اس میدان میں طلبہ کی اعلی تعلیم اور تحقیق و تخلیق کے مواقع کی فراہمی۔ علاوہ ازیں علم فلکیات، بطور خاص خلائی سائنس کی ترقی وایجادات کا معروضی مطالعہ، قابل اصلاح امور کی نشان دہی اور جائزہ، آئندہ کا لائحہ عمل۔

(۳) قابل توجہ امور

فلکیات کے میدان میں ہورہی ترقی اور دریافت سے حسب ضرورت استفادہ کرنے پر توجہ کرنے کے ساتھ اس میدان میں انجام دی جارہی سرگرمیوں کا بغور جائزہ ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خدا بے زاری اور زندگی کے حقیقی مقصد سے عدم واقفیت نے علم فلکیات سے متعلق ہورہی بیشتر کوششوں کو نامکمل اور بےسمت بنادیا ہے۔ خلائی تحقیق کے لئےہر سال عالمی سطح پر کھربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جب کہ انتہائی سنگین انسانی مسائل آج بھی عالم انسانیت کے لیے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020 اور 21 میں خلائی تحقیق (space exploration)کی غرض سے عالمی سطح پر 92 بلین ڈالر (تقریباً75 کھرب روپے) صرف کیے گئے ہیں۔ پھر مختلف ممالک کی آپسی خلائی دوڑنے ہمارے سروں کے اوپر موجود محفوظ خلا کو سٹیلائٹوں کی بے ترتیبی اور ان کے غیر ضروری اجزا(space debris)سے بڑا پر خطر بنادیا ہے گویا انسانوںکے سرپر ننگی تلوار یں لٹک رہی ہیں۔ امریکہ کی خلائی نگرانی کرنے والے نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق زمین کے مدار میں 21,901 مصنوعی چیزیں موجود ہیں۔ جن میں 4,450 برسرکار سیٹلائٹ شامل ہیں۔ ایک سینٹی میٹر سے بھی چھوٹے خلائی ردی(space junk) کے تقریباً تیرہ کروڑ ٹکڑے موجود ہیں۔ ایک سے دس سینٹی میٹر کے درمیانی سائز کے نو لاکھ خلائی ردی کے ٹکڑے ہیں۔ اور دس سینٹی میٹر سے بھی بڑے ردی کے ٹکڑوں کی تعداد چونتیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہ ہے خلائی آلودگی (space pollution)کا مختصر بیان۔ واضح رہے خلا میں موجود یہ تمام ناکارہ اجزا متحرک سیٹلائٹوں اور خلائی جہازوں کو زبردست نقصان پہنچانے کی خاصی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب تک خلا میں ایسے کئی حادثے ریکارڈ کیے گئے ہیں جہاں بالکل معمولی سی چیز نے بڑی سٹیلائیٹوں کو تباہ یا ناکارہ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ان خلائی ردی اجزا میں سے کوئی ایک معمولی سی چیز بھی زمین کی طرف گرتی ہے تو قوت کشش کے باعث حیرت انگیز رفتار اختیار کرتے ہوئے یہاں زبردست تباہی مچا سکتی ہے۔

(۴)علم فلکیات کے میدان میں پیش رفت کے لیے مطلوبہ مقاصد کا تعین

اس صورت حال میں طلبہ دینی جامعات کو علمی و تحقیقی میدان کا امام بننے کا عزم کرتے ہوئے خلائی سائنس میں ہورہی دریافت، ایجاد اور ترقی کو خیر و شر اور نفع و ضرر کے پہلو سے دیکھنا چاہیے۔ لہذا اس کے تحت، بحیثیت مسلم طالب علم، خلائی سائنس کا مطالعہ، اس میدان میں تحقیق وتفتیش نیز دریافت اور ایجاد کے لیے حسب ذیل مقاصد پیش نظر رہنے چاہئیں:

(الف)علم فلکیات میں ہورہی ترقی اور دریافت سے حسب ضرورت استفادہ کرنا۔

(ب)خلائی سائنس کے میدان میں حصول علم و تحقیق کے لیے اصول وضوابط مرتب کرنا۔

(ج)اس میدان میں ہورہی غیر منفعت بخش کوششوں کی جانب عمومی طور پر عالم انسانیت کو اور خصوصی طور افراد امت کو متوجہ کرنا، اور ان کی علمی وفکری اور عملی تیاری یقینی بنانا۔

اس کے تحت اگر دینی جامعات میں علمی و تحقیقی کام کے مواقع دستیاب رہیں تو ممکن ہے کہ بحیثیت مجموعی افرادِ امت، انسانوں کے لیے نفع بخش علوم و فنون کی ترویج واشاعت میں بڑا ہی موثر کردار ادا کرسکیں گے۔ اور دنیائے انسانیت کو اپنے افکار کی دنیا میں بھی سفر کرنے کے قابل بناسکیں گے۔

(۵)علم فلکیات کی تعلیم کا مطلوبہ منہج

علم فلکیات سے متعلق متذکرہ امور کا بقدر ضرورت تفصیلی اور مختصر تفہیم کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ دینی جامعات کے اپنے نصاب اور متعینہ ترجیحات کے پیش نظر اس علم سے متعلق محاضرات وغیرہ کے لیے مناسب اوقات کار کا تعین کیا جانا چاہیے۔ البتہ جو بات اہم ہے وہ اس کے طریقہ تعلیم اور مطلوبہ منہج سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے، ان مقاصد کی پرزور تفہیم کا اہتمام ہونا چاہیے جنھیں اوپر نکتہ (۴) کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارے طلبہ کو نہ صرف اس میدان کے ضروری علم اور موجودہ پیش رفت سے کما حقہ واقفیت حاصل کرنی ہے بلکہ، اس کے آگے کے مراحل سر کرتے ہوئے دنیائے انسانیت کے سامنے اس منہج اور طریقہ کار کی وضاحت کرنی چاہیے جس سے نہ صرف علم فلکیات میں ہونے والی تمام تر پیش رفت، ہر لحاظ سے مفید ہو بلکہ ترقی کے ساتھ معرفت کے پہلو بھی منکشف ہوتے رہیں۔ اس لحاظ سے ذیل میں بعض امور فلکیہ سے متعلق تفصیل بیا ن کی جارہی ہے تاکہ اسلامی نقطہ نظر سے معرفت کا مطلوبہ منہج اور معیار واضح کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو۔

(۶) غور و فکر اور مشاہدہ کی اہمیت و ضرورت

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات پھر سے ذہن نشین کرلیں کہ قرآن مجید میں مختلف انداز سے دعوت غور و فکر دی گئی ہے۔ غو ر و فکر سے کام لینے کے لیے یتفکرون، عقل سے کام لینے کے لیے یعقلون اور فہم وشعور پر توجہ دینے کے لیے یفقھون کا اس کتاب ہدایت میں بہ کثرت ذکر ملتا ہے۔ اگر قرآنی حکم کے مطابق، قرآنی آیات پر غور وفکر کا اہتمام ہو توعقل و فہم کے نئے نئے مدارج طے کرنا آسان ہوگا۔ قوت تخیل، قوت ادراک وغیرہ کاحاصل ہونا، غور و خوض کے انھیں قرآنی مدارج کی پاس داری سے ممکن ہے۔ بطور مثال سورہ آل عمران کی یہ دوآیات ہی ملاحظہ فرمائیں:

إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیلِ وَالنَّهَارِ لَآیاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ. الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللَّهَ قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَیتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.

بے شک زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غورو فکر کرتے ہیں۔ ( وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں)‘‘پروردگار! یہ سب کچھ تُو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تُو پاک ہے اس سے کہ عبث کا م کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ [آل عمران: 190، 191]

اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ الجامع لاحکام القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:

’’لآیت لاولی الالباب یعنی ان کے لیے نشانیاں ہیں جو اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے دلائل میں غوروفکر کرتے ہیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا : جب یہ آیت رسول اکرمﷺ پر نازل ہوئی آپ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ اسی دوران حضرت بلالؓ حاضر ہوئےاورآپ ﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا : اے اللہ کے رسول آپ کیوں رو رہے ہیں حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے بلال ! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اللہ تعالیٰ نے آج رات مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے: ’’إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیلِ وَالنَّهَارِ لَآیاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ‘‘۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا : اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور و فکر نہیں کیا…

آیت : الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللَّهَ قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِم۔ اللہ تعالیٰ نے تین حالتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ انسان اپنے تمام معاملات میں انھیں تین حالتوں میں ہوتا ہے، یعنی یہ حالتیں اس کے تمام اوقات کو محیط ہیں۔ اسی کے پیش نظر غالباً ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا فرمان بھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر فرمایا کرتے تھے( کان رسول اللہ ﷺ یذکر اللہ علی کل احیانہ)۔

علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدیؒ اپنی تفسیر تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان میں لکھتے ہیں:

اس آیت میں اللہ تعالی نے لوگوں کو اس کائنات میں غور و فکر کی ترغیب دلائی ہے کہ وہ اس کی نشانیوں سے بصیرت حاصل کریں۔ اس کی تخلیق میں غور و فکر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے لفظ “آیات” کو مبہم رکھا، یہ نہیں کہا کہ اس میں فلاں فلاں فائدے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں بے شمار فائدے ہیں۔ اس کائنات میں عقل کو حیران کردینے والی ایسی مختلف قسم کی نشانیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو ہر طرح سے متاثر کردیتی ہیں۔ ان نشانیوں میں غور و فکر کرنے والے انھیں سچے دل سے مانے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہ تمام نشانیاں، حق کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق سلیم الطبع دماغوں کو متنبہ کرتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کائنات میں موجود اجرام فلکیہ اور اشیا کی تفصیلات کا شمار کرنا کسی بھی مخلوق سے ممکن نہیں ہے۔ تفصیلات تو دور کی بات، کسی ایک چیز کی مکمل معلومات کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں۔

غور و فکر کے اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر امور سے متعلق تفصیلات پیش خدمت ہیں:

(۷)مشاہدہ و مطالعہ سے معرفت رب کی جانب

آفاق و انفس سے متعلق وہ آیت اکثر ہمارے مطالعہ میں ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان کے تذکرے کے ساتھ معرفت حق کا اعلان فرماتا ہے۔

سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ حَتَّى یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ

’’ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائیگی کہ حق یہی ہے۔‘‘ [فصلت: 53]

وسیع وعریض کائنات میں موجود اجرام فلکی، اپنے وجود سے مالک حقیقی کا پتا دیتے ہیں۔ان کی روشنی، وہ روشنی ہے جو معرفت رب کے لیے انسان کے قلب و ذہن کو منور کرتی ہے۔ اس مہربان خدا نے آنکھیں مشاہدے کے لیے دی ہیں جن سے رب کی حقیقی پہچان بہرحال یقینی ہوجاتی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں تَفَكَّرُوا فی آلاءِ اللهِ اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرو (بیہقی)۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ مبارکہ سے اس حقیقت کی جانب رہ نمائی ملتی ہے. مشاہدہ کسے کہتے ہیں اورمعرفت رب، کن مراحل سے گزر کر حاصل ہوتا ہے اور جب یہ حاصل ہوتا ہے تو کس طرح دیگر بندگان خدا کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیتا ہے… ان تمام امور کا ذکر درج ذیل آیات میں کیا گیا ہے:

وَكَذَلِكَ نُرِی إِبْرَاهِیمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِیكُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ. فَلَمَّا جَنَّ عَلَیهِ اللَّیلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّی فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِینَ. فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّی فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یهْدِنِی رَبِّی لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ. فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّی هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یاقَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ. إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ

’’ابراہیم کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔ چناں چہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اُس نے ایک تارا دیکھا۔ کہا یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولے ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں۔ پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب۔ مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری رہ نمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گم راہ لوگوں میں شامل ہوگیا ہوتا۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیمؑ پکار اُٹھے‘‘اے برادران ِقوم ! میں اُن سب سے بے زار ہوں جنھیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں نے تو یکسُو ہو کر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانون کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ [الأنعام: 75–79]

ان آیتوں کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مشاہدہ کے معنی صرف دیکھنے کے نہیں ہیں، بلکہ اس میں تین پہلو شامل ہیں۔ اول دیکھنا، دوم تجزیہ کرنا اور سوم نتیجہ اخذ کرنا یا اعلان کرنا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نہ صرف تارے، چاند اور سورج کو دیکھا بلکہ ان سب کا بغور تجزیہ فرمایا اور کہا کہ وہ (اَفَلَ) ڈوبنے والے ہیں۔ پھر ہر ایک کے بارے میں نتیجہ اخذ فرمایا۔ تارے کے بارے میں کہا کہ میں ڈوب جانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ چاند کے بارے میں تجزیہ کرکے بتایا کہ اگر میرا رب رہ نمائی نہ کرتا تو میں گم راہ ہوجاتا۔ اور سورج کے بارے میں تجزیہ کرکے اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیا کہ حقیقی رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اسی کی جانب توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔

سورہ الانعام کی ان آیتوں میں معرفت کے تین مراحل واضح ہوتے ہیں جو ذات، رب اور انسان سے متعلق ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تارے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ میں ڈوبنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ یعنی معرفت رب کا آغاز ذات سے ہوا۔ یعنی خیر و شر کی اچھی تمیز ہوجاتی ہے. پھر چاند کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ اگر میرے رب نے میری رہ نمائی نہ کی ہوتی تو میں گم راہ ہوجاتا، یہاں معرفت رب سے متعلق ہے۔ یعنی رشد و ہدایت اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب ہوتی ہے. پھر اس کے بعد سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اپنی قوم سے براءت کا اعلان فرمادیا۔ یعنی ذات اور رب کی معرفت کے بعد، انسانوں سے تعلق قائم ہوجاتا ہے، ان کے حالات کا صحیح تجزیہ اور اس کا بہ بانگ دہل اعلا ن ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر آپؑ نے فرمایا: إِنِّی أَراكَ وَ قَوْمَكَ فِی ضَلالٍ مُبِینٍ‘‘ میں تمھیں اور تمھاری قوم کو کھلی ہوئی گم راہی میں دیکھ رہا ہوں‘‘(سورہ الانعام : ۷۴)۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ معرفت ذات اور معرفت رب ہو تو، دنیائے انسانیت سے دین کی بنیاد پر تعلق قائم رہتا ہے۔

ان آیتوں سے یہ بات بھی مترشح ہوجاتی ہے کہ معرفت کے لیے مطلوبہ غور و فکر کا سلسلہ شروع ہو تو وہ کسی ایک حد تک محیط نہیں رہتا بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا بغور مشاہدہ و تجزیہ اس کا لازمی جز بن جاتا ہے۔ سورہ الانعام کی مذکورہ آیات میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مشاہدے میں تارہ، چاند اور سورج شامل ہیں۔ لیکن ان اجرام فلکی کے علاوہ کن کن چیزوں پر غور و فکر کا تسلسل جاری رہا معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی قرآن مجید کی ان آیتوں میں ان کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کا اندازہ آپؑ کے اعلان سے ہوتا ہے کہ ان اجرام فلکی کے علاوہ مزید کن چیزوں پر غور و فکر ہوا۔ اس لیے آپؑ نے آسمانوں کے ساتھ زمین کا بھی ذکر فرمایا یہ آیت دیکھیں:

إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ

’’میں نے سب سے کٹ کر، بالکل یکسُو ہو کر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ [الأنعام: 79]

حالاں کہ زمین کے کسی بھی حصہ پر غور وفکر کا ذکر سورہ الانعام کی مذکورہ بالا آیات۷۵ تا ۷۸ میں نہیں ہے۔

اس کی تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی دکھائی۔ آپؑ کو سورج چاند ستارے بادل اور بہت بڑی مخلوقات کا مشاہدہ کرایا۔ زمین کی وسعتوں کا بھی مشاہدہ کرایا۔ چناچہ آپ نے پہاڑوں سمندروں دریاؤں درختوں ہر قسم کے چوپائے دیگر کیڑے مکوڑے اور عظیم مخلوق کا مشاہدہ فرمایا۔‘‘(تفسیرالدر المنثور)۔

(۸)امور فلکیہ اور معرفت کا مطلوبہ منہج

علم فلکیات کے تحت اجرام فلکی کا مطالعہ اور کائنات میں رونما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ، اسی تصور معرفت کے تحت کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں آسمان، زمین، زمینی فضا، سورج، چاند، دن اور رات کے علاوہ مختلف اجرام فلکی کا وجود، تصورات اور وسیع و عریض کائنات میں رونما ہونے والے واقعات کے تحت قرآن و سنت کا منصوبہ بند مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ کائنات کے مشاہدے کی وسعت اور اصول کیا ہوں، سورہ الانعام کی منتخب آیات کی روشنی میں اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ ذیل میں بطور مثال، آسمان اور زمینی فضا کا ذکر کیا جارہا ہے، بقیہ امور پر اسی نہج سے توجہ دی جاسکتی ہے۔

آسمان

قرآن مجید میں آسمانوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ علم فلکیات کی روشنی میں اس سے متعلق تفصیلات بآسانی معلوم کی جاسکتی ہیں۔ جن کا لب لباب یہی ہے کہ آسمان دراصل زمین کے اوپر تا حد نظر آنے والا نیلا گنبد نما غلاف ہے، جس کا احاطہ چاروں طرف ہے۔ اس میں زمینی فضا اور وسیع و عریض خلا، دونوں شامل ہیں۔اس سلسلہ کی مزید تفصیلات جیسے آسمان کس کا مجموعہ ہے، اس میں کون کون سے اجرام فلکی پائے جاتے ہیں؟ بادل کیا ہیں؟ آسمان نیلے رنگ کا کیوں دکھائی دیتا ہے؟ سات آسمانوں کی نوعیت کیا ہے؟ وغیرہ جیسے امور شامل کرتے ہوئے، آسمانوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

آسمانوں کا وجود ہمارے سامنے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے ذریعے علم و عرفان کے کون سے پہلو ہوسکتے ہیں جن کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے؟ اس ضمن میں بطور خاص حسب ذیل تین پہلوؤں کے تحت قرآن مجید کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

(الف) قرآن مجید میں آسمانوں کی تخلیق کا ذکر کس انداز سے کیا گیا ہے؟

جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا(سورہ الاعراف: ۵۴)، اس نے آسمان اور زمین پیدا کیے اور آسمان سے پانی برسایا (سورہ ابراہیم: ۳۲)۔

(ب) آسمان، ایک شاہ کار تخلیق کیسے ہے؟

جیسے: اس نے بغیر ستونوں کے آسمان کھڑا کیا(سورہ الرعد: ٢)، وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ زمین پر نہیں گرتا (سورہ الحج: ٦٥)، اللہ تعالیٰ نے اپنے زور سے آسمان بنایا اور اس کو مسلسل وسعت دے رہا ہے(سورہ الذاریات: ٤٧)، وغیرہ۔

(ج) اس سے کیا نصیحت ملتی ہے؟

انسانوں کا پیدا کرنا، انھیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا، اللہ تعالیٰ کے لیے آسان ہے جس نے یہ وسیع وعریض آسمان پیدا فرمایا(سورہ النازعات: ۲۷)۔ انسانوں کو پیدا کرنے کی بہ نسبت، آسمانوں کو پیدا کرنا بڑا کام ہے۔(سورہ المومن: ۵۷)۔

انھی تین امور کے تحت زمین، سورج اور چاند کے علاوہ رات اور دن کے اختلاف کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

زمینی فضا

زمین سے اوپر کی جانب تقریباً دس ہزار کلومیٹر تک وہ حصہ ہے جس کو زمینی فضا کہتے ہیں۔ اس حصہ میں پانچ تہیں ہیں۔ ہر تہہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ ذیل میں ان کا مختصراً ذکر کیا جارہا ہے:

(۱)کرۂ متغیرہ یہ سب سے نچلی تہہ ہے، اس کو(troposphere)کہتے ہیں۔ یہ زمینی سطح سے اوپر کی جانب تقریباً 20 کلومیڑ بلندی تک پھیلی ہے۔ نیچے سے اوپر کی جانب درجہ حرارت میں کمی آتی ہے۔ یہاں موسم کی تبدیلی ہوتی ہے اور ہوائی جہاز بھی اسی حصہ میں اڑتے ہیں۔

(۲) کرۂ قائمہ یہ نیچے سے دوسری تہہ ہے، اس کو(stratosphere)کہتے ہیں۔یہ اوپر کی جانب تقریباً 50 کلومیٹر تک پھیلی ہے۔ درجہ حرارت کچھ حد تک مستقل رہتا ہے پھر اوپر کی جانب بڑھتا ہے۔ فضا کے اسی حصہ میں اوزون گیس پائی جاتی ہے جو سورج کے بالائے بنفشی شعاعوں(ultraviolet radiations)کے اثرات سے زمین کو محفوظ رکھتی ہے۔

اسی طرح سے دیگر تہوں میں تیسری تہہ کرۂ میانی(mesosphere)، چوتھی تہہ کرۂ حراری (thermosphere)، تیسری اور چوتھی تہوں کے درمیان ایک اور تہہ کرۂ آیونی(ionosphere) اور سب سے آخری تہہ کرۂ بیرونی(exosphere)ہے۔ یہ تمام کرے اور تہیں اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان سے متعلق تفصیلات بڑی آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔ ان میں معرفت کا پہلو یہ ہے کہ یہ تہیں اپنی خصوصیات کے لحاظ سے محفوظ قلعوں کا کام انجام دیتی ہیں۔ بظاہر ان تہوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی تقسیم کرنے والا قطعہ یا دیوار نہیں، لیکن وہ تمام تہیں، اپنے وجود اور خصوصیات کے اعتبار سے الگ الگ محفوظ قلعوں کا کام انجام دیتی ہیں۔

زمینی فضا اور معرفت کے پہلو

(۱) زمینی فضا میں موجود یہ تمام تہوں کا محفوظ قلعہ ہونا، قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِیرًا

’’بڑا مبارک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اوراس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔‘‘ [الفرقان: 61]

یعنی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیائے انسانی کو ہر طرح کے باہری اور اندرونی خطرات سے مکمل محفوظ فرمایا ہے۔ اوپر مندرجہ آیات میں بروج کا ذکر، اسی مناسبت سے بیان ہوا ہے۔ بروج کی مزید تفصیلات ملاحظہ فرمائیں:

’’بروج سے مراد منزلیں ہیں۔(القرطبیؒ)۔ یہ برج کی جمع ہے جس کے معنی قصر کے ہیں۔(راغب الاصفہانیؒ)۔ برج بلند محل کو کہا جاتا ہے۔ انھیں بروج اس لیے کہتے ہیں کیوں کہ یہ ان ستاروں کے لیے اسی طرح (گھر کی حیثیت رکھتے)ہیں جیسا کہ رہنے والوں کے لیے مکان ہوتے ہیں۔(النسفیؒ)۔بروج سے مراد ایسے اونچے محل ہیں جن میں چوکیدار اور محافظ موجود ہوتے ہیں۔‘‘(البغویؒ)۔

بروج کو حفاظت اور چوکیداری جیسی خصوصیات سے موسوم کرنا ان کے دنیائے انسانیت کے لیے ہر طرح سے محفوظ و مامون ہونے کے معنوں میں ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَینَّاهَا لِلنَّاظِرِینَ. وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَیطَانٍ رَجِیمٍ.

’’اور ہم ہی نےآسمان میں بروج بنائے ان کو دیکھنے والوں کے لیے سجادیا۔ اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کردیا۔‘‘ [الحجر: 16، 17]

بعض نے بروج سے مراد بڑے سیارے بھی لیے ہیں۔

(۲)زمینی فضا کی سب سے پہلی تہہ کرۂ متغیرہ میں بارش ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں بارش برسنے کا ذکر، آسمان کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ آسمان ہے جو زمینی فضا میں سب سے پہلے پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کے لیے لفظ المزن آیا ہے۔ جس سے مراد نیچے والا یا قریب کا آسمان ہے۔دیکھیے یہ آیات:

أَفَرَأَیتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُونَ. أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ

’’اچھا یہ بتاؤ جس پانی کو تم پیتے ہو، اس کو آسمان دنیا سے تم نے نازل کیا ہے یا اس کے نازل کرنےوالے ہم ہیں؟‘‘ [الواقعة: 68، 69]

غرض اس کائنات کا چپہ چپہ اپنے اندر درس عبرت اور معرفت کے پہلو رکھتا ہے۔ علم فلکیات کا مطالعہ اور اس میدان میں ہورہی دریافتوں اور ترقیوں کا مشاہدہ اور مطالعہ اسی نقطہ نظر سے مفید ہوسکتا ہے۔ کائنات پر غور و فکر کا حاصل یہی ہے کہ اس کا بس ایک ہی خالق ہے، اسی نے اس کو متعین مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے۔

انسانی ترقی اور دریافت، کائنات کی اسی حقیقت کی بازیافت کرتی جارہی ہے۔ زمانے کی اس جانب ترقی کا ایک مفید پہلو یہی ہے کہ وہ اس کائنات کی وسعت اور ہم آہنگی کے نت نئے پہلو واضح کرتی جارہی ہے۔

گذشتہ سال کے آخر میں خلا میں چھوڑے گئے اب تک کی سب سے طاقت ور جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ کی حالیہ دریافت نے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ امریکہ کے خلائی تحقیقی ادارے ناسا(NASA)کے مطابق اس نے اب تک کی سب سے پرانی کہکشاں GLASS-z13کی دریافت کی ہے جس کی روشنی ہم تک 13.4 ارب سال بعد پہنچی ہے۔ یعنی یہ کہکشاں زمین سے اربوں، کھربوں کلومیٹر کی دوری پر واقعہ ہے۔ اس کی روشنی اس قدر غیر معمولی اور لامتناہی فاصلہ بغیر کسی رکاوٹ کے طے کرتے ہوئے ہم تک پہنچی ہے۔ یعنی غیر معمولی وسعتوں والی اس کائنات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس کا واضح پیغام اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟

لَوْ كَانَ فِیهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یصِفُونَ

’’اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ( زمین اور آسمان)دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ ربّ العرش اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔‘‘ [الأنبیاء: 22]

اور یہ کہ ساری کائنات عبث نہیں بلکہ متعین مقصد کے تحت بنائی گئی ہے. آسمانوں اور زمین میں اسی کا دین یعنی حکم و فرماں روائی چل رہی ہے۔

وَلَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّینُ وَاصِبًا أَفَغَیرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ

’’اسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصاً اسی کا دین(ساری کائنات ) میں چل رہا ہے، پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے ڈرو گے؟‘‘ [النحل: 52]

یہی معاملہ عقل و شعور اور اختیار رکھنے والے انسان کا ہونا چاہیے کہ وہ صرف اپنے خالق و مالک کی بندگی بجا لائے:

یاأَیهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ. الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

’’لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالِق ہے، تمھارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے۔ وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مدِّمقابِل نہ ٹھہراؤ۔‘‘ [البقرة: 21، 22]

اختتامیہ

علم فلکیات کے مطالعہ کی غرض مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہوجاتی ہے۔ بطور مثال چند فلکی امور سے متعلق قرآن وسنت سے وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس وسیع وعریض کائنات سے مادی استفادے کے علاو ہ روحانی تسکین کا بھی سامان ہونا چاہیے۔ مادی استفادہ، اس میدان میں ہونے والی صحت مند ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ جب کہ روحانی تسکین کا سامان، معرفت کے نت نئے پہلوؤں کے انکشاف سے ممکن ہے۔ بحیثیت مسلمان، ہمارا اس میدان سے تعلق انھیں دو بنیادوں کے تحت ہونا چاہیے۔ ہم دنیا کی ان تمام ترقیوں کو سراہیں گے جو دنیائے انسانیت کے لیے باعث خیر ہیں، ان کا حسب استطاعت تعاون کریں گے اور خود بھی اپنے وسائل اور ضروریات کے تحت پیش رفت کریں گے۔ جب کہ غیر صحت مند ترقی اور غلط سمت پیش رفت پر علمی اور سائنٹفک طریقہ تنقید کو اپنا شعار بنائیں گے۔ رہی بات معرفت کے پہلوؤں کی، اس جانب ہمیں دنیا کو راستہ دکھانا ہوگا کیوں کہ سائنس اور سائنسی سرگرمیاں خدا بے زاری پر مبنی ہیں۔ انسانی ترقی کی وجہ سے کائنات کے سربستہ رازوں کا جو انکشاف ہوا ہے اور ہورہا ہے، ان میں معرفت ذات اور عرفان الہی کے پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہوئے دنیائے انسانیت کو متوجہ کرنا چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau