ملت کا تعلیمی ایجنڈا

چند تجاویز (1)

 ملت کے مسائل کا حل پیش کرنے والی مختلف تجاویز میں سب سے زیادہ جس تجویز کو پیش کیا جاتا ہے وہ ملت میں تعلیم کے فروغ کی تجویز ہے۔ تعلیم کی صدا ہر اس پلیٹ فارم سے گونجتی ہے جو ملت کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ لیکن تعلیم کے حوالے سے جتنی گفتگو ہوتی ہے، اس میں بہت کم ہولسٹک اپروچ (holistic approach) یعنی ہمہ جہت طریقہ تعلیم پر مشتمل ہوتی ہے۔ تعلیم سے متعلق تجاویز میں زیادہ تر زور اس پر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے لیکن جب لفظ ’تعلیم‘ بولا جاتا ہے تو اس سے عام تصور یہی ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو ڈگریوں سے آراستہ کردیا جائے۔ یعنی انھیں خواندہ (literate) بنایا جائے، نہ کہ تعلیم یافتہ(Educated)۔ ظاہر ہے کہ خواندہ اور تعلیم یافتہ بنانے میں بڑا فرق ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد خواندہ تو ہورہی ہے لیکن تعلیم یافتہ بننے کی رفتار سست ہے۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں صرف خواندگی کو بڑھانے سے نہیں آتے بلکہ بڑی تبدیلیوں کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے اکثر تعلیمی ادارے نوجوانوں کو خواندہ بنارہے ہیں تاکہ وہ امپلائیبل (Employable) یعنی روزگار حاصل کرنے کے قابل بن سکیں اور معاشرے میں بھی یہی تصور ہے کہ ڈگری حاصل کریں گے تو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں گے اور زندگی میں آسودگی آئے گی۔ یہی تصور تعلیم کے حوالے سے عام ہے۔ یہ تصور اور بھی نقصان پہنچاتا ہے جب خواتین اس تصور کو اختیار کرلیتی ہیں۔ اکثر خواتین تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہیں کہ وہ معاشی اور سماجی طور پر بااختیار ہوجائیں۔ یہ سوچ غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم اگر اس میں توازن بگڑ جاتا ہے اور خواتین بھی تعلیم کو محض معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا ذریعہ بنالیتی ہیں تو اکثر خواتین اپنے اصل کردار اور زیورِ حیا نیز نسوانیت کے وقار سے محروم ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً سماج میں خواتین کی تعلیم کا مقصد اکثر ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے ‘‘تاکہ لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے’’ ۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا مطلب یہاں معاشی اعتبار سے خود کفیل ہونا ہے۔ جہاں یہ صفت ایک عورت کو بااختیار بناتی ہے وہیں وہ خواتین جو اپنے نسوانی فرائض اور ان کی حکمتوں اور تقاضوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتی ہیں، وہ غلطی سے اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہیں۔ ہم نے کئی ایسی تعلیم یافتہ برسرروزگار خواتین کو دیکھا ہے جن کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہے۔ اس ناخوشگواری کی وجہ ان کا یہ تصور ہے کہ ‘‘میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہوں ’’ ۔ یہاں ہم خواتین کی تعلیم کی مخالفت نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام کی کم زوری اور سماج میں موجود مقاصد تعلیم کے جھول کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

ذیل میں ہم ملت کے تعلیمی ایجنڈے یعنی تعلیم کے ہمہ جہت نظام ( Holistic approach of education)کے منصوبے کو پیش کریں گے۔ اس منصوبے میں طویل المیعاد اور قلیل المیعاد دونوں پروگرام شامل ہیں۔ بعض پروگراموں کی کچھ تفصیلات پیش کی گئی ہیں اور بعض کا محض تعارف دیا گیا ہے۔ فی الوقت ہندوستانی مسلمان تعلیم کو ماضی قریب کی بہ نسبت زیادہ اہمیت تو دے رہے ہیں، لیکن یہ اہمیت یک رخی ہے نہ کہ ہمہ جہت۔ یعنی صرف اتنا ہدف ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ حاصل کیا جائے اور ڈگریاں اپنے نام کی جائیں۔ لیکن ہمیں اس عمل اور رویے کے بجائے تعلیمی کلچر کو مسلم معاشرے میں متعارف کرانا ہے اور ملت کے درمیان تعلیمی ثقافتی انقلاب برپا کرنا ہے۔ یہ تعلیمی ثقافتی انقلاب ہمہ جہت ہوگا۔ یہ انقلاب جہاں قرون اولیٰ سے اپنی بنیادیں حاصل کرے گا وہیں مستقبل کو تابناک بنانے کا وژن اپنے اندر لیے ہوگا۔ یہ آفاقی بھی ہوگا اور ملک کے تناظر میں بھی رہے گا۔

ذیل میں ہم اس تعلیمی ثقافتی انقلاب کے کچھ خدو خال پیش کررہے ہیں، یہاں ہم تعلیم کے مقصد پر روشنی ڈالیں گے، علم کی دوئی کے مسئلے کو زیر بحث لائیں گے اور بعض دیگر بنیادی مباحث کو چھیڑیں گے:

مقصد تعلیم

سب سے پہلے ملت میں مقصد تعلیم اور تعلیم کے وژن کی درستی اور اسے صحیح خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ آج ہمارا تعلیمی نظام ذہن کی صرف ایک ہی صلاحیت اور حافظے کو استعمال کررہا ہے۔ اسکولوں میں معلومات کو حافظے میں بٹھایا جاتا ہے اور امتحانات میں اسے دوبارہ ذہن سے قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ یعنی طلبہ کو پین ڈرائیو (Pen Drive) بنایا جارہا ہے۔

ہمارا سارا تعلیمی نظام ایک مشہور ماہر تعلیم پاولو فریری(Paulo Freire) کے بقول نصاب تعلیم اور امتحانات کا قیدی ہے۔ پورا سماج صرف نمبرات کے حصول کے لیے جدو جہد کرتا ہے۔ نمبرات (Mrks) کا حصول ہی تعلیم کا معیار ہے۔ مارکس (نمبرات) کے حصول کو ہی ہم نے تعلیم سمجھ رکھا ہے۔ یعنی تعلیم کے معاملے میں ہم ’’ مارکس وادی ‘‘ ہیں۔اسی ماہر تعلیم کی نظر میں ہندوستانی نظام تعلیم مظلومیت کو فروغ دے رہا ہے۔ ہم برطانوی سامراج کے اسی تعلیمی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں جو بہترین ’’ بابو ‘‘ پیدا کرتا ہے۔ ان کے بقول تعلیم کو مظلوم افراد کو ان کی مظلومیت سے نکالنے کا ایک اہم ذریعہ ہونا چاہیے۔ تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جو مظلوموں کو ظلم کی چکیوں سے آزاد کرائے، وہیں ظالموں کی اصلاح کا سامان بھی فراہم کرے، تاکہ ظالم یہ سمجھ سکیں کہ دراصل ظلم ایک کم زوری ہے اور ظلم و مظلومیت دونوں ہی انسانیت کے لیے مضر اور ایک خوشگوار سماج کے لیے سب سے بڑا چیلنج بھی ہیں۔

تعلیم کا اصل ہدف انسانوں کے اندر اس اعلیٰ مقصد کے شعور کو بیدار کرنا ہے، جس کے ذریعے انسان بندگی رب کے بلند مقام پر پہنچتا ہے۔ اسلام کی رو سے تعلیم انسان کو ایک حیاتیاتی وجود سے اونچا اٹھا کر اسے ایک عرفانی وجود بناتی ہے۔ یہ عرفانی وجود علم و آگہی کے ذریعے دنیاوی فلاح و کام یابی بھی حاصل کرتا ہے اور اخروی نجات بھی۔ یعنی ہمارے تعلیم کے مقاصد دو ہوتے ہیں ایک قلیل المیعاد اور دوسرا طویل المیعاد۔ قلیل المیعاد مقصد کے تحت علم کے ذریعے اس دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور طویل المیعاد مقصد کے تحت دنیا سے آخرت تک پھیلی ہوئی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے تزکیہ نفس کے اصولوں کو سیکھا جاتا ہے۔ اگر طلبہ کو صرف معاشی حیوان بنانے کے لیے تعلیم کا عمل جاری ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم تعلیم کے ادنی تر مقصد ہی کو حاصل کرپارہے ہیں۔ آج تعلیم کا یہ ہمہ جہت مقصد مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اس مقصد کو دوبارہ سماج میں جاری کرنا ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام ذہن کے حافظے سے ہی نکلتا ہے اور اسے ہی عمل میں لاتا ہے جب کہ تعلیم کو مرکزِ شعور سے نمودار ہونا چاہیے اور دل سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن یہ عام طور پر نہیں ہورہا ہے۔ ملت میں تعلیم کے حوالے سے دوسری بڑی کم زوری، تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ ملت نے تعلیم کا ایک حصہ دنیوی تعلیم ( عصری تعلیم ) قرار دیا ہے اور دوسرا حصہ دینی تعلیم۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان دونوں حصوں کی تعریف و توضیح بھی ملت میں بڑی محدود ہے۔ دنیوی تعلیم کو ملی لٹریچر میں سیکولر تعلیم اور عصری تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ عصری تعلیم کو ہم نے معاش سے جوڑ دیا ہے۔ عصری تعلیم کا حصول نیکی کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے۔ عصری تعلیم کو سیکولر تعلیم اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آفاق و انفس کی تعلیم کو مغرب اپنے انداز سے مزین کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور اس تزئین کاری میں آفاق و انفس کے علم کے اُس اہم پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو تعلیم کی اصل روح ہے۔ یعنی یہ کہ اس علم کا منبع خالق کائنات ہے۔ عصری علم جسے سیکولر دنیا انسانوں کے سامنے پیش کرتی ہے، اس کا تعلق صرف محسوسات سے ہے۔ ماورائے طبیعت سے اس کا واسطہ نہیں ہوتا۔ ملت کے ایک بڑے طبقے نے بھی علوم کے اس غیر روحانی نظریے کو بڑی حد تک قبول کرلیا ہے۔ چناں چہ علوم دنیا سے معرفت الٰہی کا عظیم کام نہ تو لیا جارہا ہے اور نہ ہی اس کا شعور ملت کے باشعور طبقے میں پایا جاتا ہے۔

آج بھی فلسفہ اور ماورائی حقائق کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ماورائی حقائق کے (Transcendental knowledge) کے بغیر علم ادھورا رہتا ہے۔ اسی نظریے کو اب سیکولر دنیا بھی مانتی ہے اور مان کر اسے ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن (holistic approach of education) قرار دیتی ہے۔ ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن کو ‘‘ benjantf bloof’’ دل اور دماغ کی تعلیم کہتا ہے۔اس کے نزدیک دل کی تعلیم کا مطلب سماجی صلاحیتیں ہیں جب کہ ہم ان سماجی صلاحیتوں کو اسی کی زبان میں ٹرانسی ڈینٹل ویلوز یا آفاقی قدریں کہتے ہیں۔

بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 بھی نظام تعلیم کے تحت ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن یعنی علم کا ہمہ جہت تصور کو قبول کرتی ہے۔

اس بحث کے بعد ہم یہ طے کریں کہ ہم اپنے طلبہ کو دو مقاصد کے تحت تعلیم دیں گے۔

(الف) ہمارے طلبہ اپنے حقیقی مقصد زندگی کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کے اصول و ضوابط کا علم حاصل کریں۔ یعنی ان کی زندگی اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنے۔ ہمارے ملک میں ہماری نسل اسلام کی سفیر بنے۔ خیر امت بن کر سماج میں خیر پھیلائے۔ انسانوں کی خدمت کرے اور قدرتی وسائل کی بہتر نگہداشت کرے۔

(ب) ہماری نسل تعلیم کے ہر شعبے میں مہارت حاصل کرے۔ مختلف پروفیشنل و غیر پروفیشنل تعلیم کی اونچائیوں تک پہنچے، ریسرچ اور ٹکنالوجی کے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری و غیر سرکاری شعبوں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کی انتھک کوشش کرے۔ مختلف مسابقتی امتحانات میں حصہ لے۔ الغرض اس ملک میں اپنے آپ کو علم کے میدان میں سب سے اونچے مقام پر لے جائے۔

علم کی دوئی

ملت اسلامیہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں علم کی دوئی کا شکار ہے۔ یعنی تعلیم کو دو بالکل الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ دینی تعلیم اور عصری یا سیکولر تعلیم۔

ملت کے عروج و زوال کا جائزہ لینے والے اکثر دانش وران بشمول مولانا مودودیؒ علم کی دوئی کو ملت کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب قرار دیتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قرون اولیٰ میں بلکہ قرون وسطیٰ تک بھی دینی اور دنیوی تعلیم کی کوئی تقسیم، اسلامی تعلیم کی روایات میں نہیں پائی جاتی تھی۔

قرون اولیٰ کی جو تعلیمی روایات ہیں ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرون اولیٰ کے تعلیمی نظام میں جن مضامین کو اہمیت حاصل تھی، ان میں عقیدہ، قرآن، شریعت، فقہ، اخلاقیات، انتظامی امور اور معاشی حصول کے لیے بعض فنون اور فنون لطیفہ شامل تھے۔ رفتہ رفتہ علم کی نئی شاخیں وجود میں آنے لگیں تو اسلامی ریاستوں میں تعلیم کا جو نظام قائم تھا، ان میں ان شاخوں نے جگہ پائی۔ اموی اور عباسی دور میں تعلیمی اداروں کا قیام ہوا تو ان اداروں میں سائنس اور فلسفے کی تعلیم بھی دی جانے لگی۔

 بھارت میں تعلیمی نظام کی تاریخ کے چار اہم ادوار گزرے ہیں۔ (1) ویدک دور۔ ویدک دور میں علم کے حصول کا موقع صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں ( برہمنوں ) کو ہی حاصل تھا۔ برہمنوں کے علاوہ دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ویدوں کی تعلیم حاصل کرنے پر ممانعت تھی بلکہ اگر کوئی اس روایت کو توڑتا تو اسے شدید سزائیں دی جاتی تھیں۔ اس دور میں علم ویدوں کی تعلیم کی حد تک ہی محدود تھا۔جن مراکز میں ویدوں کی تعلیم دی جاتی تھی، اسے گروکل کہا جاتا تھا۔ (2) دوسرا دور بدھسٹوں کا ہے۔ بدھ مذہب کے ماننے والوں نے مٹھ قائم کیے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے جیسے ٹکساشیلا اور نالندہ یونیورسٹی وغیرہ، ان اداروں میں تمام طبقات کو علم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔بدھ مذہب کے ان تعلیمی مراکز میں بھی زیادہ تر تعلیم مذہب کی ہی دی جاتی تھی۔ مذہب کے علاوہ چند قدیم علوم جیسے علم فلکیات، ریاضی اور طب کے علاوہ علم نجوم اور جغرافیہ کی تعلیم کے بھی کچھ ثبوت ملتے ہیں۔ (3)تیسرا دور مسلم دور رہا ہے۔ اس کا آغاز بارہویں صدی سے ہوتا ہے اور اختتام انگریزوں کے ہمارے ملک پر قبضے تک رہتا ہے۔ اس دور کی تعلیمی روایات بتاتی ہیں کہ اس دوران ملک میں تین طرح کے علوم رائج تھے۔ ایک مکاتب، دوسرے مدارس اور تیسرے ہندو تعلیمی مراکز جنھیں بدھ مذہب اور ہندوؤں کے اعلیٰ طبقات چلاتے تھے۔ مکاتب بنیادی طور پر مسجدوں یا دینی مدرسوں میں قائم تھے، جب کہ جدید تعلیم کے مراکز کو اس زمانے میں بھی مدارس کہا جاتا تھا۔ مکاتب میں دینی تعلیم کا انتظام ہوا کرتا تھا تو مدارس میں اس دور کی دینی و جدید دونوں طرح کی تعلیم کا انتظام ہوتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس دور کے مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، علم فلکیات اور طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ طب میں بالخصوص یونانی طریقہ علاج کو مسلم دور میں کافی فروغ حاصل ہوا۔ جب کہ بدھسٹ اور ویدک دور میں آیوروید کو مقبولیت حاصل تھی۔ آیوروید کے مشہور وید جس میں چرک بھی شامل ہیں، اسی دور کے ویدوں میں سے ایک تھے۔ مدارس میں زراعت کی تعلیم، فوجی تربیت، حکومت کے انتظامی امور کو چلانے کی مہارت، سماج کے لیے ضروری ہنر، فنون لطیفہ اور ادب جیسے مضامین بھی مدارس کے نصاب میں شامل تھے۔

چوتھا دور برطانوی سامراج کا تھا۔ اس دور میں تعلیمی نظام کو پوری طرح بدل دیا گیا تھا۔ مغربی طرز تعلیم عام ہونے لگی تھی۔ برطانوی حکومت نے مدارس کو دی جانے والی امداد پر کنٹرول کیا اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات بھی ہونے لگی تھی۔ مدارس اسلامیہ میں برطانوی حکومت کی مخالفت کو بہت زیادہ ہوا دی جاتی تھی یہاں تک کہ اس نظام میں آزادی کو ایک دینی فریضہ قرار دیا گیا اور مغربی نظام تعلیم اور وہ مضامین جو مغربی نظام تعلیم میں رائج تھے، مدارس میں ممنوع قرار پائے۔ مغربی مضامین نہ پڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی تھی کہ اس سے ایمان کم زور ہوگا۔ اس دور میں مغربی کلچر کو برطانوی حکومت فروغ دے رہی تھی، تو یہ خدشہ مسلمانوں نے محسوس کیا تھا کہ اس تہذیبی یلغار کی وجہ سے مسلمانوں کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے اس دور کے علمائے کرام نے ایسے مدارس کو زیادہ سے زیادہ قائم کیا جہاں دینی علوم کو پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن ان مدارس میں ان طلبہ کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس زمانے کے کچھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہی کلچر پورے مسلم سماج میں عام ہوگیا اور تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اب مدارس اسلامیہ میں اگر عصری علوم پڑھائے جانے کی بات کی جاتی ہے تو ذمہ داران مدارس کہتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں جب عصری علوم کو پڑھانے کی بات ہوتی ہے تو کیوں نہیں عصری علوم کے اسکولوں میں دینی تعلیم کی بات کی جانی چاہیے۔ یہ دلیل صحیح ہے اور اسی دلیل کے جواب میں مولانا مناظر احسن گیلانی نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ مسلمان طلبہ کے لیے میٹرک تک بنیادی عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے جس میں انگریزی زبان، ریاضی اور سائنس جیسے مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا انتظام دسویں جماعت تک ہونا چاہیے۔ دسویں جماعت کے بعد طلبہ کو یہ آزادی دی جائے کہ یا تو وہ عصری علوم کی طرف آگے بڑھیں یا پھر دینی علوم حاصل کرنے کے لیے عالمیت، فضیلت و دیگر تخصصات میں حصہ لیں۔ لیکن آج بھی تعلیم کی صورت حال ویسی ہی ہے جیسی کہ ملک کی آزادی سے پہلے تھی۔ تعلیم کے میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ عصری اسکولوں میں نصاب تعلیم اور عمل تدریس میں نت نئی تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن مدارس اسلامیہ میں ایک عرصہ دراز سے تبدیلی نہیں ہوسکی۔ یہاں تبدیلی کا مطلب ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ کی بنیادی اسپرٹ کو تبدیل کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ بلکہ مدارس اسلامیہ کی بنیادی اسپرٹ کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے کی بات ہورہی ہے تاکہ مدارس اسلامیہ سے نکلنے والے علمائے کرام اپنے زمانے کے مرجع خلائق بنیں۔ ہولسٹک ایجوکشن بورڈ اس جہت میں کام کررہا ہے۔ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے گفتگو ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ورکشاپ بھی منعقد کیے گئے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ بعض ریاستوں میں سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بے چین ہیں کہ کس طرح مدارس میں عصری علوم کو رائج کریں۔ان دنوں مدارس اسلامیہ اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے عنوان پر مباحث جاری ہیں۔ ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 راست طور پر مدارس اسلامیہ میں اصلاحات کی بات نہیں کرتی اور نہ ہی مذکورہ پالیسی میں مدارس اسلامیہ کے لیے کوئی پروگرام پیش کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی مسلم ملت اپنے مقام و مرتبے کو اسی وقت حاصل کرسکتی ہے اور اس ملک میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرسکتی ہے جب وہ علم کے اصل مقصد سے آشنا ہوجائے اور علم کی دوئی کو ختم کردے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل پروگرام وضع کیا جاسکتا ہے:

ملت میں علم و تعلیم کے صحیح شعور کو بیدار کرنے کے لیے مختلف النوع پروگرام کیے جائیں۔ مثلاً جمعہ و عیدین کے خطبات، سرپرستان طلبہ کے پروگرام، تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کے پروگرام، مضامین کا اجرا، کتابوں کی اشاعت، مختصر و طویل ویڈیو، سوشل میڈیا کے ذریعے شعور کی بیداری، وغیرہ۔

مدراس اسلامیہ کے ذمہ داران کے مسلسل پروگرام، تاکہ علم کی دوئی کو مدارس اور معاشرے سے ختم کیا جائے۔

مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داران پر دینی تعلیم و تربیت کو واضح کیا جائے۔ تاکہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں۔ اس کے لیے ان اداروں میں خدمات انجام دے رہے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ تاکہ وہ دینی تعلیم و تربیت کے ہمہ جہت پروگرام جاری رکھ سکیں۔ایسے مسلم طلبہ جو ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کے لیے جزوقتی مکاتب یا ویک اینڈ (Week end) اسلامی کلاسوں کا انتظام کیا جائے۔(جزوقتی مکاتب کا ایک مکمل خاکہ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ نے ترتیب دیا ہے جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے)۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک ایسے تعلیمی نظام کو اختیار کریں جو ملک کے دستوری و قانونی حدود میں رہتے ہوئے عصری و دینی علم کا حسین امتزاج پیداکرے۔ جہاں ممکن ہو ان اسکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور دینی مدارس میں عصری علوم کا اہتمام کیا جائے۔ اگر یہ انتظام اسکولوں اور مدارس میں ممکن نہیں ہے تو اسکولوں اور مدارس سے ہٹ کر دینی و عصری تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں۔ عصری اسکولوں کے طلبہ کے لیے الگ سے دینی مکاتب ہوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے الگ سے عصری علوم کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں۔

ذیل کی سطور میں ہم ان دونوں طرح کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دو پروگراموں کا تعارف کرائیں گے۔

پہلا پروگرام: عصری اسکولوں کے لیے جز وقتی دینی مکاتب

موجودہ دور میں مسلم بچوں کی دینی تعلیم و تربیت ایک چیلنج بن کر ابھری ہے۔ ہمارے ملک میں مسلم طلبہ تین طرح کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں:

ایک وہ اسکول جو حکومت کے زیر انتظام ہیں، انھیں سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ اسکول جو پرائیویٹ ادارے چلاتے ہیں۔ انھیں غیر سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اسکولوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جسے مسلم انتظامیہ چلاتی ہے دوسری وہ ہے جسے غیر مسلم انتظامیہ چلاتی ہے۔ تیسرے دینی مکاتب و مدارس ہیں جہاں خاص طور پر دینی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ان تینوں طرح کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا انتظام اور اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اول الذکر سرکاری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا کوئی باضابطہ نظم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ دستور ہند کے مطابق سرکاری اسکولوں میں کسی مخصوص مذہب کی مذہبی تعلیم کا انتظام سرکار نہیں کرسکتی۔ البتہ طلبہ کی معلومات کے لیے مذاہب کے کلچر اور عقائد کو پڑھایا جاسکتا ہے۔ ہاں، اردو بحیثیت زبان پڑھائی جاتی ہے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اپنی دل چسپی کی وجہ سے طلبہ کی دینی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اس طرح کا اہتمام بہت کم سرکاری اسکولوں میں کیا جارہا ہے۔ جن اسکولوں کو مسلم انتظامیہ چلاتی ہے، ان میں تھوڑی دینی تعلیم، دینی تصورات، اذکار، قرآنی سورتوں اور احادیث کو یاد کرادینے کا ( حفظ کرادینے کا ) سسٹم رائج ہے اور اسی کو دینی تعلیم کہا جاتا ہے۔

مسلم معاشرے کے ایک طبقے میں ایسے اسکولوں کی مانگ موجود ہے جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ‘ان کے اسکول میں دنیوی اور دینی تعلیم کا معقول انتظام موجود ہے’۔ اب اس طرح کے جملے اسکولوں کے اشتہارات کی زینت بن رہے ہیں۔ جن اسکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جارہا ہے، ہم اسے غنیمت سمجھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انتظامیہ کے ان اقدامات کو سراہتے ہیں۔ تاہم ہمیں اس سسٹم کی کم زوری کو بھی سمجھنا چاہیے۔ جن اقدامات کو یہ اسکول دین و دنیا کی تعلیم کا حسین امتزاج قراردیتے ہیں، وہاں دینی تعلیم کا انتظام زیادہ تر حفظ کو محور بنا کر ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کی اصل روایات میں تحفیظ قرآن اور حافظے کو اصل اہمیت حاصل نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت تزکیہ، تربیت، فہم اور معرفت کے پہلوؤں کو حاصل کرنے کی ہے جو ایک جداگانہ تدریسی و تربیتی نظام چاہتا ہے۔ افسوس کہ یہ نظام موجودہ تعلیمی روایات سے مفقود ہوگیا ہے۔

اسکولوں اور مدارس کی درجہ بندی میں ایک گروپ دینی مدارس کا بھی ہے۔ اسلامی تعلیمی نظریے کے تحت دینی مدارس کی اہمیت، سیکولر تعلیم کا انتظام کررہے اسکولوں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ علم کے ایک بنیادی مقصد یعنی ’’معرفت الٰہی‘‘ کی تعلیم کا انتظام ان مدارس میں اسکولوں کی بہ نسبت قدرے بہتر ہوتا ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ علم کی دوئی کا شکار ہیں۔ دینی مدارس نظریاتی طور پر نہ سہی، عملًا جس رویے کو اور تدریسی عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں، اس میں آفاق و انفس کی تعلیم کا انتظام نہیں کے برابر ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس مضمون میں اس پر گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔

جز وقتی مکاتب کا وژن:

ہم نے اوپر ایک مختصر جائزہ اس بات کا پیش کیا ہے کہ مسلم نوخیز نسل کی دینی تعلیم کا ہمارے ملک میں منظر نامہ کیا ہے؟ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ اسکولوں میں دینی تعلیم کا معقول انتظام موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسلم بچوں کی کثیر تعداد اسلام کی بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے اور جوں جوں زمانہ گزرتا جارہا ہے، دینی تعلیم سے محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔

ایک جانب دینی تعلیم و تربیت کی کمی اور دوسری جانب ملت کی نوخیز نسل کو درپیش چیلنج بڑے شدید ہیں۔یہاں ہم صرف دو چیلنجوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

پہلا چیلنج انفرادیت پسندی کا ہے۔مابعد جدیدیت کے دور میں انفرادیت پسندی (individualism) ایک بڑا فتنہ ہے۔ یہ اتنا شدید ہے کہ بعض اسلامی اسکالر اسے شرک بھی قرار دیتے ہیں۔ انفرادیت پسندی، فرد کو اللہ کی بندگی سے بھی دور کردیتی ہے۔ آج کے نوجوان نے اپنی سوچ کو اپنی ذات کی حد تک محدود کردیا ہے۔ اس کی انفرادیت پسندی نے اسے خود شناسی سے بے نیاز کردیا ہے۔ چناں چہ وہ مادی فوائد و وسائل، آسائش کے ذرائع اور اشیا کے حصول میں اپنے آپ کو گنوا رہا ہے۔ نہ اسے صلہ رحمی سے کوئی واسطہ ہے، نہ رشتے ناطوں سے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو روحانی زندگی سے جوڑنے کی کوئی فکر کرتا ہے۔ اس پہلے چیلنج کی وجہ سے خاندانوں کے تانے بانے بکھر رہے ہیں۔ سماجی رابطے اور تعلقات کی معنویت معدوم ہورہی ہے۔ اب تو بچے صبح اپنے والدین کو سلام فیس بک پر بھیجتے ہیں۔ ماں باپ کا احترام اور ان کی خدمات کا مفہوم ‘مدرس ڈے اور فادرس ڈے’کی حد تک سمٹ رہا ہے۔ بچے بھی اب اپنی ‘ پرائیویٹ لائف’ میں کسی کی بھی مداخلت کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس مداخلت کو اپنے اوپر ظلم سمجھنے لگے ہیں۔

دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ موجودہ مسلم نسل خود پسندی اور خود پرستی میں ملوث ہوکر نظریہ توحید سے دور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ رویہ انسان کو الحاد کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔ آج پوری دنیا میں الحاد فرد اور سوسائٹی کو اپنے شکنجے میں جکڑتا جارہا ہے۔ نوجوان نسل غیر محسوس طور پر الحاد کی جانب راغب ہوتی جارہی ہے۔ ادھر چند برسوں سے کچھ مسلم نوجوان انٹرنیٹ پر’ایکس مسلم‘ کے گروپ کے تحت اپنے آپ کو جوڑ رہے ہیں۔ علانیہ طور پر تو چند نوجوان ہی ایسے گروپوں میں شامل ہورہے ہیں لیکن تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد الحاد کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پرمائل ہورہی ہے۔ دراصل نظریہ الحاد مابعد جدیدیت کا ایک اہم نظریاتی ہتھکنڈہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ نئی نسل کو روحانی دنیا سے پوری طرح منقطع کردینا چاہتی ہے اور جب فرد روحانی دنیا سے اپنا ناطہ توڑ لیتا ہے اور روحانی دنیا کو دیو مالائی داستان سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس کے اخلاقی نظام کا محور تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ موجودہ سماج میں اخلاقیات مادیت سے جڑ گئی ہیں۔ فرد انھی اخلاق کو اپنانا چاہتا ہے جن سے اسے مادی فائدہ اور دنیاوی سرور حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا اخلاقی نظام روحانی دنیا کے محور پر گھومتا ہے۔ اسلام جس روحانی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے وہ نظریہ توحید پر قائم ہے۔

یہ تو حال ہے موجودہ عالمی اخلاقی بحران کا۔ تیسرا بڑا چیلنج ہمارے ملک کے حالات کا ہے۔ ہمارے ملکی حالات نے جو چیلنج کھڑے کیے ہیں، وہ بظاہر سیاسی محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد، اخلاقی بگاڑ پر ہی قائم ہے۔ اس بگاڑ کا اظہار سیاسی میدان میں ہورہا ہے۔ موجودہ سیاسی چیلنج مسلم نوجوانوں کو بے چین کررہے ہیں۔ مسلم نوجوان اسے ہندو مذہب سے جوڑ کر بھی دیکھتا ہے۔ حالاں کہ اس بگاڑ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے ہندو مذہب کی تعلیمات، شخصیات اور مذہبی تحریکات کابہت کم واسطہ ہے۔ بلکہ اس کا جنم ہندو نیشنلزم کے بطن سے ہوا ہے۔ لیکن عام طور پر مسلم نوجوانوں کو اس کا شعور بہت کم ہے۔ ہندو نیشنلزم کے موجودہ رویے میں اخلاقی بگاڑ اور مادہ پرستی کا اثر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مادہ پرستی ہی فرد میں یہ شوق اور اکساہٹ پیدا کرتی ہے کہ ہر ممکن ذریعے کا استعمال کرکے طاقت و قوت اور راحت و سرور حاصل کیا جائے۔ چناں چہ سماج میں اکثریت اب اس مرض کا شکار ہوچکی ہے۔ اس لیے مسلم اذہان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہندو طبقہ ان کا خیر خواہ نہیں ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے جو غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے جس کا ازالہ تعلیم و تربیت سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اس چیلنج کا مقابلہ مسلم نوجوان اپنے بنیادی کردار میں تبدیلی پیدا کرکے ہی کرسکتے ہیں۔ اس تعلیم و تربیت کا آغاز بچپن ہی سے ہونا چاہیے۔ اگر پرائمری اسکول کی سطح پرہی حالات کے تجزیے کے بعد بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی کردار سازی نہ ہو تو پھر مستقبل میں مسل ملت کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسئلے کا حل ری ایکشن، غصہ، گروہ بندی، ‘‘ وہ اور ہم،’’کی سیاست سے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار اور سماج میں اسلام کے سفیر بننے سے ممکن ہے۔

ایک اور ذیلی چیلنج اسلاموفوبیا کا ہے۔ اسلاموفوبیا طلبہ کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اب اسکولوں میں ایسی حرکات و سکنات دیکھنے میں آتی ہیں جو مسلم طلبہ کو کبھی مایوس بھی کرتی ہیں اور کبھی ان کے جذبات بھی بھڑکاتی ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات ہمارے اسکولوں میں ہورہے ہیں۔ ان چیلنجوں کے پس منظر میں ہمیں ایک متوازن، باہمت، ذہین، باشعور اور نظریہ توحید کا ادراک رکھنے والی نسل کو تیار کرنا ہے۔ یہ کام محض طلبہ کو عبادات کے لیے تیار کرنے سے پورا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بچوں کی ایسی تربیت ہو کہ دین ان کی فکر و شعور میں داخل ہوجائے اور دین ان کی خودی کا حصہ بن جائے۔ اس کے بعد طلبہ اس فکر و شعور کی روشنی میں اپنی عملی زندگی گزاریں، اپنی ثقافت کو ترتیب دیں، اپنی جمالیاتی حس کی تکمیل کریں اور سماج میں رابطوں کو استوار کریں۔ اس کے لیے ملک بھر میں جز وقتی مکاتب کی ضرورت ہے۔

جزوقتی مکاتب کا ایک بڑا جال کیرلا میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن ملک کی دیگر ریاستوں میں جزوقتی مکاتب کی تعداد بہت کم ہے۔ ‘ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ’یہ چاہتا ہے کہ ملک بھر میں باشعور نسل کی تیاری کے لیے جزوقتی مکاتب کا ایک جال پھیلا دیا جائے۔ اس لیے کہ جن چیلنجوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کا مقابلہ موجودہ دینی تعلیم کے نظام سے پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن ہاں، اس طرح کے ادارے جہاں بھی قائم ہیں، وہ ہمارے تعاون اور تائید کے مستحق ہیں۔

مکاتب کہاں قائم کیے جائیں

جن مکاتب کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ایسے جزوقتی مکاتب مسجدوں میں قائم کیے جاسکتے ہیں، کسی ہال میں، اسکولی اوقات کے بعد اسکولوں میں، اسلامی سینٹروں میں یا پھر گھروں میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر گھروں میں گنجائش ہو تو زیادہ طلبہ کو اس میں داخلہ دیا جاسکتا ہے یا پھر ایک خاندان کے بچے ہی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ بلکہ اگر ایک چھوٹا خاندان ہے اور ان کے ایک یا دو ہی بچے ہیں تو ان کے لیے بھی ایک گھر میں اس نظام کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی دست یاب جگہ سے لے کر بڑے ہال تک کہیں بھی ایسے مکاتب کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ جزوقتی مکاتب ہیں، صبح یا شام ان کا انعقاد ہوگا۔ اس لیے جہاں مسجد کی سہولت دستیاب نہیں ہے، وہاں ایسی جگہوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے جہاں سہولت کے ساتھ مکاتب کی کلاسوں کا اہتمام کیا جاسکے۔ اسی طرح اس کی کوئی قید نہیں ہے کہ یہ صرف شہروں میں قائم کیا جائے۔ اس نظام کو شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی چلایا جاسکتا ہے۔ چاہے مال دار طبقات کے محلے ہوں یا پھر غریب بستیاں۔ ہر جگہ اس کے قیام کی گنجائش موجود ہے۔

کس عمر کے بچوں کے لیے یہ نظام ہوگا

اس نظام کا تعلق عمر سے کم اور بچوں کی تعلیم سے زیادہ ہے۔ ویسے اس کی جو کتابیں ترتیب دی گئی ہیں، انھیں چار یا پانچ سال کی عمر سے پڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر طلبہ آٹھ یا دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن انھیں اب تک دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں مل سکا تو ایسے طلبہ کے لیے بھی اس کورس کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم بالغان کے سینٹروں میں بھی بالغوں کو یہ کورس پڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کورس کا تعلق عمر سے نہیں بلکہ طلبہ کے سیکھنے اور اس میں اپنے آپ کو پوری طرح لگادینے سے ہے۔

کورس کی میعاد

کورس کی کوئی متعین میعاد نہیں ہے۔ طلبہ کے سیکھنے کی صلاحیت پر یہ کورس محمول ہے۔ اگر طلبہ کورس کو تیزی سے مکمل کرلیتے ہیں تو وہ پورے کورس کو ایک سال میں بھی مکمل کرسکتے ہیں۔ فی الوقت اس کی چار کتابیں ہیں جنھیں ترتیب کے ساتھ پڑھایا جانا چاہیے۔ بعض اسکولوں کی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ ان کتابوں کو کورس میں شامل کیا جائے۔ ان کے لیے یہ مشورہ ہے کہ یہ کتابیں ‘یو کے جی ’یسے لگائی جاسکتی ہیں۔ پہلی کتاب‘ یوکے جی ’کے لیے، دوسری کتاب ‘گریڈ وَن’کے لیے، تیسری کتاب ‘ گریڈ ٹو’کے لیے اور چوتھی کتاب ‘ گریڈتھری’ کے لیے۔ ابھی ‘ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ’ نے چار کتابیں ترتیب دی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کورس کو مزید بڑھایا جائے۔

کتابوں کا تعارف

 اسلامی درسی کتابوں کو علمائے کرام اور ماہرین نے ترتیب دیا ہے۔ کتابوں کی تیاری میں طلبہ کی نفسیات، دینی ضرورتوں، موجودہ دور کے تقاضوں اور تربیتی پہلوؤں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ان کتابوں میں مندرجہ ذیل مضامین شامل ہیں:

ناظرہِ قرآن، عقائد، اخلاقیات، عبادات، فقہ، سیرت، اسلامی تاریخ اور موجودہ سماجی زندگی۔

ان کتابوں میں نظریاتی باتوں کے علاوہ عملی کام بھی طلبہ کے لیے دیے گئے ہیں۔ ان عملی کاموں کے ذریعے یہ مقصود ہے کہ طلبہ میں اخلاقیات کو عملی طور پر پیدا کیا جائے۔

تدریسی عمل

ان کتابوں کو کیسے پڑھایا جائے۔ اس کی ویڈیو یوٹیوب پر دست یاب ہیں۔ کتابوں میں دیے گئے کیو آر کوڈ کو اسکین کرنے سے آپ ان ویڈیو کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معلمین و معلمات سے گزارش ہے کہ وہ اس خاص تدریسی عمل کو اختیار کریں جو یوٹیوب پر دکھایا گیا ہے۔ ویسے ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے اسلامیات، جزوقتی مکاتب کا اہتمام کررہے معلمین و معلمات کے لیے ہر سال ٹریننگ پروگرام کا اہتمام کیا جائے گا۔ تاکہ انھیں تدریسی عمل کی جدید ٹیکنک سکھائی جائیں۔

مکاتب کے اخراجات

یہ سوال فطری ہے کہ جہاں یہ مکاتب قائم کیے جائیں گے ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مکاتب کے قیام کے لیے جو بنیادی ضرورتیں ہیں، انھیں کوئی ادارہ، مسجد کمیٹی یا اہل خیر حضرات اپنے ذمے لیں یا پھر انفرادی طور پر کوئی اسے قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ ان اخراجات کو ذمے داری اٹھائے۔ ویسے ابتدائی اخراجات بہت کم آتے ہیں۔ بنیادی اخراجات کے بعد مکاتب میں داخلے کے لیے اور کتابوں کی خریداری کے لیے مقام کے اعتبار سے فیس طے کی جائے۔ اس فیس سے جملہ اخراجات اور معلمین کی تنخواہ کا انتظام کیا جائے۔

امتحانات

ہر کتاب کی تکمیل کے بعد امتحانات کے لیے اس کا نظم ’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘ کی جانب سے کیا جائے گا۔ کام یاب طلبہ کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔ بعض مقامات پر اور حسب ضرورت و موقع آن لائن ٹیسٹ کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اسلامیات کے جزوقتی مکاتب کے قیام میں دل چسپی رکھنے والے حضرات مندرجہ ذیل ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہی۔ نیچے دیے گئے ای میل کے ذریعے بھی مراسلت کی جاسکتی ہے:

فون نمبر: 9818409191، [email protected]

(جاری)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223