موسم بدل گیا، رت بدل گئی۔
موسم بدلتا ہی رہتا ہے البتہ ہر موسم کی احتیاطی تدابیر الگ الگ ہوتی ہیں۔ انہیں بروقت استعمال کرنا ہی عقلمندی ہے اور ان پر کاربند نہ ہونے کے عواقب خطر ناک بھی ہو سکتے ہیں۔
ملک عزیز کے سیاسی موسم میں جو تبدیلی آئی ہے اس کی وجہ کوئی فوری واقعہ ، کوئی سرد یا گرم ہوا یا کوئی حادثہ نہیں ہے کیوں کہ اِس کے پیچھے ایک منظم فکر کے تحت طویل عرصہ کی جدوجہد ہے۔ اس کے بین السطور میں کوئی ڈھکا چھپا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ تمام عزائم صفحہ قرطاس پر موجود ہیں۔ سطور اتنے ابھرے ہوئے ہیں کہ بین السطور کچھ تلاش کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کے اثرات صرف سیاسی یا معاشی صورتحال تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ارادے دوررس نتائج برپا کرنے کے ہیں جن کی زد پر عقائد بھی ہیں اور معاملات بھی، سماجی ڈھانچہ بھی اورخاندانی نظام بھی۔ در اصل ایک قسم کا مکمل انقلاب (Total revolution) پیش نظر ہے۔
دوسری بات جو یاد رکھنے کی ہے کہ نفرت و عصبیت کی بنیادوں پر مطلوبہ انقلاب کے خواب کی تعبیر میں افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ افکار کی ترویج و اشاعت میں افراد آتے اور جاتے رہیں گے اور عوام کو یہ مغالطہ دیا جاتا رہے گا اصل اہمیت ان چہروں کی ہے۔ اس خطرناک طریقہ کار میں چہرے سامنے لائے جاتے رہتے ہیںاور اگر کوئی ناکامی ہوئی تو انہیں بدل دیا جاتا ہے تاکہ افکار پر ناکامیوں کی زد نہ پڑے۔ اس بات کو ہندوستانی سیاست کی تاریخ کے ایک واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کانگریس کے ساتھ تھی کیوں کہ ہندوستان ان دنوں روس کی لابی میں تھا۔ ایمرجنسی کی سی پی آئی نے کھل کر حمایت کی تھی۔ ایمرجنسی کے بعد پارٹی کو اپنی پالیسی کو جب بالکل نیا رخ دینا تھا تو اس وقت کے پارٹی کے صدر ڈانگے کے سر پچھلی پالیسی کا الزام ڈالتے ہوئے انہیں ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد ڈانگے صاحب کا نام سنا نہیں گیا اور وہ سیاست میں گُم نام ہو گئے ۔ سیاست کی دنیا میں بے چارگی اور بے چہرگی کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ آسمانِ سیاست کے روشن تارے ایسے ہی معدوم ہوتے رہتے ہیں۔ عبرت کا مقام وہ واقعہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ساتھ دو چہروں پر تجربہ ہوا۔ ایک نرم بناکر دوسرا گرم بنا کر۔ گرم رو نے عوامی تحریک چلائی اور نرم رو کو مقبول عام بنا کر اونچا اٹھایا گیا۔ پھر دونون سرخ رو تاریخ کے تہہ خانہ میں سرک گئے اور تیسرا سورما میدان میں کود پڑا۔ حقیقتاً یہ سب چہروں کے تجربے ہیں اور اس طرح چہرے بدلے جاتے رہتے ہیں اور افکار کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ عوام چہروں کے مغالطوں میں پڑے رہتے ہیں، ایک کو اچھا اور دوسرے کو بر اکہتے رہتے ہیں حالانکہ وہ سب ایک تھالی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔ اس لئے سامنے موجود چہرہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے پیچھے موجود خیالات کے مجموعہ (Bunch of Thoughts) پر نگاہ ہونی چاہیے۔ در اصل محاذ آرائی افکار کی سطح پر ہے۔ اس محاذ آرا ئی میں اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق صف آراء ہونا چاہیے۔
نئے حالات اور تحریک اسلامی
تحریک اسلامی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی و پروگرام پر وقفہ وقفہ سے جائزہ لینے کے طریقہ پر عامل ہے۔ اس جائزہ کے نتیجہ میں پرانی ڈگر کو چھوڑنا اور نئی ڈگر کو اختیار کرنا اس تحریک کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔البتہ اپنے اساسی تصورات میں پختہ ہونا اور اس میں کسی کمزوری کو راہ نہ دینا اس تحریک کی اصل قوت ہے۔ درج ذیل سطور میں انہی دو خصوصیات کو ملحوظ رکھا گیا۔ اساسات میں استحکام اور پالیسی و پروگرا میں حالات کے پیش نظرنئے فیصلے کرنے کے سلسلے میں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس جائزہ اور تجاویز کا راست تعلق نئے سیاسی موسم سے نہیں ہے بلکہ یہ باتیں آج کے مجموعی حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اس موقع پر انہیں پیش کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس وقت قلب و ذہن ایسی گفتگو سننے کے لئے آمادہ ہیں۔
نئی بات ، نیا اندازِ گفتگو
تحریک اسلای ہند کے ابتدائی لٹریچر میں جن امور پر باتیں کی جاتی تھیں وہ اس وقت دنیا میں نامانوس (غریب) ہو گئی تھیں اس لئے ان کے حق میں زورِ بیان اور قاطع دلائل کی معنویت تھی۔ الحمد للہ اب وہ باتیں نامانوس نہیں رہیں بلکہ وہ زبان زد عام ہیں۔ اب ہر شخص یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اسلام زندگی کے تمام امور پر محیط ہے اور یہ کہ دین اسلام صرف مراسمِ عبودیت کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات اس کے دائرہ کار میں ہیں۔ ہم جو کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ثابت شدہ ہے! ’’نظام‘‘ ’’نظام حیات‘‘ اور ’’تحریک‘‘ جیسی اصطلاحات اسی طرح تاریخ کا جزو بنتی جا رہی ہیں جسیے غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ علیھما رحمۃ کا اسلوبِ بیان اور اصطلاحیں ۔ ہمیں بجا طور پر اپنی تاریخ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیوں کہ جو اچھی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ان میں ہماری سعی کا بھی حصہ ہے ۔
درج بالا مباحث سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم ان تصورات سے دست بردار ہو جائیں جن کا ذکر ایک مخصوص اسلوبِ بیان میں ہم کرتے رہے ہیں۔ ان کی بنیادیں قرآن و سنت میں موجود ہیں اور امت مسلمہ اپنے زوال کے ایک دورکے علاوہ ہمشہ ان پر یقین رکھتی رہی ہے ۔ دو ر زوال میں دین کا جو پہلو غربت کا شکار ہوا تھا اسے دوبارہ معروف میں اس دور کی تحریکات اسلامی نے کلیدی رول ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس توفیق پر ہم جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ غزالی ، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کی طرح ابوالاعلیٰ مودودی اور صدرالدین اصلاحی بھی اس امت کے جلیل القدر محسنین ہیں۔ اللہ ان سب کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ ان میں کسی کی بھی فکر یا اسلوب بیان کی نفی نہیں کی جا سکتی ۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ ہمارے سامنے دین کی جو خدمات پیش نظر ہیں ان کے لئے آج کیسے الفاظ، کیا دلائل اور کام کی کیا ترتیب اختیار کی جائے ۔ کام کی درج ذیل ترتیب غور و فکر کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔
۱۔ اسلام کی حفاظت
۲۔ امت کی اصلاح کے لیے خصوصی اور مسلسل اقدامات
۳۔ دعوت دین او رملک کے عمومی مسائل کے حل کی جدوجہد میں حصہ
راقم الحروف نے اسلام کی حفاظت پر اکتفا کرتے ہوئے مسلمانوں کی حفاظت کا ذکر قصداً چھوڑ دیا ہے۔ ’’اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت‘‘ کو ایک ساتھ (bracketed) بیان کرنے پر توجہ اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ عملاً تحریک نے وہ وطیرہ اختیار کر لیا جس کی نفی سے اس بر صغیر میں کام شروع کیا تھا۔ مسلم قومیت کے در آنے کا یہ دروازہ بند کر دینا چاہیے۔ مسلمانوں کی حفاظت کا کام مسلم مجلس مشاورت، مسلم لیگ، اتحاد المسلمین، جمیعۃ العلماء اور دیگر مِلّی تنظیموں و اداروں کو کرنے دینا چاہیے اور ان سے اس کا ر خیر میں تعاون کرنا چاہیے۔
امت کی اصلاح کے لئے ہفت روزہ یا پندرہ روزہ مہمات چلانے کے بجائے لگاتار کام کرنے کی حاجت ہے۔ مثال کے طور پر خواتین کو وراثت کا حصہ نہ دینے کی بیماری ہمارے سماج میں موجود ہے۔ یہ معاملہ اسلام کی بدنامی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس پر لگاتار کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک عزیز کے سماج کی سمجھ پیدا کئے بغیر اور یہاں کے عمومی مسائل سے متعلق ہوئے بغیرمحض وعظ و تلقین کے ذریعہ دعوت دین کا کام انفردی طور پر مفید ہو سکتا ہے لیکن سماج پر اس کے دور رس اثرات نہیں پڑ سکتے اور توحید ، معاد اور رسالت کو پورے ملک میں موضوع بحث نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
کام کی حقیقت پسندانہ ترتیب طے کرنے کے بعد کارکنوں کی تربیت کا جامع نقشہ تیار کرنا چاہیے تاکہ مطلوبہ کام کیلئے افراد تیار ہو سکیں۔ ہم نئی میقات میں نئی میقاتی پالیسی و پروگرام تیار کرنے پر عامل ہیں لیکن ہمارے ہفتہ وار اجتماعات سے لے کر مختلف سطح کے تربیتی اجتماعات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ طے شدہ کام کے مطابق ہی تربیت کا نقشہ تیار کرنا چاہیے۔
غیر متعلق مباحث سے احتراز
پچھلی کئی دہائیاں ایک غیر متعلق (non-issue) بحث میں صرف ہوئیں جس کا نقطہ آغاز بے معنی تھا اور انجام کارغیرموثر ثابت ہوا۔ نقطہ آغاز یہ تھا کہ ملک کے نظام کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کے الیکشن میں ووٹ دینا جائز ہے یا ناجائز۔ یعنی ووٹ دیں یا نہ دیں۔ انجام کار کے طور پر ووٹ لینے کے لئے ایک پارٹی بھی وجود میں آگئی ۔ ووٹ دیں یا نہ دیںسے ووٹ لیں کے اس سفر میں یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ اس ملک میں الیکشنی سیاست میں کسی مسلم پارٹی یا مسلمانوں کے ذریعہ بنی ہوئی (Muslim Sponsored) پارٹی کی معنویت ہے بھی یا نہیں۔ راقم السطور کے نزدیک یہ بے معنی بلکہ محل نظر (Counter Productive) کام ہے ۔ پہلی بحث سیاسی بے عملی اور بعد کا عمل انحراف کا غمازہے۔ اِس کے برعکس اصل موضوع ہے کہ ملک میں جاری سیاسی عمل (جس کے ذریعہ نظم حکمرانی اور نظام حکمرانی پر غیر معمولی اثرات پڑ رہے ہیں اور پڑ سکتے ہیں) میں ہمارا کیا کردار ہو؟ اس سلسلہ میں چند باتیں غور و فکر کے لئے پیش کی جا رہی ہیں۔
(۱) نئی پارٹی اور جماعت کے نظم کو جدا رکھنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ضروری ہے کہ اس علیحدگی کو یقینی بنایا جائے ورنہ یہ فیصلہ اپنی روح کے منافی اور کمزوری کی علامت ہے۔ جو فیصلہ ہو واضح ہو اور گومگو کی کیفیت سے پاک ہو۔
(۲) سیاسی عمل واضح مطمح نظر کے ساتھ کیا جانے والا کام ہے۔ غیر انتخابی سیاست کی وسیع دنیا موجود ہے جہاں گائوں سے لے کر شہروں تک ملک میں قانون کی حکمرانی ، وسائل کی منصفانہ تقسیم، انصاف کے حصول ، عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں کی نگہداشت اور عوام میں نفوذ کی راہوں کی تلاش جیسے مقاصد کے تحت ہم اپنے کارکنوں کو مفیدسرگرمیوں میں مشغول کر سکتے ہیںا ور اس پورے کام کو دعوت دین کے کام کا پیش خیمہ بنا سکتے ہیں۔
(۳) ایک بہت بڑا سوال ایجنڈا کا ہے ۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ منفی سوچ رکھنے والے لوگ کوئی مسئلہ پید اکر دیتے ہیں اور اس کے جواب میں تحریک شروع ہو جاتی ہے۔ مثبت سوچ والے افراد کو ایجنڈا بنانا چاہیے جو سماجی تحریکات کا باعث بنے۔ سیاسی عمل کا سب سے اہم کام یہی ہے کہ ایجنڈا ہمارا ہو جو لوگوں کو متوجہ کر سکے اور ہم دوسروں کے ایجنڈے پر کام کرنے سے بچ سکیں۔
(۴) کچھ کام مستقل کرنے کے ہوتے ہیں اور کچھ ایک خاص زمانہ میں کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ، آخر الذکر کے لئے ایجنڈا دینا تحریک کی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے اور ان میں دیگر افراد اور تنظیموں سے تعاون لینا اس کا عملی طریقہ ہے۔ ہر موضوع پر دست تعاون بڑھانے والے افراد الگ ہو سکتے ہیں اور یہ اشتراک (Alliance) موضوع سے متعلق (Issue based) ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فرقہ پرستی کے خلاف جو سیکولر حضرات ہمارے ساتھ ہوں گے وہ یکساں سول کوڈ کے موضوع پر ہمارے مخالف کیمپ میں ہوں گے۔ اسی وجہ سے تحریک اسلامی کو مستقل نوعیت کی نئی تنظیم بنانے کا تجربہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر ایشو پر تحریک الگ سے برپا کرنے کا تجربہ کرنا چاہیے۔ تنظیم و تحریک کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے اور اول الذکر سے ممکنہ حد تک احتراز کرنا چاہیے۔ اس بات پر زور دینے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ماضی میں ہمارا طرز عمل اول الذکر کے حق میں رہا ہے۔
(۵) جو کام مستقل کرنے کے ہیں انہیں تحریک اسلامی کو اپنے پلیٹ فارم سے کرنا چاہیے تاکہ یہ اس کی پہچان بن سکے۔ ہم نے ماضی میں ایسے کئی موضوعات پر سماج کو ایجنڈا دینے کا قابل قدر کام کیا لیکن ان پر مستقل کام کرنے کے بجائے ہم نے چند دنوں کی مہمات چلا کر ایک بڑا پروگرام (event) کر لیا اور اسی پر اکتفا کیا۔ مثال کے طور پر ہیومن رائٹس (Human Rights) مہم اور اس کے پروگراموں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ایک مثال بے سمتی کی بھی جس میں ہم کافی وقت اور سرمایہ لگا چکے ہیں اور اس کے لئے تنظیم بھی کھڑی کر رکھی ہے۔ وہ اسلامی بنک کاری پر ہماری توجہ ہے۔ جب کہ ہمیں غیر سودی معاشیات کے موضوع پر پوری توجہ دینی چاہیے تھی ۔ اسلامی بنک کاری کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اسلام کا عنصر خورد بین سے تلاش کرنے کے لائق ہے اور غیر اسلامی عناصر اس کے عناصر ترکیبی بن گئے ہیں۔ غیر سودی معاشیات ہماری توجہ کا مرکز ہونا چاہیے اور سود کے خلاف مہم میں ہمیں پیش پیش ہونا چاہیے۔
درج بالا تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ سیاسی عمل در اصل عوامی نفوذ کا ذریعہ ہے اور یہ سب دعوت دین کا موثر طریقہ ہے۔ انسانوں کے مسائل سے بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب و ملت اپنی واضح پہچان کے ساتھ نبردا ٓزما ہونا ہی حق کی شہادت ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ انسانوں کے تمام مسائل ، دنیوی و اخروی‘ کا حقیقی حل یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچان لیں اور اس کے احکام کی پیروی کریں، تو دنیا یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ زندگی کے عملی میدان میں ہم اس عقیدے کی کیسی مثال پیش کرتے ہیں یعنی شہادت دیتے ہیں۔ ہم اس موضوع پر سماج کے مختلف طبقات کے نمائندوں کے ساتھ بار بار سمپوزیم کرتے رہتے ہیں اور اسلام کا موقف پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ہمارا ان طبقات سے راست رابطہ نہیں رہا ہے بلکہ محض ان کے نمائندوں کے ساتھ اسٹیج پر شرکت (Stage Sharing) رہی ہے۔ اکثر یہ نمائندے ہمارے اور سماج کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں اور ہمارے نفوذ کی راہ میں مانع ہو جاتے ہیں ۔ ان کو نظرانداز کرتے ہوئے راست عوامی رابطہ کے لئے راہیں تلاش کرنا ہمارا طریقہ ہونا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014