میں مسلمانوں سے مخصوص طور پر یہ عرض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر دعوت سے غفلت اختیار کرنے کے نتیجہ میں ملک خدا نخواستہ تباہی و بربادی سے دوچار ہوتا ہے تو انھیں ہرگز یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنے کو اس تباہی و بربادی سے بچالے جائیں گے۔ جب کہ خود ان کی غفلتوں کا حال یہ ہے کہ ان کی زندگیاں اسلامی نقطہ نظر سے ’’مسلماناں در گور اور مسلمانی در کتاب‘‘ کی مصداق بنی ہوئی ہیں اور جب کہ ملک کے اس حال تک پہنچنے کے سلسلے میں خود ان پر بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔
آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد نبوت ورسالت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اب یہ حضور کے نام لیواؤں کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں انبیاءئے کرام کے مقدس کام کو تا قیامت زندہ رکھیں۔
پس اس موقعے پر میں مسلمانوں کو ان کی یہ ذمہ داری یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اگر پہلے اس کی طرف سے غفلت برتی گئی تھی تو وہ بھی اہل ملک کے ساتھ خود اپنے اوپر بہت بڑا ظلم تھا۔ لیکن اب جب کہ ملک کا حال وہ ہے جو معلوم ہوچکا ہے۔ تو یہ ملک اور اپنے اوپر پہلے سے بھی کہیں بڑا ظلم ہے۔ کیوں کہ حالات زیادہ توجہ، جدوجہد اور ایثار و قربانی کے طالب ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ یہ فرض نہ تو اس طرح ادا ہوگا کہ آپ شخصی اور گروہی منفعتوں کی خاطر حکومت و اقتدار کی خوشامد و تملق میں مصروف ہوجائیں۔ نہ اس طرح کہ انھی منفعتوں کے لیے کوئی فرقہ وارانہ کشمکش شروع کردیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنی عملی زندگی میں اپنے اس بنیادی عقیدے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور ایک مومن کا اول و آخر مقصد محض رضائے الہی اور فوزِ آخرت ہے، جس کا حصول اقامتِ دین اور شہادتِ حق پر منحصر ہے۔
(روداد اجتماع دہلی جماعت اسلامی ہند ۱۹۶۰۔ ص۷۹)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2021