انسانوں کے درمیان رحمت و محبت کے گہرے برادرانہ تعلقات اسلامی تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ دیگر فلسفہ ہائے حیات اور خاص طور پر مغربی ورلڈ ویو سماج کوایک ایسے میدان کارزار میں بدل دیتا ہے جہاں افراد ذاتی مفادات کے حصول کی بے رحم مسابقت میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ایک ایسے سماج کا تصور دیتا ہے جس میں ہر فرد دوسرے کے ساتھ اخوت، محبت، ہم دردی، تعاون اور تکافل کے رشتے سے بندھا ہوتا ہے۔ انسانی تعلقات کی اسلامی اسکیم میں خاندان اور خونی و ازدواجی رشتوں کی بڑی اہمیت ہے اور اس کے معًا بعد اسلام ‘پڑوس’ کو بھی رشتے کی ایک اہم اساس قراردیتا ہے۔ اسلام کے نزدیک پڑوسی اتفاقی طور پر قریب آجانے والا اجنبی اور ایسا بوجھ نہیں ہے جسے گوارا کرنا ہے بلکہ اللہ کی تفویض کردہ امانت اور ہمارے ایمان کا امتحان ہے اور ایک مبارک وسیلہ ہے جو صبح و شام کی ہماری عام مصروفیاتِ زندگی کو، اللہ کی عبادت اور نیکیوں میں بدل سکتا ہے۔ پڑوسیوں کی ایک چھوٹی سی آبادی محض ایک رہائشی انتظام نہیں ہے بلکہ مثالی اسلامی سماج کی ایک اکائی ہے۔ اسلامی تمدن کی پرورش گاہ (nursery)ہے۔ پڑوس محض اینٹوں اور پتھروں کا بے جان مجموعہ نہیں ہے بلکہ رحماء بینھمکے پاکیزہ جذبے سے دھڑکتے دلوں کی وہ زندہ بستی ہے جہاں ہر مسکراہٹ صدقہ ہے، ہر خدمت نیکی ہے اور تعاون و اشتراک کا ہر عمل عبادت ہے۔ اکیسویں صدی کے طرز حیات نے انسانوں کو بند دروازوں کے پیچھے تنہائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اسلام گھروں اور دلوں کے دروازے کھول کر اجنبیوں کو اخوت کے گہرے رشتے میں جوڑدیتا ہے۔ گلیوں اور راہداریوں کو انس ومحبت کی پناہ گاہوں میں تبدیل کرتا ہے۔ پڑوسیوں کے گھروں کے درمیان کی دیواروں کو اجنبیت، لاتعلقی، بے حسی اور سرد مہری کی فصیلوں میں نہیں بلکہ تعاون و اشتراک کے پلوں میں دیکھتا ہے۔
اسلامی اخلاق کا نمائندہ مثالی اسلامی پڑوس جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے سیلاب بلاخیز میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا پاکیزہ جزیرہ بن سکتا ہے۔ جدید مغربی فلسفوں اور ٹکنالوجی کی آندھی نے بے حسی اور سنگ دلی کا جو صحرا تخلیق کیا ہے، اس میں ‘اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی’ کا نخلستان بن سکتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کی تہذیبی قوت آج بھی ایسے مبارک جزیرے اور فرحت بخش نخلستان تشکیل دے سکتی ہے۔ یہ اسلامی تحریک کی اہم ذمے داری ہے کہ وہ ان جزیروں اور نخلستانوں کی تعمیر کا بیڑا اٹھائے اور دنیا کو اسلام کے ‘حسن عالمگیر’ کی جھلک دکھائے۔
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا مروت حسن عالمگیر ہے مردانِ غازی کا
جدید فلسفے اور پڑوس
جدید مغربی فلسفوں کا محور و مرکز ‘فرد’ اوراس کے حقوق ہیں۔ ہمہ گیر قسم کی انفرادیت پسندی(individualism)ان فلسفوں کی اساسی خصوصیات میں شامل ہے۔ اس تصور کے نتیجے میں جو رویے فطری طور پر پیدا ہوئے اُن میں فرد کی لامحدود آزادی اور اس کے حقوق پر غیر متوازن ارتکاز ہوگیا اور افراد کے درمیان تعلق کو صرف ذاتی مفاد اور اس کو منضبط کرنے والے قوانین اور معاہدوں کے زاویے سے دیکھا جانے لگا۔ قوانین ہوں یا اخلاقی تصورات، ان میں سارا زور افراد کو ‘مداخلت’(intrusion) اور‘زحمت’سے بچانے پر ہے۔ پڑوس سے متعلق اخلاقی تصورات کا خلاصہ بس یہ رہ گیا کہ ہرفرد کا اپنا اسپیس اور اپنی پراپرٹی ہے اور اس میں کسی اور کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور نہ کسی کے رویے سے اسے کوئی تکلیف پہنچنی چاہیے۔ جان لاک[1] ملکیت کے حق کو فرد کی آزادی ہی کی توسیع مانتا ہے[2]، یعنی فرد کی آزادی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ اسے اپنی ملکیت پر لامحدود اور مکمل اختیار حاصل ہو۔ روسو[3] کے نزدیک اصل حقیقت فرد کی مکمل آزادی ہے جس پر اگر کچھ روک لگ سکتی ہے تو وہ صرف سماجی معاہدوں (social contracts)کے نتیجے میں اور ان کی حد تک ہی لگ سکتی ہے۔[4]ان تصورات میں ”ایک دوسرے کے تئیں مستقل ذمے داری “ (obligation absolute)کچھ نہیں ہوتی، صرف حدود ہوتے ہیں اور اپنی اپنی حد میں رہنے پر اصرار ہوتا ہے۔ ذمے داری صرف کسی معاہدے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور معاہدے کے مشتملات ہی تک محدود رہتی ہے۔ قانون کی سطح پر اس تصور نے انسانی تعلقات کو صرف ”قانونِ ضرر“tort law تک محدود کردیا ہے۔ (قانون ضرر، دیوانی قوانین کی وہ شاخ ہے جس میں دوسروں کو نقصان پہچانے کی ممانعت اور ایسے نقصان کی تلافی یا سزا کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔) گویا دوسروں سے تعلق بس اس اخلاقی اصول تک محدود ہے کہ آپ کے کسی عمل سے کسی کا کوئی نقصان نہ ہو۔ دوسروں کو ضرر پہنچائے بغیر آپ اپنی دنیا میں مست رہیں تو اسے اخلاقی و قانونی لحاظ سے غلط نہیں سمجھا جائے گا۔
دور جدید کے شہری معاشرے انہی فلسفوں کی دین تھے جنہوں نے ساری دنیا کے شہری علاقوں میں ”شہری سرد مہری“ (urban coldness)کو فروغ دیا[5]۔ روابط و تعلقات صرف معاشی مفادات کے تابع اور معاشی ضروریات تک محدود ہوگئے۔ ”انسان سماجی جاندار“ (homo socialis)سے ”معاشی جاندار“(homo economicus)بن گیا[6]۔ ”اپنے کام سے کام رکھنا “ (mind your business) ایک اہم اخلاقی اصول قرار پایا۔
اس صدی کے ٹکنالوجی انقلاب نے اس صورت حال کو اور زیادہ پیچیدہ کردیا۔ ہر ٹکنالوجی اپنی تہذیبی زمین اور تمدنی پس منظر کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہمارے عہد کی ٹکنالوجی پر بھی مغربی تصورات اور مغربی تہذیبی معیارات کی گہری چھاپ ہے۔ چنانچہ اس ٹکنالوجی نے انفرادیت پسندی اور دوسرے انسانوں سے بے نیازی، بے حسی و سرد مہری کو اپنی انتہا پر پہنچادیا۔ اسکرینوں کی پیدا کردہ تنہائی (screen-mediated solicitude) نے ساری دنیا کے شہری معاشروں میں ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ لوگ برسوں آمنے سامنے رہتے ہوئے ایک دوسرے سے بالکل ناواقف اور بے خبر رہتے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک چونکانے والا نمونہ پیو فاونڈیشن کا چند ماہ پہلے کیا گیا سروے ہے جس کے مطابق امریکیوں کی تین چوتھائی تعداد (74%)اپنے پڑوسیوں سے ناواقف ہے۔ (نوجوانوں میں یہ تناسب اور زیادہ ہے)۔[7]
پڑوس کے علاوہ، عارضی پڑوسیوں (transient neighbours)کا معاملہ بھی خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ مشرقی معاشروں میں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے ساتھ عارضی طور پر قائم ہونے والے رابطوں میں بھی گرمجوشی اور محبت و خیر خواہی کو اخلاقی لحاظ سے ضروری سمجھا گیا ہے۔ ساتھی مسافروں کے ساتھ بات چیت، دل جوئی، وقت گزاری اور حسب ضرورت ان کی مدد کے لیے آگے آنا، ٹریفک میں کسی کی گاڑی خراب ہوجائے یا اسے راستہ دکھانے کی ضرورت ہو تو آگے بڑھ کر مدد کرنا، دکانوں اور بازاروں میں خریداری کرنے والے اجنبیوں کی ضروری رہنمائی کرنا، یہ سب باتیں مشرقی معاشروں میں ہمیشہ عام رہی ہیں۔ جان اسٹوارٹ مل[8] اور جان لاک کے انفرادیت پسند مغربی فلسفوں نے اس رجحان کو بدل ڈالا۔ عارضی تعلقات میں بھی ضرر سے احتراز اور معاہدوں کی پابندی کو کافی سمجھ لیا گیا اور اجنبی ساتھیوں کے تئیں لاتعلقی اور بے اعتنائی کے رویے (blaze attitude)کو عام کیا گیا۔
ذیل کی سطروں میں ہم اسلام کے تصورات کو تفصیل سے واضح کررہے ہیں۔ بنیادی فرق یہی ہے کہ مروج مغربی تصور میں معاملہ پڑوسیوں کا ہو یا عارضی ساتھیوں کا، سارا زور صرف ضرر سے گریز اور عدم مداخلت پر ہے۔ اسلام میں ضرر یا نقصان پہنچانے سے بچنے، معاہدوں کے احترام اور غیر ضروری و نامناسب مداخلت سے گریز پر بھی زور ہے لیکن ساتھ ہی گرم جوشی و ملنساری، حسن سلوک، خیر خواہی و ہم دردی اور تعاون و اشتراک کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ذیل کی سطروں سے واضح ہوگا کہ یہ ایک بالکل مختلف تمدنی پیراڈائم ہے۔ یہ ممتاز پیراڈائم، اخلاق، رویوں، سماجی معمولات، قوانین ہر چیز پر اثر ڈالتا ہے۔
پڑوس اور اسلامی تعلیمات
پڑوسیوں سے حسن سلوک، اسلام کے اُن بنیادی احکام میں شامل ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـیـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَینِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰى وَالْیتٰمٰی وَالْمَسٰكِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِیلِ۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَیمَانُكُمْۭ اِنَّ اللہَ لَا یحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا(النساء ۴:۳۶)
(اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہم سایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے)۔
اس آیت کریمہ میں تین طرح کے پڑوسیوں کا ذکر ہے۔ رشتہ دار پڑوسی، غیر رشتہ دار پڑوسی اور صاحب بالجنب (عارضی پڑوسی) یعنی سفر، کام کی جگہ، سڑک وغیرہ پر ساتھ چلنے والا یا ساتھ کام کرنے والا ہم جولی عارضی پڑوسی(transient neighbor)۔ ان سب کے سلسلے میں حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ )
اسلام نے اہل خاندان کی طرح ‘پڑوسی ’کو بھی ایک طرح کی باقاعدہ قانونی حیثیت دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا : أوَّلُ خَصْمَینِ یومَ القیامةِ جَارَان[9](قیامت کے دن اللہ کے سامنے پہلا مقدمہ جو پیش ہوگا وہ پڑوسیوں کے درمیان کا ہوگا)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ: ما زال جبریلُ یوصینی بالجارِ حتَّى ظننتُ أنه سیورِّثُه [10] (جبرئیل نے پڑوسی سے حسن سلوک کی اتنی زیادہ تاکید کی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وراثت میں شریک بنادیا جائے گا)
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے سماجی ماڈل کا ارتکاز صرف ‘محفوظ افراد’(protected individuals) یا ‘محفوظ گھرانوں’(protected households)پرنہیں ہے۔ یہ اسلامی ماڈل کا حصہ ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مشترکہ ذمے داری، مشترکہ تحفظ و سلامتی، تعاون وتکافل کے جذبے کے ساتھ مشترکہ خیر خواہی اس ماڈل کی اصل خصوصیت ہے۔ ‘اپنے پڑوسی کو نقصان نہ پہنچاؤ’ یہ اسلامی اخلاق کی اہم دفعہ ضرور ہے لیکن اس کی حیثیت واحد دفعہ کی نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی شامل ہے کہ ‘پڑوسی کو فائدہ پہنچاؤ’، ‘اسے آرام فراہم کرو’ اس کی مشکلات کو دور کرو’اور ‘اس کی ہر ممکن خیر خواہی کرو’۔
پہلا حق: ایذا رسانی سے گریز (کفُّ الأذی)
جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ وہ حق ہے جسے عالمی قوانین اور مروج اخلاقی فلسفے تسلیم کرتے ہیں۔ اسلام نے بھی اس پر زور دیا ہے اور اسے صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی و روحانی مسئلہ بھی بنایا ہے۔ پڑوسی اپنی طرف سے پہنچنے والی تکلیف سے اپنے پڑوسی کو محفوظ رکھے، رسول اللہ ﷺ نے اسے ایمان کی شرط قرار دیا ہے۔ (من كان یؤمن بالله والیوم الآخر فلا یؤذ جاره[11]: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کو تکلیف نہ دے)آپؐ نے تین بار اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ جس کی اذیت رسانی سے پڑوسی محفوظ نہ ہو وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا[12]۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا[13]۔ متعین طور پر ایک شخص کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ نماز، روزے اور صدقات کے اعلیٰ عملی معیار کے باوجود چونکہ اس کی زبان سے اس کے پڑوسی محفوظ نہیں ہیں، اس لیے وہ جہنمی ہے۔[14] اسلامی نصوص میں ایذا رسانی سے پرہیز کی عمومی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ تفصیل سے واضح کیا گیا ہے کہ ہر طرح کا نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ پڑوسی کی زمین ہتھیالینے کی کوششوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا اور اس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔[15] گھروں اور زمینوں کی ملکیت کے حدود (boundary markers)کو ختم کرنے کی کوششوں کی آپؐ نے خصوصیت سے مذمت فرمائی (لعن الله من سرق منار الارض: اس شخص پر اللہ کی لعنت جس نے زمین کے حدود چھپائے یا بدلے[16] کہ یہ زمین میں دست درازی کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔
گھروں کی تعمیر کے وقت چند انچ ادھر ادھر، پڑوس کی زمین پر یا سرکاری زمین پر آگے بڑھ جانا، دوسروں کے گھروں کے سامنے بلااجازت گاڑیاں پارک کرنا، مشترکہ جگہوں (corridors and shared spaces)پرسامان رکھ کربتدریج مستقل ذاتی استعمال میں لے آنا، دوسروں کی جگہوں یا سڑکوں پر بالکنیاں نکال دینا یا سیڑھیاں بنادینا، وغیرہ جیسی حرکتیں پڑوسیوں کی زمینوں میں دست درازی کی مثالیں ہیں۔
پڑوسی کے مال یا اس کی مملوکہ چیزوں میں بغیر اجازت کوئی بھی ظالمانہ تصرف ایک شنیع عمل ہے۔ اس کے بارے میں بھی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لأن یسرق من عشرة اهل ابیات، ایسر علیه من ان یسرق من بیت جاره۔ کوئی آدمی دس گھروں سے چوری کرے اُس کا وبال ہم سائے کے کسی ایک گھر سے چوری کرنے سے کم ہے)۔ [17]
فقہا نے اس بات پر تفصیل سے بحث کی ہے کہ گھروں میں ایسے کام کرنے کا کیا حکم ہے جس سے مستقل دھواں، دھول اور بوُ سے پڑوسی کو تکلیف کا امکان ہو[18]۔ اسے بھی ممنوع قرا ر دیا گیا ہے۔ پڑوسی یا عارضی ساتھی کو بدبو، جراثیم اور گندگی سے تکلیف پہنچانا بھی اذیت رسانی میں شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد تک میں کچے لہسن اور پیاز کی بدبو کے ساتھ داخل ہونے سے منع فرمایا ہے[19]۔ فقہا نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ کسی مرض کی وجہ سے اگر کسی کے منہ یا جسم سے مستقل بدبو آتی ہو تو وہ نماز کے لیے مسجد نہ جائے بلکہ گھر میں نماز ادا کرے۔[20]بدبو کے ساتھ متعدی کھانسی بخار اور دیگر متعدی امراض پر بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ پڑوسی کو پانی کی نکاسی سے تکلیف پہنچانا، بلا تکلف گھر کے سامنے کچرا پھینک دینا اور آس پاس کوڑے کا ڈھیر لگادینا، تقریبات کے موقعے پر راستے بند کردینا، شور کرنا، بلند آواز سے گانا بجانا (بلند آواز سے ‘اسلامی’آڈیو ویڈیو چلانا یا لاؤڈ اسپیکر پر زبردستی سنوانا بھی) اذیت رسانی میں داخل ہیں۔
جہاں تک ‘پہلو کے پڑوسی’ کا تعلق ہے، اذیت رسانی والی حرکتوں کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی ساری خلاف ورزیاں اس میں شامل ہیں۔ غلط سمت میں یا غلط لین میں ڈرائیو کرنا، سگنل توڑنا، غیر قانونی تیز رفتاری، غلط اوور ٹیک کرنا، سڑکوں پر کرتب بازی(driving stunts)، غیر ضروری ہارن بجانا، گاڑیوں پر سواریوں کی تعداد کو غیر قانونی اور غیر محفوظ حد تک بڑھادینا، یہ سب حرکتیں دوسروں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالنے والی حرکتیں ہیں اور ٹریفک کو مخدوش اور غیر یقینی بناتی ہیں، اس لیے یقیناً ایذا رسانی میں شامل ہیں۔ اسلام اس معاملےمیں کس قدر حساس ہے اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ ایک غزوے کے موقعے پر دورانِ سفر راستے میں قیام کے لیے خیمے لگائے گئے تو آپؐ نے دیکھا کہ بعض خیموں نے راستے کی جگہ گھیر لی ہے۔ آپؐ نے باقاعدہ منادی کرنے والے کو حکم دے کر اعلان کرایا کہ مَنْ ضَیقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِیقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ (جس نے جگہ تنگ کی یا راستہ روکا، اس کا جہاد قبول نہیں ہوگا)[21]۔ ہمارے دور میں غلط جگہ پر یا غلط طریقے سے پارکنگ کرنا، راستوں پر گندگی پھیلانا، راستوں میں یا گھروں کے سامنے مجلسیں جماکر بے وقت بیٹھے رہنا یا ٹووہیلر روک کر گھنٹوں گپ شپ میں لگے رہنا، ٹرینوں، بسوں یا جہازوں میں اپنی حرکتوں یا بدسلیقگی سے ہم سفروں کے لیے پریشانی کا باعث بننا، تمباکو یا پان کھاکر تھوکتے پھرنا، لوگوں کے درمیان سگریٹ نوشی، وغیرہ کو بھی اذیت رسانی میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا حق: عزت و ناموس کا تحفظ
پڑوسی (یا پہلو کے ساتھی) سے متعلق اسلامی احکام کا ایک منفرد پہلو جس کی کوئی جھلک جدید تصور اخلاق اور قوانین میں نہیں ملتی، وہ پڑوسی کی عزت و ناموس کی حفاظت ہے۔ آپؐ نے فرمایا :ومَن كانَ یؤْمِنُ باللَّهِ والْیومِ الآخِرِ فَلْیكْرِمْ جارَهُ[22](جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کی عزت کرتا ہے)۔
عزت و ناموس کی حفاظت کا ایک اہم پہلو خواتین کی عزت، ان کی عفت و عصمت اور پرائیویسی کا احترام اورنظروں کی حفاظت ہے۔ گھروں میں تانک جھانک کی آپؐ نے نہ صرف ممانعت فرمائی بلکہ اتنی سخت بات فرمادی کہ اگر کوئی جھانکے اور اس کی آنکھ پھوڑدی جائے تو کوئی تاوان نہیں ہوگا۔[23] فقہاء نے ایسی کھڑکیاں کھولنے کو ممنوع قراردیا ہے جو پڑوسیوں کے گھروں میں بے پردگی کا سبب بنیں[24] اور چھت پر اس طرح جانے سے منع کیا ہے جس سے پڑوسی کے گھر کے اندر کے مناظر نظروں میں آجائیں[25]۔ پڑوس کی خاتون سے زنا کو آپؐ نے دس عورتوں کے ساتھ زنا سے زیادہ بڑا جرم قرار دیا ہے۔[26] بعض روایات میں ‘تزانی’کا لفظ آیا ہے یعنی پڑوسی خاتون کو اپنی طرف اس طرح مائل کرنا کہ دونوں رضامندی سے غلط کاری میں ملوث ہوجائیں۔ زنا سے کمتر درجے کی دیگر آوارگیاں مثلاً نظربازی، فلرٹ، چھیڑچھاڑ وغیرہ کے معاملے میں بھی یہی اصول ہوگا کہ پڑوس کی خواتین سے یہ حرکتیں دس گنا زیادہ شنیع مانی جائیں گی۔
عربی شاعری کے یہ اشعار اسلامی تہذیب کی بڑی خوبصورت ترجمانی کرتے ہیں۔ امام مالکؒ نے نصیحت فرمائی ہے کہ اپنے گھر والوں کو ان اشعار کی تعلیم دو۔[27]
أنتِ أختی وأنت حرمة جاری وحقیقٌ علی حفظُ الجوار
إن للجار إن تغیب غیباً حافظاً للمغیب والأسرار
ما أبالی أكان للجار ستر مسبل أم بَقِی بغیر ستار
[تم میری بہن ہو اورمیرے پڑوسی کی حرمت ہو، پڑوس کے حقوق کی حفاظت میرا فرض ہے۔ بے شک جب پڑوسی کہیں باہر جاتا ہے تواس کی عزت اور اس کے رازوں کی حفاظت کرنے والا(میں خود) پیچھے موجود ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے گھر پر پردے لگے ہوئے ہیں یا نہیں۔ میں، اس کا پڑوسی ہر صورت میں اس کا پردہ بنارہوں گا اور اس کی پرائیویسی کا تحفظ کرتا رہوں گا۔ ]
پڑوسی ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں اس لیے دوسروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے عیوب اور رازوں سے زیادہ واقف رہتے ہیں۔ رازوں کو افشا کرنا اور کمزوریوں کا چرچا کرنا بھی پڑوسی کو اذیت پہنچانا ہے۔ ایک عام خراب عادت جو محلوں اور آبادیوں میں خواتین کے اندر اور دفاتر اور کام کی جگہوں پر مردوں کے اندر پائی جاتی ہے، وہ دوسروں کی برائیوں اور ان کے عیوب کی تلاش کی عادت ہے۔ دفتری سیاست میں یہ عام بات ہے کہ ٹوہ میں رہ کر لوگوں کی کم زوریاں تلاش کی جائیں اور پھر کانا پھوسی اور چرچے کرکے اسکینڈل بنائے جائیں۔ اس طرح کی جستجو چاہے پڑوسی کے معاملے میں ہو یا دفاتر کے ساتھیوں کے سلسلےمیں، اس عادت کی رسول اللہ ﷺ نے سخت مذمت فرمائی ہے، اس عادت کو کم زور ایمان کی علامت قرار دیا ہے اور اس کے لیے دل کو دہلانے والی وعید سنائی ہے۔ فرمایا: یا مَعْشَرَ مَن آمن بلسانِه ولم یدْخُلِ الإیمانُ قلبَه، لا تغتابوا المسلمینَ، ولا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِم، فإنه مَن تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِیه المسلمِ، تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَه، ومَن تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَه، یفْضَحْهُ ولو فی جوفِ بیتِه[28](اے وہ لوگو جو زبان سے تو ایمان کا اقرار کرتے ہو لیکن ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی پوشیدہ کمزوریوں کے پیچھے مت پڑو، جو اپنے بھائی کے عیوب کی ٹوہ میں لگتا ہے تو اللہ تعالی اس کے عیوب کے پیچھے پڑجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے عیوب کے پیچھے پڑجائے اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کرکے رکھ دے گا۔) رسول اللہ ﷺ نے اس سے آگے بڑھ کر ایک مسلمان کے اخلاق کا حصہ یہ بات بھی قرار دی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت و ناموس کا دفاع کرے اور کہیں اس کے بارے میں غلط بات کہی جارہی ہو تو اس کے حق میں کھڑے ہوکر پرزور آواز بلند کرے۔ مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ یوْمَ الْقِیامَةِ (جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی میں) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا)[29]
تیسرا حق: واقفیت احوال اور پرائیویسی کے احترام میں توازن
یہ دور جدید کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مہذب سمجھے جانے والے لوگ پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی تو نہیں کرتے لیکن ان سے یکسر لاتعلق رہتے ہیں۔ اسے اخلاقی عیب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن اسلامی تہذیب میں اسے ایک اخلاقی عیب مانا گیا ہے کہ آدمی اپنے پڑوسی یا ہمجولی سے لا تعلق اور اس کے احوال و کوائف سے لاعلم رہے۔ پڑوسی کا پہلا حق یہی ہے کہ اس سے متعارف ہوا جائے، اس کے احوال کو سمجھا جائے اور اس کی خبر گیری کی جائے۔ اس پہلے مرحلے کے بغیر پڑوسی سے وہ حسن سلوک ممکن ہی نہیں ہے جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: كم من جار متعلق بجاره یوم القیامة یقول: یا رب، هذا اغلق بابه دونی، فمنع معروفه ( کتنے پڑوسی ایسے ہیں جو قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے کہیں گے: اے میرے رب! اس نے اپنا دروازہ مجھ پر بند کر لیا تھا، اور مجھے اپنے حسنِ سلوک سے محروم رکھا [30])ایک اور مشہور حدیث میں آپؐ نے بڑی سخت بات ارشاد فرمائی کہ لیسَ المؤمنُ الَّذی یشبَعُ وجارُهُ جائعٌ إلى جنبِهِ (وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور بازو میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔[31] ) اس حدیث سے ہمدردی کے ساتھ ساتھ خبر گیری کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جو پڑوسی کی خبر گیری کرے گا وہی بھوکے پڑوسی کی داد رسی کرسکے گا۔ اسی طرح اس حدیث کا اطلاق پڑوسی کے دیگر ضروری مسائل پر بھی ہوتا ہے۔ بھوک کے علاوہ، بیماری، تنہائی، بڑھاپے کے عوارض، مظلومیت وغیرہ جیسے امور کے سلسلے میں بھی پڑوس کے لوگوں کے احوال کو جاننا اور حسب ضرورت ان کے تعاون کے لیے آگے بڑھنا ان کا حق ہے۔
واقفیت احوال اور لاتعلقی سے گریز کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ غیر ضروری مداخلت (INTRUSION)اور نجی زندگی میں پریشان کن دخل اندازی کو شیوہ بنالیا جائے۔ متعدد مشرقی معاشرے اس دوسری انتہا پسندی کے شکار رہتے ہیں۔ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی اسلام توازن اور اعتدال کا علم بردار ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ‘نجی زندگی کے تحفظ ’کو اسلام کے دیے ہوئے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”ایک شخص کو پورا پورا آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر میں دوسروں کے شور و شغب سے، دوسروں کی تاک جھانک سے اور دوسروں کی مداخلت سے محفوظ ومامون رہے۔ اس کی گھریلو بے تکلفی اور پردہ داری برقرار رہنی چاہیے۔[32] قرآن مجید میں گھروں میں داخلے کے لیے اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یَا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیوتًا غَیرَ بُیوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔النور24) نبی کریمﷺ نے وضاحت سے حکم دیا ہے کہ والدہ کے کمرے میں بھی داخل ہونے کے لیے بھی اجازت ضروری ہے۔[33] قرآن اجازت نہ دینے کا حق بھی مالک مکان کو دیتا ہے اور اگر اجازت نہ ملے تو برا مانے بغیر واپس آنے کا حکم دیتا ہے(وَاِنْ قِیلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ۔سورہ النور 28)۔ نبی ﷺ نے تین کی حد مقرر فرمائی ہے کہ تین بار سلام کے بعد بھی جواب نہ ملے تو واپس ہوجائیں۔ (إذا استأذن أحدكم ثلاثاً، فلم یؤذن له فلیرجع[34]: جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اجازت لے اور سے اجازت نہ ملے تو اسے چاہیے کہ لوٹ جائے۔) تاریخ و سیر کی کتابوں میں صحابہ ؓ اور قرون اولی کے مسلمانوں کے رویوں کی جو تفصیل ملتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حکم پر کتنی سنجیدگی اور باریک بینی سے عمل کیا گیا[35] ۔ نابالغ بچوں کو بھی پرائیویسی کے اوقات میں اس کا عادی بنانا قرآنی حکم ہے(یٰٓاَیهَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا لِیسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِینَ مَلَكَتْ اَیمَانُكُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں۔النور :58 )
قرآن میں تجسس سے منع کیا گیا ہے۔ اوپر عیوب کی ٹوہ میں نہ رہنے اور عیوب کی پردہ پوشی سے متعلق جن تعلیمات کا ذکر ہے، ان سے بھی پرائیویسی کے اسلامی حق کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ومن استمع إلى حدیث قوم وهم له كارهون او یفرون منه صب فی اذنه الآنك یوم القیامة [36] اور جو شخص دوسرے لوگوں کی بات سننے کے لیے کان لگائے جب کہ انہیں یہ پسند نہ ہو تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا ) اس حکم پر صحابہ نے کتنی سختی سے عمل کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سورہ مجادلہ کی ابتدائی آیات کے نزول سے پہلے جب ایک خاتون آپؐ کی خدمت میں آئیں، آپؐ سے ملاقات کی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وانا فی ناحیة البیت ما اسمع ما تقول[37] (میں نے گھر کے ایک کونے میں ہونے کے باوجود اس کی بات نہیں سنی)۔ ایک خاتون شوہر سے بات کررہی ہو اور اسی کمرے میں ہونے کے باوجود بیوی کا اپنے کانوں کو بند رکھنا، اخلاق کے جس اعلیٰ مرتبے کی نشان دہی کرتا ہے وہی اسلام کا مقصود ہے۔
دور جدید میں عملی زندگی کے ساتھ ساتھ خاص طور پر موبائل فون کے استعمال اور سوشل میڈیا میں بھی پرائیویسی کے اس اہتمام کی ضرورت ہے۔ بار بار اور وقت بے وقت کال کرنا، مرضی کے بغیر زبردستی وہاٹس اپ گروپوں میں شامل کرنا، نامطلوب پیغاموں کی بھرمار کرنا، خواتین سے رابطے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنا وغیرہ جیسے رویے یقیناً نجی زندگی کے حق کو متاثر کرنے والے اور اسلامی آداب کے خلاف ہیں۔[38]
چوتھاحق:حسن سلوک کے دیگر آداب کی رعایت
ان خاص حقوق کے ساتھ ساتھ، دوسرے انسانوں سے تعلقات اور حسن سلوک کے احکام کی پڑوسیوں کے سلسلے میں زیادہ شدت و تاکید پائی جاتی ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آپؐ نے مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق بیان فرمائے ہیں۔( حق المسلم على المسلم ست، إذا لقیته فسلم علیه، وإذا دعاك فاجبه، وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فسمته، وإذا مرض فعده، وإذا مات فاتبعه مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو، جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو، جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت کرو، جب اسے چھینک آئے اور الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعا کرو، جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کےجنازے میں جاؤ۔ ) فقہانے صراحت کی ہے کہ یہ حقوق پڑوسیوں پر اور زیادہ شدت کے ساتھ عائد ہوتے ہیں۔[39]
پڑوسیوں کو تحفہ دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاکے تحفوں کا حکم دیا گیا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابوذرؓ کو نصیحت فرمائی کہ (وإذا صنعت مرقة فاكثر ماءها جب تم شوربا بناو تو پانی کچھ بڑھادو تاکہ اسے پڑوسیوں کو بھی بھیج سکو[40]) آپؐ نے خواتین کو مخاطب کرکے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ پڑوسن کو ہدیہ دیں خواہ وہ کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو۔( یا نساء المؤمنات، لا تحقرن امراة منكن لجارتها، ولو كراع شاة محرق اے مومن عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہی ہو۔[41]) امام ابن حجرؒ ارشاد رسول کے الفاظ کی لغوی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس بلیغ جملے میں دونوں مفاہیم شامل ہیں۔ یہ بھی کہ پڑوسن کو تحفہ بھیجا جائے خواہ بہت معمولی تحفہ ہی کیوں نہ ہو، اس میں شرمانا نہیں چاہیے اور دوسرا یہ کہ جسے تحفہ دیاگیا ہے اُسے معمولی تحفہ قبول کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے[42]۔ تحفہ قبول نہ کرنا تکبر کی علامت ہے۔ قرآن مجید نے ‘ماعون کی ممانعت’کو نفاق کی ایک بڑی علامت قرار دیا ہے (سورہ ماعون) یعنی گھریلو استعمال کی اشیاء جو عاریتاً آسانی سے دی جاسکتی ہیں ان کو دینے کے معاملے میں کنجوسی برتنا۔ پڑوسیوں سے حسن سلوک کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایسی اشیا کی ضرورت ہو تو فراخ دلی سے انہیں فراہم کیا جائے۔ اسی طرح مشترکہ یا اپنی ملکیت کے اثاثوں میں کسی معمولی تصرف کی پڑوسی کو ضرورت درپیش ہو اور بغیر کسی نقصان کے ایسا تصرف ممکن ہو تو اس کا موقع فراہم کرنا بھی اس حق میں شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دیوار میں لکڑی (یا کھونٹی) لگانے سے روکنے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس حکم کو بڑی سختی سے نافذ کرایا تھا۔ لا یمنع جار جاره ان یغرز خشبه فی جداره”، ثم یقول ابو هریرة: ما لی اراكم عنها معرضین، والله لارمین بها بین اكتافكم[43] (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ قسم اللہ کی! اس کھونٹی کو تمہارے کندھوں کے درمیان گاڑ دوں گا۔ )
پانچواں حق: نصح و خیر خواہی
پڑوسی اور عارضی ساتھی کا یہ حق بھی اسلام کا ایک اہم شعار ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام ایک فریضہ قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نصح و خیر خواہی کو دین کی اصل قرار دیا ہے۔ (الدین النصیحة، قلنا: لمن؟ قال: لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمین، وعامتهم دین سراسر خیر خواہی ہے۔ اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے) [44]پڑوسی چاہے مستقل ہوں یا عارضی، وہ اس خیر خواہی کے زیادہ مستحق ہیں ۔
خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کی فکر کی جائے۔ ان کی اصلاح و تربیت پر توجہ دی جائے۔ اس فریضے کے کئی پہلو ہیں۔ اولین پہلو خود پڑوسی یا عارضی پڑوسی یا پہلو کے ساتھی کی ذات ہے۔ اس کے اندر کوئی دینی و اخلاقی کم زوری پائی جاتی ہو تو اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ وہ مالِ حرام سے بچے، نماز کا پابند ہو، اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرے، خاتون ہے تو حجاب کی پابندی کرے۔ اس حوالے سے حکمت و تدریج کے ساتھ نصیحت کا حق ادا کیا جائے۔ نصیحت زیادہ سے زیادہ تنہائی میں، رازداری کے ساتھ، حکیمانہ لہجے اور اسلوب میں اس طرح ہو کہ نہ اسے شرمندگی کا احساس ہو اور نہ اس کے عیوب کا چرچا ہو۔ دوسرا پہلو، اس کا گھر، گھر کا ماحول اور گھر کے رواج ہیں۔ اس کی تقریبات دین کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ وراثت شریعت کے مطابق تقسیم ہو۔ گھر کا ماحول، کلچر اور معمولات دین کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ بیٹوں، بیٹیوں، بہوؤں دامادوں کے معاملات میں شرعی حدود و قوانین کا لحاظ ہو۔ تیسرا پہلو، اس کے بچے ہیں۔ آپ خود کوپڑوسی کے بچوں کا بھی مربی سمجھیں۔ ان کی تربیت پر توجہ دیں۔ ان کی دینی، اخلاقی، تعلیمی تربیت کی فکر کریں۔ چوتھا پہلو اس کے اور اس کے خاندان کے دنیوی معاملات ہیں۔ بچوں کی اچھی تعلیم اور کیریر کے سلسلے میں رہنمائی کریں۔ خود اس کے کیریر اور بزنس کے سلسلے میں ممکنہ مدد و رہنمائی فرمائیں۔ ان سب پہلوؤں سے نصح و خیر خواہی، پڑوسی کا اہم حق ہے۔
چھٹا حق: حق شُفعہ
پڑوسیوں اور پڑوس (neighbourhood)کے سلسلے میں اسلامی تصور کا ایک دلچسپ اور منفرد مظہر شفعہ کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنا گھر یا زمین فروخت کرنا چاہے تو خریداری کا پہلا حق (Right of First Refusal RoFR) پڑوسی کو ہوگا۔ یہ تصور بھی حدیث سے ماخوذ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(جارُ الدَّارِ أحَقُّ بدارِ الجارِ أو الأرضِ فروخت کی صورت میںگھر یا زمین پر پڑوسی کا زیادہ حق ہے)[45] اس مضمون کی اور بھی احادیث موجود ہیں۔ شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک یہ حق اس وقت ہوگا جب کسی چیز میں (مثلاً، مجموعی ملکیت میں یا آنے جانے کے راستے، صحن، دیوار وغیرہ میں) اشتراک ہو[46] لیکن احناف کے یہاں ہر صورت میں پڑوسی کو یہ حق حاصل ہے[47] ۔ یہ بظاہر خرید و فروخت سے متعلق معاملات کا ایک اصول ہے لیکن اصلاً پڑوس سے متعلق اسلام کے منفرد تصور کی گہرائی کا مظہر ہے۔
جدید قوانین اور اخلاقی تصورات میں ملکیت کے حق کو لامحدود انفرادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جائیداد میری ملکیت ہے تو مجھے حق حاصل ہے کہ جسے چاہوں فروخت کروں۔ اسلام یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ جائیداد بے شک آپ کی ہے لیکن اس کا پڑوسی سے بھی ایک تعلق ہے۔ جائیداد فرد کی ملکیت ہونے کے ساتھ ساتھ پڑوس کے ماحولیاتی نظام (ecosystem)کا ایک جزو ہے۔ اس لیے پڑوسیوں اور کمیونٹی کو بھی اس میں رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس تصور کے نتیجے میں پڑوس (neighbourhood)بھی ایک سماجی یونٹ اور ایک اخلاقی کمیونٹی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ذاتی ملکیت اور پڑوس کے حقوق کے درمیان توازن قائم ہوتا ہے۔ لوگوں کو یہ حق ملتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کو اخلاقی پستی کے شکار یا ضرر رساں لوگوں سے محفوظ رکھ سکیں۔
اب جدید گیٹیڈ کمیونٹیوں (gated communities)، اپارٹمنٹ بلڈنگوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں اس طرح کی بات معاہدے کے طورپر شامل کرائی جارہی ہے لیکن یہاں اصلاً ذات پات، فرقہ و نسل کے تعصبات یا طبقاتی تفریق کے محرکات کار فرما ہوتے ہیں۔ اسلام ایسی عصبیتوں اور تفریقات کی جڑ کاٹتا ہے۔ اس لیے ان بنیادوں پر لوگوں کو رہائشی حق سے محروم کرنا ایک اسلامی سماج میں ممکن نہیں ہے۔ اس حق کا اصل منشا یہ ہے کہ پڑوس کے ماحول کو اخلاقی عیوب اور شرور و فتن سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس کے علاوہ حق شفعہ کے ذریعے پڑوسی کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی موجودہ رہائش کو وسعت دے سکے۔ پڑوسی کی دکان کو وہ خریدے گا تو اس کی دکان کشادہ ہوجائے گی، اسی طرح مکان اور کھیت وغیرہ کی بات بھی ہے۔
احسان اور صبر
حقوق کی اس تفصیلی وضاحت کے ساتھ اسلام ‘احسان’پر زور دیتا ہے۔ پڑوسیوں سے تعلقات کے معاملات میں بھی احسان کی تلقین کی گئی ہے۔( مَن كانَ یؤْمِنُ باللَّهِ والْیومِ الآخِرِ فَلْیحْسِنْ إلى جارِه جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ پڑوسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔[48]) انسانوں سے تعلقات میں احسان کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دیا جائے اور خود کو حق سے کم پر راضی رکھا جائے، حق تلفی پر صبر کیا جائے اور اسے معاف کیا جائے۔ تعلقات میں احسان کی روش کی وضاحت ایک مشہور حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپؐ حضرت علیؓ کو نصیحت کرتے ہیں: (اعف عمن ظلَمَك، وصِلْ من قطعَك، وأحْسِنْ إلى من أساءَ إلیك، وقُلِ الحقَّ ولو على نفسِك[49]جو تم پر ظلم کرے، اس کو معاف کرو، جو تم سے تعلقات توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم سے برا سلوک کرے اس پر بھی احسان کرو اور حق بات کہو چاہے وہ تمہارے ہی خلاف کیوں نہ ہو) سورہ نحل کی مشہور آیت جو خطبہ جمعہ کا مستقل جزو بنادی گئی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے جن چھ باتوں کا حکم دیا ہے، اس میں ایک اہم حکم احسان ہے۔( اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ النحل 90)مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح میں احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس ولحاظ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا، یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص وخیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشو و نما دینے والی قدریں ہیں[50] ۔“
(پڑوسیوں کے معاملے میں متعدد احادیث میں اس مطلوبہ احسان کی طرف اشارے موجود ہیں۔ مثلاً آپؐ نے فرمایا: – والذی نفْسِی بِیدِهِ لا یؤمِنُ عبدٌ حتى یحِبَّ لِجارِهِ ما یحِبُّ لِنفسِهِ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے پڑوسی کے لیے وہی نہ چاہے جو خود کے لیے چاہتا ہے) [51]۔
احسان کی علامت یہ بھی ہے کہ آدمی خود تو پڑوسی سے اچھے سے اچھا سلوک کرے لیکن اگر وہ بدسلوکی کرتا ہے تو اس پر صبر کرے۔ ایک صاحب اپنے پڑوسی کی مسلسل اذیت رسانی سے پریشان ہوکر آپؐ کے پاس تشریف لائے تو تین بار آپؐ نے صبر کی تلقین کرکے انہیں لوٹایا اور چوتھی بار(جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو) انہیں احتجاج کا راستہ دکھایا[52] ۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کو آپؐ نے ان تین خوش نصیب اشخاص کے بارے میں فرمایا جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے (جس کا کوئی ایسا ہم سایہ ہو جس سے اسے تکلیف ہوتی ہو لیکن وہ اس کی ایذا رسانی پر صبر کرے تاآنکہ موت آکر انہیں جدا کر دے. ورجُلٌ كان له جارُ سُوءٍ، فصبَرَ على أذاهُ حتَّى یفرِّقَ بینَهما موتٌ أو ظَعْنٌ۔[53])
شیعہ مصادر میں امام زین العابدین ؒکا رسالة الحقوق بہت مشہور ہے۔ اس میں، خوبصورت لفظیات اور پر اثر طرز بیان کے ذریعے پچاس حقوق کی بڑی دلنشین وضاحت ملتی ہے۔ پڑوسیوں کے بارے میں اس کا متن پڑوسیوں کے حقوق کے اسلامی تصور کی پوری بحث کا خلاصہ ہے۔
وَأَمَّا حَقُّ الْجَارِ فَحِفْظُهُ غَائِباً وَكَرَامَتُهُ شَاهِداً وَنُصْرَتُهُ وَ مَعُونَتُهُ فِی الْحَالَینِ جَمِیعاً لَا تَتَبَّعْ لَهُ عَوْرَةً وَلَا تَبْحَثْ لَهُ عَنْ سَوْأَةٍ لِتَعْرِفَهَا فَإِنْ عَرَفْتَهَا مِنْهُ مِنْ غَیرِ إِرَادَةٍ مِنْكَ وَلَا تَكَلُّفٍ كُنْتَ لِمَا عَلِمْتَ حِصْناً حَصِیناً وَسِتْراً سَتِیراً لَوْ بَحَثَتِ الْأَسِنَّةُ عَنْهُ ضَمِیراً لَمْ تَتَّصِلْ إِلَیهِ لِانْطِوَائِهِ عَلَیهِ لَا تَسْتَمِعْ عَلَیهِ مِنْ حَیثُ لَا یعْلَمُ لَا تُسْلِمْهُ عِنْدَ شَدِیدَةٍ وَلَا تَحْسُدْهُ عِنْدَ نِعْمَةٍ تُقِیلُهُ عَثْرَتَهُ وَتَغْفِرُ زَلَّتَهُ وَلَا تَذْخَرْ حِلْمَكَ عَنْهُ إِذَا جَهِلَ عَلَیكَ وَلَا تَخْرُجْ أَنْ تَكُونَ سِلْماً لَهُ تَرُدُّ عَنْهُ لِسَانَ الشَّتِیمَةِ وَتُبْطِلُ فِیهِ كَیدَ حَامِلِ النَّصِیحَةِ وَتعَاشِرُهُ مُعَاشَرَةً كَرِیمَةً وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.
”پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرو اور اس کی موجودگی میں اس کا احترام کرو اور ہرحال میں اس کی مدد و معاونت کرو۔ اس کے راز کی ٹوہ میں نہ رہو اور نہ اس کی کمزوریاں تلاش کرو اور اگر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا کوئی عیب تمہارے علم میں آجائے تو اس (عیب) کے لیے ایسا محکم و مضبوط قلعہ اور دبیز ڈھال بن جاؤ کہ اگر اسے نیزوں سے بھی تلاش کیا جائے تو اس کا سراغ نہ ملے۔ اس کی باتوں کو چھپ کر نہ سنو جب کہ وہ بے خبر ہو اور اسے سختیوں اور مشکلات میں چھوڑ کر الگ نہ ہوجاؤ اور جب اس کے پاس کوئی نعمت دیکھو تو اس پر حسد نہ کرو۔ اس کی لغزشوں سے درگزر اور اس کے گناہوں سے چشم پوشی کرو اور اگر وہ تمہارے بارے میں کوئی نادانی والی حرکت کر بیٹھے تو اپنے حلم و بردباری سے اسے محروم نہ کرو۔ اس کے لیے خیر و سلامتی کا ذریعہ بنو، اگر وہ گالیوں اور طعنوں کی زد میں ہو تو آگے بڑھ کر انہیں پلٹاؤ اور ان لوگوں کے مکر و فریب کو ناکام بناؤ جو جھوٹی نصیحت کے پردے میں اس کے خلاف سازش کریں۔ اس کے ساتھ شریفانہ اور کریمانہ رویہ رکھو اور جان لو کہ قوت و توفیق تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔“
اس خوبصورت ضابطہ اخلاق کے مستحق یقیناً وہ پڑوسی بھی ہیں جو ہمارے گھروں کے قریب رہتے ہیں اور وہ ‘اصحاب بالجنب’بھی ہیں جو کسی بھی سطح پر ہمارے ساتھ کام کررہے ہیں یا زندگی بسر کررہے ہیں۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ پڑوسیوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق یا حسن سلوک کے لیے کوئی انتخاب اسلام کو پسند نہیں ہے۔ عام طور پرلوگ قریبی تعلقات کے لیے اپنے آس پاس سے ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو ہم مزاج یا ہم خیال ہوں یا پیشے میں اشتراک رکھتے ہوں۔ قریبی تعلق کے لیے سماجی مرتبے و اسٹیٹس (Status)کی یکسانیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے واضح فرمایا کہ یہ سب خود ساختہ معیارات درست نہیں ہیں۔ ترجیح کی بنیاد صرف دروازے سے قربت ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ قابل ترجیح وہ ہے اقربهما منك بابا جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے قریب تر ہے[54]۔ غیر مسلم پڑوسیوں سے بھی خاص تعلق مطلوب ہے۔ زیر بحث تمام حقوق اُن کے سلسلے میں بھی عائد ہوتے ہیں۔ اسی طرح غریب پڑوسی بھی تمام حقوق یکساں رکھتا ہے۔ عالیشان عمارتوں کے قریب واقع جھگی جھونپڑیاں، بلڈنگوں میں واچ مین کا مسکن، سرونٹ کوارٹر، ان سب کو بھی پڑوسی سمجھ کر یکساں معاملہ کرنا ضروری ہے۔
ہندوستانی مسلمان: عملی رویے
شہری سرد مہری (urban coldness)اور انسانوں کے درمیان لا تعلقی کا مسئلہ اب معاصر سماجوں کا ایک بڑا گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے۔ انسانیت اس کیفیت سے اب تنگ آچکی ہے اور دنیا بھر کے ماہرین سماجیات اس مسئلے کی موجودہ سنگینی کو انسانی تہذیب کے لیے سم قاتل سمجھ رہے ہیں۔ اگر اسلام کا مذکورہ ماڈل ہمارے معاشروں میں عملاً جاری ہوتا تو پریشان حال انسانیت اس کی طرف ضرور تیزی سے متوجہ ہوتی۔ یہ اسلام کی بہت طاقت ور شہادت ہوتی اور دنیا کو اسلامی تہذیب کے محاسن سے متعارف کرانے کا بڑا موثر ذریعہ بنتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بگاڑ اور زوال کے باوجود آج بھی مسلمان معاشرے متعدد پہلوؤں سے دوسروں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بے حسی اور لاتعلقی کا مرض ان میں نسبتاً کم ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا کے دوران مسلمانوں کے اجتماعی رویے کا یہ امتیا ز بہت ابھر کر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جہاں تک اسلام کے مطلوبہ ماڈل کا معاملہ ہے، مسلمانوں کی عملی زندگی اس سے کوسوں دور ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ پڑوسی سے حسن سلوک کے پہلے اصول یعنی ایذا رسانی سے گریز کے اصول کا معاملہ ہے۔ زمینوں میں دست اندازی عام بات ہوگئی ہے۔ گندگی اور کچرے کے لیے ہر جگہ مسلمان بدنام ہیں۔ چھینکنے، کھانسنے، تھوکنے کے آداب کی رعایت بہت کم رکھ پاتے ہیں۔ گاڑیوں کی نامناسب پارکنگ نہ صرف گھر گھر کا مسئلہ ہوگیا ہے بلکہ مسجدوں کے سامنے بھی عام بات ہوگئی ہے (جس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہے)۔ پڑوسیوں کے درمیان آئے دن بحث و تکرار بہت سی جگہوں پر معمول بن چکی ہے۔ دیر رات تک نوجوانوں کے جمگھٹے، بلند آواز سے باتیں اور قہقہے اکثر مسلمان محلوں کی پہچان ہیں۔ غیبت سے گریز، رازوں کی حفاظت، عیوب کی پردہ پوشی، برائیوں کی ٹوہ میں نہ پڑنا اور ان کے چرچے نہ کرنا وغیرہ جیسی اسلامی قدروں کے سلسلے میں عام مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ دین دار مسلمانوں کا بھی کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ الّا ماشاء اللہ۔ سوشل میڈیا اور وہاٹس اپ نے ان کریہہ حرکتوں کو ایسا عروج عطا کیا ہے کہ لوگ روزانہ تیزی سے اپنی نیکیو ں کو ضائع اور دوسروں کے گناہوں کو اپنے نامہ اعمال میں منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
مثالی پڑوس مثالی اسلامی تمدن کی پہلی سیڑھی ہے۔ ریاست کو اسلامی رنگ دینے کی اس وقت ہم استطاعت نہیں رکھتے لیکن مثالی پڑوس تشکیل دینے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں اور مثالی پڑوس کے بغیر نہ مثالی ریاست ممکن ہے نہ مثالی تمدن۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری ہر ممکن کوشش ہو کہ مسلمان معاشرے ‘اسلامی پڑوس’کے نمائندہ اور اس کی عملی شہادت بنیں۔ دنیا کو اسلامی تہذیب کے حسن کی جھلک دکھائیں۔ اس کی طرف متوجہ اور راغب کریں۔ اقامت دین کا یہ وہ مرحلہ ہے جو آسانی سے ممکن العمل اور ہماری دسترس میں ہے اورجس کے ہم اس وقت بھی مکلف ہیں۔
حواشی و حوالہ جات
[1] John Locke رجحان ساز انگريز فلسفي جسے ‘فادر آف لبرلزم ‘ کہا جاتا ہے اور يورپي نشاة ثانيہ اور جديديت کے اہم ترين اساطين ميں جسے شمار کيا جاتا ہے۔
[2] John Locke(1823). Two Treatises of Government, Second Treatise, Chapter V; London.
[3] Jean-Jacques Rousseau جديديت کے سياسي افکار کا باني اور با اثر سوئس مفکر جس کے افکار نے فرنچ انقلاب کو جنم ديا اور پورے يورپ ميں نئي سياسي فضا پيدا کي۔
[4] Rousseau, J.-J. (2017). The Social Contract, Book I, Chapter I.; earlymoderntexts;
[5] اس موضوع پرايک اہم بحث جس ميں جديد مغربي شہري کي ‘نرگسيت’ اور اس کے گہرے نفسياتي اثرات کا جائزہ ليا ہے۔
- Sennett, R. (1977). The Fall of Public Man. New York: Knopf, pp. 3–27, 219–255.
[6] ملاحظہ ہو:
- Gintis, H. (2016). Individuality and Entanglement: The Moral and Material Bases of Social Life. Princeton, NJ: Princeton University Press.
[7] تفصيلي سروے ملاحظہ ہو:
- https://www.pewresearch.org/short-reads/2025/05/08/how-connected-do-americans-feel-to-their-neighbors/
[8] John Stuart Mill برطانوي سياست دان اور فلسفي، جديديت کے سماجياتي فلسفوں کے اہم اساطين ميں سے ايک
[9] مسند أحمد (17372)صححه الالبانی؛ صحيح الجامع (2563)
[10] أبو داود (5152)، والترمذي (1943)، ومسند أحمد (6496).صححه الالباني (صحيح الترمذي 1943)
[11] صحیح البخاری؛ کتاب الأدب(حديث 6018)
[12] صحیح البخاری؛ کتاب الأدب(حديث 6016)
[13] صحیح مسلم؛ کتاب الايمان؛ حديث 46
[14] أخرجه أحمد (9675)، والبزار (9713)، وابن حبان (5764) صححه الالباني
[15] صحیح البخاری؛ کتاب المظالم (2453)
[16] صحيح مسلم؛ کتاب الاضاحی (حديث 1978)
[17] مسند أحمد: 23854 و الطبراني فى الكبير: 256/20 صححه الالباني
[18] رد المحتار(حاشية ابن عابدين)؛ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر؛ 1966؛ ج 5 ص 448
[19] صحيح البخاري؛ کتاب الأطعمة (5452)
[20] رد المحتار(حاشية ابن عابدين)؛ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر؛ 1966؛ ج 1 ص 661
[21] سنن ابو داود؛ کتاب الجہاد؛ حديث 2629 حسنہ الالباني
[22] صحيح مسلم (47) كتاب الأيمان
[23] صحیح البخاری، کتاب الديات 6902
[24] رد المحتار(حاشية ابن عابدين)؛ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر؛ 1966؛ ج 5 ص 448
[25] منصور بن يونس البهوتي الحنبلي؛كشاف القناع عن متن الإقناع; 2008 وزارة العدل في المملكة العربية السعودية; ج 8ص 319
[26] مسند أحمد: 23854 و الطبراني فى الكبير: 256/20 صححه الالباني
[27] ابن عبد البر القرطبی؛ بهجة المجالس وأنس المجالس(تحقيق: محمد مرسي الخولي)؛ دار الكتب العلمية؛ بيروت؛ 1981 ص 290
[28] سنن ابو داود؛ کتاب الادب 4880 صححه الالباني (صحيح الجامع 7984)
[29] سنن الترمذی؛كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ (1931) صححه الالباني (صحيح الترمذي)
[30] الادب المفرد/كِتَابُ الْجَار/حديث: 111 قال الالباني حسن لغيره: الصحيحة: 2646
[31] سنن البیھقی(20160) صححه الالبانی(سلسلة الأحاديث الصحيحة/الاداب والاستئذان/حديث: 2828)
[32] مولانا سيد ابوالاعلي مودودي (2004)؛انسان کے بنيادي حقوق؛ مرکزي مکتبہ اسلامي پبلشرز؛ نئي دہلي؛ ص19
[33] صحيح الأدب المفرد لألباني (810)
[34] صحيح البخاري (6245 )؛ كتاب الاستئذان
[35] تفصيل کے ليے ملاحظہ ہو: محمد بن مفلح بن محمد المقدسي;الآداب الشرعية والمنح المرعية;موسسة قرطبة؛ جزء1 ص 393
[36] صحيح البخاري (7042 )؛ كتاب التعبیر
[37] سنن ابن ماجه(188)؛ کتاب السنة؛ صححه الالبانی (صحيح ابن ماجہ 156)
[38] موبائل کے استعمال سے متعلق اسلامي شريعت کي تعليمات کے ليے ملاحظہ ہو:
- بكر بن عبد الله أبوزيد؛أدب الهاتف.؛الرياض: دار العاصمة للنشر والتوزيع،1996
[39] ابن حجر العسقلاني؛ فتح الباري؛ المكتبة السلفية – مصر؛ 1960ج 10ص 446-447
[40] صحیح مسلم كتاب السلام/حديث: 5651
[41] مسند أحمد: 16611 و الطبراني فى الكبير: 220/24 صححه الالبانی (صحيح ادب المفرد ۹۰/١٢٢)
[42] ابن حجر العسقلاني؛ فتح الباري؛ المكتبة السلفية – مصر؛ 1960ج 10ص 445
[43] صحيح البخاري/کتاب المظالم والغصب/حديث: 2463
[44] محمد صالح المنجد؛ سلسلة الآداب؛ ج 4 ص 20
[45] أبو داود (3517) والترمذي (1368)، ومسند أحمد (20140)صححه الالباني صحيح أبي داود (3517)
[46] وَهْبَة بن مصطفى الزُّحَيْلِيّ; الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ; دار الفكردمشق; ج 6ص 4886
[47] برهان الدين المرغيناني، الهداية في شرح بداية المبتدي، دار احياء التراث العربي، بيروت؛ ج 4ص 308-310
[48] صحیح مسلم حدیث 48
[49] صححه الالبانی (صحیح الترغیب و الترھیب 2467)
[50] مولانا سيد ابوالاعليٰ مودودي؛ تفہيم القرآن؛ جلد دوم؛ ص 565 (سورہ نحل حاشيہ 88)
[51] صحیح مسلم 45
[52] سنن ابو داود؛ صححه الالبانی (صحيح ابو داود 5153)
[53] مسند احمد (حديث: 21340) صححه شعيب الأرناؤوط (تخريج مشكل الآثار2782)
[54] صحيح البخاري/كتاب الشفعة/حديث: 2259
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






