حقوقِ ہم سایہ اور فقہ اسلامی

اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے اور ان کی ادائی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں جن لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی گئی ہے ان میں سے ایک پڑوسی بھی ہے۔ (النساء:۳۶) احادیث میں پڑوسیوں کے حقوق بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انھیں کسی طرح کی اذیت پہنچانے سے منع کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پڑوسی کی طرف سے کوئی اذیت پہنچے تو اس پر صبر کیا جائے اور بدلہ لینے کی کوشش نہ کی جائے۔

فقہائے کرام نے آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں اور مقاصدِ شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پڑوسی کے حقوق سے بحث کی ہے اور ان سے متعلق احکام بیان کیے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک طرف افراد کے حقِ ملکیت کو ملحوظ رکھا ہے، دوسری طرف حسن سلوک، خوش خلقی، امدادِ باہمی اور نافعیت کی اسلامی تعلیمات بھی ان کے ذہنوں میں رہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے درمیان اختلافِ رائے بھی ہوا ہے۔ ذیل میں ان احکام کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

پڑوسی کی حرمت کی حفاظت

اسلام میں عزّت و آبرو کی حفاظت کو انسانوں کے بنیادی حقوق میں شمار کیا گیا ہے ۔ اگر کوئی اسے پامال کرتا ہے تو اس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ فقہاء نے پڑوسی اور اس کے اہلِ خانہ عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے متعدد احکام بیان کیے ہیں:

”دو پڑوسیوں کے گھروں کے درمیان کوئی دیوار یا اوٹ ہونی چاہیے ، جس سے کوئی شخص اپنے پڑوسی کے گھر میں تاک جھانک نہ کر سکے ۔ اگر دیوار پہلے سے موجود نہ ہو اور دوسرا پڑوسی اس کے لیے تیار نہ ہو تو فقہاء کہتے ہیں کہ اسے مجبور نہیں کیا جائے گا ، لیکن اگر ایک پڑوسی اپنی ملکیت کی زمین میں دیوار کھڑی کرنا چاہیے تو اسے اس کا حق حاصل ہوگا ۔“ (المغنی لابن قدامة:۴/۴۶۰)

اس معاملے میں علامہ ابن تیمیہؒ کی رائے یہ ہے کہ دونوں پڑوسیوں کو تاکید کی جائے گی کہ وہ مشترکہ طور پر دیوار کھڑی کریں ۔ اس کے لیے ہر ایک کی زمین میں سے اس کے حق کے بہ قدر دیوار کے لیے جگہ دی جائے گی ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ :۳/۱۳)

اگر دو پڑوسیوں کے گھروں کے درمیان موجود پرانی دیوار منہدم ہو جائے ، ان میں سے ایک دوبارہ دیوار کھڑی کرنے کا ارادہ کرے ، جب کہ دوسرا اس سے منع کرے تو فقہاء کے اس سلسلے میں دو اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ دوسرے پڑوسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ دوسرا قول مجبور کرنے کا ہے ، اس لیے کہ دونوں کے درمیان پردہ ضروری ہے ۔

اگر دو گھروں کے درمیان میں دیوار کسی ایک پڑوسی کی ہو اور وہ اپنے پڑوسی کو ضرر پہنچانے کے لیے اسے منہدم کر ڈالے تو اسے دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے کہا جائے گا ، تاکہ وہ پڑوسی کے لیے ساتر ہو ، لیکن اگر دیوار خود منہدم ہو گئی ، یا اسے درست کرنے کے لیے منہدم کیا تو دیوار کے مالک کو اسے دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا اور پڑوسی سے کہا جائے گا کہ اگر چاہو تو اپنے لیے پردہ کر لو ۔

اگر ایک پڑوسی دوسرے کی اجازت کے بغیر مشترکہ دیوار گرا دے تو امام شافعیؒ کے نزدیک اس کے نقصان کا تاوان لیا جائے گا ، جب کہ امام احمدؒ کے نزدیک اس سے دوبارہ دیوار تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا ۔(مغنی المحتاج : ۲/۱۹، مطالب اولی النھیٰ :۳/۳۶۲)

دو پڑوسیوں کے گھروں کی چھتیں کیسی ہوں؟ اس کے بارے میں فقہاء نے تفصیل سے کلام کیا ہے ۔ احناف کا مسلک یہ ہے کہ جس کی چھت پڑوسی کی چھت کے برابر ہو اور چھت پر چڑھنے سے اس کی نگاہ پڑوسی کے گھر میں پڑ جاتی ہو تو پڑوسی کو حق ہوگا کہ جب تک وہ پردہ کا انتظام نہ لے اس کو چھت پر چڑھنے سے روک دے ۔ مالکیہ کے نزدیک چھت والے کو ایسا پردہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ (فتح القدیر:۵/۵۰۶-۵۰۷، الفتاویٰ الہندیة:۵/۳۷۳، الفتاویٰ البزازیہ:۶/۴۱۹)

حنابلہ کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کے گھر میں جان بوجھ کر دیکھتا ہو تو اسے چھت پر چڑھنے سے روکا جائے گا ۔ اگر اس کی چھت پڑوسی کی چھت سے اونچی ہو تو اسے پردہ/اوٹ قائم کرنے کا پابند کیا جائے گا ، البتہ اگر دونوں کی چھتیں اونچائی میں برابر ہوں تو اوٹ کی تعمیر میں دونوں شریک ہوں گے۔ (المغنی :۴/۴۶۵ ، کشاف القناع :۳/۴۰۱-۴۰۲)

اگر کوئی شخص اپنے گھر میں بالا خانہ تعمیر کر رہا ہو تو احناف کے ایک قول کے مطابق اسے اس میں ایسا روشن دان یا کھڑکی لگانے سے نہیں روکا جائے گا جو پڑوسی کے آنگن میں کھلتی ہو ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اگر وہ کھڑکی دیکھنے کے لیے ہو اور پڑوسی کا آنگن عورتوں کے بیٹھنے کی جگہ ہو تو کھڑکی لگانے سے روکا جائے گا ۔ (فتاویٰ قاضی خان:۳/۴۳۳، حاشیہ ابن عابدین:۵/۴۴۸) اگر کھڑکی کی بلندی انسانی قد کے برابر ہو تو اسے بند کرنے کا مکلّف نہیں کیا جائے گا ۔ (مجلة الاحکام العدلیة، دفعہ ۱۲۰۳)

مالکیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ ایسی کھڑکی کھولنے سے منع کیا جائے گا جس سے آدمی اپنے پڑوسی کے گھر میں جھانک سکے ۔ (المدونة الکبریٰ:۱۴/۵۲۹، حاشیہ الدسوقی، ۳/۳۶۹)

شوافع کی رائے ہے کہ مالک مکان کو کھڑکی کھولنے سے نہیں روکا جائے گا ۔ پڑوسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ سے ضرر دوٗر کرنے کے لیے ایسا انتظام کرے کہ اس کا پردہ ہو سکے ۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ اسے کھڑکی نہ لگانے اور اگر لگا چکا ہے تو اسے بند کرنے کو کہا جائے گا ۔ (حاشیہ الدسوقی: ۳/۳۶۹،مغنی المحتاج:۲/۱۸۶)

ملکیت میں تصرّف کرنے پر پڑوسی کے نقصان کا اثر

کسی شخص کی ملکیت میں جو چیزیں ہوں ان پر تصرّف کرنے کا اسے پورا اختیار ہے اور دوسرے کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن فقہ میں بعض جزئیات ایسی بیان کی گئی ہے کہ اگر پڑوسی کو کوئی ضرر پہنچ رہا ہو تو اسے تصرف کرنے سے روکا جائے گا ۔

اس سلسلے میں مالکیہ، حنابلہ اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق احناف کی رائے یہ ہے کہ پڑوسی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں آدمی کو اس کی ملکیت میں موجود چیزوں میں تصرّف سے روکا جائے گا اور اگر تصرّف کے نتیجے میں پڑوسی کو کچھ نقصان پہنچ گیا ہو تو اس کا ضمان بھی واجب ہوگا ، بہ شرطے کہ ضرر واضح ہو ، مثلا تصرّف کے نتیجے میں پڑوسی کا مکان سکونت کے قابل نہ رہے ، یا عمارت کو نقصان پہنچے اور اس کے منہدم ہو جانے کا اندیشہ ہو ۔ (الدرّ المختار: ۵/۴۴۷، کشاف القناع:۳/۴۰۸، المغنی:۴/۵۷۲)

شوافع سے اس سلسلے میں دو اقوال منقول ہیں : ایک یہ کہ مالک کو اپنی ملکیت میں تصرّف کرنے کا حق ہے ، چاہے اس کے پڑوسی کو ضرر پہنچے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ چوں کہ پڑوسی کو نقصان پہنچ رہا ہے ، اس لیے اسے اس سے روکا جائے گا ۔ (مغنی المحتاج:۲/۳۶۴)

پڑوسی کی دیوار سے فائدہ اٹھانا

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : لا یمْنَعْ جَارٌ جَارَهُ أنْ یغْرِزَ خَشَبَهُ فی جِدَارِهِ (صحیح بخاری:۲۴۶۳)

’’تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی (کھونٹی) گاڑنے سے نہ روکے۔“

دوسری طرف حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے : “لا یحل لامرئِِ مِن مال اخیہِ الا ما أعطاہ عن طیب نفسِِ (السنن للبیہقی:۶/۹۷)

”کسی شخص کے لیے اپنے بھائی کا مال حلال نہیں ہے ، مگر جس کو وہ خوش دلی سے دے دے۔“

ان احادیث سے استنباط کرتے ہوئے احناف (مفتیٰ بہ قول) امام شافعیؒ (قول قدیم)، امام احمدؒ (ایک روایت) اور حنابلہ میں سے بعض فقہاء ، مثلا ابن قدامہؒ، قاضی ابو یعلیٰؒ اور ابو خطابؒ کا قول یہ ہے کہ آدمی کے لیے پڑوسی کی دیوار سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ، دیوار کے مالک کو اس سے روکنے کا حق نہیں ہے ، بہ شرطے کہ دیوار کو کچھ نقصان نہ پہنچے ۔ شوافع اور حنابلہ کی دوسری رائے یہ ہے کہ آدمی کے لیے اپنے پڑوسی کی دیوار سے اس کی اجازت کے بغیر فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔ یہ حکم فائدہ اٹھانے کی تمام صورتوں ، مثلاً کچھ تعمیر کرنا ، روشن دان کھولنا ، لکڑی گاڑنا وغیرہ شامل ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین:۴/۳۸۵، شرح الزرقانی:۶/۶۴، المغنی ۵/۳۶)

حق شفعہ

شفعہ ایک فقہی اصطلاح ہے ۔ یہ ایک حق ہے جو کسی شریک یا پڑوس کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی زمین یا مکان کے فروخت ہونے پر اسے اپنے شریک یا پڑوسی سے ترجیحی بنیاد پر حاصل کر سکتا ہے ۔

احناف کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنا مکان فروخت کر رہا ہو تو جس پڑوسی کا مکان اس سے ملا ہوا ہو اسے شفعہ حاصل ہوگا ۔ اس لیے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : جار الدار احقّ بالدارِ (ترمذی:) ”گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حق دار ہے۔“ایک دوسری حدیث ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میری زمین میں سوائے پڑوسی کے نہ کسی کی شرکت ہے نہ وہ تقسیم ہوئی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا : الجارُ أحقّ بصقبہ (بخاری:۶۹۸۱)

”پڑوسی اپنے قریبی گھر کا زیادہ حق دار ہے۔“

مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق صرف تقسیم نہ کرنے والے شریک کے لیے ہے۔ پڑوسی کو یہ حق حاصل نہیں ، اس لیے کہ حدیں تقسیم ہو چکی ہیں اور راستے پھیرے جا چکے ہیں۔ شفعہ کی مشروعیت صرف شرکت کے ضرر کو دوٗر کرنے کے لیے ہے۔ یہ حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔

”قضى رسولُ الله صلى الله علیه وسلم بالشُّفْعة فی كل ما لم یقْسَم، فإذا وقعَتِ الحدودُ وصرفت الطرق، فلا شُفعَة“(بخاری:۲۲۵۷)

”نبی ؐﷺ نے غیر منقسم چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا ہے۔ جب حد بندیاں ہو جائیں اور راستے لیے جائیں تو شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔“

راستے میں حقِ جوار

فقہاء راستے کی دو قسمیں کرتے ہیں : ایک دوسری طرف سے کھلا ہوا راستہ اور دوسرا بند راستہ ۔ جو راستہ کھلا ہوا ہو (شارع عام) اسے استعمال کرنے کی ہر شخص کو اجازت ہے ۔ اس راستے پر بنے ہوئے گھر والوں کو اس میں کوئی تعمیر کرنے یا رکاوٹ کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے ، جس سے عام لوگوں کو راستے چلنے میں دشواری ہو ۔ جو راستہ بند ہو وہ اس راستے پر واقع گھر والوں کی ملکیت ہے ۔ان کی رضا مندی کے بغیر دوسروں کو اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ وہ شخص راستہ والا نہیں کہلائے گا جس کی دیوار گلی سے متصل ہو ، مگر اس کی طرف دروازہ کھلا ہوا نہ ہو۔ (نہایة المحتاج: ۴/۳۹۸، ومابعد، کشاف القناع:۳/۴۱۰، حاشیہ ابن عابدین:۵/۳۸۲)

سطورِ بالا میں حقوقِ ہم سایہ کے تعلق سے فقہا کے جو اقوال نقل کیے گئے ہیں ان میں سے بعض میں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شریعت قانون اور اخلاق دونوں کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف شریعت میں ہر انسان کے بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کیا گیا ہے، دوسری طرف دوسرے انسانوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتا‎ؤ کرنے، وقتِ ضرورت ان کے کام آنے، ان کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن و سنت کے احکام کا استنباط کرتے وقت جن فقہا کی نظر قانونی پہلو پر رہی ہےانہوں نے ایک رائے دی ہے اور جن فقہا نے اخلاقی پہلو کو ترجیح دی ہے انہوں نے اس سے مختلف رائے پیش کی ہے۔ فقہا کی آرا میں حالات و زمانہ کا اثر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں مقاصدِ شریعت کو ملحوظ رکھ کر وہ آرا اختیار کی جا سکتی ہیں جو اسلام کی رواداری، توسع اور ہم دردی کے پہلو ؤں کو نمایاں کرتی ہیں۔

[نوٹ: اس مضمون میں خاص طور پر الموسوعة الفقہیة کویت سے استفادہ کیا گیا ہے]

مشمولہ: شمارہ نومبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

اکتوبر 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223