وطن عزیز میں اہل ایمان کے خلاف آئے دن ظلم و زیادتی کا ایسا لامتناہی سلسلہ دراز ہے کہ امت کی تمام تر توجہ اصلاحِ حال کے بجائے دفاع و تحفظ کی جانب مبذول رہتی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے لیکن اس کے باوجود داعیانہ کردار ادا کرنے کی ذمہ داری ساقط نہیں ہوتی۔ امسال ماہِ مئی کے اواخر میں علی گڑھ کے قریب نور پور میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے امت کو شرم سار کردیا۔ وہاں پر دلتوں کی ایک بارات کو مسجد کے سامنے سےگزرنے سے روک دیا گیا۔ یہ معاملہ اگر ہر کسی کے ساتھ ہوتا یعنی مسجد کے سامنے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کی دیگر نام نہاد اونچی ذاتوں کی بارات کا گزرنا بھی ممنوع ہوتا، تو اور بات تھی ،لیکن صرف دلتوں کے لیے پابندی کا تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ ویسے بھی یہ بات نامعقول ہےکیوں کہ نماز تو مسجد کے اندر ہوتی ہے۔ بارات اگر عین نماز کے وقت گاجے باجے کے ساتھ آتی اور اس سے نماز میں خلل کا اندیشہ ہوتا ، تو باراتیوں کو سمجھایا جاسکتا تھا اور وہ مان جاتے لیکن اس کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے مسلم رہ نما کی اپنی سیاست چمکانے کی خاطر ایسی احمقانہ حرکت افسوس ناک ہے، یہ انسانیت کی توہین ہے، اس سے اسلام کی غلط ترجمانی ہوتی ہے، اور اس کاارتکاب کرنے والا اپنے آپ کو غضبِ الٰہی کا سزاوار بھی بناتا ہے۔
قرآن و حدیث میں انسانی مساوات کی جو تعلیمات درج ہیں ان کا مطالعہ کرنے کی کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیں مگر مسلمانوں کی ایسی حرکت سب کی نظر میں رہتی ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں جہاں بعض مقامات پر دلتوں کو ٹھاکر اپنے محلے سے گھوڑے پر بیٹھ کر بارات لے جانے کی اجازت نہیں دیتے اور عدالت کو مداخلت کرنی پڑتی ہے، انتہا یہ ہے کہ ایک دلت کو پچھلے دنوں گھڑ سواری کرنے کی پاداش میں گولی ماردی گئی، اورزدوکوب کرنے کے بعدمونچھیں تک منڈوادی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ردّعمل کے طور ملک کے دلت سماج کے اندر خود اپنے ہم مذہب لوگوں کے خلاف نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر مسلمان اس سماج کے لوگوں کے ساتھ مساوات کا سلوک کریں، ان کی عزت نفس کا احترام کریں، ان کی بارات کے لیے کوئی سہولت بہم پہنچائیں، آگے بڑھ کر دولہے کو مبارک باد دیں اور اس سے معانقہ کریں، تو یہ اسلامی اقدار کی صحیح ترجمانی ہوگی، اور اس سے ان کے دلوں میں ہمارے لیے اور ہمارے دین کے لیے قدر واحترام پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر اہل ایمان بھی ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو ذات پات میں یقین رکھنے والے کرتے ہیں، تووہ ہماری وجہ سے ہم سے اور ہمارے دین سے نفرت کرنے لگیں گے۔
دوسروں پر تنقید کرنا قدرے سہل ہے لیکن اپنوں پر تنقید کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں قرآن حکیم کی یہ آیت یاد رکھنی چاہیے :
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا واسطے انصاف کے علم بردار اور اس کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔’’
اس لیے ایسے مواقع پر اپنے پرائے کا فرق، غریب و امیر میں امتیاز اور چکنی چپڑی باتوں سے ظلم کا جواز پیدا کرنا اللہ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے۔ انصاف کا علم بردار بن کر اٹھنا امت کا فرض منصبی ہے۔ سماج کے دبے کچلے لوگوں کو غیروں کے ظلم و جبر سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے کجا کہ ہم خود ظالموں میں شامل ہوجائیں۔
جون کے تیسرے ہفتے میں کرناٹک کے اندر مبینہ طور پر ‘آنر کلنگ’ (جھوٹی شان کے لیے قتل) کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں ایک مسلم لڑکی کے ساتھ ایک دلت لڑکے کا پیٹ پیٹ کر بہیمانہ طور پر قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ کرناٹک کے وجے پورہ ضلع کا ہے جہاں مسلم لڑکی کے کنبہ والوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر بے رحمی سے پٹائی کر دی اوراس سے دونوں کی جائے وقوعہ پر موت ہو گئی۔ ۱۹ سالہ دلت نوجوان بسوراجو کی ۱۶ سالہ مسلم لڑکی داوالابی سے تعلقات کا ہونا یقیناً شرم ناک بات ہے۔ اسلامی شریعت میں اس کی سخت سزا ہے، لیکن اسے نافذ کرنے کا اختیار افراد کو نہیں دیا گیا ہے۔ لڑکی کے اہل خانہ ازخود لاٹھی ڈنڈے اور پتھر سے حملہ کر کے ان کا قتل نہیں کرسکتے۔ لڑکی کے والد اور بھائی کے ساتھ تین دیگر لوگوں نے طیش میں آکر یہ اقدام تو کردیا اور پھر فرار ہو گئے۔ ان کے لیے بہتر طریقہ فریقین کو سمجھا بجھاکر مسئلے کو حل کرلینا تھا۔ معاشرے میں فحاشی و بے راہ روی پر لگام لگانے کے بجائے ایسا رویہ اختیار کرنے والا مزاج اصل بیماری سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔
سوشل میڈیا پر مسلم لڑکی کی غیر مسلم کے ساتھ شادی کی خبر ایک فطری بے چینی پیدا کرتی ہے اور ہندو نوجوانوں کو مسلم لڑکیوں سے بیاہ رچانے کی ترغیب یا انعام واکرام اضطراب کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے ہمارا ذہن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کی جانب مڑ جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دنیا میں لوگ ایک دوسرے خلاف سازش کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ سازش اگر علانیہ نہیں تو خفیہ ہوگی، لیکن بند نہیں ہوگی۔ اس سے کسی کو روکنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ غیروں پر ہمارا اختیار نہیں ہے لیکن دوسروں کی سازش سے خود کو محفوظ رکھنا ممکن ہے کیوں کہ ہم خود مختار ہیں۔ اسلام ایک محفوظ قلعہ ہے جس میں انسان اس طرح کے امراض سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ اس قلعہ کی دیواروں کو اگر ہم خود کم زور کردیں تو دشمن آسانی سے سیندھ لگانے میں کام یاب ہوجاتا ہے، بلکہ دشمن کے بغیر بھی آندھی اور طوفان اس کو گرانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنی دیوار کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف لازمی ہے کہ کسی دوشیزہ کو بزور قوت اغوا تو کیا جاسکتا ہے اور یرغمال بھی بنایا جاسکتا ہے، لیکن شادی تو برضا و رغبت ہی ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھولی بھالی لڑکیوں کو پھنسایا جاتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے ہم اپنی بیٹیوں کو اتنا ذہین و فطین بنائیں کہ وہ کسی کے دامِ فریب میں نہ آئیں۔ انھیں اتنا دلیر بنائیں کہ اگر کوئی ان کی جانب بُری نظر سے دیکھے تو وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔ اس ایمانی بصیرت کو پیدا کیے بغیر محض شور مچانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ مسلم لڑکی کا غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنا بیماری نہیں علامت ہے۔ اس لیے ہمیں محض علامات پر توجہ دینے کے بجائے بیماری کی تشخیص کرکے اس کا علاج کرنا ہوگا۔ ورنہ صحت کاملہ و عاجلہ ممکن نہیں۔ سڑک پر حادثات ہونے لگیں تو اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً روشنی کی کمی، سڑک پر ٹوٹ پھوٹ وغیرہ، لیکن بنیادی وجہ گاڑی چلانے میں نظم و ضبط کا فقدان ہوتا ہے۔ اس کمی کو اگر دور نہ کیا جائے تو اچھی اور روشن سڑک پر بھی حادثات ہوں گے اس لیے بنیادی سبب کا پتہ لگانا لازمی ہے۔
جس صورت حال سے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں، اس کی اصل وجہ الحاد و بے دینی ہے اور اس کا علاج دین داری ہے۔ اس کے بغیر اس سے نجات پانا ناممکن ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس کو اگر چند رسوم و رواج اور علامتی نشست و برخاست تک محدود کردیا جائے تو وہ مفلوج ہوجاتا ہے۔فرمانِ ربانی ہے کہ:
‘‘ اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔’’
ہم اگر اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔ ہمارےمعاملات اسلام کے خلاف ہوں۔ معیشت کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ مادرپدر آزاد معاشرت کو اپنا شعار بنالیں تو شادی جو اس کا ایک جزو ہے، وہ کس طرح اسلام کی پابند ہوسکتی ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں شیطان کی پیروی کرتے ہوئے کسی ایک مخصوص شعبے میں اس کی اتباع کرنا نا ممکن ہے۔ یہ بھی مضحکہ خیز توقع ہے کہ پورا معاشرہ تو دینی اقدار کو دھڑلے سے پامال کرے مگر لڑکیاں ایسا نہ کریں۔ یہ تو محض خام خیالی ہے۔
اس بابت سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلم لڑکیاں ہمارے سماج کا ایک اہم حصہ ضرور ہیں لیکن وہ نہ تو پورا سماج ہیں اور نہ اس سے الگ ہیں۔ اگر معاشرہ بگڑ جائے تو اس کا کوئی مخصوص شعبہ کیوں کر محفوظ رہ سکتا ہے۔ والدین بے دین ہوں اور بھائی آوارہ ہو۔ اپنی اور پرائی لڑکیوں سے بے روک ٹوک عشق لڑاتا ہو تو بہن کو اس برائی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ اس لیے صرف ایسی لڑکیوں پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے جو غیروں سے شادی کرنے کی فکر میں ہیں، پورے معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح درکار ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
‘‘ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔’’
قرآن مجید کا یہ حکم اگر نظروں سے اوجھل ہوجائے تو فتنہ برپا ہوجاتا ہے لیکن صرف معلومات ہی کافی نہیں ۔ اس پر یقین ہو اور عمل درآمد کی آمادگی بلکہ شوق و وارفتگی نہ ہو تب بھی بات نہیں بنتی۔ یہ آیت اسلام کے معاشرتی نظام کا حصہ ہے، اس لیے دیگر اجزا کو نظر انداز کرکے اس کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ مذکورہ آیت سے چار آیات پہلے فرمایا:
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔’’
شیطان کی پیروی سے بچتے ہوئے اور فحاشی و بدی سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ کی پناہ میں آئے بغیر بعد والی آیت پر عمل درآمد بے حد مشکل ہے؟ اسی سلسلے میں آگے چل کر یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ:
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔’’
اختلاط مردو زن کو روکنے والا یہ پہلا قدم ہے۔ آگے مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ :
‘‘اے نبی، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔’’
یعنی ترتیب میں پہلے مومن مردوں کو پابند کیا گیا اور پھر اس کے بعد خواتین کو حجاب کا حکم دیا گیا :
‘‘اور اے نبی، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں…’’
آگے مزید تفصیلات بیان ہوئی ہیں کہ کسے استثنا ہے اور کیا احتیاط ہونا چاہیے۔
اگر تقدیم و تاخیر کا رویہ اختیار کیاجائے یعنی پہلے والے حکم کو نظر انداز کرکے دوسرے پر اصرارہو تو ایسا کرنا کارگر نہیں ہوسکتا ہے۔ الٰہی ترتیب کا پاس و لحاظ لازمی ہے۔ اس کے بعد نکاح کی ترغیب اور آداب بیان ہوئے ہیں۔ لڑکوں سے صرفِ نظر کرکے اس معاشرتی مسئلہ کا حل ناممکن ہے۔ ایک دین دار لڑکی تو کسی صورت غیروں کی جانب راغب نہیں ہوسکتی مگر بے دین کے لیے بھی اگر اپنے ہی سماج میں مناسب جوڑا مل جائے تو وہ دوسری طرف کیوں رخ کرے! اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ مسلم لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں میں تعلیم کا رحجان کم ہے۔ یہ ایک بڑی مصیبت ہے۔ خواتین کی یہ فطری نفسیات ہے کہ وہ اپنے سے بہتر قوام کو پسند کرتی ہیں۔ ایسے میں جب انھیں اپنے معاشرے میں ناکامی ہوتی ہے اور ایمان بھی کم زور ہوتا ہے تو فتنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس لیے مسلم لڑکے بہت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں کیوں کہ لڑکیوں کو نکاح تو انھیں سے کرنا ہے۔
مسلم خواتین کو دین دار بنانے پر بہت زور دیا جارہا ہے اور پسندیدہ عمل ہے لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اگر لڑکے بے دین ہوں تو ان کا شوہر کی حیثیت سے انتخاب کرنا اور ان کے ساتھ دین کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہے؟ اس بابت سب سے اہم بات یہ کہ آخر لڑکیوں کو دینی تعلیم دینے کا محرک کیا ہو؟ یہ اگر صرف انھیں غیر مسلمین کے ساتھ شادی کرنے سے روکنا ہو تو ناقص مقصد ہے۔ اپنی بیٹیوں کو اس لیے دین کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا حاصل کریں اور خود کو جنت الفردوس کا حق دار بنائیں۔ ہماری بیٹیاں اسی کی مستحق ہیں۔ باہر سے چوکیدار رکھ کرکے کسی کو دین کا پابند بنانا بے حد مشکل ہے، لیکن اسلام انسانوں کے دل میں تقویٰ کی صورت میں ایک ایسا چوکیدار بٹھا دیتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ان تدابیر کے علاوہ آسان نکاح اور غیر مخلوط تعلیمی اداروں کا اہتمام بھی اہم ہے۔ ان کی جانب بھی حتی المقدور سعی کی جانی چاہیے۔
مسئلے کا ایک اور نازک پہلو بھی بے حد سنجیدگی چاہتا ہے۔مسلم لڑکی اگر اپنی نادانی کے سبب کسی غیر مسلم سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کی اس معیوب حرکت سے پورے معاشرے میں اس کا خاندان بہت بدنام ہوجاتا ہے۔ اس تذلیل و تضحیک کا مقابلہ بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اس بابت ایک دوست نےاستفسار کیا کہ جو لڑکی چلی گئی اس پر تو خیر ‘ انالله وانا الیه راجعون’ پڑھ کر اس کے بارے میں سوچنا چھوڑا جاسکتا ہے، لیکن اگر کسی لڑکی کو آگے چل کر اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ نادم ہوکر لوٹنا چاہے تو کیا کیا جائے؟ نباہ نہیں ہونے پریاکسی اور وجہ سے وہ واپس آنا چاہتی ہو تواس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟ ایسی صورت میں والدین کی غیرت جاگ جاتی ہے اوروہ معاشرے کے دباؤ میں اپنی بیٹی کو گھر میں نہیں آنے دیتے، بلکہ واپس کردیتے ہیں۔ اس صورت میں درست رویہ کیا ہونا چاہیے؟ افرادِ امت کو اگر اس سے ہم دردی ہوتو وہ اس کو واپس لاکر کہاں رکھیں ؟ تاکہ اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے اسے پھر سے مسلم معاشرے میں جذب کیا جا سکے؟ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے اور ملت کو اس کا حل نکالنا ہوگا؟
اس چیلنج سے نمٹنے کی خاطرضروری ہے کہ ایسی لڑکی پر اناللہ وانا الیہ راجعون نہ پڑھا جائے اور نہ اس کے ازخود لوٹ کر آنے کا انتظار کیا جائے۔ ایسا تو ہندو احیا پرست بھی نہیں کرتے بلکہ گھر واپسی کی تدابیر کرتے ہیں۔ امت کے اداروں کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان سے رابطہ کرکے انھیں سمجھانے کی سنجیدہ کوشش رکھی جائے۔ اس کی مشکل کو سمجھنے کی سعی کی جائے اور بغیر ڈانٹے ڈپٹے اپنی اصلاح کی جانب راغب کیا جائے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اچھی نصیحت اس کا دل بدل دے، بلکہ وہ اپنے شوہر کے سامنے بھی اسلام پیش کرے۔
خاوند اگر اسلام قبول نہیں کرتا اور وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر آتی ہے تو بہتر شکل یہی ہے کہ اس کے والدین کو سمجھابجھا کر اپنی بیٹی کو اپنا نے کے لیےآمادہ کیا جائے کیوں کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو وہ بھولا نہیں کہلاتا۔ اللہ کے نزدیک توبہ و استغفار کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ والدین کسی وجہ سے تیار نہ ہوں تو ملت اپنی ذمے داری ادا کرے۔ اس لڑکی کی بازآباد کاری کا بندوبست ہو اور اسے نہ صرف برسرِ روزگار کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ ممکن ہوتو نکاح ثانی کرکے نیا گھر بسانے میں تعاون کیا جائے۔ اس طرح جوانی کے جوش میں جذبات سے مغلوب ہو کر اسلام سے دور ہونے والی لڑکیوں کو پھر سے اسلام کے سایہ عافیت میں آنے کے مواقع رہیں گے اور ان نادان بچیوں کی اصلاح ہوسکے گی۔ یہ بڑے صبرو تحمل کا کام ہے اور ایسا کرنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر یہ کام آسان نہیں ہے مگر ادارہ جاتی سطح پر یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔
عدل و انصاف کا تقاضا سبھی جانتے ہیں مگر اپنی بے جا برتری کا احساس اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنے کا رحجان اس طرح کے جرم کا سبب بن جاتا ہے۔ اس پر گرفت ہونی چاہیے کیوں کہ ارشادِ ربانی ہے:
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ، عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔’’
اس طرح کے معاملات میں یہ کہنا کہ ہندو سماج میں آنر کلنگ ایک عام بات ہے، وہ ایسا کرتے رہتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے، مناسب بات نہیں ہے۔ وہ لوگ دین حنیف سے محروم ہیں۔ ان کے دل میں نہ اللہ کی محبت ہے اور نہ آخرت کا خوف ہے۔ اس لیے وہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ہم نہیں کرسکتے۔ ورنہ دونوں میں پھر کیا فرق رہ جائے گا۔
اس طرح کے واقعات اب صرف بین المذاہب شادیوں تک محدود نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں مغربی اتر پردیش کے ضلع میرٹھ میں ۲۴ گھنٹوں کے اندر دو دل دہلا دینے والے سانحات رونما ہوئےاور غیرت کے نام پر تین افراد کو قتل کردیا گیا ان میں سے ایک لڑکی کی عمر صرف ۱۵ سال اور نوجوان کی عمر ۲۰ سال تھی نیز تیسرا جوان ۲۲ سال کاتھا۔یہ سارے قاتل و مقتول مسلمان تھے۔ میرٹھ شہر کے بھوسا منڈی میں ۲۲ سالہ سلیم کو اس کے گھر پر محسن نے گالی گلوچ کے بعد تھپڑ مارا اور پھر اس کے سینے میں گولی اتار دی نیز فلمی انداز میں دھمکی دے گیا کہ جو بھی اس کی بہن اور کنبے کی عزت سے کھیلے گا اس کا یہی انجام ہوگا۔ اس کے علاوہ باغولی گاؤں میں ۴۵سالہ تحسین نے ۲۰سالہ عارف کو گولی مار کر قتل کر نےکے بعد اپنی ۱۵ سالہ بیٹی کو بھی گھر کے اندر گولی مار دی۔ قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد تحسین نے گاؤں کے لوگوں کے سامنے چیخ چیخ کر کہا کہ اس کی دو اور بیٹیاں ہیں اور اس نے انھیں غلط راہ پر چلنے روکنے کے لیے یہ سبق سکھایا ہے۔ اس حرکت کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اس کی عزت خراب ہو رہی تھی۔
ایسے سانحات اصلاح معاشرہ کے حوالے سے امت کی ذمہ داری کاشدید احساس کراتے ہیں۔ اہل ایمان کے درمیان آئے دن نت نئے تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں ان کی جانب سے صرفِ نظر کرنا بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
‘‘مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔’’
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین کا باہمی اختلاف آگے بڑھ کرجھگڑا فساد بلکہ جنگ و جدال میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس لیے صلح صفائی کرانے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اس بابت فرمانِ قرآنی یہ بھی ہے کہ ‘‘اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔’’ یعنی اصلاح معاشرہ کے لیے وعظ و تلقین سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات بھی ضروری قرار پاتے ہیں۔
عدل و انصاف کا قیام اور ظلم و زیادتی کا استیصال گویا اہل ایمان کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس تناظر میں جب صحابہ نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم، تولوگوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! وہ مظلوم ہو تو اس کی مدد کریں گے لیکن ظالم ہو تو کیسے مددکریں؟’’ یہ استفسار اس بات کا غماز ہے کہ ظلم و جبر کی بابت صحابہ ٔ کرام کس قدر حساس تھے۔ اس احساس کے جواب میں نبیٔ رحمتﷺ نے فرمایا:‘‘ اس کو ظلم سے روکو!(منع کرو)۔’’ اس سےمعلوم ہوا کہ ظالم کی مدد اس کے ظلم و جبر میں تعاون کرنا نہیں بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لینا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ‘‘مجھے اپنی عزَّت وجلال کی قسم! میں ظالم سے دنیا و آخرت میں ضرور انتقام لوں گا ۔’’خدائے عزیز و جبار کے غضب بچنا اور دوسروں کو بچانے کی سعی اس کی سب سے بڑی خیر خواہی ہے۔ مذکورہ حدیث میں انتقامِ الٰہی کا دائرہ ظالم تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے فرمایا:‘‘اوراس سے بھی ضرور انتقام لوں گا جس نے کسی مظلوم کو دیکھا اور اس کی مدد پر قدرت کے باوجود مدد نہ کی۔’’ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح ظالم کو روکنے میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوگا اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی تفریق و امتیاز کی روادار نہیں ہوگی۔
قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کے انحطاط کا زمانہ اس طرح بیان کیا گیا ہے اس کو پڑھتے ہوئے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی حالت نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ ان کے اندر باہمی عداوت اور عصبیت کا ایسا ہی چلن عام تھا جیسا کہ آج کل ہمارے یہاں پایا جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
‘‘ پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو۔’’
امت مسلمہ بھی اس عہد کی پاس دار ہے لیکن عملاً وہی کررہی ہے جو بنی اسرائیل کرتے تھے، فرمایا :
‘‘ مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو۔’’
مختلف سیاسی و دیگر وجوہات سے آج امت اسی طرح آپس میں دست و گریبان ہے اور اس کو درپیش مختلف مسائل کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ آزمائش کی گھڑی میں ہماری عصبیت اچانک بیدار ہوجاتی ہے اور ہم ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اپنے آپ کو اس طرح کے ظلم عظیم کا شکار کرنے والوں کو اللہ کی کتاب میں یہ وعید سنائی گئی ہے:
‘‘ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ اِن کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انھیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔’’
قرآن حکیم کی اس رونگٹے کھڑی کردینے والی وارننگ کو پڑھ کر مومن دل کانپ اٹھتا ہے۔ یہ رب کائنات کا عظیم احسان ہے کہ اس نے اپنی کتاب عظیم میں دیگر مقام پراس بیماری کا نسخۂ کیمیا بھی ہمیں عطا فرمادیا :
‘‘ اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔’’
یعنی اللہ کی جن مرضیات سے ہم روگردانی کرتے ہیں۔ زندگی کے جن شعبوں سے اسلامی احکامات کو ساقط کردیتے ہیں ان کو شیطان کے حوالے کرکے اس کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ :
‘‘ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔’’
امت کے اندر باہمی اخوت و محبت کو پروان چڑھانا ہر فرد کا فرض منصبی ہے۔ اس کے برعکس دشمنان اسلام کے ساتھ ساز باز کرکے اس کی بیخ کنی کرنے والوں کو آپ ﷺ نے خبردار کیا ہے کہ :
‘‘ جس نے کسی جھگڑے میں باطل کی مدد کی وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے غضب میں رہے گا یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے(باز آجائے)۔’’
حدیث میں یہ بھی آتا ہے:‘‘جس نے کسی جھگڑے میں ناحق مدد کی وہ غضب الٰہی کا مستحق ہو گیا۔’’ اس ناحق مدد و نصرت کی بنیاد عام طور پر جاہلی عصبیت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘(وہ) ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی دعوت دی اور(وہ) ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی خاطر قتال کیا اوروہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی حالت میں مرگیا۔’’ عصبیت کی مضرت رسانی کو رحمت للعالمین ﷺ نے ایک نہایت فصیح و بلیغ مثال سے واضح فرمایاہے۔ارشادِ نبی ﷺ ہے:‘‘ جو شخص اپنی قوم کی ناحق حمایت و مدد کرے وہ اس اونٹ کے مانند ہے جو کنویں میں گر پڑے اور پھر اس کی دم پکڑ کر اس کو کھینچا جائے۔’’اس مثال میں ظالم و جابر قوم کو کنویں میں گرنے والے اونٹ کی مثال دے کر اس کی حمایت کرنے والے کو دم پکڑ کر بچانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جو کوئی کنویں میں گرنے والے اونٹ کی دم پکڑ کر اسے بچانے کی سعی کرے گا وہ اس کو بچانے کے بجائے خود بھی اوندھے منہ اندر جاگرے گا۔
عصر حاضر میں جب کہ چہار جانب عصبیت کا بول بالا ہے اہل ایمان کے لیے اس برائی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بے حد مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ اس عیب کو خوبی سمجھا جانے لگا ہے۔ محبت اور عصبیت میں جو لطیف فرق ہے اس کی بابت حضور اکرم ﷺدریافت کیاگیا تو آپ نے فرمایا: عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرے’’ اور محبت یہ ہے کہ : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرے نہ ظالم کے ہاتھ میں اس کو چھوڑ کر بیٹھ جائے۔ جو شخص اپنے بھائی مسلمان کا کام نکالے تو اللہ اس کا کام نکالے گا جو شخص مسلمان پر سے کوئی مصیبت ٹالے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کی ایک مصیبت اس پر سے ٹال دے گا اور جو شخص مسلمان کا عیب چھپالے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔’’ اللہ تعالیٰ امت کے محبت شفقت کے جذبات پروان چڑھائے اور عصبیت کے عیب سے پاک صاف کردے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021