نو ہندتو

(یعنی اصل دھارا سے مختلف، ہندتو کے کچھ اہم فکری و عملی دھارے)

عام طور پر ہندتو سے مراد آر ایس ایس یا اس سے منسلک تنظیموں کا نظام فکر اور ان کی سرگرمیاں لی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندتو کے تمام عناصر ایک ہی منظم قافلے کا حصہ ہیں جس کی قیادت آر ایس ایس کررہی ہے اور یہ کہ ان سب کے افکار اور ان کی سرگرمیوں پر سنگھ کا مکمل کنٹرول ہے۔ اگر ان عناصر کی سوچ یا عمل میں کہیں باہم اختلاف نظر آتا ہے تو اسے بھی سنگھ کی اسٹریٹجی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات کسی درجے میں سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں کے سلسلے میں درست ہوسکتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہندتو کی فکر صرف سنگھ تک محدود نہیں ہے۔آزادی سے قبل اس فکر کے حاملین کا ایک بڑا طبقہ خود کانگریس کے اندر موجود تھا۔ بلکہ کانگریس کے چار دفعہ صدر رہے مشہور رہ نما، پنڈت مدن موہن مالویہ (1861-1946)ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں ہندو مہا سبھا کا بانی سمجھا جاتا ہے۔[1] آزادی کے بعد بھی اس فکر کے حاملین کا ایک طبقہ کانگریس میں رہا ہے بلکہ بہت سی سیکولر جماعتوں میں رہا ہے۔

ملک کی آزادی سے پہلے ہندتو کا اصل چہرہ ہندو مہا سبھا تھی۔ بنگالی مفکر چند رناتھ باسو(1840-1910)کی ایجاد کردہ اصطلاح ’ہندتو‘کو عام کرنے اور اس کی بنیادپر ایک سیاسی فکر تشکیل دینے کا سہرا بھی ہندو مہا سبھا ہی کے مشہور رہ نما ومفکرونایک دامودر ساورکر(1883-1966)کے سر جاتا ہے۔[2] ڈاکٹر ہیڈگیوار بھی ہندو مہا سبھا ہی کے ایک کارکن تھے جنھوں نے بعد میں سبھا سے الگ ہوکر آر ایس ایس کی بنا ڈالی۔ ساورکر کے افکار نے بعد میں آر ایس ایس کی سوچ پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے لیکن آخر وقت تک ساورکر خود بھی آرایس ایس سے الگ رہے اور ان کی فکر بھی سنگھ کے نظام فکر سے الگ، جداگانہ تشخص کے ساتھ برقرار رہی۔

گذشتہ تین چار دہوں میں ہندتو کے اور بھی کئی فکری و عملی دھارے نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں۔ ہندتو کے بعض امتیازی افکار کےیہ بھی علم بردار ہیں اس لیے انھیں اس وسیع نظریاتی تحریک کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن بہت سے معاملات میں سنگھ کی اصل فکر سے اور اس کی پالیسیوں اور طریقہ کار سے یہ دھارے اختلاف رکھتے ہیں اور عام رائےیہی ہے کہ وہ سنگھ کے کنٹرول میں بھی نہیں ہیں، اس لیے انھیں الگ سے سمجھنا بھی ضروری ہے۔

ان افکار کو سمجھنا اس لیےبھی ضروری ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں دائیں بازو کی جو انتہا پسند سوچ پروان چڑھ رہی ہے اس میں ان عناصر کا بھی بڑا کنٹری بیوشن ہے۔جو لوگ میڈیا میں، عوامی تحریکوں میں، انتظامیہ اور حکومتوں میں اور دیگر جگہوں پر انتہا پسند اور فرقہ پرست خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ سارے کے سارے ہندتو کی اصل دھارا یعنی سنگھ سے متعلق نہیں ہیں بلکہ ان زیر بحث فکری دھاراؤں سے بھی ان کا تعلق ہے۔ بی جے پی کے ووٹروں میں بھی جہاں آر ایس ایس کی سوچ کے حاملین ہیں وہیں یہ دوسرے ہندتو وادی بھی ہیں۔اس لیے ہندتو سے مکالمہ کرتے ہوئے ان مکاتب فکر کو بھی سمجھنا اور انھیں مخاطب بنانا ناگزیر ہے۔

نو ہندتو (Neo-Hindutva)کی اصطلاح، ڈاکٹر ایڈورڈ اینڈرسن(کیمبریج یونیورسٹی میں سینٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز سے وابستہ محقق اور ہندتو سے متعلق گراں قدر مقالوں اور کتابوں کے مصنف) کی اصطلاح ہے۔ ان کے مطابق نو ہندتو سے مراد ’’ہندو قوم پرستی کی امتیازی خصوصیات کا حامل وہ بیانیہ ہے جو سنگھ پریوار کے ’نظریاتی و ادارہ جاتی فریم ورک‘ کے باہر رہ کر کام کرتا ہے‘‘[3]اینڈرسن کے تجزیے کے مطابق نو ہندتو کی دو قسمیں ہیں ایک نرم نو ہندتو (Soft Neo-Hindutva)ہے جو سنگھ کی بائیں جانب ہے۔ یعنی سنگھ کے مقابلے میں زیادہ سیکولر اورروادار زبان و پالیسی اختیار کرتا ہے، جب کہ دوسری قسم سخت نو ہندتو (Hard Neo-Hindutva)ہے، یہ سنگھ کے بھی دائیں جانب ہے یعنی سنگھ سےبھی زیادہ شدت پسند اور جارح ہے۔[4] سخت نو ہندتو کے حاملوں میں وہ وائس آف انڈیا (Voice of India)جیسی نظریاتی تحریکوں، ہندو یوا واہنی اور ہندو جن جاگرن سمیتی، شری رام سینا وغیرہ جیسے متشدد گروہوں اور فورم فار ہندو اویکننگ (Forum for Hindu Awakening)جیسی بیرون ملک کی سماجی تنظیموں کو شامل کرتے ہیں، جب کہ نرم نو ہندتو میں انڈیا فاونڈیشن جیسے تھنک ٹینک اور بیرون ملک کی بہت سی سماجی، تہذیبی اور میڈیا سے متعلق تنظیموں اور کوششوں کو شمار کرتے ہیں۔[5] ان فکری و عملی دھاراؤں کا مختصر جائزہ ہم ذیل کی سطروں میں پیش کر رہے ہیں۔

وائس آف انڈیا کی علمی تحریک

وائس آف انڈیا (Voice of India) اصلاً ایک اشاعتی ادارہ ہے جس کا دفتر پرانی دلّی میں دریا گنج میں واقع ہے۔ اس ادارےکے مصنفین اپنے مخصوص طرز فکر اور وسیع اثرات کی وجہ سے ایک غیر رسمی علمی تحریک بھی بن گئے ہیں۔ اس ادارےکو قائم کرنے والے دو زود قلم مصنف دوست، سیتا رام گویل (1921-2003)اور رام سروپ (1920-1992)ہیں۔ دونوں دلّی یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ پھر کمیونزم، سوشلزم، الحاد وغیرہ کی وادیوں کی سیرکرنے کے بعد آخر میں کٹر ہندتو وادی بن گئے۔ پہلے سنگھ سے وابستہ رہے اور اس کے رسالوں میں لکھتے بھی رہے لیکن کچھ عرصے بعد سنگھ کے ’’غیر علمی ماحول‘‘ اور ’’مسلمانوں کے تئیں نرم پالیسی‘‘ سے بے زار ہوکر، احتجاجاً، 1981میں وائس آف انڈیا کی بنا ڈالی۔یہ دونوں اسلام کے خلاف بڑے جارح انداز میں لکھتے رہے۔چناں چہ ان کی متعدد کتابوں پر مقدمات چلے، ایک کتاب پر پابندی بھی لگی اور گویل کو مختصر وقت کے لیے جیل بھی جانا پڑا۔[6] سیتا رام گویل نے اپنی آپ بیتی ’میں کیسے ہندو بنا‘ (How I Became a Hindu)میں آر ایس ایس کے تعلق سے اپنی بے اطمینانی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اوراصل وجہ اختلاف اسی ’الزام‘ کو بنایا ہے کہ سنگھ اسلام کے تئیں بہت نرم ہے اور اسلام اورمسلمانوں سے مثبت توقعات رکھتی ہے۔[7] ایک دل چسپ بات یہ بھی لکھی ہے کہ ایمرجنسی میں سنگھ کے قائدین جب جماعت اسلامی کے ’ملاؤں‘ کے ربط میں آئے تو بہت مطمئن ہوگئے اور یہ کہتے پھرنے لگے کہ ابھی تک اسلام کے بارے میں ہم اندھیرے میں تھے لیکن اب جان گئے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ (یعنی اسلام کے بارے میں اب ہماری سوچ مثبت ہوگئی ہے)۔[8] سنگھ پر ان مفکرین کے تیکھے حملوں اور شدید اختلافات کو سمجھنے کے لیے سیتا رام گویل کا ایڈٹ کردہ مجموعہ مضامین ’وقت احتساب: سنگھ پریوار کدھر (جارہا ہے)‘ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔[9] (آگے اس کے حوالے بھی آرہے ہیں)

وائس آف انڈیا نے اب تک سیکڑوں کتابیں شائع کی ہیں۔[10] کئی کتابچے اس کی ویب سائٹ پر مفت بھی دستیاب ہیں۔اس کے مصنفین میں گویل اور سروپ کے علاوہ، گری لال جین (1924-1993)،ارون شوری (پیدائش: 1941)اورایس گرو مورتی  (پ: 1949)جیسے معروف صحافی بھی شامل رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ہرش نارائن،(1921-1995)سہاس مجمدار (وفات 1975)، ابھاس چٹرجی (پ:1947)، شری کانت تلیگیری(پ: 1958) جیسے مصنفین کی ایک لمبی فہرست اس سے وابستہ ہے۔ بعض مغربی مصنفین کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے میں وہ کام یاب ہوئے ہیں جن میں مشہور اسلام مخالف مصنف ڈینیل پائپس (Daniel Pipes -پ: 1949،صدر مڈل ایسٹ فورم، امریکہ) ، فرینک مورالس (Dr. Frank Morales – امریکی مصنف جو خود کو ہندو قرار دیتے ہیں اور اپنا نام دھرما پرورتکا اچاریہ رکھا ہے۔پ: 1962)، کانراڈ ایلسٹ (Koenraad Elst -بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ہندتو کے کٹر حامی مصنف، پ: 1959)، ایشور شرن (کناڈا سے تعلق رکھنے والے ہندو کنورٹ، عرف سوامی دیوانند سرسوتی) ، ڈیوڈ فراولے (David Frawley-عرف وامدیو شاستری، ویدوں اور یوگا کے امریکی اچاریہ، پ: 1950)اور این آر آئی راجیو ملہوترا جیسے لوگ شامل ہیں۔

وائس آف انڈیا اور سنگھ کے فکر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سنگھ کو اصلاً مسلمانوں کی تاریخ، ان کی تہذیبی شناخت، سیاسی اثر اور ان کے بعض رویوں سے اختلاف ہے جب کہ وائس آف انڈیا کے اختلاف کی بنیاد خود مذہب اسلام اور اس کے اصول و اعتقادات ہیں۔ ہمارے خیال میں وائس آف انڈیا کے نظریہ سازوں کے چند اہم قابل توجہ خیالات حسب ذیل ہیں:

الف) توحید پر مبنی مذاہب کو دنیا کے فتنہ و فساد کی جڑ سمجھنا

اس نظام فکر کی اصل لڑائی عقیدہ توحید اور اس عقیدے پر مبنی مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت سے ہے جنھیں وہ سامی مذاہب (Semitic Religions)کہتے ہیں۔ وہ ان دونوں مذاہب کو دنیا کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ گیتا کی ایک مخصوص فلسفیانہ تعبیر (सांख्य दर्शन, प्रकृति के तीन गुण) کا سہارا لیتے ہوئے دونوں مذاہب کے عقائد، روحانیت، عبادات و غیرہ سے متعلق نظام کو تامسک (तामसिक – اندھیرے یا لاعلمی کی پیداوار) اور راجسک (राजसिक – شدت جذبات کی پیداوار)قرار دیتے ہیں۔[11] ان مذاہب کے تعلق سے ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ سامی مذاہب کا خدا ایک ’’حاسد خدا‘‘(jealous god)ہے جو کسی اور خدا میں اعتقاد کو بالکل برداشت نہیں کرتا اور دوسرے خداؤں کو شیطان قرار دیتا ہے۔[12] ایسے ایک خدا میں یقین کا مطلب دوسرے تمام خداؤں کاانکار ہے۔پھر خدا ہی نہیں بلکہ خدا کا پیغام لانے والے بھی چند مخصوص افراد (رسول)ہیں۔ یہ تصور تمام عقیدوں اور مذہبی رجحانات کے سلسلے میں شدید نفرت کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ہر مذہب اور مذہبی رہ نما اس تصور کے نتیجے میں حریف بن جاتا ہے۔ اسی سے ساری عدم رواداری، تفریق، انتشار اور فتنہ و فساد جنم لیتا ہے۔[13]

اسلام اور عیسائیت کے معاملے میں یہ مفکرین انتہائی متشدد ہیں اور ان کے سلسلے میں معمولی نرمی بھی برداشت نہیں کرتے۔ عہد متوسط کی پوری تاریخ کو وہ خون ریزی اور جنگ و جدال کی تاریخ بتاتے ہیں اور اس کے لیے ان مذاہب کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دور جدید کی ساری سیاسی کشمکش، طبقاتی جدال، معاشی مفادات کے ٹکراؤ، دہشت گردی، مذہبی عدم رواداری اورسارے فسادات کی جڑیں بھی اسلام اور عیسائیت کے تصورات میں تلاش کرتے ہیں۔

سنگھ کے مفکرین میں اور وائس آف انڈیا کے مصنفین کے نقطہ نظر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سنگھ کے لوگوں کا خیال بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ’اسلام اچھا ہے لیکن مسلمان خراب ہیں‘، اس کے برعکس وائس آف انڈیا والوں کی سوچ یہ ہے کہ ’مسلمان ٹھیک ہیں۔ اصل خرابی اسلام میں ہے‘، یعنی خرابی کی جڑ محض مسلمانوں کے رویے نہیں بلکہ اسلام اورعیسائیت کے معتقدات، تصورات اور تعلیمات ہیں۔گویل لکھتے ہیں:

’’اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ایک عام مسلمان اتنا ہی اچھا یا خراب ہوتا ہے جتنا ایک عام ہندو یا کسی بھی نسل، مذہب یا تہذیب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی عام آدمی۔ اصل مسئلہ ایک انسان کی حیثیت سے مسلمان کا وجود نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کی حیثیت سے اسلام کا وجود ہے۔‘‘[14]

سنگھ کے اکثر دانش وروں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں تصوف پر مبنی رجحانات اور صوفیا کے افکار کو پسند کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور صوفی اسلام کو ہندوستانی تہذیب سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں لیکن وائس آف انڈیا کے مصنفین کے نزدیک صوفیانہ افکار بھی اسلام کے ’متشدد عقیدے‘ ہی کا حصہ ہیں۔ اس لیے ان کو بھی ہندستانی تہذیب کا حصہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایک مصنف لکھتے ہیں:

’’ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے اور ایک مشترک تہذیب کی بنیادیں ڈالنے میں صوفی روایات کے کردار کے بارے میں بہت زیادہ مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ چشتی، سہروردی اور نقشبندی سلسلوں کے صوفیا اور ان کی خانقاہوں نے عہد متوسط میں مسلم بادشاہوں کے مذہبی جنون کوبھر پور کمک پہنچائی ہے۔ گلبرگہ، بیدر اور گولکنڈہ کے قادری صوفی، سب سے زیادہ ہندوؤں کے قاتل اور مندروں کو تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ ‘‘[15]

ب)  اسلام کے سلسلے میں کسی بھی درجے کی رواداری کی مخالفت اور وحدت ادیان کے نظریے کا رد

وائس آف انڈیا کے مفکرین، اسلام کے سلسلے میں معمولی درجے کی نمائشی رواداری کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ سیتا رام گویل نے اپنی آپ بیتی میں آر ایس ایس سے اپنی بے زاری کا ایک سبب یہ بھی بتایا ہے کہ ’’آر ایس ایس کے رہ نما، اسلام کی تعریف کرنے لگے تھے‘‘ اور یہ کہ ’’ گرو گولوالکر نے ایک عوامی پلیٹ فارم پر یہ تک کہہ دیا تھا کہ وہ اسلام کی ویسی ہی عزت کرتے ہیں جیسی ہندو دھرم کی، قرآن ان کے نزدیک ویدوں ہی کی طرح مقدس ہے اور محمد (ﷺ) کو وہ انسانی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک مانتے ہیں۔‘‘[16] گولوالکر کی اس بات کو انھوں نے ایک شدید قابل اعتراض بات کے طور پر پیش کیا ہے۔

ایک اور جگہ گاندھی جی کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ یہ ایک راز ہے کہ گاندھی جی نے اسلام اور عیسائیت کو استعماری طاقتوں کے استبدادی نظریات کے بجائے روحانی ارتقا کے طریقے کیسے سمجھ لیا؟ ——ان دو نظریات کو گاندھی جی کا سناتن دھرم کی طرح دھرم سمجھنا، دو میں سے کسی ایک بات کو لازم کرتا ہے،یا تو یہ کہ سناتن دھرم کے بارے میں ان کا(یعنی گاندھی جی کا) شعور اتنا گہرا نہیں تھا جتنا ظاہر کیا جاتا ہے یا پھر یہ کہ ان کے اندر کا سیاست داں،ان کی روحانیت پر غالب آگیا تھا اور قوم پرستی کےخیمے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ساتھ ملانے کے لیے انھوں نے ’سرو دھرم سمبھاو ‘ کانعرہ بلند کیا تھا۔ حقیقت جو بھی ہو، اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ان کی ناکامی سے ثابت ہوگیا کہ یہ ایک احمقانہ کوشش تھی۔ لیکن اس نعرے کو مقبول بنانے کے لیے انھوں نے دھرم کی تعریف کو بری طرح مجروح کردیا۔ ہندو مذہب کے لیے کوئی اور نعرہ اس قدر فتنہ انگیز ثابت نہیں ہوا جتنا یہ سرو دھرم سمبھاو کا نامعقول نعرہ۔‘‘[17]

ابھاس چٹرجی نے اسے ہندو مذہب کی توہین قرار دیا ہے کہ اسے اسلام یا عیسائیت کے برابر قرار دیا جائے جب کہ ہندو تصور کے مطابق یہ ’ادھرم‘ (अधर्म) ہے۔ انھوں نے آگے لکھا:

’’جس طرح نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتے، حق اور ناحق برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح سناتن دھرم اور اسلام و عیسائیت بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ (انھیں برابر کہنا) ہندوستان کے پانچ ہزار سالہ روحانی تصورات کا مذاق ہے۔ ایسے خیالات سماج کو اخلاقی بحران اور برائی کی گہرائیوں میں غرق کرکے رکھ دیں گے۔‘‘[18]

اس طرح یہ مفکرین وحدت ادیان کے مقابلے میں وحدت دین کے قائل ہیں اور سناتن دھرم ہی کو واحد سچا دھرم مانتے ہیں۔ خود سناتن دھرم میں خداؤں کی تعداد، خصوصیات اور الہیاتی فلسفوں کے سلسلے میں جو تنوع پایا جاتا ہے، اس کو تو قبول کرتے ہیں بلکہ اس معاملے میں دیگر غیر ہندومشرکانہ مذاہب کے سلسلے میں بھی رواداری کا اظہار کرتے ہیں، لیکن عیسائیت، اسلام اور توحیدی مذاہب کا رد ضروری سمجھتے ہیں۔

ج)  شرک اور کثرت پرستی (polytheism)کا اثبات اور اس کی پرزور و پرجوش تبلیغ

دنیا کی تاریخ میں شرک یا کثرت پرستی (polytheism)کی پر جوش تبلیغ شاید کبھی نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کے برعکس عہد وسطیٰ میں بھی اور عہد جدید میں بھی مشرکانہ مذاہب کےا ندر توحید کی طرف رجوع کی بہت سی اصلاحی تحریکات اٹھیں۔ عہد وسطیٰ کی بھکتی تحریک، سکھ مت، سائی بابا کی تحریک اور عہد جدید میں آریہ سماج کی تحریک وغیرہ سب شرک اور اصنام پرستی کی مخالف تحریکیں تھیں۔ آر ایس ایس اوربعض ملکوں کی دیگر مقامی تحریکیں زیادہ سے زیادہ شرک اور اصنام پرستی کے سلسلے میں رواداری اور مقامی تہذیبی مظہر کے طور پر اس کے احترام کی خواہاں رہی ہیں۔اس کو اپنے نظریے کی بنیاد بناکر اصنام پرستی اور شرک کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا رجحان یقیناً بہت ہی نادر رجحان ہے۔

لیکن وائس آف انڈیا کے مصنفین کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ شرک کی دعوت دیتے ہیں۔ شرک، کثرت پرستی اور اصنام پرستی ہی کو اصل حق اور انسانوں کے لیے مفید چیز باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔سیتا رام گویل نے اسلام اور عیسائیت کے ساتھ اُن ہندو اصلاحی تحریکوں پر بھی شدید تنقید کی ہے جو کسی نہ کسی درجے میں توحید کی قائل رہی ہیں۔[19] وہ پہلی بات یہ کہتے ہیں کہ متعدد خداؤں پر یقین اورخداؤں کے درمیان ہم آہنگی اور میل ملاپ کا تصور انسانوں کے درمیان بھی ہم آہنگی اور ملاپ پیدا کرتا ہے۔ صرف ایک خدا کو ماننے اور دیگر خداؤں کے انکار کے نتیجے میں انا پرستی اور دوسروں سے بغض رکھنےاور انھیں مسترد کرنے کی نفسیات پروان چڑھتی ہے۔

’’ہندوؤں کے قدیم ترین صحیفوں یعنی ویدوں میں کئی دفعہ متعدد خداؤں کو ایک ساتھ جمع کیا گیا ہے۔ ان سب خداؤں کو (ایک محفل میں ) جمع کرکے ان کی پرستش کی گئی ہے اور کسی بھی خدا کو اس سے کوئی ناراضی نہیں ہوئی۔ ویدک خدا، آپس میں دوستی و خیر سگالی کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کو مسترد نہیں کرتے۔ چینی، مصری، یونانی، رومی، اور دیگر قدیم ترقی یافتہ تہذیبیں بھی اس معاملے میں ہندو تہذیب کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔ یونانیوں کو ہندوؤں کے خداؤں میں اپنے خدا کی تلاش میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ یہ صرف سامی روایت ہے کہ (وہ) دوسروں کے خدا ؤں کو باطل (سمجھتے )ہیں، بلکہ شیطان (مانتے)ہیں۔ (یہ تصور نفرت اور عدم رواداری کو فروغ دیتا ہے)‘‘[20]

شرک اور کثرت پرستی ان کے نزدیک نہ صرف انسانوں کے درمیان خیر سگالی کے لیے ضروری ہے بلکہ ماحول اور فطری وسائل کے سلسلے میں ذمے دارانہ رویہ کے لیے بھی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ یہ مفکرین وجود کی وحدت کے نظریے کو مانتے ہیں جس کے مطابق کائنات اور خدا ایک ہی وجود کا حصہ ہیں۔ اس حوالے سے اسلام اور عیسائیت کے نظریہ توحید پر تنقید کرتے ہوئے ایک مصنف رقم طراز ہیں:

’’اسلام اور عیسائیت جیسے توحیدی نظریات نے جس ورلڈ ویو کو فروغ دیا ہے اس نے بنی نوع انسان کا اپنے خاتمے کی طرف سفر انتہائی تیز کردیا ہے۔ یہ ورلڈ ویو خدا کو اس کائنات کے باہر کی کوئی ہستی تسلیم کراتا ہے۔( اسلام اور عیسائیت یہ یقین پیدا کرتے ہیں کہ) فطرت اور وسائل فطرت میں کوئی تقدس یا الوہیت نہیں ہے۔ حیوانی اور نباتاتی دنیا محض انسان کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے اور انسان ہی خدا کی پسندیدہ مخلوق ہے (جس کے لیے باقی مخلوقات، بطور وسائل فراہم کی گئی ہیں)۔ ہماری یہ زندگی، قیامت تک واحد زندگی ہے (اور ان وسائل سے فائدہ صرف اسی ایک زندگی میں اٹھایا جاسکتا ہے)۔ اس ورلڈویو نے انسانوں کے درمیان حد سے زیادہ استحصالی، غیر تحفظ پسند (non-conservationist)مادہ پرست، صارفیت پسند طرز زندگی کو عام کیا ہے جو ماحولیاتی بحران کے لیے اصلاً ذمہ دار ہے۔‘‘[21]

حالیہ دنوں میں شرک اور کثرت پرستی کی بہت سی تحریکیں یورپ اور دیگر مغربی ملکوں میں بھی شروع ہوئی ہیں۔ان تحریکوں کا خیال یہ ہے کہ عیسائیت اصلاً مشرق وسطی کا مذہب ہے جو تاریخ کے ایک دور میں مغربی اقوام پر مسلط ہوگیا تھا۔ مغربی اقوام کی اصل روایت، یونان و روم کی قدیم بت پرستی کی روایت ہے اور اب دوبارہ مغربی اقوام کو اسی روایت کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ سروے رپورٹوں کے مطابق اس وقت یوایس اے میں تقریباً پندرہ لاکھ لوگ خود کو ان ’جدید مشرک مذاہب‘ (modern paganism)سے وابستہ بتاتے ہیں اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔[22] برطانیہ کے مشرکین کے وفاق (Pagan Federation of Great Britain)کا دعوی ہے کہ برطانیہ میں دولاکھ لوگ نئے مشرکانہ مذاہب کو مانتے ہیں۔[23] جرمنی، بیلجیم، آسٹریا، روس، سویڈن اور دیگراسکیندینافی (Scandinvanian) ممالک، مشرقی یورپ، قفقازی علاقے، افریقہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، چین، جاپان، غرض یہ کہ دنیا کے ہر علاقے میں اب یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے۔اس وقت مغربی ممالک میں اس کی متعدد قسمیں موجود ہیں۔ وِکا (Wicca -پچاس سال پہلے انگلستان میں پیدا ہونے والا ایک مشرکانہ مذہب)، دیویوں کی تحریک (Goddess Movement–جدید فیمینسٹ موومنٹ کے بطن سے پیدا ہونے والی ایک روحانی تحریک جس میں خداؤں کو عورتوں کے روپ میں دیکھا جاتا ہے اور ان کی پوجا کی جاتی ہے)، ہیتھنری مذہب (Heathenry–جرمن زبان بولنے والوں میں پائی جانے والی مذہبی تحریک جس میں قدیم جرمن دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے)، درودری تحریک (Druidry–ماحولیاتی بحران کے نتیجے میں پیدا شدہ تشویش کی پیداواراس تحریک کے ماننے والے فطرت، فطری وسائل، نباتات، حیوانات، وغیرہ کو مقدس اور خدائی وجود کا حصہ مانتے ہیں اور ان کی پرستش کرتے ہیں) ایل جی بی ٹی مشرکین (چوں کہ ہم جنس پرستی اور دیگر منحرف جنسی رجحانات کی دنیا کے اکثر بڑے مذاہب مذمت کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے قدیم مشرکانہ میتھالوجی سے اپنے رجحانات کے حق میں دلیلیں تلاش کرلی ہیں اور ان ہی مشرکانہ مذاہب کو ایل جی بی ٹی دوست مذاہب سمجھ کر انھیں قبول کرلیا ہے)، جادو ٹونے کے قائلین (modern witchcraft)، یہودیوں کے بعض پر اسرار روحانی فرقے وغیرہ ان کی کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔ اسی طرح علاج معالجے کےقدیم طریقے، نفسیاتی صحت کے نظریات، ہپناٹزم، غذا سے متعلق مختلف تصورات وغیرہ کی بنیاد پر بھی ایسے بہت سے مشرکانہ نظریات وجود میں آئے ہیں جو مختلف قدیم مشرکانہ تصورات کو اپنی حقیقی یا غیر حقیقی تحقیقات (pseudoscience)کے ساتھ ملاکر اپنے جنونی فرقے (cults) بنالیتے ہیں۔[24]

ان عالمی مشرکانہ تحریکوں کی تفصیل اس لیے بیان کی گئی ہے کہ ہمارے ملک کی مذکورہ شرک پرست تحریکیں اب ان عالمی تحریکوں سے اچھی طرح مربوط ہیں۔ان رجحانات کو ہندتو کے عالمی رسوخ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ وائس آف انڈیا کے یورپی اور امریکی مصنفین بھی اسی طرح کے فرقوں سے متعلق ہیں۔ چناں چہ ہندتو کی سیاسی حمایت کرنے والے ہی نہیں بلکہ اس کے مخصوص فلسفے اور مذہبی و روحانی رجحانات کی بھی بیرون ملک پذیرائی کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔اس طرح توحید کے رد اور شرک کی حمایت میں ایک طاقتور تحریک برپا کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس کی قیادت ہمارے ملک کے مذکورہ دانش وروں کے ہاتھوں میں ہوگی اور یہ حضرات ’وشو گرو‘ کا کردار ادا کریں گے۔

د) مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی تحریک

یہ بات اوپر واضح کی گئی ہے کہ یہ لوگ اسلام یا عیسائیت کے ساتھ کسی بھی قسم کی خیر سگالی کے مخالف ہیں۔ سنگھ پریوار کے مفکرین اکثر طرح طرح کی دو، تین، چار شر طیں پیش کرتے رہتے ہیں کہ مسلمان انھیں مان لیں تو ہمارا جھگڑا ختم ہوجائے گا۔ چند ہفتوں قبل آر ایس ایس کے رہ نما رام مادھو نے اسی طرح کی تین شرطیں پیش کی تھیں۔[25] لیکن وائس آف انڈیا کے مفکرین کسی لاگ لپیٹ کے بغیر صاف یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے ’شیطانی مذاہب‘ ترک کرنے ہوں گے۔[26] وہ صاف کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے ہندو مذہب اورتوحیدی مذاہب کے درمیان نظریاتی کشمکش کو محض دو فرقوں کی سیاسی کشمکش بنادیا ہے۔[27] ہندو دانش وروں اور سیاست دانوں کو مسلمانوں کی خوشامد اور منہ بھرائی کی کوشش کے بجائے انھیں ان مذاہب کے چنگل سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے جن کے وہ یرغمال بنے ہوئے ہیں۔[28] ایک مغربی مصنف لکھتے ہیں کہ مسلمان سیتا جی کے مانند ہیں جو راون (یعنی دین اسلام) کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے انھیں نجات دلانا اس وقت بھارت کے شتریوں کی اصل ذمے داری ہے۔[29] اس کے لیے انھیں نظریاتی جنگ چھیڑنی ہوگی اور بودھک شتری(बौद्धिक क्षत्रिय) کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

متشدد ہندو تحریکات

ان افکار نے کئی ایسی ہندو تحریکات کو بھی جنم دیا ہے جو انتہائی متشدد ہیں۔ پر تشدد بلکہ دہشت گرد کارروائیوں میں شمولیت کے بھی ان پر الزامات لگتے رہے ہیں۔ ایسی چھوٹی بڑی تحریکیں ملک کے مختلف حصوں میں کام کررہی ہیں۔

سناتن سنستھا ملک کے مغربی علاقوں میں سرگرم تنظیم ہے۔[30] اس کو ایک نفسیاتی معالج اور ہپنوٹسٹ ڈاکٹر جینت اٹھاولے نے قائم کیا تھا اور گوا کے ایک گاؤں رام ناتھی میں اس کا صدر مقام اور آشرم ہے۔ کرم یوگا، گیان یوگا اور بھکتی یوگا جیسے سناتنی روحانی طریقوں کو جمع کرکے اٹھاولے نے اپنا مخصوص راستہ’ گروکرپا یوگا‘ تشکیل دیا ہے۔[31] آشرم میں بھکتوں کو روحانی ترقی کے نمبر دیے جاتے ہیں۔ 70سے جب نمبر تجاوز کرتے ہیں تو ’سنت‘ کا درجہ ملتا ہے اور 100پر موکشا کا۔ ان ’روحانی تصورات‘ اور اپنے مخصوص ہپناٹزم سے وہ اپنے پیروؤں کو مسحور کرکے رکھتے ہیں۔ سنستھا سے وابستہ افراد پر تھانے، واشی وغیرہ کے بم دھماکوں کے الزامات لگے اور بعض عدالتوں میں یہ الزامات ثابت بھی ہوئے۔کمیونسٹ قائد اور مصنف گوئند پنسارے، نریندر ڈابھول کر، اور گوری لنکیش وغیرہ کے قتل کے الزامات بھی اس تنظیم کے ارکان پر ہیں۔جنسی آوارگیوں اورمنشیات کے استعمال کے معاملات بھی ان سے وابستہ رہے ہیں۔بی جے پی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے رہ نماؤں نے اس تنظیم پر پابندی کے مطالبات کیے ہیں۔[32]

کرناٹک میں پرمود متالک کی شری رام سینا اکثر خبروں میں رہتی ہے۔ ویدک دھرم کی حفاظت اور ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ وغیرہ جیسے مقاصد کے ساتھ وہ خاص طور پر ویلنٹائن ڈے کی جارح مخالفت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ مسجدوں پر دعویداری، ’لو جہاد‘ کے نام پر ہراسانی، وغیرہ ان کی کچھ اور سرگرمیاں ہیں۔ دہشت گرد سرگرمیوں کی چارج شیٹوں میں ان کا بھی ذکر موجود ہے۔[33] اسی نام سے ایک تنظیم بہار میں بھی اسی طرح کے مقاصد کے لیے سرگرم ہے۔[34]

ہندو جن جاگرن سمیتی کا صدر دفتر بھی گوا میں ہے۔ اس کا مقصد ہندوراشٹر کا قیام لکھا گیا ہے۔ ایم ایف حسین پر بننے والی فلم کے خلاف احتجاج سے یہ مشہور ہوئے اور وقتاً فوقتا اس طرح کے مسائل پر احتجاجی مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل اسی تنظیم کے عہدے دار نے مسلمان پھل فروشوں اور ترکاری فروشوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔[35]

ہندو یوا واہنی، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کی قائم کردہ تنظیم ہے۔ تنظیم کا مقصد ہندو سماج کا اتحاد اور اس کے مفادات کا تحفظ لکھا گیا ہے لیکن اس کی سرگرمیاں زیادہ تر’’لو جہاد کے روک تھام‘‘، ’’گایوں کی حفاظت‘‘ اور ’’گھر واپسی کی تحریک‘‘ جیسے کاموں کو محیط ہوتی ہیں۔[36]

بعض نیوز پورٹلوں اور ویب سائٹس کو بھی اس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔اوپ انڈیا (OpIndia) ایک نیوز پورٹل ہے[37] جو جھوٹی خبروں کے لیے بدنام ہے۔ انٹرنیشنل فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک (IFCN)نے اس کی پچیس سے زیادہ اسٹوریوں کو صریح جھوٹ اور 14اسٹوریوں کو غلط رپورٹنگ پر مبنی قرار دیا تھا۔جھوٹی خبروں کے ذریعے نفرت پھیلانا، مخالفین کی کردار کشی کرنا، مخالف صحافیوں کا تعاقب کرنا وغیرہ اس کی اہم سرگرمیاں ہیں۔[38] کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران اس نے یہ جھوٹی خبر پھیلانے کی کوشش کی تھی کہ ’’بہار میں ایک مسجد میں ایک ہندو لڑکے کی قربانی دی گئی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد میں ہندو کی قربانی دینے سے مسجد طاقتور ہوتی ہے اور اس کا اثر بڑھتا ہے۔‘‘[39] اسی طرح کا ایک پورٹل سوراجیہ میاگ (swarajyamag.com)ہے۔

ان باقاعدہ نیوز پورٹلوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک پوری فوج ہے جو اس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔[40]

نرم ہندتو

نرم ہندتو سے مراد اسلام دشمنی یا مسلم دشمنی کے واضح اعلان کے بغیر ہندوتو کے کاز کی نظریاتی، تہذیبی اورسیاسی خدمت ہے۔ اس محاذ پر سب سے موثر سرگرمی علمی وتحقیقی ادارو ں یا تھنک ٹینکوں کی ہے۔ ملک میں پالیسی ریسرچ کے اداروں کے رواج سے کافی پہلے، یعنی تقریباً نصف صدی پہلے، ناناجی دیشمکھ نے دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا تھا۔[41] گجرات کے فسادات کے بعد انڈیا فرسٹ فاؤنڈیشن اور امیج انڈیا فاؤنڈیشن جیسے ادارے قائم کیے گئے۔[42] پینی سلوانیا یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تھنک ٹینک ہندوستان میں ہیں[43] اور 2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 2020 تک اس تعداد میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔[44] ویویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، دلی کے نہایت اہم علاقے، چانکیہ پوری میں نرسمہاراؤ حکومت کی عطا کردہ زمین پر قائم ایک معروف تھنک ٹینک ہے۔ پینی سیلوانیا کی مذکورہ رپورٹ میں اس ادارے کو دنیا کے اہم ترین تھنک ٹینکوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کانگریس کے بعض قائدین کا الزام ہے کہ اسی ادارے نے رشوت کے خلاف مہم کی منصوبہ بندی کرکے یوپی اے حکومت کو ختم کرنے کا مکمل منصوبہ تشکیل دیا تھا۔[45] انڈیا فاؤنڈیشن[46]، شیاما پرساد مکرجی فاؤنڈیشن[47] وغیرہ ادارے بھی دنیا کے اہم تھنک ٹینک مانے گئے ہیں۔ گروپ آف انٹیلیکچولس اینڈ اکیڈمیشینس (GIA)، دلی کے یونیورسٹی اساتذہ، وکلا اور صحافیوں کا ایک سرگرم گروپ ہے۔ دلی فسادات کے بعد اس نے ایک مخصوص زاویے سے ان فسادات کا تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ شائع کی تھی۔[48]

یہ ادارے ایک طرف بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی سازی میں سرگرم تعاون کرتے ہیں اور دوسری طرف شائستہ علمی زبان میں اس کی پالیسیوں اور موقف کو دنیا کے لیے قابل قبول بناکر پیش کرتے ہیں۔ کتابوں اور کتابچوں کی وسیع اشاعت، کانفرنسوں، علمی محفلوں وغیرہ کا انعقاد، کلچرل فیسٹیول، بک فیسٹیول وغیرہ کا اہتمام، اخبارات میں مضامین کی اشاعت، ٹی وی پروگراموں میں شرکت، لیکچر سیریز کا اہتمام، ملک و بیرون ملک کی اہم یونیورسٹیوں میں علمی محفلوں کا انعقاد، ان سب ذرائع سے وہ اعلیٰ سطحوں پر رائے عامہ کی ہمواری کا کام کرتے ہیں۔[49] سب سے اہم یہ کہ یہ ادارے ڈبیٹ کے حدود پر اتفاق رائے پیدا کردیتے ہیں یعنی یہ کہ کن باتوں پر ڈبیٹ ہوسکتا ہے اور کون سی باتیں ڈبیٹ سے ماورا ہیں؟ گویا ڈبیٹ کا ایک مخصوص رینج اس طرح عام کردیتے ہیں کہ اس کے باہر کسی خیال کی پیش کش آسان نہیں رہتی۔[50]

اب مغربی دنیا میں بھی ایسے ادارے وجود میں لائے جارہے ہیں۔ ہندو یونیورسٹی آف امریکہ،[51] فلوریڈا میں وسیع کیمپس پر پھیلی ہوئی یوینورسٹی ہے اور ہندو فلسفہ، یوگا، سنسکرت، جیوتش وغیرہ کی تعلیم دیتی ہے۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق طلبہ کی تعداد آٹھ ہزار سے متجاوز ہے۔ دھرما سولائزیشن فاؤنڈیشن کیلی فورنیا سے کام کرنے والی ایک تنظیم ہے۔ یہ تنظیم امریکی یونیورسٹیوں میں اکیڈمک چیئر قائم کرتی ہے، وزٹنگ پروفیسرشپ اسپانسر کرتی ہے، خصوصی سینٹر قائم کراتی ہے، طلبہ کو اور ریسرچ کو اسپانسر کراتی ہے اور اپنے مخصوص تصورات کو مغرب کی علمی دنیا میں رائج کرانے کی کوشش کرتی ہے۔[52] اس سے آگے بڑھ کر علمی حلقوں میں جو لوگ ہندتو کی مخالفت کرتے ہیں ان کے خلاف عوامی مہم، قانونی کارروائیاں اور دباؤ کے ذریعے ان کے کاموں کو روکنے کی بھی کوشش کرتی ہے۔[53] ہندوستانیات (Indology)کے شعبے، مغربی دنیا کی متعدد یونیورسٹیوں میں برسوں سے کام کررہے ہیں۔ اب ان سب پر ان تنظیموں کے ذریعے اثر انداز ہونے کی نہایت منظم کوششیں ہورہی ہیں۔

نرم ہندتو کا دوسرا اہم محاذ عالمی تنظیمیں ہیں۔ تعلیمی محاذ پر جو عالمی تنظیمیں کام کررہی ہیں ان کا جائزہ ہم اپنے سابقہ مضمون میں لے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ مذہب، کلچر، فنون لطیفہ، ایڈوکیسی، وغیرہ محاذوں پر متعدد تنظیمیں ہیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں کام کررہی ہیں۔ ان میں سب سے وسیع اور قدیم غالباً ہندو سیوک سنگھ ہے جو75سال پہلے کینیا میں قائم ہوئی تھی اور اب 156ملکوں میں ساڑھے تین ہزار شاخوں کے ذریعے کام کررہی ہے۔[54] کینیا، لائبیریا، برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر متعدد افریقی اوریورپی ممالک میں سرگرم ہے اور ان ملکوں میں موجود ہندوؤں کو متحد کرنے کے علاوہ ہندتو کے فکر کی توسیع اور اپنے اپنے ملکوں میں ہندتو کاز کے لیے لابنگ کا کام کرتی ہے۔ وشو ہندو پریشد اور اس کی طلبہ تنظیم ہندو اسٹوڈنٹس کونسل بھی کئی ملکوں میں فعال ہے۔ ہندوامریکن فاؤنڈیشن،[55] یوایس اے میں سرگرم ایڈووکیسی گروپ ہے جو ہندوؤں کے حقوق کے لیے کام کرتا ہے۔ سنگھ کے افکار یا پالیسیوں کے خلاف جو مضامین شائع ہوتے ہیں ان پر ہتک عزت کے مقدمات قائم کرنا اس کی ایک اہم سرگرمی ہے۔ سیوا انٹرنیشنل ایک رفاہی تنظیم ہے جو 20ملکوں میں کام کررہی ہے۔[56] انڈیا ڈیولپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ، امریکہ میں ہندوستان کے مسائل کے لیے کام کرنے والی رفاہی تنظیم ہے۔[57] بظاہر یہ رجسٹرڈ رفاہی تنظیمیں ہیں لیکن اصلاً یہ بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کو ہندتو کے نظام فکر سے جوڑتی اور ہندوستان کے اندر جاری ہندتو سرگرمیوں کو فنڈ فراہم کرتی ہیں،امریکی حکومتوں اور پرائیویٹ اداروں کے نصاب تعلیم اور درسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ مختلف مغربی ملکوں کے بااثر سیاست دانوں سے ربط، ان کی مالی امداد، اور مسلسل لابنگ کے ذریعے قانون سازی، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کاموں کے لیے صرف امریکہ میں ان تنظیموں نے 16کروڑ امریکی ڈالر(تقریباً ساڑھے بارہ سو کروڑ روپے) خرچ کیے ہیں۔[58] اسی سے مماثل سرگرمیاں آسٹریلیا، برطانیہ اور متعدد یورپی ملکوں میں بھی جاری ہیں۔

حالیہ دنوں میں بہت سی ’روحانی ‘ تحریکیں اور یوگا، آیورویدا وغیرہ بھی سافٹ ہندتو کے فروغ کا ایک اہم پلیٹ فارم بن کر ابھرے ہیں۔ ملک کے باہر اور خصوصاً مغربی دنیا میں یوگا کی مقبولیت کوئی نیا ڈیولپمنٹ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں یوگا کے نام پر مختلف ورزشوں کا کم سے کم گذشتہ پچاس برسوں سے دنیا میں عام رواج رہا ہے۔ لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ یوگا کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کو ماننے والوں کا خیال یہ ہےکہ یہ قدیم ہندو مذہبی کتابوں سے ماخوذ، جسمانی، روحانی اور ذہنی صحت کا مکمل طریقہ ہے جو ہندو فلسفہ حیات پر مبنی ہے۔اسے برہمنی یوگا بھی کہتے ہیں اور اس کا اہم ماخد پتنجلی کے سوتر ہیں۔اس یوگا کا اصل مقصد شعور کی توسیع، روشنی و بصیرت کا حصول اورنتیجتاً ’حقیقت مطلق‘ سے مکمل اتحاد ہے یعنی اس یوگا کا اصل زور روحانی مقاصد پر ہے۔ جسمانی مشقیں اس کا محض ایک ذیلی حصہ ہیں جس کا مقصد جسم کو بھی اسی مقصد یعنی روحانی ترقی کے لیے تیار کرنا ہے۔ یوگا کی دوسری قسم جدید یوگا ہے جوقدیم روایات کی ترقی یافتہ، تخفیف شدہ اور اصلاح یافتہ جدید شکل ہے اور ایک قسم کی جسمانی ورزش یا جمناسٹک ہے جس کا عقیدے اور فلسفہ حیات سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اس کا مقصد جسمانی صحت، پھیپھڑوں اور آکسیجن اورخون کے راستوں میں کشادگی، اعضا میں لچک وغیرہ ہے۔مغربی دنیا میں یوگا کی یہی دوسری شکل مقبول ہے۔ اسے پوسچرل یا اینگلو فون یوگا (postural or anglophone yoga)بھی کہتے ہیں۔[59] یوگا کی یہ شکل ہندوستان سے نکل کر زمانہ قدیم ہی سے چین و جاپان، ایران وغیرہ میں مقبول و معروف رہی ہے اور دیگر مقامی طریقوں سے مل کر طرح طرح کی شکلیں اختیار کی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جسمانی صحت اور فٹنس کے سلسلے میں بڑھتی ہوئی حساسیت کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں بڑی مقبولیت ملی۔ اس کا نام یوگا ضرور باقی رہا لیکن اس میں جسمانی تندرستی کے مختلف قدیم و جدید طریقوں کی آمیز ش ہوتی رہی اور سیکڑوں قسمیں دنیا کے مختلف گوشوں میں وجود میں آئیں۔ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں دونوں طرح کے یوگا رائج ہیں۔ جہاں روایتی پنڈت وغیرہ روحانی یوگا کو فروغ دیتے ہیں وہیں جدید ورزش گاہوں اور فٹنس کے مراکز میں پوسچرل یوگا کی مشق کرائی جاتی ہے۔

ہندتو کے حاملین اس صورت حال کو اپنے مخصوص مذہبی و تہذیبی تصورات اور مخصوص برہمنی روایات کے احیا کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ یوگا کی پہلی شکل یعنی مخصوص فلسفیانہ اور روحانی اپروچ کو مقبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسے ادویتا (وجود کی وحدت )ویدانت کے فلسفے کے مطابق انسانوں کی نجات کے ایک طریقے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کا مقصد یہ قرار دیتے ہیں کہ انسان کی روح اپنے جسم سے، باقی بنی نوع انسان سے، کائنات اور اس کے وسائل سے، اور ’واحد الوہی وجود‘ سے اس طرح ہم آہنگ ہوجائے کہ مصنوعی دوئی ختم ہوجائے اور بالآخر وہ اس خدائی وجود میں مکمل ضم ہوجائے۔ وہ اس یوگا کو ہی اصل یوگا قرار دیتے ہیں۔ یہ حضرات کس قسم کا یوگا فروغ دے رہے ہیں اس کا اندازہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی ویب سائٹ پر موجود ان کے اقوال سے ہوتا ہے۔ مثلاً:

’’یوگا نفسیاتی صحت (wellness)کو بھی یقینی بناتا ہے اور جسمانی صحت (fitness)کو بھی—یوگا محض ایک جسمانی ورزش نہیں ہے بلکہ جسمانی، ذہنی اور روحانی طمانیت کے حصول کا ذریعہ ہے—یوگا گیان (علم) کرما (اچھے اعمال) اور بھکتی (عبادت) کے امتزاج کا نام ہے—یوگا (ایک عظیم) روحانی سفر میں داخلے کا دروازہ ہے۔‘‘[60]

اس وقت مضامین، مقالوں اور کانفرنسوں کے ذریعے، کارپوریٹ تشہیر کے طاقت ور ذرائع اور کارپوریٹ ٹریننگ کو استعمال کرکے، سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں لزوم کے طریقوں کا استعمال کرکے اور عالمی سطح پر مارکیٹنگ کے ترقی یافتہ وسائل کو بروئے کار لاکر، یوگا کی اسی فلسفیانہ و روحانی اپروچ کو مقبول بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ آئندہ بتدریج روایتی یوگا کے دیگر روحانی طریقوں کو بھی عام کیا جائے گا۔

یہی معاملہ مختلف ’روحانی طریقوں‘ کا ہے۔ شری شری روی شنکر(آرٹ آف لیونگ فاؤنڈیشن، پ: 1956)، سد گرو (آشرم: ایشا فاؤنڈیشن کوئمبٹور، پ: 1957)، ماتا امریتا نند ا مائی (آشرم: کولم کیرلہ، پ: 1953)، وغیرہ نے قدیم ہندو فلسفوں کو جدید انسان کی نفسیاتی الجھنوں سے جوڑ کر اپنے اپنے روحانی طریقے ایجاد کیے ہیں۔ تناؤ سے نجات، پرسکون زندگی، اپنے کام اور مقاصد پر بہتر ارتکاز، منفی خیالات اور سوچ سے بچاؤ، زندگی کی بہتر منصوبہ بندی، لوگوں سے اچھے تعلقات اور ان کے دلوں کو جیتنے کی صلاحیت، خود اعتمادی، مشکلات اور چیلنجوں سے مقابلے کا فن وغیرہ جیسے جاذب عنوانات سے وہ کشش پیدا کرتے ہیں اور بظاہر سیکولر اصطلاحات اور زبان کے ذریعے نہایت لطیف و سبک انداز میں برہمنی فلسفیانہ و روحانی افکار ذہن نشین کراتے ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ ادب، فنون لطیفہ اور دیگر تہذیبی ذرائع کا ہے۔ ان کا جائزہ خود ایک تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے۔

حاصلِ بحث

  • اس بحث سے پھر ایک بار ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ہندتو کے حاملین سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں۔ یہ مختلف خیالات کا ایک وسیع سلسلہ (spectrum)ہے جس کا نقطہ اشتراک قدیم ہندو روایات کی بالاتری کا احساس اور مقابل کی مذہبی و تہذیبی قوتوں سے،بالخصوص عیسائیت اور اسلام سے رقابت کا جذبہ ہے۔لیکن اس وسیع سلسلے میں رقابت کی شدت کے اعتبار سے مختلف عناصر کے مختلف درجات ہیں۔ایک انتہا پر وہ شدت پسند ہیں جن کا اوپر ہم نے متشدد گروہوں کے عنوان سے اور وائس آف انڈیا تحریک کے عنوان سے جائزہ لیا ہے اور دوسری طرف درمیان سے قدرے دائیں کو جھکے ہوئے (centre right)وہ عناصر بھی ہیں جو محض ہندو روایات اور ہندو مفادات کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ اس وقت جو عناصر بی جے پی جیسی جماعتوں کے ساتھ ہیں ان میں بھی یہ سارے طبقات شامل ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس بظاہر وائس آف انڈیا تحریک اور اس کے نظریات کی مخالف ہے لیکن اس کے حامی عوام میں بلکہ ان کے کیڈر میں بھی اس تحریک کے نظریات سے ہم دردی و اتفاق رکھنے والے بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ وائس آف انڈیا کے ایک مصنف آر ایس ایس کے ایک دانش ورکے بارے میں لکھتے ہیں:

’’آرایس ایس کی تنظیمی درجہ بندی میں ڈاکٹر شری رنگ گڈبولے محض ایک سیوم سیوک ہیں۔ کاش کہ وہ سر سنگھ چالک یا سر کاریا وہا ہوتے کیوں کہ نظریاتی صراحت، تاریخی شعور، قومی مسائل کے فہم، اور فکری بیدار مغزی کا جو مظاہرہ ان کے مضامین سے ہوتا ہے، افسوس کی بات ہے کہ وہ سنگھ کی اعلیٰ قیادت میں مفقود ہے۔ ‘‘[61]

وائس آف انڈیا کے کسی مصنف کا کسی کے نظریات کی ایسی تعریف کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ممدوح اس کے نظریات سے ہم آہنگ اور اسی کی طرح شدت پسند ہے۔ اسی طرح دوسری جانب وہ قدرے اعتدال پسند لوگ بھی موجود ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیوں کو متشدد سمجھتے ہیں اور ان میں نرمی کے قائل ہیں۔ اس وسیع تحریک کے ان سب عناصر کو ابھی تک مسلمان، ایک ہی نظر سے دیکھتے رہے ہیں اور مکمل طور پر یکساں (homogeneous)سمجھ کر بلکہ ایک ہی منظم تحریک کا حصہ مان کر ان سے معاملہ کرتے رہے ہیں۔ یہ پہلے بھی صحیح نہیں تھا لیکن اب اس طرز عمل کا نقصان زیادہ شدید ہوگا۔ ان مختلف عناصر کے ساتھ مختلف معاملہ کرنا ہوگا اور ہر ایک کو اس کے موجود مقام سے نسبتاً زیادہ اعتدال کی طرف لانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

  • اس جائزے سے ہماری اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ اس تحریک کو محض ایک سیاسی تحریک سمجھنا انتہائی نقصان دہ ہے۔اگرچہ قدیم برہمنی افکار اس تحریک کی فکری اساس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن اسے محض ذات پات کی لڑائی کی تحریک یا برہمن نسلی بالادستی کی تحریک سمجھنا بھی غلط ہے۔ یہ اصلاً ایک سماجی تحریک ہے اور اس کی گہری فلسفیانہ بنیادیں ہیں۔ ان بنیادوں پر سماج کے ایک طبقے کی ٹھوس ذہن سازی کے ذریعے انھوں نے موجودہ قوت حاصل کی ہے۔ صرف سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ ناممکن ہے۔ وقتی طور پر ان کے مقابلے میں سیاسی فتح حاصل کر بھی لی جائے تو وہ ناپائیدار ہی ہوگی۔ اس تحریک کا طویل صبر آزما نظریاتی مقابلہ درکار ہے۔یہ ضروری ہے کہ ان کی باتوں کو گہرائی سے سمجھا جائے۔ ان کے دلائل کا سنجیدہ جواب دیا جائے۔ جو لوگ ان سے متاثر ہیں ان سے مسلسل مکالمہ ہو۔ اوپر ان کے جو خیالات نقل کیے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام، اس کے معتقدات، اس کے تصورات اور اس کی تاریخ کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں اور اب یہی زاویے ملک کے عوام میں بھی عام کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس زاویہ نگاہ کی اصلاح کے لیے غلط معلومات، غلط فہمیوں، غلط تعبیرات وغیرہ کی گہری علمی مہم مطلوب ہے۔ ملک کے باقی عوام سے بھی مسلسل مذاکرات اور انگیجمنٹ درکار ہے تاکہ سنگھ کے ذریعے ان کی ذہن سازی ممکن نہ ہوسکے۔
  • یہ مذاکرات اور مکالمے اسی وقت ممکن ہیں جب ان کے فکری مزعومات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔ان کے ذہن کو پڑھ کر، سمجھ کر ان کے سلسلے میں مناسب ڈسکورس تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلہ مضامین میں سنگھ کے بعض نمائندہ افکار کے سلسلے میں یہ کوشش ہم نے کی ہے لیکن اس کوشش کا دائرہ بڑھا کر سنگھ کے دائرے کے باہر موجود ان افکار کا بھی جائزہ ضروری ہے جو عوام کو متاثر کررہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت جو نوجوان طبقہ دائیں بازو سے متاثر ہے وہ سیاسی طور پر بی جے پی کے ساتھ ہوسکتا ہے لیکن نظریاتی طور پر اس طبقے کا ایک قابل لحاظ حصہ وائس آف انڈیا جیسے افکار کا بھی اسیر ہے۔ یہ لوگ اپنے خیالات کے معاملے میں زیادہ صاف گو ہیں اس لیے ان سے بات کرنا بھی زیادہ آسان ہے۔ ان سے انگیجمنٹ اس لیے بھی آسان ہے کہ اس کا کوئی فوری سیاسی یا سماجی رد عمل متوقع نہیں ہے۔

مسلمان توحید کے علم بردار بن کر اٹھیں

اس جائزے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مستقبل کی اصل کشمکش توحید اور شرک کے درمیان کشمکش ہے۔ اس سے قبل کے جائزوں میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ نہ صرف آر ایس ایس کے مفکرین بلکہ بعض کانگریسی مفکرین بھی ادویت ویدانت (अद्वैत वेदान्त) کو ہندوستانی ورلڈ ویو کی اصل دھارا سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں توحیدی افکار کو ہندوستانیت سے متصادم سمجھتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں جن افکار کا جائزہ لیا گیا وہ تو علانیہ اپنا مقصد ہی توحید کا رد اور شرک کا فروغ قرار دیتے ہیں۔ہم نے یہ بھی واضح کیا کہ اب بتدریج دنیا بھر کی شرک پسند قوتیں مجتمع ہورہی ہیں اور گویا توحید کے خلاف نظریاتی محاذ پر صف آرا ہورہی ہیں۔ ان حالات میں توحید سے گہری وابستگی اور پوری وضاحت کے ساتھ توحید کے صاف و شفاف نظریے کو ملک کے سامنے پیش کرنا، یہی انبیائی کام، اہل اسلام کا اصل کام بن جاتا ہے۔

مسلمان اس اصل اور بنیادی کام کو چھوڑ کر جب محض اپنے بقا و تحفظ کی یا اپنے حقوق کی لڑائی کو کشمکش و جدوجہد کا اصل محاذ بنالیتے ہیں تو خود کی کم زوری اور ستم پذیری (vulnerability)بڑھاتے ہیں، شرک کی دعوت کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں اور خود اپنے تحفظ و سلامتی کو اور زیادہ مخدوش بناتے ہیں۔ کسی نظریاتی تحریک کے اثر کو نظر یے کی سطح پر مقابلہ کرکے ہی کم زور کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے توحید کے اصول پر پوری استقامت اور اس صاف و شفاف عقیدے کی دل نشین دلائل کے ساتھ وضاحت، یہ اہل اسلام کا اس وقت سب سے اہم کا م ہے۔

انتہا پسند افکار کا سب سے موثر آلہ کار غلط فہمیوں کا فروغ اور جھوٹ کا پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے اس دور میں بھی توحید کے تصور پر غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے بہت سے غبار چھائے ہوئے ہیں۔ اوپر وائس آف انڈیا کی پوری بحث میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے خدا کو دیگر انسانوں کے خداؤں سے مختلف ایک ہستی بنادیا ہے۔ قارئین کے لاشعور میں پہلے اسلام کی اس سادہ بات پر مغالطے کا دبیز پردہ ڈال دیا جاتا ہے کہ سارے انسانوں کا خدا ایک ہی ہے۔ اس مغالطے کے نتیجے میں یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کا ایک مستقل خدا ہے اور بس اسی خدا کو ماننے اور دوسروں کے خداؤں سے بغاوت کرنے کی دعوت اسلام دیتا ہے۔ سیتا رام گویل نے ایک جگہ صاف صاف یہ غلط بات لکھی بھی ہے کہ’’قرآن مجید میں کہیں بھی اللہ نے تمام انسانوں کے خدا ہونے کا دعوی نہیں کیا ہے بلکہ صرف مسلمانوں کے خدا ہونے پر فخر کا اظہار کیا ہے۔‘‘[62] یہ باتیں عام ہو کر مسلمانوں کے بارے میں اور ان کے عقائد کے بارے میں سوچ کا ایک خاص زاویہ تشکیل دے دیتی ہیں۔ اس زاویہ کی اصلاح ہماری اصل ذمے داری ہے۔اس ملک میں توحید کے اثبات کے لیے ہمارا روایتی بیانیہ کافی نہیں ہے۔ اس ملک کی سوچ اور یہاں کا مخصوص زاویہ نظر سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً ہم شرک کے رد میں جن دلائل کا عام طور پر سہارا لیتے ہیں وہ یہاں اس لیے بے معنی ہوجاتے ہیں کہ اس ملک میں شرک کی فلسفیانہ اساس وجود کی وحدت کا نظریہ ہے۔ وہ خدا کو ایک مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی مانتے۔اصلاً خالق اور مخلوق کو بھی ایک ہی وحدت کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے سامنے ویدوں اور پرانوں سے توحید کے حق میں دلائل لانا بھی بے معنی ہے۔ ’سب کا مالک ایک ہے‘ یہ تصور ان کے نزدیک لازماً کسی درخت یا ندی کی عبادت میں رکاوٹ نہیں ہے کیوں کہ وہ ہر چیز کو خدا ہی کے وجود کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس طرز فکر کے مقابلے میں عقیدہ توحید کا اثبات کچھ اور باتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ہمارے اہل علم کی ذمے داری ہے کہ وہ ان موضوعات کو زیر بحث لائیں۔ (توفیق نصیب ہوئی تو آئندہ ہم بھی ان شاء اللہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کریں گے)

اس کام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی عقیدے اور اسلام کے پیغام اور اس کی اساسیات کو سیاسی و فرقہ وارانہ کشمکش کا موضوع نہ بنایا جائے اور مذہبی حمیت کو غیر ضروری طور پر مشتعل نہ کیا جائے۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒنے داعیانہ کلام کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک اہم بات یہ لکھی ہے کہ ’’وہ اپنے کلام کو ہر اس چیز سے پاک رکھتے ہیں جو مخاطب کے اندر ضد اور مخالفت کا جذبہ پیدا کرے۔‘‘[63] ’’مخاطب کی غلط زندگی پر بانداز استخفاف تنقید‘‘ کرنا، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا، مناظرانہ انداز کلام، ان سب کو انھوں نے داعیانہ کلام کے منافی قرار دیا ہے۔[64] کسی حال میں بھی اپنے مخاطب کے اندر حمیت جاہلیت کے بھڑکنے کا موقع نہیں پیدا ہونے دینا چاہیے۔ملک کے موجودہ ماحول میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے۔ دیوی دیوتاؤں کو یا مذہبی معتقدات کو مذاق کا اور کامیڈی کا موضوع بنانا یا لب و لہجے میں اہانت اور تمسخر کا انداز اختیار کرنا، ان باتوں سے سنجیدہ گفتگو اور افہام و تفہیم کی فضا متاثر ہوتی ہے اور مخاطبین اپنے افکار پر اور زیادہ ہٹ دھرمی کے ساتھ جمنے لگتے ہیں۔ توحید کی حقیقت اور اسلام کے اصل پیغام کو سمجھنے کے لیے اس فضا کو ختم کرنا بھی ضروری ہے۔

حواشی و حوالہ جات

[1] . تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مالویہ کی سوانح:

Jagannath Prasad Misra (2016). Madan Mohan Malaviya and the Indian Freedom Movement; OUP; New Delhi.

[2] V.D.Savarkar (1969) Essentials of Hindutva. Veer Savarkar Prakashan; Mumbai.

[3] Edward Anderson (2015) ’Neo-Hindutva‘: the Asia House M. F. Husain Campaign and the mainstreaming of Hindu nationalist rhetoric in Britain, Contemporary South Asia, 23:1, p. 47.

[4] ibid.

[5] Edward Anderson ‘ Arkotong Longkumer (2018) ’Neo-Hindutva‘: evolving forms, spaces, and expressions of Hindu nationalism, Contemporary South Asia, 26: 4 p.373.

[6] تفصیل کے لیے انھی کی کتاب ملاحظہ فرمائیں:

Sita Ram Goel (1998) Freedom of Expression: Secular Theocracy Vs. Liberal Democracy; Voice of India; New Delhi.

[7] Sita Ram Goel (1998) How I Became a Hindu; Voice of India; New Delhi; pp. 89-107.

[8] Ibid p. 98.

[9] Sita Ram Goel Ed. (1997); Time for Stock Taking: Whither Sangh Parivar; Voice of India; New Delhi.

[10] تفصیل کے لیے ان کی ویب سائٹ دیکھیے:

https://www.voiceofin.com/

[11] Ram Swaroop (2000) Hindu View of Christianity and Islam; Voice of India; New Delhi pp., 57, pp.74, 104.

[12] Sita Ram Goel (1984) History of Hindu-Christian Encounters AD 304-1996 Voice of India; New Delhi. p. 542.

[13] S. Gurumurthy (1993) Semitic Monotheism: The Root of Intolerance in India, Centre for Policy Studies, Madras.

[14] Sita Ram Goel (1994) The Story of Islamic Imperialism in India; Voice of India; New Delhi. p. 144.

[15] Harsh Narain (1990) Myths of Composite Culture and Equality of Religions.Voice of India; New Delhi; pp. 21-22.

[16] Sita Ram Goel (1998) How I Became a Hindu; Voice of India; New Delhi; p. 98.

[17] Sita Ram Goel (1984) History of Hindu-Christian Encounters AD 304-1996 Voice of India; New Delhi p. 252.

[18] Abahs Chatterjee in Sita Ram Goel Edited; Time for Stock Taking: Whither Sangh Parivar p. 110.

[19] Sita Ram Goel (1984) History of Hindu-Christian Encounters AD 304-1996 Voice of India; New Delhi pp. 398-412.

[20] Ibid p. 543.

[21] Sita Ram Goel Edited; Time for Stock Taking: Whither Sangh Parivar p. 46.

[22] https://nypost.com/2018/11/20/witch-population-doubles-as-millennials-cast-off-christianity/

[23] https://www.bbc.co.uk/religion/religions/paganism/ataglance/glance.shtml

[24] جدید مشرکانہ تحریک کو سمجھنے کے لیے ایک اہم مآخذ:

James Lewis and Murphy Pizza (2009) Handbook of Contemporary Paganism; Brill; Netherlands.

مختصر ضروری معلومات کے لیے:

https://www.bbc.co.uk/religion/religions/paganism/

[25] https://theprint.in/politics/rss-ram-madhav-says-muslims-need-to-give-up-3-concepts-kafir-ummah-jihad-to-kill/986903/

[26] Leela Lampi, in In Sita Ram Goel Edited; Time for Stock Taking: Whither Sangh Parivar p. 369.

[27] Koenraad Elst (2001) Decolonising the Hindu Mind; Rupa Publications; New Delhi. p. 299.

[28] Abhas Chatterjee in Sita Ram Goel Edited; Time for Stock Taking: Whither Sangh Parivar; p. 107.

[29] Koenraad Elst (2007) The Problems with Secularism; Voice of India; New Delhi p. 30.

[30] https://www.sanatan.org/en/

[31] https://www.theweek.in/theweek/cover/2018/08/31/spiritual-puzzle.html

[32] https://en.wikipedia.org/wiki/Sanatan_Sanstha’cite_note-Waghdemandsban-68

[33] تفصیل کے لیے دیکھیں:

Chapter ’Sri Ram Sene in Dhirendra Jha (2017) Shadow Armies, Fringe Organisations and Foot Soldiers of Hindutva; Juggernaut Books; New Delhi pp. 80-100.

[34] Website https://www.ramsena.in/

[35] Website of the organisation https://www.hindujagruti.org/

[36] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

Chapter ’Hindu Yuva Vahini‘ in Dhirendra Jha (2017) Shadow Armies, Fringe Organisations and Foot Soldiers of Hindutva; Juggernaut Books; New Delhi pp. 34-57

[37] https://www.opindia.com/

[38] https://www.newslaundry.com/2020/06/23/opindia-hate-speech-vanishing-advertisers-and-an-undisclosed-bjp-connection

[39] https://www.thequint.com/news/india/bihar-gopalganj-case-minor-hindu-boy-sacrificed-in-mosque-family-says-nobody-witnessed’read-mor

[40] اس موضوع پر ایک بڑی چشم کشا تحقیق:

Sahana Udupa (2018) Enterprise Hindutva and social media in urban India, Contemporary South Asia, 26: 4, pp.453-467.

نیز یہ اخباری رپورٹ:

https://thewire.in/communalism/muslim-violence-hindutva-propaganda-social-media-economic-boycott

[41] ادارے کی ویب سائٹ:

http://chitrakoot.org/driindia/home.html

[42] https://theprint.in/india/how-the-right-is-tackling-lefts-intellectual-hegemony-in-delhi-one-think-tank-at-a-time/341760/

[43] McGann, James G., “2020 Global Go to Think Tank Index Report” (2021). TTCSP Global Go to Think Tank Index Reports. 18. p. 44.

[44] https://www.deccanherald.com/national/national-politics/sangh-and-hindutva-the-expanding-footprint-1045865.html

[45] https://www.firstpost.com/politics/upas-fall-result-big-rss-conspiracy-kejriwal-doval-co-conspirators-says-anand-sharma-2069757.html

[46] https://indiafoundation.in/

[47] https://www.spmrf.org/

[48] https://www.opindia.com/2020/06/state-facts-not-rhetorics-group-of-intellectuals-andacademics-on-mark-zuckerbergs-leaked-tape-on-delhi-riots/’:~:text=The%20Group%20of%20Intellectuals%20and,of%20Home%20Economics)%20as%20its

[49] ان اداروں کے کام کے طریقوں پر ایک اچھا مضمون:

Anuradha Sajjanhar (2022): The double-sidedness of Hindutva: Inside the BJP‘s think tanks, Journal of Political Ideologies, DOI: 10.1080/13569317.2022.2080353

[50] Anuradha Sajjanhar (2022): The double-sidedness of Hindutva: Inside the BJP‘s think tanks; Journal of Political Ideologies, DOI: 10.1080/13569317.2022.2080353

[51] https://www.hua.edu/

[52] https://dcfusa.org/

[53] https://www.insidehighered.com/news/2016/04/12/scholars-who-study-hinduism-and-india-face-hostile-climate

[54] Christophe Jaffrelot (2009), Hindu Nationalism: A Reader, Princeton University Press; p. 362

[55] https://www.hinduamerican.org/

[56] https://www.sewainternational.org/About-Us

[57] https://www.idrf.org/

[58] ان تنظیموں کی سرگرمیوں، اثرات اور مالی طاقت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل چشم کشا رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

Jasa Macher (2022)Hindu Nationalist Influence in the United States 2014-2021, SACW; USA available at https://s3.documentcloud.org/documents/22041101/20220523_hninfluenceusa.pdf

[59] یوگا کی ان دونوں قسموں کی تفصیل اور خاص طور پر ماڈرن یوگا کی تفصیل کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

Mark Singleton (2010). Yoga Body: The Origins of Modern Posture Practice; Oxford University Press; New York

[60] https://www.narendramodi.in/top-quotes-by-pm-modi-on-yoga-535908

[61] Abahs Chatterjee in Sita Ram Goel Edited; Time for Stock Taking: Whither Sangh Parivar p. 84.

[62] Sitaram Goel (1990) Hindu Temples: What Happened to Them Vol 2 p. 342

[63] مولانا امین احسن اصلاحی (1997) دعوت دین اور اس کا طریقہ کار؛ فاران فاونڈیشن؛ لاہور ص 135-136

[64] ایضاً ص 114-115

مشمولہ: شمارہ اگست 2022

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223