صوتی آلودگی — اسباب اور علاج

موجودہ دور کو سائنس کا دور کہا جاتا ہے ۔اس دور میں سائنس کی تیز رفتار ترقی کے باعث نت نئے اکتشافات و ایجادات ہوئیں، آلات و مشینوںکا انبار لگ گیا، سیاسی و طبی ،اجتماعی و اقتصادی ،معاشی و معاشرتی ،تہذیبی و تمدنی غرض کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں، سائنس نے اپنا اثر و رسوخ و تفوق قائم کرنے کے لئے ایسے ایسے آلات مہیا کئے، جن سے انسان آرام طلب ، سہل انگار ،نزاکت پسند ،کاہل اور عیش وعشرت کا دلدادہ ہو گیا ،اس کی وجہ سے شہروں کی وسعت اور صنعتوں کی کثرت ہوئی ۔سائنس کی افادیت و اہمیت اور ضرورت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن دوسری طرف اس نے ایسے کیمکلس و تابکاری اثرات و کیمیائی اجزاء کو استعمال کر کے مضر اثرات چھوڑے جن سے زمین و فضا زہر آلود ہوگئی، جس قدر حیات انسانی کی آرام طلبی و عیش کوشی کے لیے آلات فراہم کئے اس سے کہیں زیادہ اس نے نقصاندہ اثرات  ونتائج چھوڑ ے جن سے فضا مسموم ہوگئی، زمین خراب ہوگئی ، زیر زمین تک ان گیسوں و کھادوں کے جراثیم سرایت کر گئے ۔

بڑی صنعتوں سے نکلنے والی بھاپ ، دھواں اور فضلہ نے پوری فضا کو متاثر کیا انسان کے کان ، آنکھ ، پھیپھڑے اور دوسرے اعضاء  متاثر ہوئے۔ان خطرات و نقصانات اور منفی نتائج کو عالمی و قومی سطح پر حل کر نے اور ان کی تلافی کی جد و جہد جاری و ساری ہے۔ انہی فضائی و صوتی آلودگی کے پیش نظر چند دنوں پہلے الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کا مقصد صوتی آلودگی پر قابو پانا ہے ۔یہ کورٹ کا خوش آئندا قدام ہے ۔اس حکم کو چند سال پہلے بھی نافذکر نے کی کو شش کی گئی تھی ، لیکن حکومت کی سرد مہری کی وجہ سے تب جاری نہ ہوسکا ۔صوتی آلودگی کیا ہے ؟اس کے اسباب و مضر اثرات کیا ہیں ؟ماحول کا تحفظ ، مضر اثرات کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟۔

شور کا پیمانہ

یہ بات ذہن میں رہے کہ شور کو ناپنے کا پیمانہ ڈیسی بل ہے اور سائنسدانوں کے مطابق زیرو ڈیسی بل کا مطلب وہ کم سے کم آواز ہے جو انسانی کان محسوس کر سکتے ہیں ،20ڈیسی بل آواز ایک سرگوشی سے پیدا ہوتی ہے ،40ڈیسی بل آواز کسی پرسکون دفتر میں ہوسکتی ہے ،60ڈیسی بل آواز عام گفتگو سے پیدا ہوسکتی ہے جبکہ 80 ڈیسی بل سے اوپر آواز انسانی سماعت کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ لہٰذاکسی بھی قسم کا شور و غل ہماری قوت سماعت پر منفی اثر مرتب کر تاہے جسے دوسرے الفاظ میںصوتی آلودگی سے تعبیرکیا جاتاہے ۔سائنسی اعتبار سے انسانی کان عام طور پر شورو غل کی 55تا 65ڈیسبل تک کا تحمل کر سکتے ہیں اس کے علاوہ اگر 55تا 90ڈیسبل تک پہنچ جائے تو ہمارے جسم پر منفی اثرات پڑنے لگتے ہیں ۔

صوتی آلودگی کے اسباب

صنعتی ترقی

موجودہ دور میں صنعت و حرفت نے نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کی ۔بڑے بڑے کارخانے و مراکز قائم کئے گئے ۔ان میں سے بعض کارخانوں و فیکڑیوں کا مقصد عام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے بجائے عیش و عشرت اور سامان تعیش پیدا کرنا ہے ۔بعض صنعتیں ایسی ہیں جن کے اغراض و مقاصد میں نہ تو عام انسانی ضروریات و حاجات کی تکمیل ہے اور نہ ہی عیش و عشرت کے سامان پیدا کرنا ہے بلکہ ان کے ذریعہ جنگی ساز وسامان اور اسلحہ تیار کیا جاتاہے ان کا استعمال وہ ممالک کرتے ہیں جن کی ہوس اقتدار پوری دنیا پر بالادستی و حکمرانی قائم کرنا ہے اور وہ روایتی اسلحہ سے لیکر ایٹمی اسلحہ تک تیار کرتے ہیں، ان کے بے دریغ استعمال میں تمام قوانین اصول او ر ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ،غرض خود ہی انسان اپنی ہلاکت و تباہی کا سامان فراہم کر رہاہے ،ان میں مستعمل کیمکلس و تابکاری اثرات جن کے ذریعہ مضر اثرات اور الیکڑ ون ہوا ،پانی اور مٹی میں جذب ہونے کے بعد جانداروں کی صحت خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔خاص طور سے ایٹمی اثرات نسل در نسل کی تباہی کا باعث ہوتے ہیں ۔اس صنعت و حرفت کے بے جا استعمال سے صوتی آلودگی کثرت سے بڑھ رہی ہے ۔

شہری آبادی کی وسعت

مادہ پرستی و دولت کی ریل پیل کے دور میں انسان کی ہوس نے ا س کو دنیوی بو قلمونیوں و رنگارنگینیوں میں جکڑ دیا ہے۔شہرت و ناموری کی طلب ،عزت و فرماروائی کی خواہش اور مال و دولت کے حصول کے لئے اس نے نہ جانے کیا کیا منصوبے و تدابیر اختیار کیں ۔یہی وجہ ہے کہ پہلے انسان قناعت پسند ہوتا تھا اور دیہات و قصبوں میں پر سکون زندگی بسر کرتاتھا ،لیکن اب شہر وں کی طرف منتقلی کا رجحان عام ہوگیا ہے اور بلا وجہ آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے کثرت آبادی کے مسائل کا سامنا ہے ۔بڑے بڑے شہروں میں غذا ،پانی ،پاکی صفائی،رہائش اور آمد و رفت وغیرہ کے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کا صحت سے گہرا تعلق ہے ان میں اصول صحت کی رعایت اور اس کے متعلق کوئی پلاننگ نہیں ہے ۔

حکومت کے فراہم کردہ اصلاحی بورڈ اسی علاقہ تک محدود رہتے ہیں جہاں سرمایہ دار ا و ر دولت مند طبقہ رھتا ہے  عام انسانی زندگی سے یہ بورڈ کوئی تعرض کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جس سے عام زندگی مفلوج رہتی ہیں طرح طرح کی بیماریاں جڑ پکڑتی ہیں اور متعدد امراض آسانی سے متعدی ہوتے چلے جاتے ہیں ۔شہروں میں موجود کلب ، ایئرپو رٹ اور اسٹیشن ،شادی بیاہ  یا تفریحی تقاریب میلے ، مذہبی جلسوں و مشاعروں میںبجائے جانے والے بینڈ ،باجے ،قوالیوں اور گانوں کی رکارڈنگ کا شور اور ان میں بے دریغ لاؤڈاسپیکر کے استعمال کی وجہ سے صوتی آلودگی عروج پر ہے ۔اسی طرح صوتی آلودگی میں نمایا ں کردار ادا کرنے والے موجودہ دور کے پر تعیش ٹیلی ویژن ،میوزک سسٹم وغیرہ مزید آتش بازی ،دیوالی کے تہوار پر آتش بازی بھی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے ۔

 ذرائع میں اضافہ

اس ترقی یافتہ دور میں انسان بہت  عجلت پسندہو گیا ہے جس کی وجہ سے وہ نقل و حمل کے نت نئے اور تیز رفتار ذرائع اختیار کرتا ہے ۔اپنی اس خواہش و ہوس کو پورا کرنے میں وہ بے دریغ ایسے آلات و گاڑیوں کا استعمال کرتاہے جن سے فضا زہر آلود ہو رہی ہے ،شور بڑھ رھا ہے، فطری ماحول خراب ہو رہا ہے ، غرض بے ہنگم ٹریفک ،موٹر،ریل گاڑیوں ،کاروں ، فیکڑیوں ،کارخانوں مشینوں اور ہوائی جہاز سے پیداہونے والا شور غیر محسوس طور پر انسانی صحت کے ساتھ حیوانات و غیرہ کی صحت پر بھی بتدریج اثر انداز ہو رہاہے ،صوتی آلودگی کی وجہ سے بھیانک و پر خطر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔تحقیق کے مطابق پریشر ہارن اور ٹریفک کے شور سے دنیا بھر میں تقریبا بارہ کروڑ لوگ مختلف سماعتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

صوتی آلودگی کے نقصانات

صوتی آلودگی کا بہت عرصہ تک سامنا صحت میں بتدریج نقصان کا سبب بن سکتا ہے ،صوتی آلودگی کے مضر اثرات ماحول کے پراگندہ ہونے ،پانی ،ہواو غذا کے خراب ہونے پر مرتب ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے مہلک امراض و لاعلاج بیماریوں میں اضافہ ہو رہاہے۔ایک سروے کے مطابق ملک کا ہر بارہواں شخص بڑھتے ہوئے شور و شغف کے باعث سماعت سے محروم ہوتا جارہا ہے ،تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے اس متاثرہ جسمانی نظام میں ہاضمہ ،معدہ دل کے امراض پٹھے اور جسمانی ڈھانچہ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں غرض برین ہیمبرج ،ہارٹ ٹیک ،بلڈ پریشر اور شوگر جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں اس کے علاوہ نفسیاتی طور پر غصہ ،نفرت ، چڑچڑاپن ،جارحیت ،بے خوابی ، بد ہضمی ، سستی ،تھکن ،بے توجہی ،عدم دلچسپی، ذہنی دباؤ اور غائب دماغی جیسی خرابیو ں کا بھی سبب بن رہی ہے ۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جن افراد کو رات میں مسلسل چار سال تک 55ڈیسی بل یا اس سے زیادہ شور و شغف کا سامنا ہو تاہے تو ان میںتولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اتنا شور شرابہ پرانے پنکھے اور ایئر کنڈیشنز کے چلنے سے بھی پیدا ہوتاہے جسے عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دن کے اوقات میں 90ڈیسی بل یا اس سے زیادہ شور و غل والے ماحول میں چند ماہ تک انسان کے سکونت اختیار کرنے سے بھی مردانہ تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے ۔اگر یہ سلسلہ کئی سال تک دراز ہوجائے تو مرد  بانجھ پن کا شکار ہوجائے گا ۔

صوتی آلودگی کا علاج

اس تشوشناک صورت حال کے پیش نظر ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کا سد باب کریں ،ماحول کا تحفظ و حفظان صحت کے تیئں جد و جہد کریں اس کے لئے مندجہ ذیل تدابیر پیش خدمت ہیں ۔صوتی آلودگی کے خاتمہ کے لئے معاشرہ میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کا ہر فرد یا ادارہ صوتی آلودگی کی روک تھام کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ، انفرادی و اجتماعی طور پر اس کے خاتمہ کے لئے کمر بستہ ہو جائیں،ا س میں کسی قسم کی کوتاہی،سستی و کاہلی اور بے راہ روی نہ برتی جائے ،بلا تفریق مذہب و ملت صوتی آلودگی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی جلسوں ، مشاعروں ،بھجنوں اور دیگر  رسوم و رواج میں ڈی جے وغیرہ تیز آواز کے ساتھ دیر رات تک استعمال نہ ہو اور  لاؤ ڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے ۔

حکومت کو  صوتی آلودگی کے متعلق حکم نامہ بلا تفریق و امتیاز کے نافذکرنا چاہیے۔ خود اپنی ریلیوں و سیاسی تقاریب میں اس کے بے جا استعمال پر روک لگائے۔ ٹریفک نظام کو بہتر بنائے زیادہ دھویں اور زیادہ آواز والی گاڑیوں پر پابندی لگائے ۔ماحول کو گندگی اور آلودگی سے بچانا ضروری ہے خاص طور سے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات کی رو سے مذہبی فریضہ ہے ۔

ارشاد ربانی ہے :’’اُدْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃ (الاعراف: ۵۵)  ’’تم لوگ اپنے پروردگار سے دعاکرو گڑگڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی‘‘عن ابی موسی الاشعر ی رضی اللہ عنہ قال :لماغزا رسول  ﷺ خیبر او قال :لما توجہ رسول اللہ  ﷺ  اشرف الناس علی واد فرفعوا اصواتھم بالتکبیر :اللہ اکبر ،اللہ اکبر لا الھ الا اللہ،فقال رسول اللہ  ﷺ:اربعوا علی انفسکم انکم لا تدعون اصم ولا غائبا۔انکم تدعون سمیعا قریبا و ھو معکم ( صحیح البخاری :۴۲۰۲)’’راہ میں ایک میدان آیا،صحابہ ؓنے تکبیر کے نعرے بلند کئے ارشاد ہوا کہ آہستہ کہو کہ کسی بہرے اور دور از نظر کو نہیں پکا ر رہے ہو ۔تم جس کو پکارتے ہو وہ تمہارے پاس ہی ہے ۔‘‘

مسلمانوں کو ان اسلامی تعلیمات کے پیش نظر جس قدر احتیاط ممکن ہو برتنی چاہئے  اسلام کے تعارف و تبلیغ کے لئے مناسب ذرائع و وسائل کو اپنائیں ۔مزید برآں اسلامی نظام طہارت و نظافت کا اپنے قرب و جوار میں عملی نمونہ پیش کریں جس کی وجہ سے اطراف کا ماحول درست و اچھا رہے گا ۔اس کے لئے کم آلودگی پھیلانے والے ایندھن کا استعمال کریں ،عوامی مقامات پر تمباکو نوشی نہ کی جائے ۔ایسی جگہوں پر تھو کنے و گندگی سے احتراز کریں ،کھلی نالیوں میں گندگی نہ ڈالیں بلا ضرورت اور بغیر اجازت درخت نہ کاٹے جائیں۔نقل و حمل (موٹر گاڑیوں موٹرسائیکلوں وغیرہ )کے ذرائع کا سائلنسر کے ساتھ کم استعمال کریں ۔ ذرائع آمدو رفت کا وقت پر معائنہ کروایا کریں ۔ گھر یا دفتر میں موٹے شیشوں کے استعما ل کریں  اورکارخانوں کے شہر سے باہر قیام ممکن بنائیں۔ اِس طرح  ہم صوتی آلودگی کو ممکنہ حد تک کم کر سکتے ہیں ۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223