خان یاسر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر انتخابی سیاست پر بہت کچھ مواد فراہم کیا ہے۔ اور مفصل اور مدلل انداز میں اپنی رائے کو رکھنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے اپنے اس مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنائے جانے پر مسلم ووٹرس سڑکوں پر اتر آتے اور احتجاج کرتے تو یقیناً مودی کا وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنا اسی طرح ایک خواب رہ جاتا جس طرح آڈوانی کا رہ گیا‘‘۔ یہ احساس بالآخر دیر سے ہی صحیح خان یاسر صاحب کے قلم سے آہی گیا۔ اس میں قصور اُن کے قلم کا نہیں بلکہ اس مزاج کا ہے جو آہستہ رَو واقع ہوا ہے۔
ایسے بہت سے واقعات اور کیفیات کا مشاہدہ ہم آئے دن اپنی تحریکی زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔ ہم کسی کام کے متعلق سوچتے ہی رہتے ہیں کہ وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ہم جہاں تھے وہیں رہ جاتے ہیں۔ تحریک کا کون سا فرد نہیں چاہتا کہ صالح تبدیلی آئے،مگر اس تبدیلی کے لئے جس طرح کی کوشش اور جستجو ہونی چاہیے وہ ہو نہیں پاتی، وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ ہم اپنی کوششوں کے لئے اپنے آپ کو متحرک نہیں کرپاتے۔ نمایاں طور پر یہ وجوہات نظر آتی ہیں۔
l مرکز ؍ حلقہ سے ہدایات کے انتظار میں معطل رہناl روایتی کاموں کی انجام دہی پر قناعت l غیر سنجیدانہ رویہl عدم دلچسپیl مختلف ایشوز (مسائل) سے متعلق معلومات کی کمی l ایشوز پر بروقت ردعمل ظاہر نہ کرنا۔l جذب اندروں Self Motivation کی کمی۔
تحریکی حلقے میں لفظ ’’کارکن‘‘ کی اصطلاح معارف ہے۔ اگر ہم اس لفظ کو انگریزی میں کہیں تو اس کو Activist کہا جائے گا۔ Activist کی یہ اصطلاح دیگر تنظیموں میں بھی استعمال کی جاتی ہے وہاں سے ہم اِن Activists کو بہت متحرک پاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا کارکن اتنا متحرک دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا کیوں ہے؟
ہم Activist تو اسی کو کہیں گے جو کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے غیرمعمولی مستعدی کے ساتھ میدانِ عمل میں سرگرداں ہو۔ وہی اصطلاح کارکن کے لئے استعمال کی جاتی ہے تو اُن میں وہ جوش وجذبہ ہمیں نظر نہیں آتا جو ایک Activist کے اندر دیکھنے میں ملتا ہے۔
یہاں سوال کارکن یا Activistکی اصطلاح کا نہیں ہے بلکہ سوال اُس مزاج کا ہے جس کی تربیت ہم نے اپنے ماحول سے حاصل کی ہے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ہم روایتی انداز کے پروگرام منعقد کرنے کے عادی بن گئے ہیں۔ یہ پروگرام ہماری رفتار اور ہمارے مزاج کے عکاس ہوتے ہیں۔ نہ ان میں جان ہوتی ہے نہ تڑپ اور نہ کچھ کرگزرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔
ہمارا مزاج ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی فوری ہونے والی تبدیلی کا نوٹس لیں یا کسی ایسی سرگرمی کو بروقت انجام دیں جس میں تھوڑی سی بھی تاخیر اس کی اہمیت کو گھٹا دیتی ہے۔
لفظ تحریک خود ایک زندہ اصطلاح ہے۔ تحریک سے وابستہ فرد کی کیفیت کیسی ہو اس کا اندازہ (کارکن) کو بخوبی ہوناچاہئے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں جائزہ لیاجائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم ہر کام کے لئے مرکز اور حلقہ کی ہدایات کے منتظر رہتے ہیں۔انگلی پکڑ کر چلائے جانے کا معاملہ نظر آتا ہے۔ کوئی چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی ہم اپنے بل بوتے پر نہیں کرپاتے۔ چاہے وہ مقامی سطح کے مسائل (Social Issues) سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ نتیجتاً ان مسائل کے سلسلے میں Opinion building (رائے عامہ کی تربیت) کا کام صرف خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ بسااوقات دوسری تنظیمیں جن کو ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے ہم پر سبقت لے جاتی ہیں۔
آج ہمارا دائرۂ اثر بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ہفت روزہ اجتماعات ماہانہ نشستیں، ایک آدھ تربیتی پروگرام، سال میں ایک مرتبہ خصوصی پروگرام کی انجام دہی کو ہی ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے جبکہ ہماری پالیسی اور پروگرام میں عملی میدان (غیر انتخابی سیاست) کی کئی سرگرمیوں کی طرف ہمیں متوجہ کیاگیا ہے۔ ہمیں اپنے اس محدود دائرۂ کار سے باہر نکالنا ہوگا۔ اس ضمن میں دو صفات اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی۔ ایک سنجیدگی (Seriousness) دوسرے لگن اور دلچسپی(Interest)۔ آج ہمارا مزاج غیر سنجیدہ ہوگیا ہے۔ ہم ہر کام کو غیراہم (Light) گردانتے ہیں۔ اس کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوتے اور پھر بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری تحریک کے سوا دوسری تنظیموں میں نظم نہیں ، اُن کے پاس تجریہ نہیں، صلاحیت وقابلیت نہیں۔ہمیں اپنی دلچسپی ایسے کاموں کی طرف مبذول کرانی ہوگی جو ہماری روایتی سرگرمیوں سے مختلف ہیں۔ کبھی کبھی ہم سمجھتے ہیں کہ غیر انتخابی سیاسی سرگرمیاں (دھرنا، ریلی وغیرہ)ہمارے طریق کار سے خارج ہیں ۔ چنانچہ ہم ایسی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں۔ اِس مزاج نے ہمیں کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اِس سلسلے کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم حقیقی مسائل (Issues) کو بیان کرنے والا اور ان کو نمایاں کرنے والے بنیں۔ آئے دن جو مسائل سماج میں اٹھتے ہیں ۔ سیاسی و سماجی ہو ں یا معاشی و تعلیمی ۔ اُن پر ہماری نگاہ ہونی چاہیے۔ ان مسائل کو ہم زیر بحث لانے والے بنیں اور ان کے حل کے لیے اپنی ذیلی تنظیموں کو متحرک کریں۔
عوامی تحریک بننے اور اپنی بات کو عوام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وقت کے مسائل پر توجہ دینے والے بنیں۔ پیارے نبی ﷺ کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپؐ نے اپنے زمانے کے اہم سوالات سے تعرض کیا ۔ مسائل کے حل کی راہیں بتائیں جس کے نتیجے میں ایک صالح معاشرے کی تعمیر کے مراحل طے ہوئے۔ اس سلسلے میں بعض اہم پہلو درج ذیل ہیں:
(۱) مقصـد کے حصول کے لئے اہداف متعـین کرنـا: متعینہ وقت میں متعینہ اہداف کے ساتھ اگر کام کیاجائے تو ضرور ہم اپنی رفتارِ کار بڑھا سکیں گے۔ ہر فرد کے پاس ایک منصوبہ ہونا چاہیے ۔ معلوم ہو کہ اُسے آنے والے وقت اور دنوں میں کیا کام انجام دینا ہے۔ پھر جائزہ لیا جائے کہ اس نے کیا کیا، کہاں تک کامیاب رہا اور آئندہ کالائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
(۲)قوت ارادی: متعینہ اہداف کے حصول کے لیے مصمم ارادہ ضروری ہے جو اہداف طے کیے گئے وہ طے شدہ وقت میں پورے ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ پروگرام توترتیب دے دیا گیا ، لیکن انجام دہی میں ٹال مٹول کی گئی۔
(۳)حقیقت پسندانہ جائزہ:جائزہ کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں لہٰذامتعینہ مُدت کے بعد جائزہ لیتے رہنا چاہیے، جائزہ حقیقت پسندانہ ہو، حاصل شدہ نتائج کو جانچنے کے لیے ہو، توبہ واستغفار کے لیے ہو اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ہو۔
(۴)مطالعہ: مطالعہ تحریکی افراد کے لیے روح کی غذا کا کام کرتا ہے۔ مطالعے کے سلسلے میں موجودہ صورتحال تشویشناک ہے۔ مطالعے کی طرف توجہ میں کمی دیکھنے میںآرہی ہے۔خصوصاً نوجوان طبقے کے اندر کئی پہلوئوں سے مطالعہ ہماری ضرورت ہے۔ (الف) فکری ارتقاء کے لیے (ب) شخصیات سے سبق حاصل کرنے کے لیے (ت) عام معلومات کے لیے ۔
(۵)میدانِ کار کا انتخاب: ہر فرد کو اپنی صلاحیت اور ذوق کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے، اُسی اعتبار سے متعینہ اہداف کے حصول کے لیے مناسب میدانِ کار کا انتخاب ہونا چاہیے، کاموں میں جدید ذرائع ابلاغ کا مؤثر استعمال بھی ضروری ہے مثلاً Social Forum، ویڈیوز، بلاگس، ٹوئٹر،Group formation وغیرہ۔ ان تما م ذرائع سے زیادہ اہم One to one approach انفرادی رابطے کا طریقہ ۔
یہ بھی طے کرنا چاہیے کہ کارکن تحریک کی کسی ذیلی تنظیم یا شعبے میں کام کرنے کے قابل خود کو پاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی دل چسپی کا میدان کچھ ہو اور کام کسی اور میدان کا تجویز کردیا جائے۔ یہ عمل زیادہ کارگر نہیں ہوگا۔ نتائج کو حاصل کرنے کے لیے مناسب ہوگا کہ آپ اپنی دلچسپی کے کام کو انجام دیں۔
(۶)منظم انداز میں پیش قدمی: اسلامی تحریک ایک منظم کوشش ہے۔ سرگرمیوں کی انجام دہی کا منظم ہونا بھی ضروری ہے۔ کسی مسئلے پر متعلق افراد کو جمع کرنا ، سب کا اس مسئلے پر غوروفکر کرنا ، حل کی تدابیر نکالنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ، یہ ہمارا انداز کار ہونا چاہیے۔
(۷)تنقید سے فائدہ اٹھانا: اپنے اوپر تنقید کو قبول کرنا انتہائی دل گردے کا کام ہے،جب آپ غیر انتخابی سیاست کے لیے اپنے کو کمربستہ کرلیں گے تو تنقیدی نگاہیں آپ پر پڑیں گی۔ اس کے لئے بڑے صبر وثبات کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہماری تربیت کے لیے کوئی خیرخواہ مفید مشورہ دے تو اس کو قبول کرناچاہیے۔
(۸)مستقل مزاجی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرمائی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو وہ عمل زیادہ پسند ہے جو کم ہو مگر مستقل کیا جانے والا ہو۔ کسی بھی ہنگامہ خیز سرگرمی کو انجام دے کر ہم تھک نہ جائیں ۔ کوئی بڑا کام کرکے خاموش نہ ہوجائیں بلکہ جو سرگرمی بھی انجام دیں (ہلکی پھلکی ہی سہی) مگر مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دیں۔ غیر انتخابی سیاسی عمل کسی ہنگامی کام کو انجام دے کر خاموش بیٹھ جانے کا نام نہیں بلکہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے متحرک رہنے کا نام ہے ۔ غیر انتخابی سیاست کی اہمیت کا شعور اگر روز اول سے ہمیں ہوتا توآج اس کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت نہ ہوتی، بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق اب وقت ہے کہ ہم اس کام کے لیے اپنے آپ کو متحرک کریں اور ملک و ملت کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014