ایمان وسیلہِ نجات سے پہلے ذریعہِ اصلاح ہے
مسلم امت اس وقت اپنی طاقت اور فعالیت کے جن عظیم سرچشموں سے محروم ہے، ان میں سب سے اہم سرچشمہ ایمان ہے۔ اور اس محرومی کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کو زندگی میں وہ مقام نہیں حاصل ہے، جو اسے ضرور ملنا چاہیے، اور صرف اسی کو ملنا چاہیے۔ ایمان کے جمال وکمال کا اظہار انسانی زندگی کے اسٹیج پر ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان تو لائے مگر اسے اپنی زندگی پر اپنے جلوے دکھانے کا موقع نہیں دے، تو وہ اپنے ایمان کو صحیح مقام نہیں دیتا ہے۔
ایمان کا اصل مقام یہ ہے کہ زندگی کا ایک ایک گوشہ اور پہلو اس سے روشن ہوجائے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں سے الگ تھلگ ایک عقیدہ نہ رہے، بلکہ وہ روح بن کر زندگی کی رگ وپے میں اترجائے۔ وہ آخرت میں نجات اور کامیابی کا سبب ضرور بنے، لیکن اس کے لیے وہ دنیا ہی میں انسان کو ایسی پاکیزہ اور حسین سیرت عطا کردے کہ جنت میں جانا اسے زیبا ہوجائے۔ ایمان کا اصل رول گناہ گار کو جنت میں لے جانا نہیں ہے، بلکہ گناہ گار کو نیک اور صالح انسان بنانا ہے۔ ایمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کے لیے آخرت میں نجات پانے کی محض ایک امید نہیں رہے، بلکہ اس دنیا میں امت مسلمہ کی عظمت اور کردار کی بحالی کا ضامن بن جائے۔
اپنی اصلاح ہو یا دوسروں کی، فکر ونظر کی درستگی ہو یا عمل اور معاملات کی، سماج کے رواجوں کو ٹھیک کرنا ہو یا ملکوں کے نظاموں کو۔ دلوں سے خرابی دور کرنا ہو یا زمین سے، شخصیت کو سنوارنا ہو یا دنیا کو، ایمان کے فیض سے یہ سب کچھ ہوسکتا ہے، اور ایمان کی کارفرمائی اور فرماں روائی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
ایمان کی موجودہ صورت حال
امت پر زوال آیا تو سب سے پہلے امت کا ایمان زوال سے دوچار ہوا، اور اعلی مقاصد کے بجائے ایمان کا استعمال ان مقاصد کے لیے ہونے لگا، جو اس کے اصل مقاصد نہیں ہیں۔
امت میں ایمان کا سب سے زیادہ استعمال اپنی ملی شناخت بتانے کے لیے ہوتا ہے۔ ملی شناخت کے بعد اس کا اگلا استعمال ملت کے اندر اپنی گروہی شناخت جتانے کے لیے ہوتا ہے۔ ایمان کی بنیاد پر مسلم قوم کو غیر مسلم اقوام سے ممتاز بتایا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد ایمان ہی کا حوالہ دے کر مسلم امت کا ہر فرقہ خود کو صحیح العقیدہ فرقہ اور اہل سنت والجماعت قرار دیتا اور دوسرے فرقے کو اس پہچان سے عاری قرار دیتا ہے۔
غرض عام طور سے ایمان دنیا میں شناختی کارڈ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اور پھر اس شناختی کارڈ کو آخرت میں نجات کارڈ کے طور پر استعمال کرلینے کی امید کی جاتی ہے۔ یہ تصور عام ہوگیا کہ انسان کسی بھی طرح کی زندگی گزارے وہ اپنے ایمان کی بدولت جنت میں ضرور جائے گا، لیکن یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ وہ ایمان ہی کیسا جس کے ساتھ کسی بھی طرح کی زندگی گزاری جاسکتی ہو!!۔ پہلے یہ تصور ایک بہت چھوٹے سے مرجئہ نامی فرقے کا تھا، لیکن اب امت کی مجموعی عملی صورت حال اسی تصور کی آئینہ دار نظر آتی ہے۔
ایمان کا عظیم کردار
قرآن وحدیث میں ایمان کا مشاہدہ کریں، تو وہ بہترین ثمرات سے لدا ہوا درخت، شخصیت کی تعمیر کا زبردست کارخانہ، عمل صالح کا رہنما رفیق، اقامت دین کے لیے ایک زبردست محرک، معرکہ حق وباطل میں ایک ناقابل شکست طاقت، اور امت کی عظمت وکردارکے ایک قابل اعتماد محافظ کے طور پر نظر آتا ہے۔
سورہ بقرۃ کی شروع کی آیتیں صاف بتاتی ہیں کہ زندگی پر ایمان کی حکومت ہوتی ہے تو ہدایت کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔
قرآن کی آیتوں میں ایمان سے متصف انسان سارے انسانوں سے مختلف اور ممتاز دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ایک نظریہ یا عقیدہ انسان کو کس قدر تبدیل کرسکتا ہے، اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایمان انسان کو اس قدر تبدیل کردیتا ہے کہ انسانی ذہن اس کا تصور نہیں کرسکتا۔
علم کلام کی کتابوں میں اس پر خوب گفتگو ہوتی ہے کہ اگر انسان کی زندگی عمل صالح سے بالکل خالی اور گناہوں سے بھری ہوئی ہو تو صرف ایمان کے ذریعے اس کی نجات کا کس قدر امکان ہے۔ قرآن اس سوال سے بالکل تعرض نہیں کرتا، وہ یہ واضح کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی کو آخرت میں کامیاب ہونے والی زندگی بنانے میں ایمان کا بنیادی رول ہے۔
ایمان کا قابل ذکر امتیاز یہ نہیں ہے کہ وہ عمل صالح کے بغیر بھی اپنا وجود رکھتا ہے، ایمان کا اصل امتیاز یہ ہے کہ وہ عمل صالح کو وجود عطا کرتا ہے۔
قرآن کے ذریعے ایمان کی پرورش
فطرت کا قانون پرورش کو تکمیل کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے۔ جس چیز کو کمال تک پہونچانا ہو اس کی پرورش پر پورا دھیان دینا ضروری ہے۔
ایک بچہ جب اس دنیا میں جنم لیتا ہے تو اس کی سب سے بڑی ضرورت اس کی اپنی پرورش ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے بچے کی پرورش رک جائے تو وہ اپنے انسانی کردار سے محروم ہوجاتا ہے، اور جن کاموں اور کارناموں کی ایک انسان سے توقع ہوتی ہے، ان کے لیے وہ بالکل نااہل ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ ضروری ہے کہ دل کی زمین میں ایمان کا پودا اگایا جائے، اور اس کے بعد اس کی بہترین نشوونما بھی ہو۔ ورنہ وہ اپنے کردار سے بہت دور، زبان کا ایک کلمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی حالت ایک مرجھائے ہوئے کم زور پودے کی ہوجاتی ہے۔ ایمان کی پرورش بہتر طریقے سے قرآن کے گہوارے میں ہوتی ہے، اور اس سے دور ہوکر اور کہیں نہیں ہوپاتی۔
اسی لیے ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ ضروری کام قرآن سے گہرا اور کبھی کم زور نہیں ہونے والا تعلق قائم کرنا ہے، یہ تعلق ایمان کی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ اگر پورا قرآن ایک بار صرف ایمان کے موضوع کو سامنے رکھ کر پڑھ لیا جائے، تو ایمان کی پرورش میں قرآن کا رول واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ اس مقصد کے ساتھ قرآن کا مطالعہ ہر مومن کو ضرور کرنا چاہیے۔
قرآن سے تعلق کم زور ہونے کی وجہ سے ایمانی نقص کی شکایت امت میں عام ہوگئی ہے۔ امت کی اصلاح کا سب سے پہلا اور سب سے ضروری قدم اس کے اندر ایمان کی بہتر پرورش کو یقینی بنانا ہے۔ اور اس کے لیے رجوع الی القرآن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ قرآن سے اپنے دل ودماغ کو پوری طرح جوڑ دینا ایک مومن کی سب سے بڑی ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے ایمان کی پرورش اسی طرح ہوسکتی ہے۔
ایمان کی پرورش کے پہلو
ایمان کی پرورش کے کئی پہلو ہیں، یہاں کچھ اہم پہلووں کا ذکر کیا جائے گا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے گا کہ قرآن کس طرح ان کی پرورش کرتا ہے، قرآن پر غور کرنے والے اس پر بہت کچھ اضافہ کرسکتے ہیں:
عقل ایمان پر مطمئن ہوجائے
قرآن پڑھتے ہوئے دلائل کی نہیں ختم ہونے والی قطار سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ہر دلیل بہت مضبوط اور عقل کو مطمئن کرنے والی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے قرآن پر غور وفکر بڑھتا ہے، عقل کے اطمینان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دلائل کی قوت اور کثرت بندہ مومن کو یہ فرحت بخش احساس عطا کرتی ہے کہ وہ ایمان کے پہلو سے بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔
ایک ایمان سادہ فطرت بوڑھی عورتوں کا بتایا جاتا ہے کہ جن کے قریب شکوک پھٹکتے ہی نہیں ہیں کہ انھیں کسی طرح کی بے اطمینانی کا احساس ہو۔ اور ایک ایمان فلسفیوں کا بتایا جاتا ہے جو شکوک میں گھرے رہتے ہیں، اور شکوک پیدا کرنے اور انھیں دفع کرنے میں ساری عمر گزار دیتے ہیں۔
قرآن ایسا ایمان عطا کرتا ہے جس سے پوری زندگی شکوک وشبہات سے بہت دور مگر دلائل سے معمور ہوکر اطمینان کے ساتھ گزرتی ہے۔ یہ ایمان دلائل سے آراستہ ہوتا ہے، اور شکوک وشبہات کو دفع کرنے اور ان کا جواب دینے پر قدرت رکھتا ہے۔
دل میں ایمان راسخ ہوجائے
ایمان کا اصل مقام دل ہے، اور عقل اس کی طاقت ہے۔ انسانی وجود میں دل کی حیثیت بادشاہ کی ہوتی ہے، اور اس کی فرماں روائی پورے انسانی وجود پر ہوتی ہے۔ ایمان کا حقیقی رتبہ یہ ہے کہ اسے دل پر فرماں روائی حاصل رہے۔ جب تک ایمان دل کے عرش پر متمکن نہیں ہو وہ بس زبان سے ادا ہونے والا ایک کلمہ ہوتا ہے، اس کا آخرت میں کیا فائدہ ہوگا یہ تو اللہ کی رحمت ومشیت پر منحصر ہے، لیکن دنیا میں اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔ قرآن بار بار یاد دلاتا ہے کہ ایمان کو زبان پر سجائے رکھنے کے بجائے دل کے اندر تک لے جانا چاہیے:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
یہ بدوی کہتے ہیں کہ “ہم ایمان لائے” اِن سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ “ہم تابع ہوگئے ہیں” ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے.(الحجرات:14)
جب دل کے تخت پر ایمان جم کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ دل کے تمام امور اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ پھر دل کے اہم ترین معاملات بھی ایمان کی مرضی سے انجام پاتے ہیں۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ
تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں، خواہ وہ اُن کے باپ ہوں، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہل خاندان یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے. (المجادلة:22)
قرآن ایک طرف عقل کو دلائل سے اطمینان عطا کرتا ہے، دوسری طرف رب کی عظمتوں، رحمتوں اور نعمتوں کا بار بار مشاہدہ کراتے ہوئے وہ ایمان کو دل میں محبوب بنا دیتا ہے، اور جب ایمان عشق ومحبت بن کر دل کے تخت شاہی پر بیٹھ جاتا ہے، تو دل کے تمام معاملات ایمان کے تقاضوں کے پابند ہوجاتے ہیں۔
قرآن ایمان کی ہر ہر شق کو محبت کا پیکر عطا کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ کے رسولوں کا حقیقی مقام ومرتبہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایمان بالرسول محبت رسول میں تبدیل ہوجائے۔ اللہ کی کتابوں سے محبت کرنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہوتا ہے کہ وہ ہدایت ونجات اور فلاح وکامیابی کا سرچشمہ ہیں۔ فرشتوں کا بلند مقام اور ان کی اطاعت وعبادت کا حال اس طرح ذکر کیا جاتا ہے کہ فرشتوں سے محبت ہوجاتی ہے۔ آخرت میں اللہ کی عدالت کا تذکرہ بندہ مومن کے اندر عقیدہ آخرت سے محبت پیدا کردیتا ہے، اور آخرت کی نعمتوں کا بیان سن کر وہ آخرت کی کامیابی کا دیوانہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایمان صرف عقل کا ثابت شدہ عقیدہ نہیں رہتا، بلکہ عشق میں ڈوبا ہوا دل کا یقین بن جاتا ہے۔
قرآن کے سائے میں پرورش پانے والا ایمان عقل اور عشق دونوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، اس مقام پر عقل اور عشق کے درمیان مکمل ہم آہنگی قائم ہوجاتی ہے، اور یہ قرآن کا زبردست اعجاز ہے۔ قرآن ایمان کی صورت میں وہ عشق عطا کرتا ہے جس پر عقل پوری طرح مطمئن ہوتی ہے۔
ایمان روح کا نغمہ بن جائے
ایک انسان کے لیے مثالی صورت یہ ہے کہ اس کا جسم اور روح دونوں صحت مند اور توانا ہوں، اور دونوں میں پوری ہم آہنگی ہو، اور دونوں مل کر اللہ کی بندگی کرتے ہوں۔
اگر روح کم زور اور ناتواں ہو، تو جسم سرکش اور خود سر ہوجاتا ہے، لیکن اگر روح طاقت ور ہو تو طاقت ور جسم روح کا ہم دم ودم ساز بن جاتا ہے۔ روح پوری آب وتاب کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے اس کے لیے جسم کو کم زور کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے، بلکہ روح کو طاقت ور بنانا ضروری ہے۔ قرآن مجید جسم کو طاقت ور اور روح کو توانا بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ جسم کو زمین سے غذا حاصل کرنے کی راہ دکھاتا ہے اور روح کے لیے وہ خود بہترین دسترخوان بن جاتا ہے۔
روح کا اصل نغمہ ایمان ہے، یہ نغمہ روح کو حقیقی سرمستی سے سرشار کردیتا ہے۔ قرآن روح کو ایمان سے روبرو کرتا ہے، قرآن کے سائے میں پرورش پانے والا ایمان روح کے لیے سامان تسکین بن جاتا ہے۔ قرآن روح کی سوئی ہوئی پیاس جگاتا ہے، اور پھر اسے ایمان کے چشمے سے سیراب بھی کردیتا ہے۔
آپ عبادت کا طریقہ کہیں سے بھی سیکھ لیں، لیکن عبادت کی حقیقی روح پانے کے لیے آپ کو قرآن کی بارگاہ میں جانا ہوگا، قرآن ہر عبادت میں روح ڈالتا ہے، اورجب انسانی روح عبادت کی روح سے جا ملتی ہے تو ہر عبادت روح کا دل نواز نغمہ بن جاتی ہے۔
آپ کسی کتاب سے دعائیں اور اذکار یاد کریں، اور قرآن سے ذکر ودعا کی تعلیم حاصل کریں، دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ قرآن روح کو ذکر ودعا کے لیے بے تاب کرتا ہے، اور پھر اس بے تابی کے مناسب حال ذکر ودعا کے الفاظ دیتا ہے۔ سورہ حدید کی ابتدائی آیتیں پڑھیں، یا سورہ حشر کی آخری آیتیں پڑھیں، اور دیکھیں کہ یہ آیتیں کس طرح روح کے اندر تسبیح کا جذبہ بیدار کردیتی ہیں۔ پھر تسبیح محض ایک ورد نہیں رہ جاتی ہے بلکہ روح کا سرور آفریں نغمہ بن جاتی ہے۔ وہ نغمہ زبان سے ادا ہوتا ہے مگر اس کے تار روح کی عمیق گہرائیوں میں ہوتے ہیں۔
قرآن روح کی تسکین کا بہت زیادہ سامان خود اپنے اندر رکھتا ہے، اس پر مزید وہ روح کو کائنات سے بھی جوڑ دیتا ہے، جہاں اسے اپنی تسکین کا بہت سامان ملتا ہے، اس طرح انسان کی روح پوری کائنات کے ساتھ حمد وتسبیح میں شامل ہوجاتی ہے۔
اعمال ایمان والے بن جائیں
انسان اپنے فکر وعمل سے ہے۔ اسی لیے مومن بن جانے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی فکر ایمانی ہوجائے اور اس کے اعمال ایمان والے بن جائیں۔
جب تک ایمان زبان پر رہتا ہے، اعمال سے اس کا کچھ خاص لینا دینا نہیں ہوتا ہے، مگر جب ایمان دل کے عرش پر متمکن ہوجاتا ہے تو انسان کے تمام اعمال اس کی عمل داری کے تحت آجاتے ہیں اور وہ راست انسان کے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ایمان دل کے اندر نیک عمل کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ اعضاء وجوارح میں نیک کاموں کی شدید اکساہٹ پیدا کردیتا ہے۔ نیک عمل کا جتنا طاقت ور جذبہ ایمان پیدا کرتا ہے کوئی اور محرک پیدا کر ہی نہیں سکتا۔
قرآن ایمان کے ذریعے عمل کا جذبہ پیدا کرتا ہے، وہ مومن سے مطالبہ کرتا ہے کہ نیک اعمال میں سب سے آگے رہے۔ قرآن میں اس کے لیے یسارعون فی الخیرات جیسی متعدد تعبیریں آئی ہیں۔ اگر کہیں ایسا محسوس ہو کہ مومن اور غیر مومن نیک کاموں میں برابر ہیں یا کوئی مومن نیک کاموں میں پیچھے ہے تو اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ زندگی پر کارفرما ہے، یا زندگی سے اس کا رشتہ ٹوٹا ہوا ہے۔
ایمان اچھے کاموں کو بہترین انداز میں انجام دینے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اچھے کام ایمان والے بھی کرتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں، لیکن دونوں کے اچھے کاموں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ مومن کے اچھے کام ایمان کی چمک سے روشن ہوتے ہیں۔ ایمان اچھے کاموں کو بے مثال حسن اور بہت اونچی بلندی عطا کردیتا ہے۔
قرآن ہر مقام پر ایمان کے فورا بعد عمل صالح کا ذکر کرکے ایمان کے اس رول کو بہت واضح کردیتا ہے۔ قرآن میں ایمان کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے عمل صالح سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ قرآن اللہ پر ایمان لانے کی تعلیم دیتا ہے جس کے یہاں عمل صالح مطلوب ہے، اور آخرت پر ایمان لانے کی تعلیم دیتا ہے جہاں جزا اور سزا عمل کی ہوگی۔ اللہ کی کتاب عمل صالح کی دعوت سے معمور ہوتی ہے، اور اللہ کے رسول کی زندگی عمل صالح کا نمونہ ہوتی ہے۔ عمل صالح سے بالکل الگ کرکے مجرد ایمان کو فلسفے کی آنکھ سے تو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن وحی الہی کی آیتوں میں ہرگز نہیں دیکھا جاسکتا۔
قرآن ایمان کی اس طرح پرورش کرتا ہے کہ وہ عملی زندگی سے بے تعلق جامد عقیدہ نہیں رہے، بلکہ وہ زندگی کے خاص مرکز میں رہ کر نیک اعمال کا محرک بن جائے۔
ایمان قابو میں رکھنے والی قوت بن جائے
انسان کے لیے دنیا مسخر کی گئی ہے، وہ اللہ کے اذن سے دنیا کی بہت سی طاقتوں کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ لیکن انسان عام طور سے اپنے نفس پر قابو نہیں پاتا ہے۔ کبھی تو اسے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ نفس کو کن چیزوں سے روکنا ہے، اور پھر جہاں روکنا ہوتا ہے وہاں وہ اپنے اندر وہ قوت نہیں پاتا کہ اسے روک سکے۔وجہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر اس کے پاس موجود روکنے کے تمام ذرائع اس کے اپنے نفس کے تابع ہوجاتے ہیں۔ بیرونی ذرائع کی اس کے اندر تک رسائی نہیں ہوپاتی اور اندرونی ذرائع کام نہیں کرتے۔ یہاں انسان اپنی ہی کم زوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان ابھی تک ایسی کوئی قوت دریافت نہیں کرسکا ہے جس کے ذریعے وہ نفس پر قابو پانے کی ضمانت پاسکے۔ نفس پر قابو رکھنے والی صرف ایک قوت ہے، ایمان کی قوت۔ ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رہتا تو ہے بالکل اندرون میں، لیکن اندر رہتے ہوئے بھی وہ نفس کا تابع نہیں ہوتا ہے بلکہ اللہ کی مرضی کا تابع ہوتا ہے، اور اسی لیے وہ نفس کو اپنا تابع بناتا ہے۔تاہم اس کے لیے ضروری ہوتا ہے ایمان اتنا طاقت ور ہوکہ وہ نفس کو اپنا تابع بنا سکے، ورنہ کم زور ایمان کی باتوں پر نفس کان دھرتا ہی نہیں ہے۔
قرآن کے گہوارے میں پرورش پاکر ایمان انسان کو قابو میں رکھنے والی قوت بن جاتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے اللہ تعالی کی صفات خاص طور سے قدرت اور علم والی صفات کو دلنشین کرایا جاتا ہے، ماضی میں نافرمان قوموں کے انجام اور مستقبل میں آخرت کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے، سخت وعیدیں اور عظیم بشارتیں سنائی جاتی ہیں، اور اس طرح ایمان انسان کو قابو میں رکھنے والی ایک زبردست قوت بن جاتا ہے۔ قرآن سے تعلق بنا رہتا ہے تو قابو میں رکھنے والی یہ قوت بڑھتی رہتی ہے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ایک مومن سے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ اُس سے چوک ہو جائے. (النساء: 92)
ایمان تزکیہ کا ذریعہ بن جائے
ایمان اور صرف ایمان ہی وہ قوت ہے جو انسان کی فطرت پر تہ در تہ جمع ہونے والے نفسانی خواہشات کے ڈھیر کو دور ہٹا کر اسے پاکیزگی عطا کرسکتی ہے۔ دل میں بسنے والی وہ بھاری نجاستیں اور غلاظتیں جنھیں اٹھاکر پھینکنا بہت مشکل لگتا ہے، اور وہ باریک جراثیم جو آسانی سے نظر نہیں آتے ہیں، ایمان کی قوت اور تحریک سے ان سب کی نشان دہی اور صفائی ہوجاتی ہے۔ انسانی شخصیت کو پاک کرکے اس میں خوبیوں کے نفع بخش پودے لگانے اور دل کش پھول کھلانے کا کام بھی ایمان ہی کی رہنمائی میں انجام پاتا ہے۔
تزکیہ کا عمل شخصیت کی گہرائی میں اترنے، وہاں چھپی ہوئی برائیوں کو پہچاننے، پھر انھیں کھرچ کھرچ کر صاف کرنے اور اس کے ساتھ ہی وہاں خوبیوں کے پودے لگانے کی زبردست قوت مانگتا ہے، اور قرآن ایمان کو یہ قوت عطا کردیتا ہے۔
آپ نفس کی کسی پوشیدہ سے پوشیدہ برائی کا تصور کرلیں، قرآن میں اس کی صفائی کا انوکھا انتظام مل جائے گا، اور کسی بھی خوبی کا تصور کرلیں، اسے شخصیت کا زیور بنانے کا بہترین انتظام مل جائے گا۔
درج ذیل آیت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قرآن کس طرح نفس کو پاکیزگی اور سنگھار عطا کرتاہے:
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ (الزمر: 23)
ایمان تحریکی جذبہ بن جائے
ایمان کی توانائی سے معمور انسان کے اندر دین حق کے لیے ایک تحریک برپا رہتی ہے، اور اس تحریک کی قیادت ایمان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اللہ کا راستہ اس کا محبوب ترین راستہ ہوتا ہے، اور اس راستے میں کوشش ومحنت اس کا محبوب ترین مشغلہ ہوتا ہے۔ ایمان کا مطالبہ اس کی نگاہ میں اس کی زندگی کا سب سے اہم مطالبہ ہوتا ہے، اس کے آگے پھر وہ کسی کی آواز پر کان نہیں دھرتا ہے۔
قرآن کے سائے میں جب ایمان کی پرورش ہوتی ہے تو انسان کی جان ومال پھر خود اس کی اپنی نظر میں اس کے نہیں رہتے بلکہ اللہ کے دین کے لیے وقف ہوجاتے ہیں۔ قرآن پہلے ایمان کے تقاضے کی اہمیت دل میں اس طرح بٹھاتا ہے کہ ایمان کا تقاضا زندگی کا سب سے اہم تقاضا بن جائے اور اس کے بعد ایمان کے تقاضے بتاتا ہے تاکہ زندگی ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے وقف ہوجائے۔
ایمان کے ان عظیم تقاضوں کا راست ذکر بھی بار بار کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی نبیوں کی دعوت کے مناظر بھی بار بار دکھائے گئے ہیں، تاکہ ایمان کے تقاضے انسان کو مسلسل اکساتے رہیں، اور ایک پل چین سے نہیں بیٹھنے دیں۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر وہ کسی شک میں نہ پڑے اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے لوگ ہیں۔ (الحجرات: 15)
ایمان نقطہ نظر بن جائے
ایمان کا یہ حق ہے کہ وہ دماغ کا اطمینان، دل کا عشق، اور روح کا دل نواز نغمہ بن جائے، اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایمان کا حق ہے کہ انسان کی توجہ پورے طور پر ایمان کی طرف ہوجائے۔ وہ ہر چیز کو ایمان کے نقطہ نظر سے دیکھے۔ پھر اس کی محبت اور اس کی نفرت، اس کی عنایت اور اس کی ممانعت اس کی صلح اور اس کی جنگ ہر چیز میں ایمان کے تقاضے سامنے رہیں۔
وہ اپنے گرد وپیش میں ہونے والے تمام واقعات واحوال کو ایمان کے نقطہ نظر سے دیکھے۔ دنیا میں خوش حالی کا دور دورہ ہو یا دنیا والے کسی مصیبت سے دوچار ہوں، افراد ترقی کررہے ہوں یا پسماندگی کا شکار ہوں، امن وامان قائم ہو یا افراتفری کا ماحول ہو، ایک مومن ہر واقعہ اور ہر صورت حال کو ایمان کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
قرآن کا انداز یہ ہے کہ اس کی ساری باتیں ایمان کو سامنے رکھ کر ہوتی ہیں، آدمی قرآن کے کسی بھی موضوع کا مطالعہ کرے، اس کے سامنے ایمان کا نقطہ نظر ضرور آجاتا ہے۔
قرآن کی مسلسل تلاوت کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام میدانوں میں مومن کی ساری توجہ ایمان پر مرکوز رہنے لگتی ہے۔ اس لیے کہ قرآن قاری کی توجہ ایمان پر مرکوز رکھتا ہے اس سے ہٹنے ہی نہیں دیتا ہے، رفتہ رفتہ قرآن اس کا ’ایمان مرکوز مزاج‘ اور ’ایمان پر مبنی نقطہ نظر‘ بنا دیتا ہے۔
اس لیے قرآن اتنا زیادہ پڑھا جائے کہ توجہات کا مرکز ایمان بن جائے، زندگی کے ہر قدم پر مومن کی توجہ ایمان پر مرکوز رہے، اس طرح کہ وہ ایمان کے تقاضوں سے نہ کبھی غفلت برتے، اور نہ سر مو انحراف کرے۔
ایمان شخصیت کا مرکزیہ بن جائے
شخصیت میں ایمان کا صحیح مقام یہ ہے کہ اسے بالکل مرکزی حیثیت حاصل رہے، زندگی کے تمام اعمال، ساری دل چسپیاں اور تمام تر فکرمندیاں ایمان کے محور پر گردش کریں۔ زندگی کے ہر فیصلے میں ایمان کی عمل داری پورے طور پر نظر آئے۔ جب شخصیت کی تعمیر کا کام قرآن کی مکمل رہنمائی میں کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر شخصیت میں مرکز ومحور کی حیثیت ایمان کو حاصل ہوجاتی ہے۔ اور شخصیت کے تمام عناصر ایمان کے گرد گردش کرنے لگتے ہیں۔ درج ذیل آیت میں دیکھیں ایمان کس طرح ایک مومن کی شخصیت کا محور دکھائی دیتا ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسو ل ﷺ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے.(الأحزاب: 36)
قرآن کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ایمان کا حوالہ زندگی کی ترجیحات کے تعین میں فیصلہ کن حوالہ بن جائے۔ اس کی مثالیں قرآن میں بہت زیادہ ہیں، چند مثالوں پر غور کریں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو(البقرة: 278)
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو(آل عمران:139)
إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو(آل عمران: 175)
يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو (النور: 17)
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو (الأنفال: 1)
درج ذیل حدیث بھی اس پہلو کو واضح کرتی ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، اور جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاری)
جب ایمان دنیا ہی میں انسان کی زندگی پر اتنا زیادہ اثرانداز ہوجائے، تو اس انسان کے مستحق جنت ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔ ایمان انسان کو جنت کی طرف لے جانے والے یقینی راستے پر چلاتا ہے، جہاں قدم قدم پر اللہ کے وعدے اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔
ایمان کی حفاظت ہوتی رہے
انسان کی سب سے قیمتی متاع ایمان ہے، اور سب سے زیادہ خطرہ اسی کو درپیش رہتا ہے، ابلیس کی ساری کوششیں اس قیمتی متاع کو لوٹ لینے کے لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ فکر مند رہنا ہر انسان کا فرض ہے۔
ایک بار ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ زندگی بھر ایمان کے محفوظ رہنے کی ضمانت مل جاتی ہے۔ ایمان لانے کے بعد زندگی بھر ایمان کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر دل کو کوئی روگ لگ جاتا ہے، جس سے ایمان بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ ایمان کو لاحق ہونے والا سب سے بڑا روگ تو یہی ہے کہ ایمان اپنا کام کرنا بند کردے، زندگی پر اس کا کوئی اثر رہے اورنہ اس کا کوئی حکم چلے، وہ محض ایک دعوی اور ایک نسبت ہوکر رہ جائے۔
قرآن کے اندر ایمان کی حفاظت کا انتظام ہے۔ قرآن ایمان کو غیر ایمانی ملاوٹ سے بچاتا ہے، اور ایمان کی گرمی کو سرد پڑنے نہیں دیتا۔ قرآن کے سائے میں پلنے والا ایمان کبھی تعطل کو گوارا نہیں کرسکتا، وہ زندگی کی حکم رانی سے معزولی کو برداشت نہیں کرسکتا، اور فکر وعمل کے کسی بھی انحراف کی اجازت نہیں دے سکتا۔
قرآن سینے کے ہر روگ کے لیے شفا ہے، قرآن والے مومن کا نہ دل بیمار ہوسکتا ہے، اور نہ دل کے اندر جاگزیں ایمان کسی روگ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
غرض قرآن کے سائے میں ہمیشہ رہنا اور اس سے دل وجان کا تعلق قائم رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایمان کی حفاظت ہوتی رہے۔ قرآن خود محفوظ ہے اور وہ ایمان کا محافظ بھی ہے۔
ایمان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے
ایمان زمین سے اگنے والی چھوٹی سی گھانس کی پتی کی طرح نہیں ہے۔ ایمان کی مثال ایک درخت کی ہے، جس کی جڑیں شخصیت کی گہرائی میں اترتی جاتی ہیں، اور جس کی شاخیں آسمان تک پہونچتی ہیں، اور جس پر سدا پھولوں اور پھلوں کی بہار رہتی ہے۔ حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہوتی ہیں۔ ستر کی گنتی کثرت بتانے کے لیے ہے۔ یعنی اس کی بہت سے بھی زیادہ شاخیں ہیں۔ اور جس کے نصیب میں اس کی زیادہ شاخیں آجائیں، وہ زیادہ خوش نصیب انسان ہے۔ دانا انسان ایمان کی شاخوں کو بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے۔
اگر ایمان کو پرورش کا صحیح ماحول نہیں دیا جائے، اور اس میں مسلسل اضافہ کرکے مثالی قد وقامت تک نہیں پہونچایا جائے، تو وہ ناتواں پودا رہ جاتا ہے، اور یہ ایمان کے ساتھ شدید حق تلفی ہوتی ہے۔ ایمان کا حق یہ ہے کہ اسے نشوونما کا پورا پورا موقع ملے، تاکہ دنیا اس کی برکتوں کو دیکھ سکے۔
ایمان اور کفر (نفاق بھی کفر کی ایک شکل ہے) میں مسلسل مقابلہ چلتا ہے، ایمان کم ہوتا ہے تو کفر کو بڑھنے اور خالی جگہ میں پاؤں پسارنے کا موقع مل جاتا ہے، ایمان زیادہ ہوتا ہے تو کفر سمٹتا چلا جاتا ہے۔ کفر کو روکنے کے لیے بھی ایمان کا مسلسل بڑھنا ضروری ہے۔
ایمان انسان کے اندرون میں رہتا ہے، اور اس کی سب سے زیادہ کشمکش نفس کے ساتھ رہتی ہے، اس لیے ایمان پر نفس کا شدید دباؤ رہتا ہے، اگر ایمان کو مسلسل بڑھنے کا موقع نہیں دیا جائے تو وہ گھٹنے لگتا ہے، اسی لیے ایمان کی اس پوزیشن سے جو لوگ واقف ہوتے ہیں وہ ایمان کو بڑھانے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔
ایمان کے بڑھنے کا اثر پوری شخصیت پر پڑتا ہے، جیسے جیسے ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، شخصیت کا ہر پہلو ترقی کرتا جاتا ہے۔ ایمان میں اضافہ شخصیت کے ارتقا کو یقینی بناتا ہے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں. (الأنفال: 2)
ایمان کے ثمرات
ایمان اصل میں وہی ہے جس کے ثمرات سے ایمان لانے والا مالا مال ہوجائے۔
ایمان کیا ہے؟ اس سوال کو عقیدہ وکلام کی کتابوں میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اور ایمان کی تعریف کو لے کر بہت سی بحثیں کی گئی ہیں۔ لیکن قرآن میں اس سوال کو ذرا اہمیت نہیں دی گئی، اس کے بجائے ایمان کے ثمرات کو تفصیل سے بتایا گیا ۔ ایمان کے ثمرات ایمان کو جانچنے کا حقیقی پیمانہ ہوتے ہیں۔ قرآن ایمان کی پرورش کا انتظام اس طرح کرتا ہے کہ وہ ایک پھل دار درخت بن جائے، اور اپنے پھلوں سے پہچانا جائے۔ تلخ اور زہریلے پھلوں والا درخت، یا پھلوں سے عاری درخت کچھ اور تو ہوسکتا ہے، ایمان والا درخت نہیں ہوسکتا ہے۔
مومنوں کی صفات
ایمان کے ثمرات کو قرآن ایمان والوں کی صفات کے طور پر خاص طور سے بیان کرتا ہے، ثمرات جب صفات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان ثمرات کو طویل زندگی حاصل ہوگئی۔ کیوں کہ صفات میں دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب ایمان سے زندگی بھر کا رشتہ قائم ہوجائے اور اپنی صفات افروزی کا کام ایمان کے حوالے کردیا جائے۔
قرآن میں ایسا شاید ہی کہیں ملے کہ ایمان کے کسی ثمر کو زندگی میں ایک بار پیش آنے والے واقعہ یا ایک بار کیے جانے والے اقدام کے طور پر ذکر کیا گیا ہو۔ ایمان کے ثمرات کو ہمیشہ زندگی کے پورے طول وعرض پر پھیلے ہوئے اعمال واوصاف کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ایمان کے کرشمے
ایمان کے ثمرات ہی میں وہ کرشمے بھی شامل ہیں جو ایمان کی تاثیر سے اہل ایمان کی ذات سے رونما ہوتے ہیں۔ یہ کرشمے اس بات کی دلیل ہوتے ہیں کہ ایمان نقش ناتمام اور نغمہ خام نہیں ہے، بلکہ کامل اور کھرا ہوکر قبولیت کے درجے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سچے ایمان کی اکساہٹ ایک بندہ مومن سے وہ کام کرادیتی ہے جن کا عام لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ رسولوں اور ان کے فداکار ساتھیوں کے تذکروں میں جو حیرت زدہ کردینے والے واقعات ملتے ہیں وہ سب ایمان کی بدولت وجود میں آسکے۔ حضرت ابراہیمؑ کی فداکاری اور قربانی یا حضرت ایوبؑ کا صبر، حضرت نوحؑ کی طویل المدت استقامت یا حضرت موسیؑ کی فرعون کے دربار میں جرأت وشجاعت، حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی ہو یا حضرت زکریاؑ کی امید۔ بدر واحد اور حنین وخندق میں اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی جواں مردی اور سرفروشی ہویا ہر جنگ کے بعد جانی دشمنوں کے ساتھ عفو ودرگزر، یہ سب کچھ ایمان کی کرامات تھیں۔
قرآن میں دیکھیں تو اہل ایمان کی زندگیوں میں ایمان کے کرشمے جگہ جگہ جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔
ایمان کے حیات بخش ثمرات ہوں، دوام یافتہ صفات ہوں، یا محیر العقول کرشمے ہوں، یہ سب انسانوں کی زندگی پر ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت خوش نصیب ہے وہ انسان جس کی زندگی ایمان کی جلوہ گاہ بن جائے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2020