دن رات اور دھوپ چھاوں کی طرح مواقع اور موانع بھی انسانی زندگی کا جزولاینفک ہیں۔ ارشاد ربانی ہے ’’فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ‘‘ یعنی بیشک دشواری کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ آسانیاں ہمارے لیے مواقع فراہم کرتی ہیں اور دشواریاں موانع بن جاتی ہیں۔ دورانِ حیات کبھی ہم چوڑی اور چمکیلی سڑک پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور کبھی تنگ و تاریک اوبڑ کھابڑ راستے ہمیں اپنی رفتار دھیمی کرنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں ۔ ان مواقع و موانع کا ظہور انسانی اختیار میں نہیں ہوتا کہ یہ تقدیر ہے لیکن ان کے استعمال کے سلسلے میں ہم کسی قدر مختار ہوتے ہیں کہ یہی ہمارا امتحان ہے۔ رب کائنات اپنے بندوں کی آزمائش کے لیے انہیں مشکلات سے دوچار کرتا ہے تاکہ پست و بلند کا امتیاز ہوجائے۔ آسانیوں کا شکر ادا کرکے جوش و ولولہ کے ساتھ آگے بڑھنا اور دشواریوں میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا فلاح و کامرانی کی ضمانت ہے۔
سیرت طیبہ میں حالات کا تنوع:
نبی کریم ﷺ کی حیات مبارک میں سلسلہ وار حالات کا اتار چڑھاو نظر آتاہے ۔ مخالفت کی ابتداء ہوتی ہے تو حضرت حمزہ ؓ ایمان لے آتے ہیں ۔ اس میں تیزی آتی ہے تو حضرت عمرؓ مشرف بہ اسلام ہوجاتے ہیں۔اہل ایمان پر مکہ کی زمین تنگ ہوجاتی ہے تو حبشہ کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ طائف کے لوگ انکار کردیتے ہیں تو جن ایمان لے آتے ہیں ۔ ہجرت کے بعد جائے پناہ ملتی ہے تو بے سروسامانی دامن گیر ہوجاتی ہے۔ کفار کے مظالم سے پیچھا چھوٹتا ہے تو یہود کی ریشہ دوانیوں سے سابقہ پیش آتاہے۔ مشرکین سے چھٹکارہ ملتاہے تو منافقین کی فتنہ سامانیاں بےچین کر تی ہیں ۔ پہلے انفرادی حملے ہوتے تھے اب فوج کشی کا آغاز ہوجاتاہے ۔غزوۂ بد ر میں فیصلہ کن کامیابی کے بعد احد کا مرحلہ بھی آتا ہے۔ احزاب کے کالے بادل چھٹتے ہیں تو صلح حدیبیہ نمودار ہوتی ہے۔ فتح مکہ کی عظیم کامیابی کے بعد غزوہ حنین میں پہلے ناکامی ہاتھ آتی ہے۔ پھر کامیابی بن جاتی ہے۔ گویا نشیب و فراز کا ایک سفرجاری رہتا ہے ۔ سورہ الضحیٰ میں ہے ’’ کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی ا ور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا‘‘۔
مواقع کا بھرپور استعمال اور موانع پر قابو پانا تحریک کی کامیابی کے لیے لازم ہے۔ اس بابت عدم تواز ن یا بداحتیاطی خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ بسا اوقات یہ معاملہ خاصہ نازک اور سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ دین کی سربلندی کے لیے حاصل ہونے والے مواقع کو اہل ایمان گنوانا نہیں چاہتے لیکن کبھی کبھار ان کو محفوظ رکھنے یا پروان چڑھانے کی کوشش میں وہ اہم تر دینی تقاضوں سے دستبردار ہونے کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں ۔ اسی طرح موانع سے بچنے کی فکر میں لوگ دین گنوا بیٹھتے ہیں ۔ آزمائشوں سے نبرد آزمائی کےلیے اختیار کی جانے والی ناقص حکمت عملی ، دینی شعائر سے روگردانی کاموجب بن جاتی ہے ۔ حضرت موسیٰؑ اورقارون کی مثال سے اس معاملے کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے ۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو بدترین قسم کی غلامی میں مبتلا کررکھا تھا ۔ارشاد ربانی ہے ’’بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل ) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا ، بیشک وہ فساد یوں میں سے تھا‘‘۔
قارون کی مثال
ان سخت ترین حالات میں قارون نے بظاہرمواقع کا بہترین استعمال کیا ۔ وہ بنی اسرائیل میں سے تھا اس کے باوجود فرعون کے مصاحبین میں شامل ہوگیا ۔ سورہ القصص میں اس کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے’’یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا‘‘۔سرکشی کے باوجود اللہ نے اس کی رسی دراز کرکے دنیا کمانے کے جو مواقع دیئے اس کا فائدہ اٹھا کر وہ امیربن گیا۔ ارشاد ربانی ہے ’’ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی‘‘۔ بنی اسرائیل کے مصلحینِ قوم قارون کے لیے فکرمند تھےا ور اس کو نصیحت کرتے تھے۔ارشاد قرآنی ہے’’ ایک دفعہ اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا ’’پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر ۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔اس موعظت و نصیحت پر کان دھرنے کے بجائے رعونت کے ساتھ قارون جواب دیتا’’یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘۔
اس دور انحطاط میں بھی قارون کی دولت و حشمت سے مرعوب ہوکر اس کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں تھی ۔ قرآن حکیم میں ان کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’ پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرائش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لئے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے‘‘۔ عصر حاضر کے دنیا پرست بھی وہاں ہوتے تو قارون کو دیکھ کراسی طرح رشک کرتے اور اسے کامیاب انسان قرار دیتے کیونکہ اس نے مشکل ترین حالات میں یہ مقام بلندحاصل کرلیا تھا۔ ان کے برعکس حاملین ِعلم و دانش نےقارون کے جاہ و جلال پر فریفتہ مادہ پرستوں کو سمجھایا ’’اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیا گیا تھا بول اٹھے : تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو، مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا‘‘۔
قارون کا انجام
اس آیت کے بعد اللہ کی کتاب قارون کا دردناک انجام بیان کرتی ہے ’’آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا ‘‘۔ قارون کی تباہی و بربادی دیگر دنیا داروں کے لیےسامانِ عبرت بن گئی اور وہ خواب غفلت سے بیدار ہوگئے اور اپنی غلطی کا اعتراف اس طرح کیا کہ ’’اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے “افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تلا دیتا ہے اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے‘‘۔
اس واقعہ سے ظاہر ہے قارون نے اپنی خدا داد ذہانت اور حاصل ہونے والے مواقع کا بحسن و خوبی استعمال توکیا مگر حق و باطل سے بے نیاز ہوکر اس نے دشمنوں کو دوست بنا لیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب فرعون کے دربار میں اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے اپنی ہی قوم کے نبی کا ساتھ دینے کے بجائے فرعون کی اتباع میں موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی۔ سورہ غافر میں حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ ہونے والا سلوک اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف نشانیوں اور نمایاں سندِ ماموریت کے ساتھ، ہم نے موسیٰ کو بھیجا، مگر انہوں نے کہا ’’ساحر ہے، کذاب ہے‘‘۔ یعنی قارون بھی فرعون و ہامان کا ہمنوا بن گیا ممکن ہے اس کو اندیشہ رہا ہو کہ موسیٰ ؑ کی تصدیق کرنے کے نتیجے میں اس کوحاصل مواقع، موانع میں بدل جائیں گے اور فرعون کے دربار میں بیٹھ کرحصولِ جاہ کا خواب ٹوٹ کر بکھر جائےگا۔
اللہ کی کتاب ہامان اور فرعون کے ساتھقارون کی ہلاکت کا سبب اس کا کبرو غرور بتاتی ہے ’’اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا۔ موسیٰؑ اُن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے‘‘۔(عنکبوت)قارون کے رویہ اور انجام میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو نظام کی تبدیلی سے قبل، ایوان اقتدار میں داخل ہوکر دین وملت کی خدمت کاخواب دیکھتے ہیں ۔
موسیٰ علیہ السلام کا اعلانِ حق
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اذن خاص سے حضرت موسیٰ ؑ کی پرورش و پرداخت کا انتظام فرعون کے گھر میں کردیا ۔ سورہ طٰہ میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ رب کائنات فرماتا ہے ’’یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھا لے گا میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے‘‘ ۔حضرت موسیٰ ؑ چونکہ فرعون کے گھر میں پلے بڑھے تھے اس لیے وہ ان سے خوب واقف تھا ۔ قارون کی بہ نسبت حضرت موسیٰ ؑ کے لیے فرعون کامعتمد بن جانا سہل تر تھا ۔وہ فرعون کےمصاحبین میں شامل ہو کرغالباً بنی اسرائیل کی خدمت بھی کرسکتے تھے لیکن کیا انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا؟
بظاہر فرعون جیسے ظالم و جابر حکمراں کے سامنےتن تنہا اعلان حق کرنےکے بعد کامیابی کا امکان ناپید تھا اس لیے مصلحت کا تقاضہ یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ فرعون کا اعتماد حاصل کر کے بنی اسرائیل کی رہائی کے مواقع تلاش کرتے ۔ مصلحت پسند وں کے نزدیک تو موسیٰ ؑ کو بھی ، قارون کی مانند، فرعون کے اقتدا ر کا حصہ بن کر بنی اسرائیل کی خدمت کے امکان تلاش کرنے چاہیے تھے لیکن حضرت موسیٰ ؑ کی حکمت عملی اس سے یکسر مختلف بلکہ متضاد تھی۔ انہوں نے اس طرح کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائےرب کائنات کے حکم ’’اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے‘‘ ( طٰہ ۲۴ ) کی بجا آوری فرمائی۔ اس ذمہ داری کی عظمت کا اندازہ آگے کی آیت سے لگایاجاسکتا ہے ۔’’ جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔ دونوں نے عرض کیا ’’پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پل پڑے گا‘‘۔
اس اندیشے کا تقاضہ سمجھا جاسکتا تھا کہ مداہنت کا راستہ اختیار کیاجائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بنیادی دعوت کے ساتھ اللہ نے انہیں ایک ایسا مطالبہ کرنے کا حکم دیا جس سے ممکن مواقع بھی، موانعات میں بدل گئے فرمایا ’’ ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے‘‘(طٰہ)۔ اناربکم الاعلیٰ کا دعویٰ کرنے والے حاکم کے سامنے بندگیٔ رب کی دعوت اور مزید برآں بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ، گویا شہد کی مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈال دینے کے مترادف تھا ۔ دربار میں اس سے ایک زلزلہ بپا ہوگیا’’فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا ’’کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ’’میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔
فرعون کاردِ عمل:
طاغوتِ وقت سے یہی ردعمل متوقع تھا ۔ اس دھمکی سے بعض اپنے بھی پرائے ہوگئے۔ قوم نے حمایت کے بجائے مخالفت شروع کردی ۔ قرآن حکیم کی شہادت ملاحظہ فرمائیں ’’ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا “تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں”۔لیکن اس ردعمل سےنبی کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی’’اس نے جواب دیا “قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔بسا اوقات باطل کے خلاف جدوجہد کرنے پرامت کے رہنماوں کو بھی یہی اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ انحطاط زدہ امت کا رویہ بنی اسرائیل سے بدتر ہوگا۔
فی زمانہ فراعین وقت کی طاقت پر خوب غور کیا جاتاہے۔ ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کامبالغہ کے ساتھ بیان بھی ہوتاہے۔ امت کی بے عملی اورخستہ حالی پر لعنت ملامت بھی کی جاتی ہےلیکن فرعون کے عبرتناک انجام کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’آخرکار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اوراس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا‘‘۔ اگر حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے قبل مواقع اور موانع کا ظاہری حساب کتاب کیا ہوتا تو نہ دعوت کا حق ادا کرپاتے اور نہ قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات ملتی۔ یہ اہم تاریخی حقیقت ہے کہ بنی اسرائیل کی آزادی کا پروانہ وہ شخص لے کرآیا جس کی راہوں میں موانع ہی موانع تھے۔ اللہ رب العزت نے موانع کے سمندر سے راستہ نکال کر موسیٰ ؑ کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کردیا ۔ ان کے توسط سےقوم کو آزادی کی نعمت عظمیٰ سے نواز دیا۔اس کے برعکس قارون سارے مال و اسباب کے ساتھ دھنسا دیا گیا ۔
قصہ یوسف کا سبق:
اکثرمواقع اور موانع کے مضمرات کا اندازہ لگانے میں انسانی عقل دھوکہ کھا جاتی ہے مثلاً حضرت یوسف ؑ کا اپنے والد کا چہیتا ہونا ان کے لیے آسانیوں کا موجب ہوسکتا تھا لیکن بھائیوں کے حسد نے اسے موانع میں بدل دیا۔ کنوئیں سے نکلنے کے بعدغلامی کا شکار ہوجانے والے یوسف ؑ کو اپنے بھائیوں کی بہ نسبت مجبور و کمزور ہونا چاہیے تھا لیکن یوسف کے بھائی ان کے آگے محتاج بن کر حاضر کیے گئے۔ عزیز مصر کے محل سے یوسف ؑ کا اگلا پڑاو بادشاہ کا دربار ہونا چاہیے تھا لیکن وہ جیل روانہ کردیئے گئے ۔ جیل کے اندر خوابوں کی تعبیر بتاتے ہوئے،ان الحکم الا للہ کی دوٹوک دعوت کے سبب، یوسف ؑ کی آزمائشوں میں اضافہ متوقع تھا لیکن وہ ان کی رہائی اور پذیرائی کی سبیل بن گیا۔ احسن القصص گواہ ہے کہ اللہ مواقع کے بطن سے موانع اور مشکلات کے اندر سے آسانیوں کا ظہور فرماتا ہے ۔ چنانچہ ان دونوں سے اصلاً بے نیاز ہوکر اپنے فرض منصبی کی ہر قسم کے حالات میں پروقار ادائیگی سیرت یوسفؑ کا روشن پیغام ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2019