جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے۔اس کا محرک رضاے الٰہی اور فلاحِ آخرت ہے۔ یہ نصب العین نہایت ہی بلند اور عظیم ہے۔ اس نصب العین کی عظمت و رفعت اس لیے بھی ہے کہ یہ حضرات انبیاے کرام اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا نصب العین رہا ہے۔ انسانی زندگی کی حقیقی ضرورتوںمیں جو اہم ترین ضرورت ہے وہ دارین میں صلاح و فلاح کا حصول ہے اور انسان کی فلاح کا انحصار اسی عظیم نصب العین کے اپنانے پر ہے۔ اس لیے یہ امر مسلم ہے کہ جن امور ومسائل اور احکام و فرامین کا تعلق اس نصب العین سے ہو، انھیں اختیار کیاجائے اور جو اس سے مغائر ہوں انھیں ترک کردیا جائے۔ اس نصب العین کے اپنانے والے خدا اور خلقِ خدا کو شاہدبناکر اعلان کرتے ہیںکہ میں اور میری زندگی خدا کے لیے اور خدا کے حکم کے تحت ہے۔ ہماری کوئی مرضی خدا کی رضا سے متصادم یا رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات سے مختلف نہیں۔ اس شعوری اعلان اور شہادت کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ہماری حیثیت عام مسلمانوں کے مقابلے میں ممتاز ہے۔ اس لیے کہ ہم نے پورے شعور کے ساتھ اور عمل و کردار کی رو سے سوچ سمجھ کر اسے اپنایاہے۔جب فکروعمل کی یہ امتیازی حیثیت ہم نے پسند کی تو بجا طور پر اس کے اثرات ہماری زندگیوں میں نمایاں ہونے چاہییں۔ دوسری جانب جن احکام و مسائل کا تعلق اس نصب العین سے ہے جو داعی گروہ سے تعلق ہونے کی بناپراپنایاگیاہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان اصولی ہدایات کو ہم عملاً کرکے جن احکام ومسائل کا تعلق اِس نصب العین سے ہو داعی گروہ کے لیے ان پر عمل اس لیے لازمی ہے کہ عملی نمونہ سامنے آئے، اس لیے کہ حضرات انبیائ علیہم السلام جہاں ایک طرف ہدایات ربانی کے تحت عامۃ الناس کے سامنے پیش کرتے تھے وہیں دوسری جانب اسے عملاً کرکے مثال بھی پیش فرماتے تھے۔ اس کو شہادت علی الناس کے فریضے کی ادائی کہا گیا ہے۔ اگر صرف قولی شہادت ہو،عملی ثبوت ہم نہ پیش کریں تو قول و عمل کا یہ تضاد وتناقض مجرمانہ غفلت میں شمار کیا جائے گا۔
دوسری بات جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ عامۃ المسلمین ہماری زندگیوں کو دیکھتے ہیں۔ اگر نمونہ پیش کرنے میںہم کوتاہیوںکاارتکاب کریں یا قول و عمل کے تضاد کی خرابیوں میں مبتلاہوںگے تو انھیں اسلامی ہدایات پر عمل کرنا دشوار ہوگا اور اسلام کی جانب ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن کے مناصب بلند ہوتے ہیں ان کی ذمے داریاں اور فرائض بھی سِوا ہوتے ہیں اور جب اجر و ثواب کے لحاظ سے بلندمقام نصیب ہوتا ہے تو کوتاہیوں پر مؤاخذہ بھی سخت ہوتاہے۔
دستور جماعت اسلامی ہند کی دفعہ ۸ اور دفعہ ۹ کو پیش نظر رکھنا چاہیے،فرائض اور ذمے داریوں کی ادائی اور معیار ِ مطلوب تک پہنچنے کی ممکنہ حد تک کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آخرت کی جوابدہی کے احساس کے بغیر ذمے داریوں کی ادائی میں کامیابی نہیں ملتی اور کوتاہیوں اور منکرات سے اجتناب کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ داعیِ حق گروہ کے ایک فرد ہونے کی بنا پر ضروری ہے کہ ہم عملاًعزیمت کی راہ اختیار کریں اور جس حدتک ممکن ہو رخصت کی روش نہ اختیار کریں۔ بسا اوقات انسان اپنے طرزفکر وعمل کی ایسی توجیہ یا تاویل کرتا ہے جس سے اس کا ذہن خود تو مطمئن نہیں ہوتا مگر وہ دوسروں سے مطمئن کرنے کی امید لگائے رکھتاہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام حقائق اور واقعات کا جاننے والا ہے جو انسان اختیار کرتاہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک ا ہم نعمت جو انسان کو عطاکی گئی ہے وہ اہل خانہ اور خاندان کے افراد و ا شخاص ہیں،جن کے ذریعے ازراہ محبت و شفقت تربیت و تحفظ کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور عظمت و احترام اور صلہ رحمی کے نتیجے میں اس کی دیکھ ریکھ اور اس کے حقوق کی ادائی کی جاتی ہے۔ یہ احکام و قوانین انسانی بنیادوں پر بھی ہوتے ہیں اور ایمانی بنیاد پربھی اور قرآن و سنت میں خالقِ کائنات نے ان کی تفصیلی ہدایات کا تذکرہ بھی فرمایا ہے۔مگرجو احکام و مسائل دین و ایمان کے تقاضے کے طور پر قرآ ن اور حدیث میں مذکور و منصوص ہیں، سوے اتفاق انھیں سماجی رسم کے طور پر سمجھا اور انجام دیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دین و ایمان کے تقاضے کے تعلق سے جو احکام ہیں ان کی تعمیل پر اجر و ثواب اور خدا کی خوشنودی کی بشارت دی گئی ہے اور کوتاہی و انحراف کے نتیجے میں مؤاخذہ او رعذاب کی وعید آئی ہے۔
متوسلین جماعت بالخصوص ارکان و کارکنان ان ہدایات و احکام کو اُسی حیثیت سے سمجھیں جو حیثیت قرآن و سنت میںمذکور ہے اور مخلصانہ انداز میں ان کی پیروی رضاے رب کے حصول ہی کے لیے کریں۔ فرائض کے ترک کردینے اور منکرات میں ملوث ہوجانے کے نتیجے میں افہام و تفہیم اوراصلاح و تربیت کی کوششوںکے ناکام ہونے کی صورت میںتادیبی کارروائی بھی ضروری سمجھی جائے گی۔
والدین کے حقوق
اگر والدین دو یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہوں تو ان کی خدمت و کفالت دینی ذمے داری کے طور پر انجام دی جائے۔ ان کے حقوق کی ادائی کو زحمت کے بجائے نعمت و سعادت تصور کیا جائے اور تعلقات کو انتہائی خوشگوار بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ قرآن کریم کی سورۃ بنی اسرائیل،آیات نمبر ۳۲-۵۲ کو ہمہ وقت پیش نظر رکھاجائے۔ اگرخدانخواستہ کسی وقت ان کی جانب سے دینی احکام و مسائل کے سلسلے میں رکاوٹ ڈالی جائے تو افہام و تفہیم کے ذریعے ممکنہ تدابیر اختیار کرکے موانع کو دورکرنے کی کوشش کی جائے۔ بحالت مجبوری ہی ان کی مرضی کے خلاف عمل کیا جائے۔ والدین کو بے سہارا چھوڑ دینا یا ان کی خدمت کے لیے ملازم/ملازمہ رکھ دینا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے ان کا حق ادا کردیا، منشاے شریعت کے منافی ہے۔ والدین کو Old Age Home میں رکھنا قرآن اور ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کا یہ تصور تو درست ہے کہ سب کے علیٰحدہ علیٰحدہ رہنے کا نظم ہونا چاہیے، یہ فطرت اور دینی تقاضوں کے مطابق ہے مگر والدین کو الگ رکھنے کا عمل اس زمرے سے خارج ہے۔ اس ضمن میں بھائی اور اہل خانہ آتے ہیں نہ کہ والدین۔
مال کے ذریعے ان کی خدمت کرنے میں فراخی کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔والدین کی نافرمانی سے یا اُن کوذہنی و جسمانی اذیت پہنچانے سے کلیۃً اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے۔
نکاح
رشتہ طے کرتے وقت مروجہ کفو کے معیار کو اختیار کرنے کی بجائے اس حقیقی معیارو مقصد کو اپنایا جائے، جس سے رشتوں میں استحکام و دوام کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ازدواجی زندگی میں خوشگوار تعلقات کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔مثلاً حسن و جمال، مال اور حسب و نسب کو ترجیح دینے کے بجائے اصلاً دین و اخلاق اور نیک کرداری کو ترجیح دی جائے۔ برادری اور نا م نہاد قبیلوںاور ذاتوں یاپیشوں کی بنیاد پر بننے والی جو برادریاںموسوم کی جاتی ہیں، جن کی اسلامی نقطہ نظر سے کوئی اہمیت نہیں ہے، انھیںکفو کے لیے بنیاد بنانے کی بجائے رہن سہن اور معاشرت میں ہم آہنگی اور علمی، دینی اور اخلاقی حیثیت میں مساوات کو اختیار کیا جائے۔
رشتے طے کرتے وقت مروجہ باطل رسوم سے اجتناب کیا جائے۔ سادگی اور سہولت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے اس کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ رشتے طے کرتے وقت کسی رقم کا لینا دینا، جس کو عرف عام میں تِلک ، جوڑا یا بَرچھکائی کہتے ہیں، خواہ لڑکی والوں سے لینا یا اسی طرح رشتہ طے ہوجانے کے بعد لڑکی والوں کو ان کے مطالبے یا رسماً رقم دینا غیر اسلامی عمل ہوگا۔ کسی بھی قسم کا مطالبہ یا خواہش کسی بھی طرف سے درست نہیں۔
لڑکا یا لڑکی جب سنِ شعور یا حد بلوغ کو پہنچ جائیں تو ان کا نکاح جلد کردینا چاہے۔ اِلاَّ یہ کہ کوئی عذر شرعی مانع ہو۔ لڑکوں کے برسر روزگار ہونے اور بچیوں کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے تک اگر نکاح کو مؤخر کیا جائے تو اندیشہ ہے کہ مختلف قسم کے مسائل و مفاسد پیدا ہوجائیں۔
بارات
مروّجہ رسم کے تحت بارات کو شادی کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ بارات غیراسلامی تہذیب کا حصہ ہے۔ اسلامی معاشرے میں بارات کا نہ کوئی تصور ہے او ر نہ اس کی معقولیت پر کوئی دلیل۔ بارات کی وجہ سے فریقین کو مختلف قسم کی زحمتوں اور مشکلات میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔ بالخصوص لڑکی والے بارات اور باراتیوں کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ اس رسم بد سے اجتناب کیا جائے اور اگر بارات کا لے جانا ناگزیر ہوجائے تو باراتیوں کی تواضع اور ان کے خورد و نوش کا انتظام لڑکے والے خود کریں۔ اس سے بجا طور پر بارات کی قباحت اور اس کی زحمت سے بچا جاسکے گا اور لڑکی والوں کو مشقت سے نجات حاصل ہوگی۔ اسی طرح نکاح مساجد میں کیے جائیں۔ گراں قیمت ہالوں اور کمیونٹی سینٹروں کی بجائے مسجد میں مجلس نکاح منعقدہونے سے اچھے نفسیاتی اور عملی طور پر مختلف قسم کی خرابیوں سے بچنا ممکن ہوگا، جیسے ویڈیو گرافی وغیرہ۔ کوشش کی جائے کہ خطبۂ نکاح کا کم از کم ترجمہ مجلس نکاح میں پیش کیا جاسکے ۔ اسی طرح نکاح سے متعلق احکام و مسائل کا تذکرہ بھی کیا جائے۔ نکاح کا اعلان بھی ہو اور اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت بھی ہو۔
مہر
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مہر کی ادائی کو ایک فریضہ قرار دیا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مجلس نکاح ہی میں کم از کم نصف مہر نقد کی شکل میں ادا کردیا جائے اور نصف خلوت ِ صحیحہ کے وقت لازماً ادا کردیا جائے۔ مہر کی تعیین شوہر کی مالی پوزیشن کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ مہر پر عورت کو مالکانہ حیثیت اور کلی تصرف کا حق دیا جائے۔ مہر کو اپنی ثروت اوراِمارت کے اظہار کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ اسی طرح موہوم اندیشوں کے سد باب کے لیے مہر کو ذریعہ نہ سمجھاجائے۔ بل کہ احترام نسوانیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ مہر کی ادائی میں کوتاہی کا ارتکاب شریعت کے منشأ کے منافی ہے۔ کم از کم متوسلین جماعت مہر معجل او رمہر مؤجل کی الجھنوں میں نہ مبتلا ہوں اور نہ مبتلا کریں۔ اس بات کی بھی کوشش ہونی چاہیے کہ مہر کی ادائی پر خواتین کے ذہنوں میں شکوک و شبہات نہ پیدا ہوں۔ بل کہ اسے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہوئے خواتین مہر کا مطالبہ بھی کریں۔ تاکہ ان کے شوہر دینی فریضے کی عدم ادائی کے مرتکب نہ ہونے پائیں۔ ہدایت ربانی سمجھتے ہوئے اسے لیا جائے اور دیا جائے، نہ کہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں اسے معیوب عمل تصور کیا جائے۔
جہیز
اسلامی معاشرت میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جہیز کا مطالبہ اور اس کی خواہش غیراسلامی فعل ہے ۔ تحریکی رفقا کو یہ مثال پیش کرنی چاہیے کہ جہیز کا مطالبہ ایک ناجائز عمل ہے۔ اسی طرح اگر معاشرے میں یہ رسم مروّج ہے کہ بغیر مطالبے کے جہیز کی رسم پوری کی جاتی ہے تو بہتر یہ ہوگا کہ اس صورت میں بھی وہ اجتناب کریں اور فقہ کے اصول کے تحت ’المعروف کالمشروط‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس رسم بد کے ازالے کی کوشش کریں۔جس کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ رشتے ایسے خاندانوں میں طے کریں، جو لوگ شریعت کے احکام کو ترجیح دیتے ہوں اور باطل رسوم، رواج کو مٹانے میں نہ صرف مددگار ہوں، بل کہ دینی ذمے داری کوادا کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ تاویلات و توجیہات کے ذریعے اپنے آپ کو حالت ِ اضطرار میں پیش کرنے کی بجائے حکیمانہ انداز سے معاملات کو حل کریں۔ ہاں، بیٹی کو بطور تحفہ زیور، کپڑا اور دیگر ایسی چیزیں دی جاسکتی ہیں جو عرف ِ عام میں ہدیہ اور تحائف کے ضمن میں لی اور دی جاتی ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر بیٹی کو گھر گرہستی کا کوئی سامان دینا ہے تو وہ اس شکل میں دیا جائے جب داماد فی الواقع اس موقف میں نہ ہو کہ وہ انتظام کرسکے۔ یہ تعاون ہوگا نہ کہ جہیز۔ پھر یہ بھی پیش نظر رہے کہ اِس نوعیت کے امداد و تعاون کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عین شادی کے موقع پر ہی دیا جائے اور نہ یہ کہ اس کی نمائش کی جائے۔ بجا طور پر مروّجہ رسم جہیز کے نتیجے میں جو مفاسد اور خرابیاں مسلم معاشرے میں در آئی ہیں، ان کی اصلاح کے لیے تحریک ِ اسلامی کے افراد کو ہی آگے آنا ہوگا۔ انھیں قول و عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ایک لعنت ہے، جس سے ہم خود پرہیز کررہے ہیں اور دوسروں کو اِس ضمن میں مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔
حسن معاشرت
بالعموم مسلم معاشرے میں بھی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ان اصول و احکام کو نہیںاپنایا جاتا ہے جو عنداللہ مطلوب ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ہُنَّ لِبَاسُ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ یا اسی طرح سورۃ نسائ کی آیت نمبر ۱میں جو حیثیت متعین کی گئی ہے، اسے ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ بالخصوص ازدواجی زندگی ہمارے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے۔ لازم ہے کہ جہاں ایک طرف انھیں اُن کی ذمے داریاں یا د دلائی جائیں، وہیں ان کے حقوق کی ادائی میں بھی کوتاہی کا ہرگز ارتکاب نہ کیا جائے۔ انتہا پسندی کا مظاہرہ یا کوئی ایسا عمل یا انداز نہ اختیار کیا جائے، جو تعلقات کومتاثر کرنے والا ہو۔سورہ روم کی آیت نمبر ۱۲ کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ خواتین کو نہ تو حقیر سمجھا جائے او ر نہ ان کے وجود کو منحوس قرار دیا جائے ۔محبت و مؤدت ،خوشگوار ازدواجی زندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کی حیثیت اوران کے حقوق کو ادا کرنا یہ کوئی معاشرتی نہیں،بل کہ عین ایمانی تقاضا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم ناطق ہے وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ بجا طور پر یہ بات تحریکی حلقے میں ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ بیوی کو زد و کوب کیا جائے یا ذہنی و جسمانی اذیت پہنچائی جائے یا تعلقات کی خرابی کے نتیجے میں اسے معلق رکھا جائے۔ ایسے اقدامات قطعاً نہیں ہونے چاہییں۔ اگر کسی فرد کے بارے میںایسی شکایت ذمے داروں کے علم میں آئے تو اس کی اصلاح کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جانی چاہییں۔
طلاق
ازدواجی زندگی میں خدا نخواستہ اگر ایسی کیفیت پیدا ہوجائے جو رشتۂ ازدواج کو باقی رکھنے میں رکاوٹ بن رہی ہو تو قرآن حکیم کی ہدایت کے مطابق اصلاح کی سعی کی جائے اور باہمی تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے حکیمانہ انداز سے ممکنہ تدابیر اپنائی جائیں۔ اگر تمام ہی تدابیر کے اپنانے کے باوجود اصلاح کی کوئی صورت نہ پیدا ہو تو طلاق احسن یا طلاق حسن دی جائے۔ طلاق بدعی اگر چہ واقع ہوجائے گی مگر شریعت کے حکم و ہدایت کی خلاف ورزی کے نتیجے میں یہ ایک گناہ کا عمل ہوگا۔ ہدایت ربانی کی روح اور منشا کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو طلاق سے بچا جائے اور تحمل و توسع سے کام لیتے ہوئے رشتہ ازدواج کو باقی رکھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ ازدواجی زندگی کو ختم کرنے کے لیے دوسرا طریقہ خلع کا ہے، جس میں بدمعاملگی یا زیادتی کی روش ہرگز نہ اپنائی جائے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ عورت کی جانب سے علیحدگی کی بات آئی ہے، اس لیے اس پر بطورسزا یا انتقامی جذبے کے تحت دباؤ ڈالا جائے اور استحصال کی روش اپنائی جائے یہ نامناسب عمل ہوگا۔ اسی طرح طلاق اور خلع کے علاوہ فسخ کا راستہ ہے،جس میں حقیقت پسندی اور صداقت و دیانت کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ خوش اسلوبی کے ساتھ حکم شریعت کی تعمیل ہوجائے۔ طلاق بدعی کا ارتکاب چونکہ ایک گناہ کا کام ہے،متوسلین جماعت کو اس کے ارتکاب پر تادیبی کارروائی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ ازدواجی زندگی میں اگر بگاڑ اور فساد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو مناسب ہوگا کہ مقامی ذمے داروں سے مدد لی جائے۔ اگر ضرورت پیش آئے تو حلقے اور مرکز سے بھی رجوع کریں۔
حلالہ
جماعتی حلقے میں بھی کبھی کبھی اس انداز کا حادثہ رونما ہوتا ہے کہ طلاق مغلظہ دے کر بھی اسی عورت سے ازدواجی رشتہ قائم ہوجائے ، اس کے لیے مروجہ حلالہ کا طریقہ اختیار کیا جاتاہے۔ مروجہ حلالہ کا طریقہ ایک غیر اسلامی طریقہ ہے، جس سے کلیۃً اجتناب ضروری ہے۔ مشروط اور مؤقت نکاح متعہ کی قبیل کا ایک عمل ہوگا، جس کے خلاف شریعت ہونے پر اُمّت متفق ہے۔ حدیث میں مروجہ طریقۂ حلالہ پر سخت وعید کی گئی، اگر کہیں کسی رکن جماعت یا کارکن کے سامنے یہ مشکل پیش آجائے تواس کے لیے ضروری ہوگاکہ وہ مرکز سے رجوع کرے۔
بیوہ/مطلقہ کا نکاح
خواتین کے لیے بیوہ اور مطلقہ ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ دیگر تہذیبوں اور مذاہب کے لوگ بیوہ خاتون کو منحوس سمجھتے ہیں اوران کی معاشرت میں بیوہ اور مطلقہ عورت بے سہارااور لاوارث چھوڑ دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسی خواتین کو غیر انسانی سلوک اور برتاؤ سے دوچار ہونا پڑتا ہے، بل کہ انھیں جانور کی زندگی جینے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اسلام نظام ِ رحمت ہے اور انسانی زندگی کے جملہ مسائل کا موزوں ترین حل ہے۔ ایسی خواتین کو وہ چاہتا ہے کہ ا ہل خانہ و خاندان کے لوگ اور مسلم معاشرہ و اسلامی حکومت اُن کورحم و احترام کی نگاہ سے دیکھے اوران کے لیے مناسب حل فراہم کیاجائے ، چاہے ان کے عقد کا مسئلہ ہو یا معاشی انتظام کا۔ کوشش کی جائے کہ جماعتی حلقے میں کوئی ایسی خاتون احساس محرومی میں مبتلا نہ ہونے پائے اورنہ معلق و مجبوری کی زندگی گزارے۔ مقامی سطح پر غور کیا جائے ،حسب ِ ضرورت اوپر کے ذمے داروں سے مشورہ کیاجائے اور مدد لی جائے۔
دعوتِ ولیمہ
دعوت ِ ولیمہ ہو یا دیگر تقریبات، یہ ضروری ہے کہ ان میں مرد و خواتین کے مخلوط اور مشترک نظم طعام سے پرہیز کیا جائے۔دونوں کے لیے الگ الگ انتظام ہو۔ نہایت گراں ہال یا ہوٹل میں دعوت ِ طعام یا مجلس نکاح کے انتظام کی بجائے سادگی اور کم خرچ میں کام چلایاجائے۔ نمود و نمائش اورفخر و مباہات کی اسلام میں گنجایش نہیں ہے۔ کوشش کی جائے کہ تقریبات میں سادگی اختیار کرنے کی صورت میں بچی ہوئی رقم سے غریب اور نادار لڑکیوں اور خواتین کی شادیوں کے لیے مدد کی جائے۔ کھانے کی دعوتوں میں بفے سسٹم کے بجائے اسلامی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مہذب اور شریفانہ انداز اختیار کیا جائے۔ تحریکی رفقائ کو ان امور کی جانب خصوصی توجہ کرنی چاہیے۔ دعوتوں میں جہاں اہل ثروت اور دولت مند اعزہ و اقارب، دوست و احباب کو مدعو کیا جائے، وہیں غریب و نادار لوگوں کو بھی شریک ِ طعام کیا جائے۔ اس سے یہ مجلس باعث ِ خیر و برکت ہوجائے گی۔ اسراف و تبذیر دینی نقطۂ نظر سے ایک نا پسندیدہ او رمکرو ہ عمل ہے۔ اِسے قرآن میں شیطان کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی احتراز کیا جائے۔
تمام تر احتیاط اور اہتمام کے باوجود اگر زوجین کے مابین مؤدت و محبت کی بجائے نزاعی کیفیت پیدا ہوکرنوبت علاحدگی تک پہنچ جائے تو مناسب ہوگا کہ باہمی طورپر کسر و انکسار اور ضبط وتحمل کی روش اپناتے ہوئے مسئلہ کوسلجھالیں، اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو پھر دارالقضائ، شرعی پنچایت یا علماے کرام کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس صورت میں اس کا اہتمام بھی مفید ہوگا کہ مقامی رفقایا حسب ِ ضرورت دیگر ذمے دارانِ جماعت سے تعاون اور رہنمائی حاصل کی جائے۔ جو فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے،اُسے دونوں ہی فریق وسعت ِ قلبی کے ساتھ قبول کرلیں۔ اس لیے کہ یہ فیصلہ اسلامی آئین کے تحت نہیں ہوگا۔ اس کی گنجایش نہیں ہوگی کہ ازدواجی زندگی کے نزاع کو فیصلے کے لیے ملکی نظام ِ عدالت میں لے جایاجائے۔ اس لیے کہ وہ فیصلہ اِسلامی آئین کے تحت نہیںہوگا۔ اگر خدانخواستہ عدالت میں جانے کی نوبت آہی جائے تو حسب سہولت و حکمت نظم جماعت کے علم میں لاکرجانا چاہیے تاکہ ذمے دارانِ جماعت اور دیگر صاحب ِ صلاحیت رفقائ مسئلے کو حل کرنے میں مدد کریں اور شرعی ومسلکی روشنی میں مناسب رہنمائی فرمائیں۔
ازدواجی زندگی کے علاوہ اگر اولاد و والدین کے درمیان یا دیگر اعزہ کے مابین کوئی تصفیہ طلب صورت پیدا ہوجانے خواہ اس کا تعلق جائداد یا اموال کے لین دین سے ہو یا دیگر حقوق کی ادائی و حصول سے، حقوق و فرائض کی تعیین اورتعمیل میں بے ضابطگی کے نتیجے میں ہویا کسی اور معاملے میں ان ناگوار کیفیات کا ظہور ہوا ہو، لازم ہوگا کہ اہل خانہ اور خاندان کے لوگ مبنی برانصاف حل نکالنے کی کوشش کریں، بصورت دیگر مقامی جماعت یا حسب ِ ضرورت دیگر ذمے داروں کے علم میں لایا جائے اور جو بھی فیصلہ ہو اس پر ارکان و کارکنان خوش دلی کے ساتھ عمل کریں۔
وراثت کے احکام
اسلام میں وراثت کی تقسیم کا حکم منصوص ہے۔ قرآن حکیم میں خلاف ورزی کرنے والوں کو خلود فی النار اور رسوا کن عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ لازم ہے کہ ترکے کی تقسیم پراگر کسی غفلت یا عدم واقفیت کی وجہ سے اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے تو کسی تاخیر کے بغیر اُسے تقسیم کردیا جائے۔ ساتھ ہی اپنے اہل خانہ کی تربیت اس طور پر کی جائے کہ بعد میں وارثین قرآن کی ہدایت کے تحت وراثت کی تقسیم کو ایک ایمانی و دینی فریضہ سمجھیں۔ یہ بات بھی ذہن نشیں کرائی جائے کہ ترکے میں جس حصے کا جو حقدار ہے اگر وہ لے لے گا تو اس کی وجہ سے تعلقات میں خرابی پیدا ہوجائے گی، اس اندیشے سے ترکے کو چھوڑ دینے کا ماحول نہ بننے پائے۔ وراثت میں حصہ صرف نرینہ اولاد ہی کے لیے نہ ہو، بل کہ شرعی تعلیمات کے تحت ماں، بہن اور بیٹی کو بھی حصہ دیا جائے۔ یہ تصور کہ لڑکی یا بہن کی شادی میں جہیز یا دیگر مصارف کی صورت میں جو سرمایہ صرف کیا گیا ہے، وہ قائم مقام وراثت کے ہے،یہ غیر اسلامی اور عدل و انصاف کے منافی ہے۔ اسلامی فکر سے یہ طریقہ بھی ہم آہنگ نہیں ہے کہ اپنی زندگی ہی میں اپنی منقولہ یا غیر منقولہ جائداد کو بطور ترکہ تقسیم کردیا جائے خواہ یہ تقسیم شریعت میں حصوں کے متقررکردہ ہدایت ہی کے تحت کیوں نہ ہو۔ ترکہ اس جائداد کو کہتے ہیں جو کسی شخص کے انتقال کے بعد وارثین کے حصے میں آئے۔ سورہ نسائ آیت نمبر۱۱تا ۱۴ میں ترکے کی تقسیم کی پوری وضاحت اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمائی ہے۔
اگراپنی زندگی میں کوئی شخص اپنی جائداد میں سے کوئی چیز کسی کو دیتا ہے تو اسے ہبہ یا وقف کہاجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں حصے کی تعیین فرمائی ہے، وہاں کب ، کس طرح ترکے کوتقسیم کیا جائے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے۔ ایسی صورت میں اس طرز ِ عمل کو شرعی اعتبار سے ناپسندیدہ عمل کہا جائے گا۔ بعض نیک طبیعت کے لوگ یہ عمل اختیار کرتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد میرے متعلقین وارثین کا حصہ نہیں دیں گے۔ یہاں دو باتیں ملحوظ رکھنے کی ہیں: ایک یہ کہ اگر اولاد کی تربیت اور ان کی ذہن سازی اس انداز سے مرنے والے شخص نے نہیں کی ہے کہ وہ منصوص احکام پر عمل کریں تو قیامت کے دن مسؤلیت کے مرحلے میں سخت مصیبت کی بات ہوگی۔اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے :’ جہنم کی آگ سے خود کو اور اہل خانہ کو بھی بچاؤ ۔‘اور سورہ نسائ آیت نمبر ۱۱تا ۱۴ میں ترکے کی درست تقسیم کی ایمان کے تقاضے کے طور پر تاکید فرمائی گئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو مال و دولت دلانا اللہ تبارک و تعالیٰ کے پیش نظرنہیں ہے، بل کہ اطاعت و عبادت اصل مقصود ہے۔ ترکے کا تقسیم نہ کرنا دین کے تقاضے کی عدم تکمیل کے پیچھے مال کی محبت اور دولت کا ارتکاز بطور ایک اہم عامل کے پایا جاتا ہے، جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام
مشترکہ خاندانی نظام اسلامی تصور حیات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اسلام باہم صلہ رحمی اور شفقت و محبت پر مبنی تعلقات کو لازم قرار دیتا ہے۔ جن امور سے یہ جذبہ مجروح یا متاثر ہوتا ہو اُن پر قدغن لگاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر حریت پسند واقع ہوا ہے، وہ رہن سہن یا معاشرتی زندگی میں آزادی کا خواہاں ہے۔ اس کی یہ بھی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ محنت کرکے جو دولت کمارہا ہے، وہ اس کے اور اس کے بچوں ہی کے کام آئے۔ جب کہ مشترکہ خاندانی نظام میں دولت و جائداد اس فطری تقاضے کی بجائے ارتکازکی جانب سے عمل پر مجبورکرتاہے۔ بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں خوش گوار باہمی تعلقات کا فقدان ہوتا ہے جب کہ اسلامی نظام حیات کے اختیار کرنے کے نتیجے میں تعلقات میں بہتری آتی اور معاشی سعی و جہد کی کیفیت میں ارتقائ ہونے لگتا ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ دونوں ہی کیفیات مطلوب ہیں۔
فیملی پلاننگ
خاندانی منصوبہ بندی یہ ایک غیر اسلامی عمل ہے، جس سے متوسلین جماعت کو اجتناب کرنا چاہیے۔ فیملی پلاننگ پر عمل کا محرک معاشی خوشحالی کے حصول کا گمان ہے، جس سے خدا کی رزاقیت کا عقیدہ متاثر ہوتا ہے۔ اولاد کا پیدا کردینا یا کم اور زیادہ کی تحدید وتعیین انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اولاد کی کثرت باعث غربت اور قلت خوشحالی و فراغت کی ضامن ہو۔
فیملی پلاننگ کے مضر اثرات ذہنی، جسمانی ،نفسیاتی اور روحانی حیثیت سے بے انتہا ہیں۔ اس لیے اس غیر فطری اور غیر اسلامی طریقۂ عمل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اگر صحت یا جسمانی حیثیت سے طبی نقطۂ نظر سے یہ لازم ہوجائے تو یہ ایک استثنائی صور ت ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2011